گداگروں کا عذاب
غربت اور معذوری شروع سے چلی آ رہی ہے جس کے لیے اﷲ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ جو لوگ پیسے والے ہیں...
غربت اور معذوری شروع سے چلی آ رہی ہے جس کے لیے اﷲ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ جو لوگ پیسے والے ہیں، وہ غریب، یتیم، مسکین، معذور، لاچار اور کمزوروں کی مالی مدد کریں اور اس سلسلے میں اگر گھر میں آپ کا بھائی، بہن یا کوئی اور ایسا رشتے دار ہے تو سب سے پہلے اس کی مدد کرو، اس کے بعد محلے والوں کی اور پھر باقی جو مدد کے لائق ہیں ان کی مدد کار ثواب ہے۔
میں نے بچپن میں دیکھا کہ بھیک مانگنے صرف وہ لوگ آتے تھے جو اپاہج تھے، جن میں کوئی آنکھوں سے نابینا تھا، کسی کے پائوں اور ہاتھ نہیں تھے یا کوئی بے سہارا ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ غریب لوگ سانپ کا کھیل دکھا کے، ریچھ یا بندر کو نچا کر یا پھر کوئی ساز بجا کر اس کے ساتھ شاہ عبداللطیف بھٹائی کے رسالے سے شاعری پڑھ کر بسوں، ٹرین اور بزرگوں کی درگاہ پر آ کر بھیک مانگتے تھے اور کسی سے بھی زبردستی نہیں کرتے تھے، نہ وہ ہاتھ پھیلاتے تھے۔ لوگ خود بھی غریبوں کے گھر جا کر ان کی مدد کرتے تھے، خاص طور پر عید یا دیگر تہواروں کے موقعے پر ان میں کپڑے تقسیم کرتے تھے۔
آہستہ آہستہ وقت بدلتا گیا، اب ہٹے کٹے لوگوں نے گداگری کا کاروبار سنبھال لیا، وہ ہاتھ میں کشکول لے کر اورنج کلر کے کپڑے پہن کر گھروں کے باہر زور زور سے آوازیں اور صدائیں مارنے لگے۔ اس کے علاوہ بوڑھی اور جوان عورتیں بھی اس کام میں شروع ہو گئیں۔ اندرون سندھ میں بھکاریوں کی ایک قسم ہے باگڑی جن کے مرد اور عورتیں اپنے مخصوص لباس میں بھیک مانگتے نظر آتے تھے، اب وہ کراچی میں آ گئے ہیں اور خاص طور پر آپ کو گلستان جوہر میں زیادہ ملیں گے جن کے مرد ریڑھیوں پر سبزی، فروٹ وغیرہ بیچتے ہیں اور ان کی عورتیں اور بچے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔ بعض بھیک مانگنے کے ساتھ جسم فروشی بھی کرتی تھیں۔
اب مجبوری میں مانگنے والے بھکاریوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ یہ ہٹے کٹے لوگ ان کو مارتے ہیں اور کہیں کھڑے نہیں ہونے دیتے، اصلی اور مستحق لوگ جو بحالت مجبوری ہاتھ پھیلاتے تھے اب بہت کم رہ گئے ہیں اور ان کی جگہ پروفیشنل فقیروں نے قبضہ کر لیا ہے۔ اگر وہ آپ سے بھیک مانگتے ہیں اور آپ انھیں معاف کرو کہتے ہیں تو یہ لوگ آپ کو نہ صرف بد دعائیں دیتے ہیں بلکہ برا بھلا کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اب پورے پاکستان سے کراچی اور سندھ کے باقی شہروں میں ایسے نرالے فقیروں کی لاٹ آ گئی ہے جو اپنے آپ کو ہیجڑے کہلواتے ہیں جب کہ وہ مرد ہیں اور ان کی شادیاں بھی ہو چکی ہیں اور ان کے قد اور جسامت دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کوئی پہلوان ہوں۔ وہ مختلف چورنگیوں پر بھرپور میک اپ کر کے عورتوں والے کپڑے پہن کر بھیک مانگتے ہیں۔
اب بھیک کا پروفیشن بڑا منافع بخش ہو گیا ہے اس لیے کراچی میں خاص طور پر ٹھیکہ سسٹم ہے اور ٹھیکیدار ان نقلی فقیروں کو شہر کے علاقے الاٹ کرتے ہیں اور جو بھی روزانہ کی کمائی ہوتی ہے اس کا آدھا حصہ ٹھیکیدار کو ملتا ہے جو ان لوگوں کی حفاظت بھی کرتا ہے اور پولیس سے بھی جان چھڑواتا ہے۔ ان گداگروں کے گروپ میں 2 سال کے بچے سے لے کر 60 سال تک کی عورتیں اور لڑکیاں ہوتی ہیں۔ کئی مرتبہ میں نے دیکھا کہ یہ نام نہاد فقیر مختلف دکانوں پر ریزگاری دے کر نوٹ لیتے ہیں اور دکاندار ان کی نہ صرف منت، سماجت کرتے ہیں بلکہ ریزگاری لینے کے لیے کچھ پیسے بھی دیتے ہیں، دکانداروں کا کہنا ہے کہ روزانہ ایک فقیر 500 سے لے کر 1000 تک کماتا ہے۔
آپ یہ دیکھیں کہ ہم لوگ سگنل یا پھر روڈ کراس کرتے بڑی احتیاط کرتے ہیں مگر ان بھکاریوں کے بچے اتنی پھرتی کے ساتھ گھومتے ہیں کہ ہم حیران ہو جاتے ہیں۔ یہ بچے پیدا بھی یہاں پر ہوئے اور بڑے بھی یہاں ہوئے، یہ علاقے ان کے مسکن ہیں، انھیں رہنے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، وہ خالی پلاٹوں پر اپنی جھونپڑیاں بناتے ہیں۔ جب کوئی جوان اور ہٹا کٹا فقیر بن کر بھیک مانگتا ہے تو ہوٹل والے یا پھر دکان والے انھیں کہتے ہیں کہ تم ان کے پاس کام کرو وہ انھیں مزدوری دیں گے مگر وہ لوگ بھاگ جاتے ہیں کیونکہ بھیک مانگنا آسان ہے، کام کرنا ان کے لیے دشوار ہے۔ میں نے بھکاریوں کو آپس میں لڑتے ہوئے بھی دیکھا ہے، جب ایک بھکاری کی جگہ کوئی بھکاری کھڑا ہو جاتا ہے یا پھر اس کے بجائے دوسرے کو بھیک ملتی ہے پھر وہ عورتیں ہو یا مرد گندی گالیاں بکتے ہیں، ایک دوسرے کو مارتے ہیں۔
اب تو ان گداگروں کے پاس موبائل بھی ہیں اور خاص طور پر عورتوں کے پاس اور وہ جب آرام کرنے کے لیے کسی کونے میں یا پھر فٹ پاتھ پر بیٹھتی ہیں تو اپنے رشتے داروں سے باتیں کرتی ہیں۔ یہ بھکاری مجرموں کے مخبر بھی ہوتے ہیں جن میں خاص طور پر عورتیں زیادہ ہوتی ہیں وہ کریمنل لوگوں کے اشاروں پر چلتی ہیں، گاڑی چھیننی ہو یا کسی کو لوٹنا ہو یہ انھیں انفارمیشن فراہم کرتی ہیں، اس کے علاوہ مرد بھکاری خود بچے اغوا کرتے ہیں، چوریاں کرتے ہیں پھر یہ لوگ اپنے چھوٹے بچوں کو جیب کاٹنے کے لیے تربیت دیتے ہیں اور یہ بچے خاص طور پر بچت بازاروں میں عورتوں کے پرس کاٹ کر اس میں سے موبائل اور پیسے چوری کرتے ہیں، کیونکہ ان کے قد چھوٹے ہوتے ہیں اور وہ باآسانی پرس کی زپ کھول کر یا اسے بلیڈ سے کاٹ کر اندر سے چیزیں نکال لیتے ہیں، اس سلسلے میں کئی بچے پکڑے گئے ہیں، اس کے علاوہ جو مائیں ان کے ساتھ ہوتی ہیں وہ بھی ماہرانہ کارروائی کرتی ہیں۔ بس اک نگاہ چوکی اور مال بھکارنوں کا۔
اب ایک سلسلہ جو کافی کم ہو گیا ہے لیکن پھر بھی چل رہا ہے وہ یہ ہے کہ ظالم قسم کے جرائم پیشہ لوگ چھوٹے بچے ایک شہر سے اغوا کر کے اس کے ہاتھ یا پائوں توڑ کر یا اس کی زبان کاٹ کر اس سے بھیک منگواتے ہیں اور حال ہی میں اس قسم کے افراد کو چھاپہ مار کر گذری کے علاقے سے پکڑا گیا ہے، ایک قسم بھکاریوں کی اور ہے جس میں وہ بچے کرائے پر لاتے ہیں اور انھیں نیند کی دوا کھلا کر سلا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا بچہ بیمار ہے، دوسرے بھکاری اپنی ایک ٹانگ پیچھے باندھ کر لکڑی کے سہارے کھڑے ہو جاتے ہیں اور جب گھر جانے کا وقت آتا ہے تو ٹانگ کھول کر بس میں چڑھتے ہیں۔ بہت سارے جھوٹے اندھے پن کا ڈھونگ رچاتے ہیں یا پھر ہاتھ میں کوئی کام کرنے کی چیز لے کر کہتے ہیں کہ آج انھیں مزدوری نہیں ملی، کچھ لوگ اپنی بیوی اور بچے کو لے کر کہتے ہیں کہ وہ فلاں علاقے سے آئے ہیں ان کے پاس واپس جانے کا کرایہ نہیں ہے۔ بعض زخم دکھا کر جذبہ رحم کو ابھارتے ہیں۔
ایک اور سلسلہ جو ابھی بند ہوتا جا رہا ہے وہ بسوں میں غیر مسلم عورتیں قرآنی آیات لکھے ہوئے کارڈ لوگوں کے دامن میں پھینک کر بھیک مانگتی تھیں، لوگوں کے غصے اور سمجھانے کے بعد یہ کام ختم ہو گیا لیکن اب وہ برقعہ پہن کر بیگ کاندھے پر لٹکا کر اپنے آپ کو مسلمان بنا کر ہمدردیاں حاصل کر کے بھیک مانگتی ہیں۔ اسی طرح سے کئی لٹیرے جنھیں ہم فقیر سمجھتے ہیں پیسے کما کر جوا کھیلتے ہیں، شراب پیتے ہیں، سگریٹ پیتے ہیں۔ اب تو عید آنے والی ہے اور ملک کے مختلف شہروں سے لوگ بھکاریوں کا بھیس بدل کر کراچی اور دوسرے بڑے شہروں میں آ گئے ہیں اور لوگ ان سے بڑے تنگ ہیں کیونکہ آپ نہ ہوٹل پر آرام سے بیٹھ سکتے ہیں نہ تو بازاروں میں کوئی خریداری کر سکتے ہیں، یہ فقیر ہر جگہ لوگوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ انھیں گرفتار کر کے لاک اپ کر دیتے ہیں تو انھیں کھانا کھلانا پڑتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو حکومت ان کے لیے سماجی بہبود کے پروگرام بنائے تا کہ یہ کسی کو تنگ نہ کریں۔ گداگری جرم ہے۔ ننگ انسانیت فعل ہے، اب ہم سب یہ سوچیں کہ اس مشکل مسئلے سے کیسے جان چھڑائی جائے جس نے ایک عذاب برپا کیا ہوا ہے؟