قادر خان سے ایک یادگار ملاقات
مانا کہ وہ اداکار تھے مگر مذہب سے ان کا بہت گہرا تعلق تھا۔
عمر بھی ایک ریت کی عمارت ہے، عمر رواں کب ختم ہوئی انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا ، حسب روایت آج پھر مجھے وہ لوگ یاد آ رہے ہیں جو شوبز کے بادشاہ تھے ۔ اداس رنگ لیے اس دنیا سے چل دیے، ہماری نوجوان نسل کو ہر قسم کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
ہمارے وہم و گماں میں بھی نہیں ہوتا کہ کیسے کیسے شہ سوار شوبز سے چلے گئے۔ کیا خوبصورتی کا جلال اور کیا رنگ روپ لمحوں میں شخصیت کا خاصا مٹا کر رکھ دیتا ہے مگر کچھ لوگوں کے کام ان کے جانے کے بعد بھی یادگار ہوتے ہیں ۔ آج بھی شوبز کے فنکاروں سے شائقین شوبز کا دلی لگائو کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جڑا ہوا ہے۔
بھارتی فنکار قادر خان سے راقم کی ایک طویل ملاقات 1992ء میں دبئی میں ہوئی تھی ، وہ وہاں ''پاکستان سینٹر'' میں ایک اسٹیج ڈرامہ '' بول رے بول'' کرنے آئے تھے، چونکہ وہ مزاحیہ اداکاری کے بے تاج بادشاہ تھے ،ان سے ہماری ملاقات پاکستانی اداکار اظہار قاضی نے کروائی تھی ۔ بھارتی اداکار قادر خان سے ہماری ملاقات کا دورانیہ تقریباً ایک گھنٹے رہا، ان کے والد عبدالرحمن بہت مذہبی انسان تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا قادر خان شوبز میں کام کرے جب کہ ان کی والدہ اقبال آپا کا تعلق بلوچستان کے شہر حب سے تھا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت مذہبی انسان تھے جب وہ اسٹیج ڈرامہ ''بول رے بول'' کے سلسلے میں دبئی آئے تو عمرے کی ادائیگی کر کے آئے تھے، وہ بہت اچھے مصنف تھے اور تقریباً 285 سے زائد فلمیں انھوں نے لکھیں ،خاص طور پر مکالمہ نویس تو بہت اعلیٰ تھے ۔ قادر خان بتا رہے تھے کہ میں پیشے کے لحاظ سے تو انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ رہا ۔
بمبئی کی پھاٹک گلی میں ایک لیکچرار ندیم احمد رہا کرتے تھے ، مجھ سے بہت پیارکرتے تھے، ایک دن مجھ سے کہنے لگے'' میاں انجینئرنگ میں کیا رکھا ہے، مصنف بن جاؤ، عزت ، شہرت اور دولت گھرکی غلام ہوگی ۔'' میری عمر اس وقت 28 سال ہو گی جب کہ ندیم صاحب تقریباً 60 برس کے ہوں گے۔ کہنے لگے '' ساری عمر بچوں کو پڑھاتا رہا مگر جب یوسف خان (دلیپ کمار) اسٹیج پر کام کیا کرتے تھے تو ان کا ایک اسٹیج ڈرامہ ''دیوی تو دیوی ہے'' میں نے لکھا جس کی ہدایت کشور برما نے دی تھی اور یہ اسٹیج ڈرامہ دہلی کے شہر ''دریا گنج'' میں ہوا ۔
ڈرامہ سپرہٹ ہوا مرکزی کردار دلیپ کمار اور اشونا دیوی نے کیے جنھوں نے بعد میں پارسی مذہب اختیار کر لیا تھا اور ایک تاجر پارسی من واس سے شادی کر کے شوبز کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ اس کے بعد پھر میں نے دوسرا اسٹیج ڈرامہ '' تیری چاہت '' تحریر کیا۔ اس کا معاوضہ مجھے 155 روپے ملا جب کہ میری تنخواہ بحیثیت لیکچرار کے 22 روپے تھی۔''
قادر صاحب نے بتایا پھر میں نے ان کی شاگردی اختیار کر لی اور انجینئرنگ چھوڑ کے مصنف بن گیا اور واقعی زندگی کے دن بدل گئے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے بتایا تھا کہ جتنی انسانیت دلیپ کمار اور امیتابھ بچن میں، میں نے دیکھی ایسے فنکار کم پیدا ہوتے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے انھوں نے محمد علی، سلطان راہی، اظہار قاضی اور ٹی وی آرٹسٹ روحی بانو جب کہ گلوکاری میں مہدی حسن اور مہ ناز کو بہت اچھے الفاظ میں یاد کیا۔ مذہب کے حوالے سے سلطان راہی مرحوم سے بہت متاثر تھے۔ تلاوت کے حوالے سے ان کی ایک کیسٹ کسی پاکستانی نے مجھے بمبئی میں دی تھی، اسے سننے کے بعد میں ان کا مداح ہو گیا۔ مذہب کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ مانا میں اداکار اور مصنف ہوں مگر مجھے اپنے مذہب سے بہت لگاؤ ہے یہ میرے والد کی تربیت تھی۔
راقم الحروف کی 1992ء میں جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ تقریباً 55 سال کے تھے مذہبی گفتگو کے دوران جب بخاری شریف کا تذکرہ ہوا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اپنی پسندیدہ فلموں کے حوالے سے بتایا کہ بحیثیت مصنف اور اداکار کے بیوی ہو تو ایسی، ہم ہیں کمال کے، باپ نمبری بیٹا دس نمبری انھیں بہت پسند تھیں ۔ مہدی حسن اور مہ ناز کے حوالے سے انھوں نے بتایا تھا کہ واقعی انڈیا کی بڑی گلوکارہ لتا جی ان کی فین تھیں ۔ بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں میری پہلی ملاقات مہدی حسن سے بنگالی فلموں کے سپرہٹ ہیرو اداکار رحمان نے کروائی تھی جو سپرہٹ ہیرو تھے۔ یہ غالباً 1985ء کی بات ہے مہدی حسن اور رحمان مرحوم کے مشترکہ دوست عزیز بھائی بہت بڑے بزنس مین تھے ان کے بیٹے کی شادی تھی۔ اس میں انھوں نے مہدی حسن کو بحیثیت دوست کے بلوایا تھا وہاں انھوں نے گیت:
زندگی میں تو سب ہی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا
گا کر محفل تو لوٹ لی تھی مگر میں بھی ان کے پرستاروں میں شامل ہوگیا۔ واقعی وہ پاکستان کا سرمایہ تھے۔ مہ ناز سے ملاقات دبئی میں ہوئی ان سے میرا تعارف اظہار قاضی نے کروایا ۔ یہ دونوں کسی چیریٹی شو میں آئے تھے جو یتیم بچوں کے لیے تھا جس کی آمدنی پاکستان میں قائم کسی یتیم خانے میں جانا تھی۔ مانا کہ وہ اداکار تھے مگر مذہب سے ان کا بہت گہرا تعلق تھا۔ راقم الحروف نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ پاکستان میں کون سی مذہبی شخصیت سے متاثر ہیں تو انھوں نے مولانا شفیع اوکاڑوی ، مولانا مودودی اور احتشام الحق تھانوی کا نام لیا تھا۔ سیاست میں انھیں ذوالفقارعلی بھٹو بہت پسند تھے، کھیل کے شعبے میں عمران خان اور جاوید میاںداد کے بہت بڑے فین تھے، جب کہ مزاحیہ فنکاروں میں لہری اور منور ظریف کا نام لیا۔
فرصت کے اوقات کے حوالے سے بتایا تھا کہ اکثر جب بھی وقت ملتا ہے بخاری شریف کا مطالعہ کرتا ہوں۔ عمر کے آخری ایام میں عمرے اور حج بھی کیے تھے۔ قادر خان کی گفتگو نے راقم کو بہت متاثر کیا تھا جب کہ اس زمانے میں ہم نوجوان تھے اور ان کی گفتگو سے جو تقویت راقم کو ملی وہ آج تک کام آ رہی ہے۔ قادر خان کو ہر مکتبہ فکر کے لوگ پسند کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے۔( آمین)
ہمارے وہم و گماں میں بھی نہیں ہوتا کہ کیسے کیسے شہ سوار شوبز سے چلے گئے۔ کیا خوبصورتی کا جلال اور کیا رنگ روپ لمحوں میں شخصیت کا خاصا مٹا کر رکھ دیتا ہے مگر کچھ لوگوں کے کام ان کے جانے کے بعد بھی یادگار ہوتے ہیں ۔ آج بھی شوبز کے فنکاروں سے شائقین شوبز کا دلی لگائو کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جڑا ہوا ہے۔
بھارتی فنکار قادر خان سے راقم کی ایک طویل ملاقات 1992ء میں دبئی میں ہوئی تھی ، وہ وہاں ''پاکستان سینٹر'' میں ایک اسٹیج ڈرامہ '' بول رے بول'' کرنے آئے تھے، چونکہ وہ مزاحیہ اداکاری کے بے تاج بادشاہ تھے ،ان سے ہماری ملاقات پاکستانی اداکار اظہار قاضی نے کروائی تھی ۔ بھارتی اداکار قادر خان سے ہماری ملاقات کا دورانیہ تقریباً ایک گھنٹے رہا، ان کے والد عبدالرحمن بہت مذہبی انسان تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا قادر خان شوبز میں کام کرے جب کہ ان کی والدہ اقبال آپا کا تعلق بلوچستان کے شہر حب سے تھا ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بہت مذہبی انسان تھے جب وہ اسٹیج ڈرامہ ''بول رے بول'' کے سلسلے میں دبئی آئے تو عمرے کی ادائیگی کر کے آئے تھے، وہ بہت اچھے مصنف تھے اور تقریباً 285 سے زائد فلمیں انھوں نے لکھیں ،خاص طور پر مکالمہ نویس تو بہت اعلیٰ تھے ۔ قادر خان بتا رہے تھے کہ میں پیشے کے لحاظ سے تو انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ رہا ۔
بمبئی کی پھاٹک گلی میں ایک لیکچرار ندیم احمد رہا کرتے تھے ، مجھ سے بہت پیارکرتے تھے، ایک دن مجھ سے کہنے لگے'' میاں انجینئرنگ میں کیا رکھا ہے، مصنف بن جاؤ، عزت ، شہرت اور دولت گھرکی غلام ہوگی ۔'' میری عمر اس وقت 28 سال ہو گی جب کہ ندیم صاحب تقریباً 60 برس کے ہوں گے۔ کہنے لگے '' ساری عمر بچوں کو پڑھاتا رہا مگر جب یوسف خان (دلیپ کمار) اسٹیج پر کام کیا کرتے تھے تو ان کا ایک اسٹیج ڈرامہ ''دیوی تو دیوی ہے'' میں نے لکھا جس کی ہدایت کشور برما نے دی تھی اور یہ اسٹیج ڈرامہ دہلی کے شہر ''دریا گنج'' میں ہوا ۔
ڈرامہ سپرہٹ ہوا مرکزی کردار دلیپ کمار اور اشونا دیوی نے کیے جنھوں نے بعد میں پارسی مذہب اختیار کر لیا تھا اور ایک تاجر پارسی من واس سے شادی کر کے شوبز کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ اس کے بعد پھر میں نے دوسرا اسٹیج ڈرامہ '' تیری چاہت '' تحریر کیا۔ اس کا معاوضہ مجھے 155 روپے ملا جب کہ میری تنخواہ بحیثیت لیکچرار کے 22 روپے تھی۔''
قادر صاحب نے بتایا پھر میں نے ان کی شاگردی اختیار کر لی اور انجینئرنگ چھوڑ کے مصنف بن گیا اور واقعی زندگی کے دن بدل گئے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے بتایا تھا کہ جتنی انسانیت دلیپ کمار اور امیتابھ بچن میں، میں نے دیکھی ایسے فنکار کم پیدا ہوتے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے انھوں نے محمد علی، سلطان راہی، اظہار قاضی اور ٹی وی آرٹسٹ روحی بانو جب کہ گلوکاری میں مہدی حسن اور مہ ناز کو بہت اچھے الفاظ میں یاد کیا۔ مذہب کے حوالے سے سلطان راہی مرحوم سے بہت متاثر تھے۔ تلاوت کے حوالے سے ان کی ایک کیسٹ کسی پاکستانی نے مجھے بمبئی میں دی تھی، اسے سننے کے بعد میں ان کا مداح ہو گیا۔ مذہب کے حوالے سے انھوں نے بتایا کہ مانا میں اداکار اور مصنف ہوں مگر مجھے اپنے مذہب سے بہت لگاؤ ہے یہ میرے والد کی تربیت تھی۔
راقم الحروف کی 1992ء میں جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ تقریباً 55 سال کے تھے مذہبی گفتگو کے دوران جب بخاری شریف کا تذکرہ ہوا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ اپنی پسندیدہ فلموں کے حوالے سے بتایا کہ بحیثیت مصنف اور اداکار کے بیوی ہو تو ایسی، ہم ہیں کمال کے، باپ نمبری بیٹا دس نمبری انھیں بہت پسند تھیں ۔ مہدی حسن اور مہ ناز کے حوالے سے انھوں نے بتایا تھا کہ واقعی انڈیا کی بڑی گلوکارہ لتا جی ان کی فین تھیں ۔ بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکہ میں میری پہلی ملاقات مہدی حسن سے بنگالی فلموں کے سپرہٹ ہیرو اداکار رحمان نے کروائی تھی جو سپرہٹ ہیرو تھے۔ یہ غالباً 1985ء کی بات ہے مہدی حسن اور رحمان مرحوم کے مشترکہ دوست عزیز بھائی بہت بڑے بزنس مین تھے ان کے بیٹے کی شادی تھی۔ اس میں انھوں نے مہدی حسن کو بحیثیت دوست کے بلوایا تھا وہاں انھوں نے گیت:
زندگی میں تو سب ہی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی میری جان تجھے چاہوں گا
گا کر محفل تو لوٹ لی تھی مگر میں بھی ان کے پرستاروں میں شامل ہوگیا۔ واقعی وہ پاکستان کا سرمایہ تھے۔ مہ ناز سے ملاقات دبئی میں ہوئی ان سے میرا تعارف اظہار قاضی نے کروایا ۔ یہ دونوں کسی چیریٹی شو میں آئے تھے جو یتیم بچوں کے لیے تھا جس کی آمدنی پاکستان میں قائم کسی یتیم خانے میں جانا تھی۔ مانا کہ وہ اداکار تھے مگر مذہب سے ان کا بہت گہرا تعلق تھا۔ راقم الحروف نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ پاکستان میں کون سی مذہبی شخصیت سے متاثر ہیں تو انھوں نے مولانا شفیع اوکاڑوی ، مولانا مودودی اور احتشام الحق تھانوی کا نام لیا تھا۔ سیاست میں انھیں ذوالفقارعلی بھٹو بہت پسند تھے، کھیل کے شعبے میں عمران خان اور جاوید میاںداد کے بہت بڑے فین تھے، جب کہ مزاحیہ فنکاروں میں لہری اور منور ظریف کا نام لیا۔
فرصت کے اوقات کے حوالے سے بتایا تھا کہ اکثر جب بھی وقت ملتا ہے بخاری شریف کا مطالعہ کرتا ہوں۔ عمر کے آخری ایام میں عمرے اور حج بھی کیے تھے۔ قادر خان کی گفتگو نے راقم کو بہت متاثر کیا تھا جب کہ اس زمانے میں ہم نوجوان تھے اور ان کی گفتگو سے جو تقویت راقم کو ملی وہ آج تک کام آ رہی ہے۔ قادر خان کو ہر مکتبہ فکر کے لوگ پسند کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے۔( آمین)