کیا مقروض پر حج فرض ہے
کچھ بھی ہوسوال تو اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا مقروض پر حج فرض ہوتاہے۔
اس بات پر ہم اکثر اپنے سے لڑ بھی پڑتے ہیں بلکہ خود کو نہایت بے وضو قسم کے الفاظ بھی رسید کر دیتے ہیں لیکن عادت تو عادت ہوتی ہے جس کی تصدیق رحمان بابا نے بھی کی ہے کہ ''لت'' چھوٹ سکتی ہے لیکن عادت...
''چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی''
رحمان بابا نے دعا بھی کی ہے کہ خدا کسی کو بھی ''عادت بد'' میں مبتلا نہ کرے لیکن یہ دعا بھی ہمیں نہیں لگی ہے اور ایک بہت ہی بری بلکہ فسادی بلکہ شرانگیز عادت ہمیں پڑچکی ہے۔جس پر ہماری اپنے ساتھ توُ توُ میں میں بلکہ دست وگریبانی چلتی رہتی ہے اور جب اس طرح معاملہ نہیں سلجھتاتو پھر ہم کسی ثالث کے پاس اپنا جھگڑا لے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہمارا اپنے ساتھ یہ پھڈا ہوگیاتھا کہ نماز کے لیے لباس جلد وغیرہ کو صاف کرنا تو ضروری ہے لیکن کیاجسم کے اندر بھی صفائی ضروری ہے یا نہیں؟ کیونکہ ہم نے سن رکھا ہے کہ جس پیٹ میں مال حرام ہو اس کی چالیس دن تک کوئی بھی عبادت قبول نہیں ہوتی۔
ابھی ہم اس جھگڑے کو نہیں سلجھا پائے تھے کہ اخبار میں ایک خبر پڑھ کر دوسرا پھڈا پڑگیا لکھا تھا۔
رواں سال حج پیکیج تین لاکھ نوے ہزار رکھاگیاہے یعنی لگ بھگ چار لاکھ لوگ پاکستان سے حج کی سعادت حاصل کرنے جائیں گے ٹھیک ہے ہم خوش ہوئے کیاہوا اگر ہمیں یہ سعادت نصیب نہیں ہوگی لیکن چار لاکھ بندے تو یہ فریضہ ادا کردیں گے۔
لیکن ورق الٹا تو ایک کالم میں یہ پڑھ کر انگشت بدنداں اور ناطقہ سر بہ گریباں رہ گئے کہ پاکستان کا بچہ بچہ ایک لاکھ پینتیس ہزار روپے کا مقروض ہے۔
بہت یاد کرنے کی کوشش کی کہ یہ ہم نے کسی عالم دین سے سنا تھا کہ حج کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری ہے اور صاحب نصاب وہ ہوتاہے جو مقروض بالکل نہ ہو۔اب اگر پورا ملک مقروض ہے تو ان حجاج کرام پر زرمبادلہ تو ملک ہی کا خرچ ہوگا۔ٹھیک ہے وہ مقروض نہیں ہوں گے زکوۃ بھی ادا کرچکے ہوں گے لیکن پاکستانی روپیہ تو اس میں چلے گا جس سے زرمبادلہ باہر جائے گا یعنی پورا ملک مقروض ہونے کی وجہ سے صاحب نصاب نہیں ہے۔
برا ہو ہماری یادداشت کا کہ وہ عالم دین ہمیں یاد نہیں آرہے ہیں اور باقی جو علمائے دین ہماری رسائی میں ہیں وہ دین کو انڈسٹرئیلائزاور کمرشلائز کرنے میں انتہائی مصروف ہیں۔اس لیے سمجھ نہیں آتا کہ کس سے پوچھ کر یہ جھگڑا سلجھائیں جو ہمارا اپنے آپ کے ساتھ ہے۔
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیاہے
ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
جس طرح سنا ہے کہ ملا کی دوڑ مسجد تک ہوتی ہے ویسے ہی ہماری پہنچ بھی اپنے قارئین تک ہی ہے اس لیے سوچا کہ ان سے رجوع کریں شاید کوئی بتادے کہ ایک نہایت ہی مقروض اور بے نصاب ملک پر اتنے حاجی بھیجنا فرض ہوتا ہے یا نہیں۔
ہم بخدا کوئی ایسا ویسا ارادہ نہیں رکھتے نہ ہی کسی کے حاجی یا الحاج بننے پر ہمیں کوئی اعتراض ہے بلکہ حاجی صاحبان ہمیں بہت اچھے لگتے ہیں کیونکہ وہ ان مقامات کو دیکھ چکے ہیں جو ہماری بھی آرزو اور تمناہے لیکن بدقسمتی سے خود توہم ''چیل'' ہیں اور چیل کے گھونسلے میں ''ماس'' ''کہاں''؟ اور ہمارے وہ مہربان صحافی دوست بھی وفات پا چکے ہیں جنہوں نے ہمیں حج کی سعادت حاصل کرنے کا ایک نسخہ کیمیا بتایاتھا۔اس نے جب خود اور اپنے خاندان بلکہ ساس سسر تک کو سرکاری حج کروایا تو ہم نے پوچھا کہ آخر ان کو ایسا کون سا قارون کا خزانہ ہاتھ لگا ہے تو بولے۔تم اگر چا ہو تو تمہیں بھی حج کرواسکتا ہوں صرف پانچ ہزار روپے لگیں گے تفصیل چاہی تو اس نے بتایا کہ اسلام آباد میں کسی بینک افسر کو پانچ ہزار روپے دینا ہوتے ہیں جو ''سرکاری حج وفد'' میں شامل کردیتے ہیں اور بڑے آرام سے فائیواسٹار قسم کا حج نصیب ہوجاتاہے اور پھر ایک مرتبہ ہم نے ٹی وی پر دیکھ بھی لیا کہ پاکستانی حج وفد کے '' علماء وصحفاء'' فائیواسٹار ہوٹل میں تھے اور ایران کا صدر تک ایک خیمے میں تھا۔
لیکن افسوس کہ ہم وہ پانچ ہزار روپے اس وقت نہیں جٹاپائے اوراب جب کہ روپیہ نیچے ہماری سطح پر آگیاہے اور پانچ ہزار روپے دے سکتے ہیں تو وہ''وسیلہ حج'' ہمارے وفات پاچکے ہیں گویا وہی کہ جب دانت تھے تو چنے نہیں تھے اور جب ''چنے'' ملے تو دانت نہیں رہے۔
مطلب یہ کہ ہم حج کے مخالف نہیں اور نہ ہی حاجیوں کے کیونکہ مرحوم طہٰ خان نے کہاہے کہ حاجیوں کو برا مت کہو کہ ان میں ''ایک دو''حاجی بھی ہوتے ہیں۔
اس سے زیادہ خیال حاجی صاحبان کا اور کیا رکھا جا سکتا ہے کہ جب بھی ہم بازار میں کچھ خریدنے جاتے ہیں تو پہلے ہی سے پتہ کرتے ہیں کہ مالک حاجی تو نہیں اگر حاجی ہو اور آج کل تو تقریباً سارے دکاندار ہوتے ہیں اس لیے ان کو تکلیف دینے کے بجائے ہم کسی غیرحاجی دکاندار کو تلاش کرکے تکلیف دیتے یعنی اپنی ''خدمت'' کراتے ہیں، بری بات ہے نا کہ آپ کسی محترم حاجی صاحب کو سودا خریدنے کی تکلیف پہنچائیں۔
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حج کی برکات اپنی جگہ۔لیکن کیا کسی مقروض پر حج فرض ہوتاہے؟ اور یہی بات ہم پوچھنا چاہتے ہیں مہربانی کرکے اگر کوئی اس بارے میں مسئلہ جانتاہو تو وہ ہمیں بھی بتادیں تاکہ ہمارے اس کم بخت،بدتمیز اور منہ پھٹ دل کی خلش دور ہوجائے اور ہمارے اپنے ساتھ جنگ وجدل کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے۔
ہاں ایک بات جو ابھی ابھی ہمارے ذہن میں آئی ہے یہ ہے کہ ہمارے حاجی صاحبان اور عمری حضرات کیونکہ آج کل ''عمرے''کافیشن بھی کافی شباب پر ہے۔جو پیسہ یہاں سے لے جا کر وہاں خرچ کرتے ہیں وہ ایک دوسرے راستے سے ہمارے پاس لوٹ بھی آتاہے بس تھوڑا سا اوپر والے ہاتھ کے آگے اپناہاتھ نیچے کرنا پڑتاہے۔لیکن یہ کوئی خاص بات نہیں کہ اب ہمیں اوپر والے ہاتھ کے نیچے ہاتھ کرنا خوب خوب آگیاہے ،کام مشکل بھی ہو تو پریکٹس سے ہاتھ آہستہ آہستہ صاف ہوجاتاہے
نہ سوچا نہ سمجھا نہ دیکھا نہ جانا
ہمیں آگیا خود بخود دل لگانا
خیر کچھ بھی ہوسوال تو اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا مقروض پر حج فرض ہوتاہے۔امید ہے ہمارے ملک میں ایک سے بڑا ایک عالم فاضل اور دانا دانشور موجود ہے اس لیے کوئی نہ کوئی تو ہمارے اس سوال کا جواب دے ہی دے گا وہ۔
''تیلی رے تیلی تیرے سر پر کہولو''
ہی کیوں نہ ہو۔اور ہاں اگر اس صاحب کا پتہ بھی مل جائے جس کا پتہ ہمارا مرحوم دوست نہیں دے پایا۔
''چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی''
رحمان بابا نے دعا بھی کی ہے کہ خدا کسی کو بھی ''عادت بد'' میں مبتلا نہ کرے لیکن یہ دعا بھی ہمیں نہیں لگی ہے اور ایک بہت ہی بری بلکہ فسادی بلکہ شرانگیز عادت ہمیں پڑچکی ہے۔جس پر ہماری اپنے ساتھ توُ توُ میں میں بلکہ دست وگریبانی چلتی رہتی ہے اور جب اس طرح معاملہ نہیں سلجھتاتو پھر ہم کسی ثالث کے پاس اپنا جھگڑا لے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہمارا اپنے ساتھ یہ پھڈا ہوگیاتھا کہ نماز کے لیے لباس جلد وغیرہ کو صاف کرنا تو ضروری ہے لیکن کیاجسم کے اندر بھی صفائی ضروری ہے یا نہیں؟ کیونکہ ہم نے سن رکھا ہے کہ جس پیٹ میں مال حرام ہو اس کی چالیس دن تک کوئی بھی عبادت قبول نہیں ہوتی۔
ابھی ہم اس جھگڑے کو نہیں سلجھا پائے تھے کہ اخبار میں ایک خبر پڑھ کر دوسرا پھڈا پڑگیا لکھا تھا۔
رواں سال حج پیکیج تین لاکھ نوے ہزار رکھاگیاہے یعنی لگ بھگ چار لاکھ لوگ پاکستان سے حج کی سعادت حاصل کرنے جائیں گے ٹھیک ہے ہم خوش ہوئے کیاہوا اگر ہمیں یہ سعادت نصیب نہیں ہوگی لیکن چار لاکھ بندے تو یہ فریضہ ادا کردیں گے۔
لیکن ورق الٹا تو ایک کالم میں یہ پڑھ کر انگشت بدنداں اور ناطقہ سر بہ گریباں رہ گئے کہ پاکستان کا بچہ بچہ ایک لاکھ پینتیس ہزار روپے کا مقروض ہے۔
بہت یاد کرنے کی کوشش کی کہ یہ ہم نے کسی عالم دین سے سنا تھا کہ حج کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری ہے اور صاحب نصاب وہ ہوتاہے جو مقروض بالکل نہ ہو۔اب اگر پورا ملک مقروض ہے تو ان حجاج کرام پر زرمبادلہ تو ملک ہی کا خرچ ہوگا۔ٹھیک ہے وہ مقروض نہیں ہوں گے زکوۃ بھی ادا کرچکے ہوں گے لیکن پاکستانی روپیہ تو اس میں چلے گا جس سے زرمبادلہ باہر جائے گا یعنی پورا ملک مقروض ہونے کی وجہ سے صاحب نصاب نہیں ہے۔
برا ہو ہماری یادداشت کا کہ وہ عالم دین ہمیں یاد نہیں آرہے ہیں اور باقی جو علمائے دین ہماری رسائی میں ہیں وہ دین کو انڈسٹرئیلائزاور کمرشلائز کرنے میں انتہائی مصروف ہیں۔اس لیے سمجھ نہیں آتا کہ کس سے پوچھ کر یہ جھگڑا سلجھائیں جو ہمارا اپنے آپ کے ساتھ ہے۔
کس سے پوچھیں کہ وصل میں کیاہے
ہجر میں کیا نہیں کہ تم سے کہیں
جس طرح سنا ہے کہ ملا کی دوڑ مسجد تک ہوتی ہے ویسے ہی ہماری پہنچ بھی اپنے قارئین تک ہی ہے اس لیے سوچا کہ ان سے رجوع کریں شاید کوئی بتادے کہ ایک نہایت ہی مقروض اور بے نصاب ملک پر اتنے حاجی بھیجنا فرض ہوتا ہے یا نہیں۔
ہم بخدا کوئی ایسا ویسا ارادہ نہیں رکھتے نہ ہی کسی کے حاجی یا الحاج بننے پر ہمیں کوئی اعتراض ہے بلکہ حاجی صاحبان ہمیں بہت اچھے لگتے ہیں کیونکہ وہ ان مقامات کو دیکھ چکے ہیں جو ہماری بھی آرزو اور تمناہے لیکن بدقسمتی سے خود توہم ''چیل'' ہیں اور چیل کے گھونسلے میں ''ماس'' ''کہاں''؟ اور ہمارے وہ مہربان صحافی دوست بھی وفات پا چکے ہیں جنہوں نے ہمیں حج کی سعادت حاصل کرنے کا ایک نسخہ کیمیا بتایاتھا۔اس نے جب خود اور اپنے خاندان بلکہ ساس سسر تک کو سرکاری حج کروایا تو ہم نے پوچھا کہ آخر ان کو ایسا کون سا قارون کا خزانہ ہاتھ لگا ہے تو بولے۔تم اگر چا ہو تو تمہیں بھی حج کرواسکتا ہوں صرف پانچ ہزار روپے لگیں گے تفصیل چاہی تو اس نے بتایا کہ اسلام آباد میں کسی بینک افسر کو پانچ ہزار روپے دینا ہوتے ہیں جو ''سرکاری حج وفد'' میں شامل کردیتے ہیں اور بڑے آرام سے فائیواسٹار قسم کا حج نصیب ہوجاتاہے اور پھر ایک مرتبہ ہم نے ٹی وی پر دیکھ بھی لیا کہ پاکستانی حج وفد کے '' علماء وصحفاء'' فائیواسٹار ہوٹل میں تھے اور ایران کا صدر تک ایک خیمے میں تھا۔
لیکن افسوس کہ ہم وہ پانچ ہزار روپے اس وقت نہیں جٹاپائے اوراب جب کہ روپیہ نیچے ہماری سطح پر آگیاہے اور پانچ ہزار روپے دے سکتے ہیں تو وہ''وسیلہ حج'' ہمارے وفات پاچکے ہیں گویا وہی کہ جب دانت تھے تو چنے نہیں تھے اور جب ''چنے'' ملے تو دانت نہیں رہے۔
مطلب یہ کہ ہم حج کے مخالف نہیں اور نہ ہی حاجیوں کے کیونکہ مرحوم طہٰ خان نے کہاہے کہ حاجیوں کو برا مت کہو کہ ان میں ''ایک دو''حاجی بھی ہوتے ہیں۔
اس سے زیادہ خیال حاجی صاحبان کا اور کیا رکھا جا سکتا ہے کہ جب بھی ہم بازار میں کچھ خریدنے جاتے ہیں تو پہلے ہی سے پتہ کرتے ہیں کہ مالک حاجی تو نہیں اگر حاجی ہو اور آج کل تو تقریباً سارے دکاندار ہوتے ہیں اس لیے ان کو تکلیف دینے کے بجائے ہم کسی غیرحاجی دکاندار کو تلاش کرکے تکلیف دیتے یعنی اپنی ''خدمت'' کراتے ہیں، بری بات ہے نا کہ آپ کسی محترم حاجی صاحب کو سودا خریدنے کی تکلیف پہنچائیں۔
خلاصہ اس کا یہ ہے کہ حج کی برکات اپنی جگہ۔لیکن کیا کسی مقروض پر حج فرض ہوتاہے؟ اور یہی بات ہم پوچھنا چاہتے ہیں مہربانی کرکے اگر کوئی اس بارے میں مسئلہ جانتاہو تو وہ ہمیں بھی بتادیں تاکہ ہمارے اس کم بخت،بدتمیز اور منہ پھٹ دل کی خلش دور ہوجائے اور ہمارے اپنے ساتھ جنگ وجدل کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے۔
ہاں ایک بات جو ابھی ابھی ہمارے ذہن میں آئی ہے یہ ہے کہ ہمارے حاجی صاحبان اور عمری حضرات کیونکہ آج کل ''عمرے''کافیشن بھی کافی شباب پر ہے۔جو پیسہ یہاں سے لے جا کر وہاں خرچ کرتے ہیں وہ ایک دوسرے راستے سے ہمارے پاس لوٹ بھی آتاہے بس تھوڑا سا اوپر والے ہاتھ کے آگے اپناہاتھ نیچے کرنا پڑتاہے۔لیکن یہ کوئی خاص بات نہیں کہ اب ہمیں اوپر والے ہاتھ کے نیچے ہاتھ کرنا خوب خوب آگیاہے ،کام مشکل بھی ہو تو پریکٹس سے ہاتھ آہستہ آہستہ صاف ہوجاتاہے
نہ سوچا نہ سمجھا نہ دیکھا نہ جانا
ہمیں آگیا خود بخود دل لگانا
خیر کچھ بھی ہوسوال تو اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا مقروض پر حج فرض ہوتاہے۔امید ہے ہمارے ملک میں ایک سے بڑا ایک عالم فاضل اور دانا دانشور موجود ہے اس لیے کوئی نہ کوئی تو ہمارے اس سوال کا جواب دے ہی دے گا وہ۔
''تیلی رے تیلی تیرے سر پر کہولو''
ہی کیوں نہ ہو۔اور ہاں اگر اس صاحب کا پتہ بھی مل جائے جس کا پتہ ہمارا مرحوم دوست نہیں دے پایا۔