صدارتی انتخابات اور نیا سیاسی منظرنامہ

صدارتی انتخابات نے پاکستانی سیاسی منظر نامے کو تبدیل کر دیا۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی بناء پر پیپلز پارٹی...

tauceeph@gmail.com

صدارتی انتخابات نے پاکستانی سیاسی منظر نامے کو تبدیل کر دیا۔ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی بناء پر پیپلز پارٹی،عوامی نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ ق نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ مسلم لیگ ن کو متحدہ قومی موومنٹ کی ضرورت پڑ گئی۔ یوں مسلم لیگی وفد کی نائن زیرو آمد پر ایم کیو ایم کی قیادت نے غیر مشروط طور پر مسلم لیگ کے صدارتی امیدوار ممنون حسین کی حمایت کا اعلان کیا۔ ایم کیو ایم وفاقی کابینہ کے ایک دن قبل کوٹہ سسٹم میں 20سال توسیعی کے معاملے کو فراموش کر بیٹھی۔

کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ میں مسلم لیگ کے امیدوار ممنون حسین نے عرضداشت داخل نہیں کی۔ یہ عرضداشت سینیٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے دائر کی جو براہ راست متاثر نہیں۔ مگر سپریم کورٹ نے ان ٹیکنیکل اعتراضات کو نظر انداز کر کے عرضداشت کی فوری طور پر سماعت کی۔ فطری قانون Natural Lawکے اصول کو پس پشت ڈال کر تمام فریقوں کے موقف کو سنے بغیر الیکشن کمیشن کو صدارتی انتخابات کی تاریخ طے کرنے کو کہا مگر محسوس ہوتا ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم اپنی افادیت کھو بیٹھے ہیں۔ اس لیے الیکشن کمیشن کے نمایندے نے سپریم کورٹ سے فیصلے کی درخواست کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سپریم کورٹ نے 30 جون کو انتخابات کرانے کی ہدایت کی، اس فیصلے سے وزیر اعظم نواز شریف کا جمہوری امیج متاثر ہوا۔

پیپلز پارٹی کے رہنما بیرسٹر اعتزاز احسن نے ایک ذہین کارکن کا کردار ادا کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے عوام کو یہ باور کرا دیا کہ اگر مسلم لیگ ن کے علاوہ تمام جماعتیں میاں رضا ربانی کی حمایت کر دیں تو پیپلزپارٹی کا امیدوار یہ انتخاب جیت سکتا ہے پھر آئینی شقوں کا تجزیہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ آئین کے تحت 5 اگست کو ہی صدارتی انتخاب ہوسکتا ہے اور کوئی ادارہ یا فرد اس کی تاریخ تبدیل نہیں کر سکتا۔ پھر ان کا کہنا تھا کہ 27رمضان کو تو پاکستان وجود میں آیا تھا اسلیے نفلی عبادات کی بناء پر تاریخ تبدیل نہیں ہو سکتی، پھر جب راجہ ظفر الحق نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو بیرسٹر اعتزاز احسن کی باتوں میں سچائی نظر آنے لگی، جب مسلم لیگ کی قیادت نے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمٰن اور پھر ایم کیو ایم سے رجوع کیا توسیاسی مبصرین اس صورتحال کو مسلم لیگ کی کمزوری سے تعبیر کرنے لگے۔

مسلم لیگ کا وفد کراچی میں گورنر ہائوس سے ہوتا ہوا نائن زیرو پہنچا وہاں وہی مناظر ری پلے ہوئے جو 1990 سے 2008 تک بار بار ٹیلی کاسٹ ہوئے تھے۔ میڈیا نے میاں نواز شریف اور ایم کیو ایم کے رہنمائوں کے وہ ٹی وی فوٹیج دکھانے شروع کیے جس پر ان رہنمائوں نے ایک دوسرے پر تنقید کی تھی۔ 2007میں لندن میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کی قرارداد کا ذکر ہونے لگا، مسلم لیگ ن کے رہنمائوں نے اس قرارداد کے ذریعے تمام سیاسی جماعتوں کو ایم کیو ایم سے رابطہ سے روک دیا تھا، صرف بے نظیر بھٹو نے اس قرارداد کی مخالفت کی تھی، مسلم لیگ ن نے2008 میں پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اپنی ساری توجہ اندرون سندھ پر مرکوز کی ہوئی تھی۔ میاں صاحب نے ممتاز بھٹو کو اپنی جماعت میں شامل کیا تھا، انتہا پسند مارکسسٹ رہنما رسول بخش پلیجو کا نام نگراں وزیر اعظم کے طور پر پیش کیا تھا اور جلا ل محمود شاہ کی قیادت میںہونے والے اتحاد میں مسلم لیگ شامل ہو گئی۔


مسلم لیگ نے قوم پرست رہنمائوں کی نچلی سطح تک اختیارات کے بلدیاتی نظام کے خلاف تحریک کی بھرپور حمایت کی تھی، مسلم لیگ کی اس پالیسی کی بناء پر مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگاڑا اپنے قریبی عزیزوں مخدوم یوسف رضا گیلانی اور سابق گورنر پنجاب مخدوم محمود کی جماعت پیپلز پارٹی سے دور ہو گئے تھے۔ مسلم لیگ نے ایم کیو ایم کی مخالفت کے بعد کالعدم لیاری امن کمیٹی تک کے مطالبات کی حمایت کی تھی۔ مسلم لیگی رہنما لاہور اور اسلام آباد میں سٹی گورنمنٹ کے نظام کو سندھ کی اکثریتی جماعت کے خلاف سازش قرار دیتے تھے۔ مسلم لیگ کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی مخلوط حکومت کی ذمے داری قرار دیتی تھی، مسلم لیگ ن اور قوم پرستوں کی بناء پر پیپلز پارٹی کو اندرون سندھ شدید دبائو کا سامنا کرنا پڑا تھا، پیپلز پارٹی کے اکثر اراکین اسمبلی صدر زرداری اور ایم کیو ایم کی مفاہمت سے تیار ہونے والے بلدیاتی نظام کی حمایت کرنے سے کتراتے تھے جس کے باعث پیپلز پارٹی نے انتخابات سے قبل اس نظام کو منسوخ کر دیا تھا، اس طرح پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں ایک نئی خلیج پیدا ہو گئی تھی۔

اب وفاقی کابینہ میں اگر ایم کیو ایم شامل ہو ئی اور ڈاکٹر عشرت العباد گورنر کے عہدے پرکام کرتے رہے تو مسلم لیگ کو اپنا پرانا موقف تبدیل کرنا ہو گا، اس کے ساتھ ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کی شکست کے بعد اس سے اتحاد توڑ کر اپنے تشخص کو نقصان پہنچایا۔ ایم کیو ایم کا ماضی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ سے کئی بار اتحاد ہوا اور کئی بار ٹوٹ گیا مگر صدر زرداری کے صلح کل کی پالیسی کے بعد ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی سے اتحاد قائم ہوا، اگرچہ گزشتہ پانچ سالوں میں کئی دفعہ اس اتحاد میں رخنہ پڑا مگر پانچ سال گزر گئے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی قیادت بلدیاتی نظام پر اتفاق نہیں کر سکی جس کی زیادہ ذمے داری پیپلز پارٹی پر عائد ہوتی ہے مگر مجموعی طور پر جمہوری عمل کے استحکام اور ایک لبرل ماحول کے لیے اس اتحاد نے اہم کردار ادا کیا۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے 12 سے زیادہ صوبائی اراکین اپنی قیادت سے ناراض ہیں، اگر مسلم لیگ، ایم کیو ایم ساتھ مل کر ان اراکین کو اپنے ساتھ ملا ئیں تو حکومت کی تبدیلی کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔ یہ تجربہ میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دور میں جام صادق کو وزیر اعلیٰ بنا کر کیا۔ جام صادق کی قیادت میں سندھ کی حکومت کا تجربہ بری طرح ناکام ہوا تھا۔ جام صادق کے انتقال کے بعد مظفرعلی شاہ کے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف پہلا فوجی آپریشن شروع ہوا تھا۔ اس آپریشن میں ایم کیو ایم کے بہت سے کارکن لاپتہ ہوئے تھے۔ اب دوبارہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو توڑ کر نیا تجربہ کیا گیا تو اس سے جمہوری عمل متاثر ہو گا۔ ایم کیو ایم نے کوٹہ سسٹم کو نظر انداز کرتے ہوئے جن کی بنیاد پر ایم کیو ایم کا قیام ہوا تھا مسلم لیگی حکومت کی حمایت کی ہے۔ کراچی میں اس کے مخالفین کوٹہ سسٹم کو نظر انداز کرنے پر ایم کیو ایم کو تنقید کا نشانہ بنائیں گے۔

بعض سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ 1947سے 1986تک کراچی کے نمایندوں اور پنجاب کا اتحاد رہا جس کے نتیجے میں ملک حقیقی وفاق نہیں بن سکا۔ ایم کیو ایم نے اس اتحاد کے خلاف آواز اٹھائی تھی اور پھر اس کا مسلم لیگ سے اتحاد کا تجربہ ماضی میںبھی ناکام رہا اب پھر یہ تجربہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایم کیو ایم ممنون حسین کا کراچی سے تعلق کی بناء پر ان کی حمایت کے لیے مجبور تھی۔ اب اس صورتحال میں پھر کراچی میں امن نہیں ہوا تو پھر ذمے داری کس کی ہو گی۔ ایم کیو ایم شہری علاقوں کی نمایندہ ہے۔ دیہی علاقوں کے نمایندوں سے اتحاد ہی سندھ میں امن اور خوشحالی لاسکتا ہے۔ بہرحال مسلم لیگ نے ممنون حسین کو کامیاب کرا لیا مگر صدارتی انتخابات پر پیدا ہونے والی خلیج سیاسی منظر نامے میں کیا رنگ بدلے گی۔ پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ اور عمران خان کے تند و تیز بیانات سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ بہر حال سندھ کی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں کا کوئی اندازہ فی الحال مشکل ہے۔
Load Next Story