نسوانی وقار اور تہذیبی سوال
اگر ملزم با اثر ہے تو جان بھی جاسکتی ہے اس لیے بھی لوگ شکایت کرنے سے ڈرتے ہیں ، ایسا کیوں ہے ؟
غریبوں کی اصل دولت عزت اور غیرت ہے، جب کوئی درندہ صفت انسان کسی غریب کی دولت لوٹتا ہے تو وہ غریب اسی وقت جیتے جی مرجاتا ہے ، جن غریبوں کی دولت لٹتی ہے تو فرسودہ نظام ان کے لیے حصول انصاف کے بجائے جذباتی بدلہ ، حرام موت جیسی راہیں متعین کرتا ہے۔ اس لیے غریب بے وسیلہ لوگ انصاف اور قانون پر اعتماد کرنے کے بجائے ان راہوں کا چنائو کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جب کہ وہ دلی طور پر حقیقی انصاف کے طلبگار ہوتے ہیں ۔
جن بہادر عورتوں نے اس فرسودہ نظام کے بطن سے جنم لینے والے درندہ صفت انسانوں کو قانون کے تحت عبرت ناک انجام تک پہنچانے کے لیے جرات مندانہ کوششیں کیں ، ان کے تجربات اور اپنے مشاہدات کی روشنی میں قیامت در قیامت کا شکار لوگ اب مزید پامالی کے لیے تیار نہیں ، اس لیے کہ وہ گہرا زخم سہہ کر بھی قانون کی مدد لینے کے بجائے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ، جو ایک طرح سے انصاف اور قانون پر عدم اعتماد کا اظہار ہوتا ہے ، یہ صورت حال نئی نہیں ہے اور نہ ہی صرف جنسی زیادتیوں تک محدود ہے اس کا رنگ تمام مجرمانہ سر گرمیوں میں رنگا ہوا ہے ۔
جو جرائم رپورٹ ہوتے ہیں ان کے کئی پہلو ہوتے ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتے ہیں اس کی بھی بے شمار وجوہات ہوتی ہیں ۔ یہ امر الگ تحقیق کا متقاضی ہے ۔سچ یہ ہے کہ کمزور غریب لوگ پولیس کو رپورٹ درج نہیں کراتے، ان کے نزدیک یہ مزید پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے جس میں عزت اور مزید مال کے ضیاع کا خطرہ ہے ، اگر ملزم با اثر ہے تو جان بھی جاسکتی ہے اس لیے بھی لوگ شکایت کرنے سے ڈرتے ہیں ، ایسا کیوں ہے ؟
یہی سوال آج بھی جواب طلب اور حل طلب ہے بار بار انصاف اور قانون کے سامنے یہ صورت حال آتی رہی ہے کہ متاثرہ عورت یا لڑکی آخر کیوں کر اپنے پہلے والے بیان اور رپورٹ سے مکر جاتی ہیں ؟ اور نامزد گرفتار ملزمان باعزت بری کردیے جاتے رہے ہیں اور آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا ؟ یہ ایسا سوال نہیں جس کا کوئی جواب نہ ہو ۔ اس سوال کا جواب اکثر ان الفاظ میں ملتا رہا ہے کہ پردہ اچھی چیز ہے اگر اس بات پر پردہ پڑا ہے تو ٹھیک ہے اس کو اچھالا نہ جائے ۔
خیال رہے کہ ایسا اکثر جنسی زیاد تی والے مقدمات میں کہا جاتا ہے اور مجبور و لاچار عورت و لڑکی یہ بیان دینے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ یا اسے مجبورکردیا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ کسی نے جنسی زیادتی نہیں کی ہے جب کہ اس کی عزت لٹ چکی ہوتی ہے ۔ اس طرح عدالت اس کیس کو خارج کردیتی ہے، لیکن ایسے کیسوں کے بطن سے ابھرنے والے سوالات ایسے نہیں ہیں کہ جنھیں نظر انداز کیا جاسکے ۔ ایسا لگتا ہے کہ انصاف اور قانون کہیں بھٹک رہا ہے ۔
ہم سب کو علم ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی بھی ایسا واقعہ رونما ہوجائے تو نتائج کیا برآمد ہوتے ہیں ؟ یہاں انصاف ملتا ہے اور نہ ہی اس کی توقع کی جاسکتی ہے، اس لیے متاثرہ شخص یا خاندان یہی کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ جو ہوگیا وہ کافی ہے ہم مزید اس معاملے کو اچھالنا نہیں چاہتے ۔اس طرح تمام تر اقدامات وکارروائی اس پردے کے پیچھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھپ جاتے ہیں، جس کے اٹھا دینے سے ایک درندہ صفت انسان کی اصل داستان بیان ہوجاتی مگر اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ کہیں پھر اس حوا کی بیٹی کی عزت مزید وکلاء کے قانونی ٹیکنیکل مگر ناشائستہ سوالات سے پامال نہ ہوجائے ۔
اس تناظر میں ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا جنسی زیادتیوں والے کیسوں کے ٹرائل کے دوران اس طرح کے سوالات سے اجتناب برتا جائے یا کم از کم سوالات اس انداز سے کیے جائیں جن سے پامالی کا پہلو غالب نہ رہے ۔ کیا ایسا ممکن ہے ؟ قانون ہر فریق کو اپنی صفائی بیان کرنے کا پورا پورا حق دیتا ہے لیکن دلائل کے چمپئین اس حق کو بے ہودہ انداز میں استعمال کررہے ہوتے ہیں جسے سننے کے لیے کوئی غیرت مند تیار نہیں ہے کہ یہ عمل غیر تہذیبی ہے مگر چونکہ اس عمل کو آئینی و قانونی تحفظ حاصل ہے اس لیے بعض اوقات ایسی لغو باتیں جبری طور پر برداشت کرنا پڑتی ہیں ۔
دراصل اسی جارحانہ مرحلے سے محفوظ رہنے کے لیے غیرت مند لوگ جنسی زیادتیوں کی شکایت نہیں کرتے اور خاموشی کا زہر پی لیتے ہیں اور جہاں وہ پہلے سے مکین ہوتے ہیں زیادتی کے بعد اس علاقے کو بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ معاشرہ بڑا ظالم ہے ، بھیڑیا نما یہ معاشرہ اس تاڑ میں رہتا ہے کہ جو بے عزت ہوجاتا ہے اس کی مزید بے عزتی کا سامان پیدا کیا جاسکے ۔ اس طرح لٹنے والے لٹنے کے بعد زندہ درگور ہوجاتے ہیں اور درندہ صفت انسان ایک اور شکار کی تلاش میں نکل جاتا ہے ایک اور جنسی زیادتی کی خبر شایع ہوجاتی ہے ۔مذمتی بیانات داغ دیے جاتے ہیں ، شور برپا کردیا جاتا ہے ، درندہ صفت گرفت میں آجاتا ہے ۔ ایک نئی کہانی ترتیب دی جاتی ہے ۔
مظلوم حوا کی بیٹی کو مزید رسوا کیا جاتا ہے، اگر وہ جرات و ہمت کرکے حصول انصاف کے لیے ان شیطانی ہتھکنڈوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوتی ہے تو ایسی سورمی ( بہادر) بہو ، بیٹیوں کو اس انداز سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کردیتے ہیں کہ یہ الزام بھی مظلوم متوفی کے سر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس طرح ان کی فائل داخل دفترکردی جاتی ہے اور درندہ ایک مرتبہ پھر اپنے شکارکے لیے روانہ ہوجاتا ہے تقریبا یہی کچھ ہمارے معاشرے میں ہوتا آرہا ہے.
لیکن یہاں سوال یہ کیا جارہا ہے کہ کیا ہمارے وکلاء حضرات جنسی زیادتیوں پرمبنی کیسوں کے دوران مہذب شریفانہ زبان استعمال کرنے کو تیار ہیں؟ کیا وہ متاثرہ خاندان کو عدالت اور عدالت کے باہر عزت کا تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دے سکتے ہیں ؟ کیا وہ اس میڈیا وار کا راستہ روک سکتے ہیں جو درندہ صفت انسانوں کی جانب سے پیسوں کے بل بوتے پر کسی متاثرہ حوا کی بیٹی کو بد چلن ثابت کرنے کے لیے چلائی جاتی ہے ؟ جب ایک وکیل اپنے دلائل سے پاک سر زمین حاصل کرسکتا ہے تو وہ کیا وجوہات ہیں کہ آج کے وکیل اپنے دلائل سے فرسودہ نظام کو ختم کرنے میں ناکام ہیں؟ متاثرین خاندانوں کے اس سوال کا جواب کون دے گا کہ یہاں انصاف ملتا ہے اور نہ ہی اس کی توقع ہے۔
جن بہادر عورتوں نے اس فرسودہ نظام کے بطن سے جنم لینے والے درندہ صفت انسانوں کو قانون کے تحت عبرت ناک انجام تک پہنچانے کے لیے جرات مندانہ کوششیں کیں ، ان کے تجربات اور اپنے مشاہدات کی روشنی میں قیامت در قیامت کا شکار لوگ اب مزید پامالی کے لیے تیار نہیں ، اس لیے کہ وہ گہرا زخم سہہ کر بھی قانون کی مدد لینے کے بجائے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں ، جو ایک طرح سے انصاف اور قانون پر عدم اعتماد کا اظہار ہوتا ہے ، یہ صورت حال نئی نہیں ہے اور نہ ہی صرف جنسی زیادتیوں تک محدود ہے اس کا رنگ تمام مجرمانہ سر گرمیوں میں رنگا ہوا ہے ۔
جو جرائم رپورٹ ہوتے ہیں ان کے کئی پہلو ہوتے ہیں جو رپورٹ نہیں ہوتے ہیں اس کی بھی بے شمار وجوہات ہوتی ہیں ۔ یہ امر الگ تحقیق کا متقاضی ہے ۔سچ یہ ہے کہ کمزور غریب لوگ پولیس کو رپورٹ درج نہیں کراتے، ان کے نزدیک یہ مزید پریشانیوں کا باعث بن سکتا ہے جس میں عزت اور مزید مال کے ضیاع کا خطرہ ہے ، اگر ملزم با اثر ہے تو جان بھی جاسکتی ہے اس لیے بھی لوگ شکایت کرنے سے ڈرتے ہیں ، ایسا کیوں ہے ؟
یہی سوال آج بھی جواب طلب اور حل طلب ہے بار بار انصاف اور قانون کے سامنے یہ صورت حال آتی رہی ہے کہ متاثرہ عورت یا لڑکی آخر کیوں کر اپنے پہلے والے بیان اور رپورٹ سے مکر جاتی ہیں ؟ اور نامزد گرفتار ملزمان باعزت بری کردیے جاتے رہے ہیں اور آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا ؟ یہ ایسا سوال نہیں جس کا کوئی جواب نہ ہو ۔ اس سوال کا جواب اکثر ان الفاظ میں ملتا رہا ہے کہ پردہ اچھی چیز ہے اگر اس بات پر پردہ پڑا ہے تو ٹھیک ہے اس کو اچھالا نہ جائے ۔
خیال رہے کہ ایسا اکثر جنسی زیاد تی والے مقدمات میں کہا جاتا ہے اور مجبور و لاچار عورت و لڑکی یہ بیان دینے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ یا اسے مجبورکردیا جاتا ہے کہ اس کے ساتھ کسی نے جنسی زیادتی نہیں کی ہے جب کہ اس کی عزت لٹ چکی ہوتی ہے ۔ اس طرح عدالت اس کیس کو خارج کردیتی ہے، لیکن ایسے کیسوں کے بطن سے ابھرنے والے سوالات ایسے نہیں ہیں کہ جنھیں نظر انداز کیا جاسکے ۔ ایسا لگتا ہے کہ انصاف اور قانون کہیں بھٹک رہا ہے ۔
ہم سب کو علم ہے کہ ہمارے ملک میں کوئی بھی ایسا واقعہ رونما ہوجائے تو نتائج کیا برآمد ہوتے ہیں ؟ یہاں انصاف ملتا ہے اور نہ ہی اس کی توقع کی جاسکتی ہے، اس لیے متاثرہ شخص یا خاندان یہی کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ جو ہوگیا وہ کافی ہے ہم مزید اس معاملے کو اچھالنا نہیں چاہتے ۔اس طرح تمام تر اقدامات وکارروائی اس پردے کے پیچھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھپ جاتے ہیں، جس کے اٹھا دینے سے ایک درندہ صفت انسان کی اصل داستان بیان ہوجاتی مگر اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ کہیں پھر اس حوا کی بیٹی کی عزت مزید وکلاء کے قانونی ٹیکنیکل مگر ناشائستہ سوالات سے پامال نہ ہوجائے ۔
اس تناظر میں ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ کیا جنسی زیادتیوں والے کیسوں کے ٹرائل کے دوران اس طرح کے سوالات سے اجتناب برتا جائے یا کم از کم سوالات اس انداز سے کیے جائیں جن سے پامالی کا پہلو غالب نہ رہے ۔ کیا ایسا ممکن ہے ؟ قانون ہر فریق کو اپنی صفائی بیان کرنے کا پورا پورا حق دیتا ہے لیکن دلائل کے چمپئین اس حق کو بے ہودہ انداز میں استعمال کررہے ہوتے ہیں جسے سننے کے لیے کوئی غیرت مند تیار نہیں ہے کہ یہ عمل غیر تہذیبی ہے مگر چونکہ اس عمل کو آئینی و قانونی تحفظ حاصل ہے اس لیے بعض اوقات ایسی لغو باتیں جبری طور پر برداشت کرنا پڑتی ہیں ۔
دراصل اسی جارحانہ مرحلے سے محفوظ رہنے کے لیے غیرت مند لوگ جنسی زیادتیوں کی شکایت نہیں کرتے اور خاموشی کا زہر پی لیتے ہیں اور جہاں وہ پہلے سے مکین ہوتے ہیں زیادتی کے بعد اس علاقے کو بھی چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ معاشرہ بڑا ظالم ہے ، بھیڑیا نما یہ معاشرہ اس تاڑ میں رہتا ہے کہ جو بے عزت ہوجاتا ہے اس کی مزید بے عزتی کا سامان پیدا کیا جاسکے ۔ اس طرح لٹنے والے لٹنے کے بعد زندہ درگور ہوجاتے ہیں اور درندہ صفت انسان ایک اور شکار کی تلاش میں نکل جاتا ہے ایک اور جنسی زیادتی کی خبر شایع ہوجاتی ہے ۔مذمتی بیانات داغ دیے جاتے ہیں ، شور برپا کردیا جاتا ہے ، درندہ صفت گرفت میں آجاتا ہے ۔ ایک نئی کہانی ترتیب دی جاتی ہے ۔
مظلوم حوا کی بیٹی کو مزید رسوا کیا جاتا ہے، اگر وہ جرات و ہمت کرکے حصول انصاف کے لیے ان شیطانی ہتھکنڈوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوتی ہے تو ایسی سورمی ( بہادر) بہو ، بیٹیوں کو اس انداز سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کردیتے ہیں کہ یہ الزام بھی مظلوم متوفی کے سر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس طرح ان کی فائل داخل دفترکردی جاتی ہے اور درندہ ایک مرتبہ پھر اپنے شکارکے لیے روانہ ہوجاتا ہے تقریبا یہی کچھ ہمارے معاشرے میں ہوتا آرہا ہے.
لیکن یہاں سوال یہ کیا جارہا ہے کہ کیا ہمارے وکلاء حضرات جنسی زیادتیوں پرمبنی کیسوں کے دوران مہذب شریفانہ زبان استعمال کرنے کو تیار ہیں؟ کیا وہ متاثرہ خاندان کو عدالت اور عدالت کے باہر عزت کا تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دے سکتے ہیں ؟ کیا وہ اس میڈیا وار کا راستہ روک سکتے ہیں جو درندہ صفت انسانوں کی جانب سے پیسوں کے بل بوتے پر کسی متاثرہ حوا کی بیٹی کو بد چلن ثابت کرنے کے لیے چلائی جاتی ہے ؟ جب ایک وکیل اپنے دلائل سے پاک سر زمین حاصل کرسکتا ہے تو وہ کیا وجوہات ہیں کہ آج کے وکیل اپنے دلائل سے فرسودہ نظام کو ختم کرنے میں ناکام ہیں؟ متاثرین خاندانوں کے اس سوال کا جواب کون دے گا کہ یہاں انصاف ملتا ہے اور نہ ہی اس کی توقع ہے۔