کیفی اعظمی کی یاد میں
اس حقیقت سے انحراف ممکن ہی نہیں کہ حقیقی ادیب وشاعر ایک حساس انسان ہی ہو سکتا ہے۔
اس حقیقت سے انحراف ممکن ہی نہیں کہ حقیقی ادیب وشاعر ایک حساس انسان ہی ہو سکتا ہے، حساس بھی ایسا کہ جب وہ اپنے سماج میں جبر واستحصال، افلاس، بھوک، ننگ و عام آدمی کے مسائل دیکھے تو تڑپ اٹھے اور اس نا انصافی و عدم مساوات کے خلاف علم بغاوت بلند کردے، البتہ جب ہم ایک صدی قبل بھارت کے شہر اعظم گڑھ ضلع کے گاؤں میں 19 فروری 1919 کو سید فتح حسین کے گھر جنم لینے والے سید اظہر حسین رضوی المعروف کیفی اعظمی کے حالات زندگی پر ایک نظر ڈالیں، تو ان کی حساسیت کا یہ عالم ہے کہ عیدین کے موقع پر نئی پوشاک زیب تن کرنے سے اس لیے انکار کر دیتے ہیں کہ اس کے گاؤں کے غریب کسانوں کے بچوں کو نئے کپڑے دستیاب نہیں، البتہ کیفی اعظمی کا ادب سے لگاؤ کا یہ عالم ہے فقط 11 برس کی عمر میں ایک مشاعرے میں جس میں نامور شعرائے کرام موجود ہیں یہ غزل پڑھتے ہیں۔
مدت کے بعد اس نے جو الفت سے نظرکی
جی خوش تو ہوگیا مگر آنسو نکل پڑے
اک تم کہ تم کو فکر نشیب و فراز ہے
اک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے
اور خوب داد تحسین حاصل کرتے ہیں ، البتہ ان کے والد جوکہ خود بھی شاعر تھے ، اس شبے کا اظہار کرتے ہیں ان کے بیٹے نے شاید یہ غزل اپنے بڑے بھائی سے لکھوائی ہے اور اپنے نام سے پڑھی ہے ، البتہ کیفی اعظمی کے بڑے بھائی اس بات کی تصدیق کردیتے ہیں کہ کیفی نے جو غزل پڑھی ہے وہ ان کی اپنی تخلیق کردہ ہے۔ اس کے بعد کیفی اعظمی کے والد اپنے بیٹے کا امتحان لیتے ہیں اور ایک مصرع اپنے بیٹے کو لکھ کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں اگر ایسا ہے تو اس مصرع کو نہ صرف مکمل کرو بلکہ غزل لکھو۔ ہونہار فرزند مکمل غزل لکھ دیتے ہیں وہ غزل جب اپنے والد کو دکھاتے ہیں تو ان کے والد اپنے بیٹے کی شاعرانہ صلاحیتوں کے قائل ہوجاتے ہیں، بعدازاں یہ غزل اپنے وقت کی نامور ترین گائیکہ بیگم اختر گا کر اسے امر کردیتی ہیں۔ کیفی اعظمی نے اردو، فارسی و عربی کی تعلیم حاصل کی اور ان تینوں زبانوں پر مکمل عبور رکھتے تھے۔
1941 میں وہ کانپور تشریف لے گئے جہاں مزدور تحریک زوروں پر تھی کیفی اعظمی بھی اس مزدور تحریک کا حصہ بن گئے اور ایک سرگرم کارکن ثابت ہوئے۔ کانپور میں ہی انھوں نے مارکس ازم کا مطالعہ کیا اور 1943 میں سید سجاد ظہیر و سردار جعفری کی دعوت پر بمبئی تشریف لے گئے اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے کل وقتی کارکن کی حیثیت سے سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں اور ساتھ میں ہندوستان بھر کے ادبی مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے ، البتہ 1947 میں ایک مشاعرے کے دوران کیفی اعظمی کی ملاقات شوکت نامی خاتون سے ہوگئی اور دونوں ہی ایک دوسرے کی الفت میں گرفتار ہوگئے اور اسی برس ان دونوں نے شادی بھی کرلی۔ شوکت نے فلمی دنیا میں بھی قدم رکھا اور پرانی فلم امراؤ جان ادا میں نائیکہ کا کردار بحسن و خوبی ادا کیا جب کہ اس فلم میں مرکزی کردار ریکھا نے ادا کیا تھا۔
1950 میں شبانہ اعظمی نے ان کے ہاں جنم لیا یہ شبانہ اعظمی بعدازاں بھارت کی نامور ترین اداکارہ ثابت ہوئیں اور سیکڑوں بھارتی فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے جب کہ بابا اعظمی کیفی اعظمی کی دوسری اولاد ہیں جوکہ ایک ماہر ترین کیمرہ مین ہیں اور انڈین فلم انڈسٹری میں اپنے فن کے جوہر خوب دکھا رہے ہیں ۔کیفی اعظمی کو نظم کا شاعر بھی کہا جاتا ہے مگر صداقت یہ ہے کہ انھوں نے مضامین بھی لکھے اور خوب لکھے وہ خواجہ احمد عباس کے اخبار بلٹنز کے اردو ایڈیشن کے لیے بھی لکھتے رہے،'' میری آواز سنو'' میں بھی لکھتے رہے۔ کیفی اعظمی نے 1952 میں عصمت چغتائی کی تحریر کردہ کہانی پر مبنی فلم ''بزدل'' کے گیت لکھے۔
اس فلم کی ہدایات عظمت چغتائی کے شوہر شاہد لطیف نے دیں جب کہ 1956 میں یہودی کی بیٹی 1957 میں پروین 1958 میں پنجاب میل اور عید کا چاند جیسی شاہکار فلمیں اپنے زور قلم سے تحریر کیں جب کہ جب بمل رائے و خواجہ حمد عباس نے نئے سینما کی بنیاد رکھی تو کیفی اعظمی ان شعرا میں شامل تھے، جنھوں نے فلمی شاعری کا انداز ہی بدل ڈال،ا یعنی کیفی اعظمی جان نثار اختر، ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری وہ حضرات تھے جنھوں نے بھارتی فلم انڈسٹری میں انقلابی مزاحمتی و جدوجہدی شاعری جوکہ عوامی شاعری کہلاتی ہے متعارف کرائی جب کہ اس سے قبل انڈین فلم انڈسٹری میں رومانوی شاعری ہی کا راج تھا چنانچہ کیفی اعظمی نے اپنا فنی سفر جاری رکھتے ہوئے 1970 میں ہیر رانجھا کے گیت و اسکرپٹ لکھا۔
1973 میں گرم ہوا 1976 میں شیام بینگل کی فلم منتھن لکھی اس کے علاوہ کاغذ کے پھول، کہرا، انوپما اس کی کہانی ، پاکیزہ، ہنستے زخم، ارتھ، رضیہ سلطان، سات ہندوستانی، شعلے، اور شبنم، باورچی اور نسیم جیسی فلم کے گیتوں کے تخلیق ہونے کا شرف حاصل کیا، جب کہ فلم نسیم جوکہ بابری مسجد کے انہدام کے پس منظر میں لکھی گئی تھی اس فلم کی کہانی لکھنے کے ساتھ ساتھ اس فلم میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ یہ فلم کے مرکزی کردار نسیم کے دادا کا کردار تھا جوکہ ایک بچی نسیم کے دادا ہوتا ہے اور بابری مسجد کے انہدام کا صدمہ برداشت نہیں کر پاتا اور وفات پا جاتا ہے ۔
کیفی اعظمی کے شاعری کے مجموعے بھی شایع ہوئے ان میں آخر شب، سرمایہ، سجدہ، آوارہ، کیفیات اور نئے گلستان وغیرہ قابل ذکر ہیں ان کی مشہور نظموں کے نام یہ ہیں عورت، مکان، دائرہ، سانپ اور بہروپنی سرفہرست ہیں۔ کیفی اعظمی دم آخر اپنے ترقی پسند نظریات پر قائم رہے گوکہ جب ان کی عمر عزیز فقط پچاس برس کے قریب تھی ان پر فالج کا حملہ ہوا ممکن تھا کہ اس کیفیت میں وہ اپنے گھر میں آرام کرنے کو ترجیح دیتے انھوں نے جبر کے خلاف اپنی آواز بلند رکھی ، البتہ ایک بار ان کی بیٹی شبانہ اعظمی نے ان سے دریافت کیا بابا! آپ نے اور آپ کے دیگر ترقی پسند ساتھیوں نے پوری پوری عمریں انقلابی جدوجہد میں گزار دیں مگر سماج میں کوئی تبدیلی تو نہیں آئی؟
تو کیفی اعظمی نے اپنی بیٹی کو جواب دیا کہ'' انسان کو اس یقین کے ساتھ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے کہ تبدیلی ضرور آئے گی اور وہ تبدیلی آئے گی ہماری زندگی میں آئے یا ہمارے مرنے کے بعد آئے گی۔'' کیفی اعظمی کے الفاظ گویا لینن کے اس قول کی تشریح تھے جس میں لینن نے کہا تھا کہ'' تم انقلابی جدوجہد اس یقین کے ساتھ کرتے رہو کہ انقلاب ضرور آئے گا پانچ دس یا بیس برس میں یا ممکن ہے تمہاری زندگی میں بھی نہ آئے مگر یقین رکھو انقلاب آئے گا'' ضرور یہ ضرور ہے کہ ساٹھ برس تک سامراجی قوتوں سے نبرد آزما رہنے والے جنھیں سامراجی قوتیں شکست سے دوچار نہ کرسکیں۔
بالآخر دس مئی 2002 کو موت سے شکست کھا گئے البتہ اس سے قطع نظر اس برس ان کی صد سالہ پیدائش کے سلسلے میں تقریبات کا آغاز ہوچکا ہے، اس سلسلے میں کراچی آرٹس کونسل میں بھی 23 و 24 فروری 2018 کو شاندار تقریبات ہوں گی۔ ان تقریبات میں شبانہ اعظمی و ان کے شوہر جاوید اختر نے بھی شرکت کرنا تھی مگر بھارت کے مخصوص سیاسی حالات کے باعث ان دونوں نے کراچی آنے سے معذرت کرلی ہے گویا اب وہ کراچی تشریف نہیں لا رہے یقینا یہ امر قابل افسوس ہے بہرکیف کیفی اعظمی کے صد سالہ یوم پیدائش کے موقعے پر ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ حقوق کے حصول تک عدم مساوات کے خاتمے تک بھوک ننگ جہالت کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی ،آخر میں کیفی اعظمی کے چند اشعار:
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
تم بھی اٹھو تم بھی اٹھو میں بھی اٹھوں
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
اگر ملک میں کہیں فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوتے تو وہ فرماتے:
سوکھتی ہے پڑوسیوں سے جاں
دوستوں پر قاتلوں کا گماں
لوگ گھر سے نکلتے ڈرتے ہیں
راستے سائیں سائیں کرتے ہیں
مدت کے بعد اس نے جو الفت سے نظرکی
جی خوش تو ہوگیا مگر آنسو نکل پڑے
اک تم کہ تم کو فکر نشیب و فراز ہے
اک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے
اور خوب داد تحسین حاصل کرتے ہیں ، البتہ ان کے والد جوکہ خود بھی شاعر تھے ، اس شبے کا اظہار کرتے ہیں ان کے بیٹے نے شاید یہ غزل اپنے بڑے بھائی سے لکھوائی ہے اور اپنے نام سے پڑھی ہے ، البتہ کیفی اعظمی کے بڑے بھائی اس بات کی تصدیق کردیتے ہیں کہ کیفی نے جو غزل پڑھی ہے وہ ان کی اپنی تخلیق کردہ ہے۔ اس کے بعد کیفی اعظمی کے والد اپنے بیٹے کا امتحان لیتے ہیں اور ایک مصرع اپنے بیٹے کو لکھ کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں اگر ایسا ہے تو اس مصرع کو نہ صرف مکمل کرو بلکہ غزل لکھو۔ ہونہار فرزند مکمل غزل لکھ دیتے ہیں وہ غزل جب اپنے والد کو دکھاتے ہیں تو ان کے والد اپنے بیٹے کی شاعرانہ صلاحیتوں کے قائل ہوجاتے ہیں، بعدازاں یہ غزل اپنے وقت کی نامور ترین گائیکہ بیگم اختر گا کر اسے امر کردیتی ہیں۔ کیفی اعظمی نے اردو، فارسی و عربی کی تعلیم حاصل کی اور ان تینوں زبانوں پر مکمل عبور رکھتے تھے۔
1941 میں وہ کانپور تشریف لے گئے جہاں مزدور تحریک زوروں پر تھی کیفی اعظمی بھی اس مزدور تحریک کا حصہ بن گئے اور ایک سرگرم کارکن ثابت ہوئے۔ کانپور میں ہی انھوں نے مارکس ازم کا مطالعہ کیا اور 1943 میں سید سجاد ظہیر و سردار جعفری کی دعوت پر بمبئی تشریف لے گئے اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے کل وقتی کارکن کی حیثیت سے سیاسی سرگرمیاں شروع کردیں اور ساتھ میں ہندوستان بھر کے ادبی مشاعروں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے ، البتہ 1947 میں ایک مشاعرے کے دوران کیفی اعظمی کی ملاقات شوکت نامی خاتون سے ہوگئی اور دونوں ہی ایک دوسرے کی الفت میں گرفتار ہوگئے اور اسی برس ان دونوں نے شادی بھی کرلی۔ شوکت نے فلمی دنیا میں بھی قدم رکھا اور پرانی فلم امراؤ جان ادا میں نائیکہ کا کردار بحسن و خوبی ادا کیا جب کہ اس فلم میں مرکزی کردار ریکھا نے ادا کیا تھا۔
1950 میں شبانہ اعظمی نے ان کے ہاں جنم لیا یہ شبانہ اعظمی بعدازاں بھارت کی نامور ترین اداکارہ ثابت ہوئیں اور سیکڑوں بھارتی فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے جب کہ بابا اعظمی کیفی اعظمی کی دوسری اولاد ہیں جوکہ ایک ماہر ترین کیمرہ مین ہیں اور انڈین فلم انڈسٹری میں اپنے فن کے جوہر خوب دکھا رہے ہیں ۔کیفی اعظمی کو نظم کا شاعر بھی کہا جاتا ہے مگر صداقت یہ ہے کہ انھوں نے مضامین بھی لکھے اور خوب لکھے وہ خواجہ احمد عباس کے اخبار بلٹنز کے اردو ایڈیشن کے لیے بھی لکھتے رہے،'' میری آواز سنو'' میں بھی لکھتے رہے۔ کیفی اعظمی نے 1952 میں عصمت چغتائی کی تحریر کردہ کہانی پر مبنی فلم ''بزدل'' کے گیت لکھے۔
اس فلم کی ہدایات عظمت چغتائی کے شوہر شاہد لطیف نے دیں جب کہ 1956 میں یہودی کی بیٹی 1957 میں پروین 1958 میں پنجاب میل اور عید کا چاند جیسی شاہکار فلمیں اپنے زور قلم سے تحریر کیں جب کہ جب بمل رائے و خواجہ حمد عباس نے نئے سینما کی بنیاد رکھی تو کیفی اعظمی ان شعرا میں شامل تھے، جنھوں نے فلمی شاعری کا انداز ہی بدل ڈال،ا یعنی کیفی اعظمی جان نثار اختر، ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری وہ حضرات تھے جنھوں نے بھارتی فلم انڈسٹری میں انقلابی مزاحمتی و جدوجہدی شاعری جوکہ عوامی شاعری کہلاتی ہے متعارف کرائی جب کہ اس سے قبل انڈین فلم انڈسٹری میں رومانوی شاعری ہی کا راج تھا چنانچہ کیفی اعظمی نے اپنا فنی سفر جاری رکھتے ہوئے 1970 میں ہیر رانجھا کے گیت و اسکرپٹ لکھا۔
1973 میں گرم ہوا 1976 میں شیام بینگل کی فلم منتھن لکھی اس کے علاوہ کاغذ کے پھول، کہرا، انوپما اس کی کہانی ، پاکیزہ، ہنستے زخم، ارتھ، رضیہ سلطان، سات ہندوستانی، شعلے، اور شبنم، باورچی اور نسیم جیسی فلم کے گیتوں کے تخلیق ہونے کا شرف حاصل کیا، جب کہ فلم نسیم جوکہ بابری مسجد کے انہدام کے پس منظر میں لکھی گئی تھی اس فلم کی کہانی لکھنے کے ساتھ ساتھ اس فلم میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ یہ فلم کے مرکزی کردار نسیم کے دادا کا کردار تھا جوکہ ایک بچی نسیم کے دادا ہوتا ہے اور بابری مسجد کے انہدام کا صدمہ برداشت نہیں کر پاتا اور وفات پا جاتا ہے ۔
کیفی اعظمی کے شاعری کے مجموعے بھی شایع ہوئے ان میں آخر شب، سرمایہ، سجدہ، آوارہ، کیفیات اور نئے گلستان وغیرہ قابل ذکر ہیں ان کی مشہور نظموں کے نام یہ ہیں عورت، مکان، دائرہ، سانپ اور بہروپنی سرفہرست ہیں۔ کیفی اعظمی دم آخر اپنے ترقی پسند نظریات پر قائم رہے گوکہ جب ان کی عمر عزیز فقط پچاس برس کے قریب تھی ان پر فالج کا حملہ ہوا ممکن تھا کہ اس کیفیت میں وہ اپنے گھر میں آرام کرنے کو ترجیح دیتے انھوں نے جبر کے خلاف اپنی آواز بلند رکھی ، البتہ ایک بار ان کی بیٹی شبانہ اعظمی نے ان سے دریافت کیا بابا! آپ نے اور آپ کے دیگر ترقی پسند ساتھیوں نے پوری پوری عمریں انقلابی جدوجہد میں گزار دیں مگر سماج میں کوئی تبدیلی تو نہیں آئی؟
تو کیفی اعظمی نے اپنی بیٹی کو جواب دیا کہ'' انسان کو اس یقین کے ساتھ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے کہ تبدیلی ضرور آئے گی اور وہ تبدیلی آئے گی ہماری زندگی میں آئے یا ہمارے مرنے کے بعد آئے گی۔'' کیفی اعظمی کے الفاظ گویا لینن کے اس قول کی تشریح تھے جس میں لینن نے کہا تھا کہ'' تم انقلابی جدوجہد اس یقین کے ساتھ کرتے رہو کہ انقلاب ضرور آئے گا پانچ دس یا بیس برس میں یا ممکن ہے تمہاری زندگی میں بھی نہ آئے مگر یقین رکھو انقلاب آئے گا'' ضرور یہ ضرور ہے کہ ساٹھ برس تک سامراجی قوتوں سے نبرد آزما رہنے والے جنھیں سامراجی قوتیں شکست سے دوچار نہ کرسکیں۔
بالآخر دس مئی 2002 کو موت سے شکست کھا گئے البتہ اس سے قطع نظر اس برس ان کی صد سالہ پیدائش کے سلسلے میں تقریبات کا آغاز ہوچکا ہے، اس سلسلے میں کراچی آرٹس کونسل میں بھی 23 و 24 فروری 2018 کو شاندار تقریبات ہوں گی۔ ان تقریبات میں شبانہ اعظمی و ان کے شوہر جاوید اختر نے بھی شرکت کرنا تھی مگر بھارت کے مخصوص سیاسی حالات کے باعث ان دونوں نے کراچی آنے سے معذرت کرلی ہے گویا اب وہ کراچی تشریف نہیں لا رہے یقینا یہ امر قابل افسوس ہے بہرکیف کیفی اعظمی کے صد سالہ یوم پیدائش کے موقعے پر ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ حقوق کے حصول تک عدم مساوات کے خاتمے تک بھوک ننگ جہالت کے خلاف جدوجہد جاری رہے گی ،آخر میں کیفی اعظمی کے چند اشعار:
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
تم بھی اٹھو تم بھی اٹھو میں بھی اٹھوں
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
اگر ملک میں کہیں فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوتے تو وہ فرماتے:
سوکھتی ہے پڑوسیوں سے جاں
دوستوں پر قاتلوں کا گماں
لوگ گھر سے نکلتے ڈرتے ہیں
راستے سائیں سائیں کرتے ہیں