سندھ میں ملازمتوں کی فروخت

ایک طرف سندھ میں میرٹ کا اصول پامال ہورہا ہے تو دوسری طرف بعض قوتوں کے زیر اثر صوبے میں نئے تضادات ابھر رہے ہیں۔

tauceeph@gmail.com

سندھ کے ایک اہم ادارے کے ایک اہلکار کے تینوں بیٹے امتحان پاس کر کے گریڈ 17 کے افسر مقرر ہوگئے۔ جس سے میرٹ کے بارے میں خدشات بڑھ گئے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے مطالبہ کر دیا کہ کوٹہ سسٹم پر عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔

ایم کیو ایم کے قائدین کا کہنا ہے کہ سندھ کے شہری عوام کے مسائل پر توجہ نہیں دی گئی تو پھر صوبہ کا مطالبہ سامنے آئے گا۔ ان قائدین کا کہنا ہے کہ سندھ میں ملازمت پانے والے 37 اسسٹنٹ کمشنروں میں سے ایک کا بھی تعلق شہری سندھ سے نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی حکومت نے سندھ کے شہریوں کے لیے کئی ہزار ملازمتوں کا اعلان کیا ہے۔ اس وقت میرٹ پر ملازمتوں کے لیے شفاف لائحہ عمل وضح نہیں ہوا تو سندھ ایک نئے تضاد کا شکار ہوگا اور مخصوص مفادات رکھنے والے سیاسی گروہ کو نفرت کی سیاست کرنے میں آسانی ہوگی۔

یہ عجیب بدقسمتی کی بات ہے کہ پیپلز پارٹی کے 10 سالہ دور میں میرٹ اور کوٹے کے مطابق ملازمتوں کے معاملے کو اہمیت نہیں دی گئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی سندھ پبلک سروس کمیشن کو نظرانداز کرتے ہوئے ملازمتیں تقسیم کیں، یوں ملازمتوں کی فروخت کی منڈیاں لگ گئیں۔ تعلیم، صحت، ورکس، ایری گیشن، پولیس غرض ہر محکمہ میں ملازمتیں فروخت ہوئیں۔

مجاز اتھارٹی کے ایجنٹوں نے ایک ایک نشست کے لاکھوں روپے وصول کیے۔ رقم لینے کی بناء پر میرٹ کے اصول کو پامال کیا گیا۔ گزشتہ سال جب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ان افسروں کے خلاف کارروائی ہوئی تو مطلوبہ اہلیت پر پورا نہیں اترتے تھے تو ان افسروں نے کراچی پریس کلب کے سامنے مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ انھوں نے ملازمت کے حصول کے لیے لاکھوں روپے ادا کیے ہیں۔ ان کی یہ رقم واپس کی جائے۔ یہ معاملہ صرف سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا نہیں بلکہ تمام محکموں کا ہے۔

جب سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی کی امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر ازخود نوٹس لیا تو اس وقت کے آئی جی پولیس واجد درانی نے اپنے حلف نامہ میں کہا کہ انھیں گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے گریڈ کے افسروں کی تقرریوں اور تبادلوں کا اختیار نہیں ہے۔ پولیس کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی نشستوں میں ذکر ہوتا تھا کہ تھانے کے ہیڈ محرر سے لے کر اعلیٰ ترین پوسٹ کے لیے کتنی رقم کی ادائیگی ضروری ہے۔ ایک رپورٹر نے اپنی تحقیق میں بتایا تھا کہ مخصوص رقم لے کر تقرری ہوتی ہے۔

جب اے ڈی خواجہ سندھ کے انسپکٹر جنرل کے عہدے پر فائز ہوئے اور انھوں نے تقرریوں اور تبادلوں کی تجارت کے خلاف مزاحمت کی تو ان کا اس وقت کے مشیر داخلہ سے تنازعہ کھڑا ہوگیا۔ پھر اے ڈی خواجہ کا اچانک تبادلہ ہوگیا۔ سول سوسائٹی کے بعض کارکن اس معاملے کو سندھ ہائی کورٹ لے گئے۔ سندھ ہائی کورٹ نے اے ڈی خواجہ کا تبادلہ روک کر ان کے اختیارات بحال کردیے، یوں اے ڈی خواجہ کے دور میں پہلی دفعہ میرٹ پر تقرریاں ہوئیں۔

جب حکومت سندھ اے ڈی خواجہ کے تبادلہ کی جنگ سندھ ہائی کورٹ میں لڑرہی تھی تو کسی دانا شخص نے کہا تھا کہ مراد علی شاہ اے ڈی خواجہ کا تبادلہ روکنے کے سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر رنجیدہ نہیں ہونگے، اس فیصلے سے وہ مستقبل کی چیرہ دستی سے محفوظ ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں ملازمتوں کی منڈی سے سب سے زیادہ محکمہ تعلیم متاثر ہوا۔ محکمہ تعلیم میں کئی ہزار ایسے افراد کو بطور استاد بھرتی کیا گیا تھا جو این ٹی ایس ٹیسٹ میں پاس نہیں ہوئے تھے۔


عالمی بینک جو سندھ میں اسکول ایجوکیشن کے لیے امداد دیتا ہے نے اس صورتحال میں امداد نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت کے وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کو سندھ میں اساتذہ کے تقرر کے لیے این ٹی ایس ٹیسٹ کی شرط پر سخت اعتراض تھا مگر میرٹ کو نظرانداز کرنے پر صورتحال اس حد تک خراب ہوئی کہ اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری کے قریبی عزیز فضل پیچوہو کو سیکریٹری تعلیم مقرر کیاگیا۔ انھوں نے اساتذہ کے طور پر بھرتی ہونے والے افراد کو برطرف کیا اور کئی ہزار افراد کئی برسوںتک حیدرآباد اور کراچی کی سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی جمع پونجی سے یہ ملازمتیں حاصل کیں۔ اب انھیں بیروزگار کیا جارہا ہے، یوں کراچی پریس کلب کے مکینوں کو بہت دفعہ آنسو گیس برداشت کرنی پڑی تھی۔ پولیس ان مظاہرین کو ریڈ زون میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کی مدد حاصل کرتی رہی۔ ان میں سے کئی افراد کی ملازمت کو سال بھر سے زائد کا عرصہ ہوا تھا، بہر حال تکنیکی بنیاد پر یہ لوگ عدالتوں سے بحال ہوئے تھے۔ پھر پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایسے افراد کو سندھ پبلک سروس کمیشن کا عہدیدار مقرر کیا جو ان آسامیوں کی اہلیت پر پورے نہیں اترتے تھے جس پر سپریم کورٹ کو نوٹس لینا پڑا ۔

سپریم کورٹ نے کمیشن کے چیئرمین اور اراکین کے تقرر کو غیر قانونی قرار دیا اور کمیشن میں شفافیت کے معیار پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا مگر حکومت نے ملازمتوں پر میرٹ اور کوٹے کے قانون کے مطابق عمل کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا۔ سندھ گزشتہ 10 برسوں سے انتظامی بدنظمی کا شکار ہے۔ قائم علی شاہ کی وزارت اعلیٰ کا دور سندھ کے لیے انتظامی اعتبار سے سیاہ دور تھا۔ اس دور میں بلدیاتی ادارے مفلوج ہوئے، پورا سندھ سیوریج کے پانی اور کوڑے کے ٹیلوں میں تبدیل ہوگیا۔

حکومت سندھ نے سپریم کورٹ کے حکم پر مجبوراً بلدیاتی انتخابات کرائے تو بلدیاتی اداروں کو اختیارات سے محروم کردیا۔ حکومت نے پانی کی فراہمی اور صفائی کے جو متبادل ادارے قائم کیے ان کی کارکردگی مایوس کن ثابت ہوئی۔ سپریم کورٹ کے حکم پر قائم ہونے والے واٹر کمیشن نے سندھ حکومت کی کارکردگی پر شدید خدشات کا اظہار کیا مگر حکومت کسی صورت بلدیاتی اداروں کو بااختیار کرنے کو تیار نہیں ہے تاکہ سندھ کے شہری صاف آلودگی سے پاک فضاء میں سانس لے سکیں مگر بلدیاتی اداروں کی بے اختیاری کو شہریوں میں رہنے والی آبادی کو حقوق سے محروم کرنے کی حکمت عملی قرار دیا جاتا ہے۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ سال مزار قائد پر اپنی تقریر میں اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ سندھ میں نافذ شہری اور دیہی کوٹہ سسٹم پر نظرثانی ہوسکتی ہے۔ مگر پھر بلاول کی تقاریر میں اس مسئلہ کا ذکر نہیں ہوا۔ شاید متوقع انتخابات میں قوم پرستوںکے پروپیگنڈہ سے بچنے کے لیے بلاول کو کوٹہ سسٹم پر بات نہ کرنے کا مشورہ دیا گیا ہو، مگر یہ حقیقت ہے کہ 1970ء میں سندھ میں نافذ کیے جانے والے کوٹہ سسٹم کے نفاذ کے بعد سندھ میں حیرت انگیز ترقی ہوئی ہے۔ اب سندھ کے ہر بڑے شہر میں جنرل یونیورسٹی، میڈیکل کالج اور ایمرجنگ یونیورسٹی قائم ہے۔

سندھ میں لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی شرح خاصی امید افزاء ہے۔ یوں آج پورے ملک میں تعلیم کے وسائل یکساں ہورہے ہیں۔ اس صورتحال میں شہری اور دیہی کوٹے پر نظرثانی کے لیے سوچ و بچار کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر سندھ میں میرٹ کی بنیاد پر ملازمتوں کے لیے سندھ پبلک سروس کمیشن کو مکمل طور پر بااختیار کرنے اور اس کے نظام میں شفافیت کے معیار کو دیگر صوبوں کے کمیشن کے معیار سے زیادہ بہتر بنانے سے ہی سندھ کے باشندوں میں یکجہتی کو مضبوط کیا جاسکتا ہے۔

ایک طرف سندھ میں میرٹ کا اصول پامال ہورہا ہے تو دوسری طرف بعض قوتوں کے زیر اثر صوبے میں نئے تضادات ابھر رہے ہیں۔ کراچی میں جئے سندھ اور سندھ کے رہنما کا قتل اور پولیس کی قاتل کو تحفظ دینے کی کوشش اور لاڑکانہ میں تین پشتون مزدوروں کے قتل سے واضح ہوتا ہے کہ مستقبل میں کیا سازشیں ہونگی۔ ایم کیو ایم بااختیار بلدیاتی نظام کے مطالبہ میں حق بجانب ہے۔

اس سے صوبے کے تمام علاقوں میں ترقی کا عمل تیز ہوگا اور ہر طبقے کو بااختیار ہونے کا احساس ہوگا۔ مگر کسی بھی صورت سندھ کی تقسیم یا سندھ میں نئے صوبے کا مطالبہ سندھ کے خلاف سازش ہے۔ اس سازش کو سندھ میں ہر سطح پر میرٹ کا نظام قائم کرکے ہی ناکام بنایا جاسکتا ہے۔
Load Next Story