تقویٰ اور تزکیہ

کیا میرا یقین عظمت الٰہی پہ ہے یا میرا طریقہ وہی ہے جو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا۔


کیا میرا یقین عظمت الٰہی پہ ہے یا میرا طریقہ وہی ہے جو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا۔ فوٹو: فائل

DHAKA: جب بندے کو ذات باری سے قربت حاصل ہو تو اس کا ایک رشتہ اور تعلق بن جاتا ہے جو اللہ کو بہت پیارا ہے۔ جس کے لیے نبی مبعوث کئے گئے کہ میرا بندہ بہ راہ راست مجھ سے بات کرے' میری پسند مجھ سے پوچھے' میری پسند کے مطابق عمل کرے۔ اسے تقویٰ کہتے ہیں۔

ہمارے ہاں تقویٰ کا ترجمہ ڈر کر دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرے۔ ڈر یہ مفہوم ادا نہیں کرتا۔ ڈر تو دشمن کا بھی ہوتا ہے' کسی ایذا دینے والے جانور کا بھی ہوتا ہے' بیماری سے بھی ڈر لگتا ہے' ڈر تو اندھیرے سے بھی آتا ہے' چور ڈاکو سے بھی ڈر لگتا ہے۔ تقویٰ ایسا ڈر نہیں ہے۔ ہمارے تعلقات' دوستیاں یا رشتے ہیں۔ جب کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو ہم یہ سوچتے ہیں کہ اس سے ہمارے بزرگ' والد' دوست یا برادری کے لوگ ناراض تو نہیں ہوں گے۔

اگر ان کی پسند کے خلاف ہو تو ہم وہ کام نہیں کرتے۔ جب بندے کا رب العالمین سے تعلق قائم ہو جائے' اسے اللہ پر اعتبار آجائے کہ میرا رب ہے' میرا مالک ہے' میرا اس کے ساتھ تعلق ہے تو ہر کام کرتے وقت اسے یہ خیال آتا ہے کہ اس سے اللہ کریم ناراض تو نہیں ہوں گے۔ اگر ہوجائے تو اس پر بڑی دیر تک افسوس کرتا ہے' توبہ کرتا ہے' اللہ سے معافی چاہتا ہے کہ میں انسان ہوں' مجھ سے خطا ہوگئی' اللہ کریم معاف کر دے۔ گناہ مزا نہیں دیتا بل کہ گناہ کڑوا لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ تقویٰ یہ احساس ہے کہ میرا اللہ کے ساتھ تعلق ہے اور میں وہ کام نہ کروں جس سے اس تعلق میں فرق آئے۔

رسول اللہ ﷺ نے ہر امتی کو یہ نعمت عطا کی کہ دن میں پانچ مرتبہ حضور حق حاضر ہو اور اپنا درد دل بیان کرے' اپنا دکھ سکھ بیان کرے' اس کی عظمت کا اقرار کرے، اس کی بارگاہ میں سر بہ سجود ہو۔ حضور ﷺ نے فرمایا: نمازی کے آگے سے مت گزرو کہ وہ اپنے رب سے سرگوشیاں کر رہا ہے۔ جس نے اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر ہاتھ باندھ لیے اور اللہ سے بات شروع کی' اس نے تو دونوں جہان سے ہاتھ اٹھا لیے۔ وہ رب الٰعٰلمین سے سرگوشیوں میں اپنا درد دل کہہ رہا ہے۔ جو رب بھی ہو ' مالک بھی ہو' کریم بھی ہو اور دن میں پانچ مرتبہ اس کی بارگاہ میں حاضری بھی دی جائے' اس کے سامنے سر بہ سجود بھی ہوا جائے' رکوع اور قیام بھی کیا جائے تو ایک تعلق بن جاتا ہے۔

اگر پھر بھی تعلق نہ بنے تو بندے کو سوچنا یہ ہو گا کہ میری یہ عبادت ہے بھی یا نہیں؟ کیا میرا یقین عظمت الٰہی پہ ہے یا میرا طریقہ وہی ہے جو حضور اکرم ﷺ نے فرمایا۔ ان میں سے کوئی بھی بات حضور ﷺ کے طریقے کے مطابق نہیں ہوگی تو اثر نہیں کرے گی۔ دل ساتھ نہیں ہو گا' دل میں وہ درد نہیں ہوگا تو اثر نہیں کرے گی۔ آخرت پر' عظمت الٰہی پر' رسالت پر یقین محکم نہیں ہوگا' تو اثر نہیں ہوگا۔ اگر ہم نماز بھی پنج گانہ پڑھتے ہیں اور پھر جھوٹ بولتے ہیں' لین دین میں بددیانتی کرتے ہیں' لوگوں کا مال کھا جاتے ہیں' عزتیں لوٹتے ہیں' قتل کرتے ہیں' خون ریزی کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ عبادت نہیں ہے۔ اس میں کہیں ایمان میں یا خلوص میں یا اتباع سنت میں کمی ہے۔ یہ تینوں چیزیں ضروری ہیں۔

ایمان و یقین بھی ہو' خلوص دل بھی ہو اور اتباع سنت بھی ہو۔ تو ایک ڈر پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں میں نے یہ بات کہی یا یہ کام کیا تو میرا محبوب ناراض نہ ہو جائے۔ اللہ کو محبوب بنا لینا اور پھر اس کی ناراضی سے ڈرنا ہی تقویٰ ہے۔ تعلق قائم ہو جائے اور پھر اس کے ٹوٹنے کا ڈر ہو کہ اگر میں نے یہ کام کیا تو اس میں بال آ جائے گا' ٹوٹ جائے گا تو یہی تقویٰ ہے۔ خدا کرے محبتوں کے یہ رشتے کبھی نہ ٹوٹیں۔ یہ اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ دو جہان بھی ایک پلڑے میں رکھ دو تو خرید نہیں سکتے لیکن یہ اتنے نازک ہوتے ہیں کہ ان میں بال آ جائے تو پھر جوڑنا مشکل ہوتا ہے۔

محبت کے رشتے کو توڑا نہیں کرتے' نباہا کرتے ہیں۔ یہاں رب العٰلمین یہی بات فرما رہا ہے' جو توڑنے سے ڈرے' توڑے نہیں' تکلیف میں' آرام میں' دولت و سلطنت ہو تو بھی نباہے۔ حکم ران بن جائے تو بھی اسے یاد ہو کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اللہ میرا محبوب ہے' مجھے اس کی مرضی کے مطابق حکم رانی کرنا ہے۔ جیل کی کوٹھڑی میں موت کا قیدی ہو تو بھی اسے پتا ہو کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور مجھے اس کے ساتھ عہد نباہنا ہے۔ جس نے اللہ سے تعلق قائم کرلیا اور اس تعلق کو توڑنے سے ڈرتا ہو۔ اللہ یحب المتقین ایسے لوگوں سے اللہ محبت کرتا ہے۔ وہ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں۔

تزکیہ دین کی بنیاد ہے اور اللہ سے تعلق' دل کے اندر کی سوچ اور آرزؤں کی پاکیزگی کا نام تزکیہ ہے۔ بندے سے بڑی خطائیں ہوں گی' بہ حیثیت انسان بڑے گناہ ہوں گے۔ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ بارگاہ الوہیت میں ایک بندہ ایسا پیش ہوگا جس کے گناہوں نے زمین اور آسمانوں کو بھر دیا ہوگا لیکن اس کا کوئی ایک کلمۂ خیر اللہ کو مقبول ہوگا تو اللہ ایک کلمے کے صدقے اس کے سارے گناہ معاف کر دے گا۔ جس کی ایک تسبیح قبول ہوگئی' اَللّٰہُ اَکْبَرُ بھی تسبیح ہے' سُبْحَانَ اللّٰہِ بھی تسبیح ہے' سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم بھی تسبیح ہے' سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی بھی تسبیح ہے' بسم اللہ بھی تسبیح ہے۔ حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ زندگی میں جس کی ایک تسبیح قبول ہوگئی تو اس کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے' دوزخ میں نہیں جائے گا لیکن یہ گناہ نہ ہو کہ اللہ کے رشتے کو بیچ کھایا اور اللہ کے ساتھ شرک کیا ہو۔ یہ اتنا عظیم جرم ہے۔

ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کے عہد کو دنیا کی دولت کے لالچ میں بیچ کھاتے ہیں۔ اگر کوئی یہ جرم کرے گا تو سن لے! آخرت میں' ابدی زندگی میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہوگا' نہ ہی اللہ اس سے کلام فرمائے گا' نہ ہی اللہ اس پر رحم و کرم کی نظر فرمائے گا' نہ اسے اس جرم سے پاکیزگی عطا ہوگی بل کہ اسے صرف عذاب نہیں ہوگا' اسے دردناک عذاب ہوگا۔

اللہ کریم معاف فرمائے' اللہ کریم اپنی نافرمانی سے' گناہوں سے محفوظ رکھے' نیکی کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی ذات اور اپنے حبیب ﷺ کے ساتھ رشتۂ محبت استوار فرمائے۔ آمین!

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں