میرا پیارا کلفٹن مجھے لوٹا دو

نا صرف شہرکراچی بلکہ پورے ملک سے آنے والے سیاحوں کی توجہ و تفریح کا مرکز ہے۔


مونا خان February 23, 2019

ادب کی بات ہے ورنہ منیر سوچو تو

جو شخص سنتا ہے وہ بول بھی تو سکتا ہے

بات کریں، اگر عْروس البلاد کے مضافات میں کلفٹن کی جہاں کی گلیوں ، بازاروں اور محلوں سے عہدِ طفلی کی بے پناہ یادیں وابستہ ہیں جب ابتداء میں یہاں آکر آباد ہوئے تو گھر کے بزرگوں کو کہتے سنا'' بھلا کون آدم ذات اس ویرانے میں رہنا گوارا کرے گا '' اب یہ بات سوچتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اس وقت کا ویران کلفٹن اس اْجڑے دیار سے کتنا گنا بہتر تھا۔ ہاں یہ سچ ہے کیونکہ یہ وہ کلفٹن تھا جہاں ملک بھر سے لوگ کم خرچ بالا نشیں کی غرض سے سستی اور صاف سْتھری تفریح سے لطف اندوز ہونے بخوشی آیا کرتے تھے۔ حتٰی کے ہم جو یہاں کے رہائشی تھے لیکن ہر چند گردو نواح کی تفریح کی حرص ضرور پوری کرتے تھے اکثر جب پلے لینڈ سے آئسکریم کھانے جاتے تو ساتھ ہی '' سند باد جانا ہے'' کی اگلی فرمائش دھر دیتے ۔ راستے میں والد صاحب گردو نواح کے مقامات کی یاد داشتیں بتاتے جاتے کہ جس جگہ سند باد ہے یہاں پہلے محترمہ بینظیر بھٹو کے والد ذوالفقار علی بھٹو کی رہائش تھی اور اسی طرح آج ہم اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ جس جگہ یہ مال ہے اس جگہ سند باد ہوا کرتا تھا۔

ظاہر ہے جس سرعت میں وقت سرپٹ دوڑ رہا ہے حضرتِ انسان بھی اسی طرح ترقی کے پہیے کو سرپٹ دوڑا رہا ہے ۔ بس ایک غریب ہی ہے جو ہمارے ملک میں اپنی ہی غربت کی چکّی میں پس رہا ہے ورنہ تو کلفٹن جیسا علاقہ کہ جہاں کے لوگ اعلی عہدیداران، انتہائی تعلیم یافتہ، اثر و رْسوخ کے حامل بڑی بڑی عمارتوں کثیر اراضیوں کے مالک ہیں اور جو با آسانی اپنی آوازیں حکامِ اعلی تک پہنچانے پر مْقتدر ہیں تو سوال یہ ہے کہ بھلا یہ بااثر افراد کیونکر ٹوٹی سڑکوں سیوریج کی شکستہ و بوسیدہ لائنوں اور کھلے گٹروں جیسے مسائل کا شکار ہورہے ہیں ؟

کیا یہ سراسر خود غرضی اور بے حسی کا مظاہرہ ہے ؟ کیا یہ باقی اہل علاقہ کی اخلاقی ذمے داری نہیں ہے ؟ کیا دیگر اہل علاقہ اس سے بری الذمہ ہیں؟اگر میں اس پوش علاقے کی چشم دید حالت بیان کروں تو کچھ یوں ہوں گے کہ ہر دو قدم کے بعد ٹوٹی پھوٹی سڑک آپ کا استقبال کرے گی ، کہیں سیوریج کے گندے پانی کی ندی بہہ رہی ہو گی توکئی کھْلے گٹر آپ کے منتظر ہوں گے۔ غالبا اس علاقے کے شباب کو نظر نہ لگے اس لیے جا بجا کچرے کے ڈھیر لگے نظر آئیں گے۔ بس یہی نہیں اس گندگی کے ڈھیر پہ کّْتے بطور محافظ تعینات ہیں جو دن بھر اس خزانے کی حفاظت کرتے ہیں اور اہلِ علاقہ ان کے سامنے سے یوں اعتماد سے گزرتے ہیں گویا انھوں نے درخواست دے کر انھیں تعینات کروایا ہو ۔

اپنے تئیں میں نے مزید کوشش کرنی چاہی تو لوکل گورنمنٹ کا رستہ دکھا دیا گیاکہ وہاں کچھ شنوائی ممکن ہے تو بڑی اْمید سے ان کے دفتر کا نمبر ملایا ایک ڈائریکٹر نے فون اٹھایا، اپنا تعارف کروا کے مدعا بتایا توکہنے لگے'' کیا بتائیں شوق آوارگی کے مارے ان کْتوں کو مارنے کے لیے جو دوا جرمنی سے منگوائی جاتی ہے وہ دستیاب نہیں ہے ، اب آپ بتائیں ہم اس سلسلے میں کیا کریں البتہ آپ اس دوا کی دستیابی میں کوئی مدد کرسکتی ہیں تو ہم مشکور ہونگے'' اب تو میں بالکل ساکت ہو گئی کہ لینے کے دینے پڑ گئے لہٰذا مرتا کیا نہ کرتا ان سے معذرت چاہی اور فون رکھ دیا۔

انھی دنوں جب کہ بڑی دل گرفتگی کا شکار تھی تو دیکھا اسٹریٹ لائٹس لگائی جارہی ہیں ، کچھ دیر بعد کے منظر نے خوش فہمی کے سمندر سے نکالا کہ یہ تو اس لیے لگائی جارہی کہ راہ گیر ابْلتے گٹروں کو دیکھ سکیں اور ان سے بچ کر بحفاظت گھروں کو جا سکیں۔ اہل علاقہ کے بھی کیا کہنے سچ کہوں تو یوں لگتا ہے کہ اپنے گھروں کی تزئین و آرائش کے ساتھ ساتھ غالباً جابجا کچرا پھینک کر گلیوں کو بھی آراستہ کرتے ہیں اور بڑی احسان مندی کے ساتھ اپنا قیمتی کچرا راستوں کی نذر کرتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کچھ عرصہ قبل اپنی صحت کے خیال سے صبح سویرے کی تازہ اور پرسکون فضا میں واک پہ نکلنے کی خواہش ستائی تو ایک دن سر راہ یہ منظر دیکھ کے اْوسان خطا ہوئے کہ کچرے کے ڈھیروں کو جابجا جلایا جارہا تھا ، فضا دھواں دھواں۔ یہ منظر حقیقت میں مجھے صدمے سے دوچارکرگیا ، گھر آئی اور لوکل گورنمنٹ کے صاحب تدبیر وزیر کو فون کیا کہ جناب کہاں ہیں وہ چائینیزکمپنیاں کچرا اٹھوانا جن کا کام ہے؟ انھوں نے کہا آپ ان مقامات کی تصاویر بھیجیں حتی المقدور تصاویر جمع کی اور انھیں بھیج دیں اور فورا ہی ان جگہوں کو گندگی سے صاف کروا دیا گیا۔ بعدازاں ان کا فون آیا اور کہنے لگے ''آپ نے اپنے صحافی ہونے کا فرض خوب نبھایا اور تصاویر بھیجیں لیکن کیا ان پہ غور بھی کیا کہ ان جگہوں پہ کچرا ڈالنے کے لیے ڈسٹ بن رکھوائے گئے ہیں لیکن باوجود اس کے ایسی کونسی مجبوری ہے جو اہل علاقہ کو کچرا باہر ہی پھینکنے پہ مجبور کرتی ہے؟''اس سوال نے مجھے واقعی شرمندگی سے دوچار کردیا۔

کلفٹن کے مسائل سیوریج کا پانی، کْھلے ہوئے گٹر، ٹوٹی سڑکیں اور جابجا پھیلے کچرے کے ڈھیر ہی نہیں ہیں بلکہ یہ علاقہ ایک طویل مدت تک چوروں ڈاکوئوں اور لٹیروں کی پسندیدہ آماجگاہ بھی رہا ہے جو اسٹریٹ لائٹس کی عدم موجودگی میں گھات لگائے بیٹھے رہتے اور مال دار راہ گیروں کی خوب خاطر مدارات کرتے تھے ۔

بس یہی نہیں روزانہ کسی نہ کسی گھر پہ ٹوٹنے والی قیامت ایک دن میرے گھر بھی آن پڑی جب اْسی گلی سے گزرتے ہوئے چھوٹا بھائی گولی کی زد میں آگیا اور سات دن زندگی موت کی جنگ لڑتے نجی اسپتال میں دم توڑ گیا ۔ ڈاکٹروں نے معذرت کے ساتھ ایک خطیر بل تھما دیا۔

آج اس علاقے میں ریڈ زون ہے تو سیکیورٹی ہائی الرٹ دیکھتی ہوں ، حسرت بھری مسکراہٹ لبوں پہ در آتی ہے کہ دیر آید درست آید۔ جب یہ علاقہ صدرِ پاکستان کی رہائش گاہ رہا تو وہ وقت یہاں کے مکینوں کے لیے کٹھن دور ثابت ہوا، دونوں اطراف سے مین روڈ بند کردی گئی اور یہاں کے رہائشی طویل مسافت والا متبادل راستہ اختیارکرنے پہ مجبور رہے اور سالوں یہی اذت جھیلتے گزری ۔

ہم اس جگہ رہتے ہیں تو شہر قائد ہم سے سوال کرتا ہے کہ میرا خیال تم میں سے کون کرے گا؟ حکومتی ادارے، مقامی افراد یا سیاسی خاندان جس کو میں نے ہر چند پشت پناہی دی ہے۔ساحل سمندر سے متصل یہ علاقہ اشیاء کی قیمتوں کے معاملے پر آسمان سے باتیں کرتا ہے تو کیونکر یہاں کے رہائشی اور ذمے داران اس کی اپنی قدرو قیمت سمجھنے سے عاری ہیں؟ مجھے اپنا اولڈ پیارا کلفٹن اپنی حسین ترین اقدار کے ساتھ چاہیے۔

ہمیں اپنے اس بیش قیمت خطے کی حفاظت کرنی ہوگی، نا صرف شہرکراچی بلکہ پورے ملک سے آنے والے سیاحوں کی توجہ و تفریح کا مرکز ہے جہاں چار مینار گنبد اور مزار حضرت عبدللہ شاہ غازی رحمہ اللہ علیہ موجود ہے۔ توکیا ہی اچھا ہوجو ہم اپنے اس گوہر نایاب کو ہر طرح کی آلائیشوں سے بچا کر آنے والی نسلوں کو نئے جذبوں سے متعارف کروائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں