ڈاکٹری کا سفر ہڑتالیں اور سندھ حکومت
ایسے بھی ڈاکٹر بے انتہا ہیں جو غریب مریضوں کا احساس کرتے ہیں اور ان کو مفت دوائیں دیتے ہیں۔
ان تین حروف ع،ل اور م یعنی علم پورے عالم پر ہے چھایا ہوا۔ لہٰذا اس کی کوئی بھی شاخ انسان چن لے یہ اس کی مرضی اور بصیرت ہے۔ رہ گیا فن تو وہ انھی شاخوں کا تراشیدہ ثمر مگر آج موضوع گفتگو صرف طب اور فن جراحت ہے۔ جس کو آج عرف عام میں ڈاکٹری کہا جاتا ہے مگر حکومت پاکستان کو چاہیے تھا کہ کبھی اس نکتے پر غور کرتی کہ اس بجٹ پر نظرثانی کرے۔ یہ وہ شعبہ ہے جو آگہی اور شعور کا خالق ہے۔ لہٰذا پیداوار، دفاع کی وسعت میں اضافہ اسی کا مرہون منت ہے۔ مگر ہمارے احوال زریں کچھ یوں کہ کمترین اہمیت اسی کو دی جاتی ہے۔
ہماری جی ڈی پی کا کل 2.5 فیصد ہی اس کا مقدر ہے اور یہ شعبہ کمزور ترین ہے۔ لہٰذا صاحبان ثروت نے اس خلا کو پر کرنے کے لیے اس شعبے میں ہاتھ ڈال کر چند قدم چلنے کی سکت بخشی مگر معاشی پہلو کو انھوں نے بھی مدنظر رکھا کیونکہ خطیر رقم کے زیاں کا اس میں خطرہ تھا۔ لہٰذا انھوں نے ایسے پہلو بچا کر میڈیکل کالجوں کی بنیاد ڈالنی شروع کی لہٰذا اب ہر صوبے میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی بھرمار ہے جن کی فیسیں خاصی بلند ہیں اور وہاں نسبتاً کم مارکس والے طلبا داخلہ لیتے ہیں مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کم نمبروں والے طلبا اور طالبات کم ذہین ہیں فوری طور پر کسی عمل کا یہ طریقہ کار کا تعلق نمبروں سے نہیں فیصلے کی گھڑی کیا ہے؟
آپریشن کے حالات کیا جسم کس قدر مشکلات اٹھانے کے قابل ہے یہ سب ذہانت کے امور ہیں۔ مجھے ایسے بہت سے ڈاکٹروں کا علم ہے جو مارکس شیٹ کے اعتبار سے اتنے اعلیٰ نہ تھے مگر اپنے کلینک پر اژدھام میں یکتائے روزگار تھے۔ ان لوگوں کا تذکرہ اس وقت کرنا مناسب نہیں مگر جوانی وہاں کے اسٹوڈنٹس لیڈروں کے ساتھ ہی آزمائشیں دار و رسن سے گزرنا ہوا لہٰذا ڈاکٹروں کے معاشی حالات پر نگاہ بھی رہی۔ لہٰذا موجودہ حالات میں اس پروفیشن کی رہگزر پر چلنا بھی اردو کے نامور شاعر خواجہ حیدر علی آتش کا کہنا بہت درست نظر آتا ہے:
گل مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے
آئیے گل مراد تک پہنچنے کے لیے کن کن کھٹنائیوں سے گزرنا پڑتا ہے چلیے اس سفر پر ایک نظر ڈالتے چلیں۔ میٹرک سے انٹر تک 12 سال کا سفر امتحانات اور دیگر معاملات داخلہ وغیرہ ملا کر عموماً 13 برس گزرے بشرطیکہ طالب علم ہر برس باقاعدگی سے پاس ہوتا رہے۔ اس کے بعد ایم بی بی ایس کے 5/5 برس، اگر ایم بی بی ایس کے بعد والدین یا خود اسٹوڈنٹ تھک جائے اور معاشی وجوہات پر تو پھر وہ کلینک چلانے کا مجاز ہوگا۔ گویا وہ 24 یا 25 کا ہونے کے بعد بھی بمشکل پریکٹس کے قابل ہوا اور اگر اس مرد یا عورت نے ایف سی پی ایس کی شاہراہ پر قدم رکھا تو پھر سنیے کیونکہ اب عام ایم بی بی ایس کا سفر بھی اپنی اہمیت کھو چکا ہے لہٰذا ایف سی پی ایس کی راہ پر چلنا ضروری ہوگیا ہے اس کے بھی کم ازکم 2 برس کی تعلیم اور چار سال کی ریزی ڈینسی یعنی 7 سال مزید جب کہ مختلف وجوہات کی بنا پر مزید 8 سال۔ گویا اب اسٹوڈنٹ 28 یا 30 برس کا ہوگیا اور ریزی ڈینسی پھر اس ریزی ڈینسی کی مشکلات دیکھیے ملازمت ملتی بھی ہے یا نہیں۔ بعض پرائیویٹ اداروں میں تو برائے نام اعزازیہ ملتا ہے بعض حالات میں ڈاکٹر کو مفت ہی کام کرنا پڑتا ہے اور وہ دل ہی دل میں گنگناتا ہے ''چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی''
ریزی ڈینسی کے حالات اس قدر پرخطر ہیں کہ جس کو بیان کرنا آسان نہیں خصوصاً سندھ کے کیونکہ اگر ڈاکٹر ریزی ڈینسی ٹھکرا دے تو اس کے ماضی کے 30 برس جیسے برباد ہوگئے لہٰذا اکثر و بیشتر جب کبھی بھی ڈاکٹروں کی ہڑتالیں ہوتی ہیں تو وہ بھی نوجوان ڈاکٹروں کی تنظیم کی جانب سے۔ پنجاب کے ڈاکٹروں نے سب سے زیادہ ہڑتالیں کیں اور اپنی معاشی صورتحال بہتر بنائی اور سندھ میں سب سے کم ہڑتالیں کی گئیں حالانکہ ان کا پیکیج بھی سب سے خستہ تھا۔ سندھ کے ڈاکٹروں کو یہ بھی احساس ہے کہ شہر کراچی کے 70 فیصد رہائشی ہاتھ سے کماتے ہیں اور نوالا منھ تک بھی بہت کم جاتا ہے لہٰذا ڈاکٹروں کو بے درد اور ظالم کہنا بھی غیر انسانی ہے۔
ایسے بھی ڈاکٹر بے انتہا ہیں جو غریب مریضوں کا احساس کرتے ہیں اور ان کو مفت دوائیں دیتے ہیں۔ مگر عام پرائیویٹ اسپتالوں میں رحم کا کوئی شعبہ نہیں کیونکہ گورنمنٹ سیکٹر سے پبلک سیکٹر کے لیے اس قدر حقیر رقم رکھی گئی ہے کہ دنیا کے سامنے یہاں کے لیڈران نمایاں نہیں کرسکتے۔ ذرا دیکھیے تقریباً 21 کروڑ کی آبادی کے لیے ایک فیصد بھی نہیں صرف 0.8 فیصد بلند کرسیوں اور حفاظتی حصار میں بیٹھے سیاست دان عام آدمی کو آم سمجھ کر چوس رہے ہیں۔
اور سہانے خوابوں کی داستانیں ہیں ان کے لیے اگر آج حکومت معاشی دلدل میں ہے اور نکلنا چاہتی ہے تو اس نے جیسا ڈاکٹروں کی ہڑتالوں پر رویہ اختیار کیا وہ قابل تحسین ہے۔ یہ رویہ ایسا ہی ہے جس کو محترمہ شہید بے نظیر کے احکامات سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے کیونکہ نہ ڈاکٹروں پر لاٹھی چلی نہ دھواں اٹھا اور بیرسٹر مرتضیٰ وہاب کی واضح اور منطقی گفتگو نے مسئلہ فوری طور پر حل کردیا ایسا لگتا ہے کہ خاندانی طور پر ان میں سیاسی اور سماجی افکار اور انسان دوستی اپنے خاندان سے آئی ہے۔
ان کے والد وہاب صدیقی خود ایک بہادر عوام دوست انسان تھے ان کی والدہ یونیورسٹی کی گراں قدر اسٹوڈنٹ تھیں اور پیپلز پارٹی کی لیڈروں میں سے ایک تھیں۔ خود مرتضیٰ وہاب ایک تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جنھوں نے وکالت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی اور سماجی علوم پر ان کا مطالعہ اس ہڑتال کو ختم کرانے میں کامیاب رہا۔ کراچی شہر پر آبادی کا جو دباؤ بڑھ رہا ہے مزید امکانات بڑھ رہے ہیں کیونکہ معاشی صورتحال پر مرکزی حکومت کی توجہ بہت کم ہے لہٰذا کراچی پر تمام صوبوں سے آبادی کا انخلا ہو رہا ہے عام آدمی کو پانی اور بجلی و گیس کی ترسیل پوری نہیں کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی سندھ حکومت کا اول چیلنج ہے اس پر پی پی کی نوجوان قیادت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
کرنسی دباؤ میں آگئی ہے۔ لہٰذا حکومت سندھ کو بھی چھوٹے درجے کے ملازمین کی تنخواہوں کو بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ اور کوٹہ سسٹم کے خاتمے کی ضرورت ہے تاکہ سندھ میں کوئی نسلی رنجش کبھی پیدا نہ ہو۔ سندھ کا کلچر صوفیوں اور درویشوں کا کلچر ہے یہاں نفاق کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسی لیے عوام کو تقسیم کرنے کی ہر کوشش سندھ میں ناکام ہوئی ہے۔ سندھی اردو سنگت اور اسی قسم کی تحریک عوام دوست رہی ہے۔ سندھ حکومت کے لیڈران اور پارٹی چیئرمین سے گزارش ہے کہ پیپلز پارٹی کو فعال کرنے کی ضرورت ہے وقار مہدی، مسرور احسن اور بیرسٹر مرتضیٰ وہاب جیسے سیاسی اور سماجی لیڈروں کو سرفہرست لایا جائے اور عوامی مسائل کو خصوصاً کراچی میں پانی کے مسئلے کو حل کرنا ہوگا۔
بصورت دیگر مستقبل کے منصوبے خواب بن جائیں گے اس کے علاوہ ایم کیو ایم سے جو روابط محترمہ شہید نے جوڑے تھے ان کو دوبارہ اسی نہج پر لانا ہوگا۔ کراچی میں غریب اور متوسط طبقے کے لیے بحریہ ٹاؤن کے گرد و نواح میں نئی بستیوں کا قیام اور کراچی میں ٹرانسپورٹ کا جدید نظام کی آمد، ورنہ چند انتخابات کے بعد سندھ پر دوسرے صوبوں کے لیڈروں کی حکومت ہوگی۔