بھارت کا جنگی جنون اور ممکنہ نتائج
وزیراعظم کی یہ بات کافی حد تک وزن رکھتی ہے کہ بھارت کو ماضی کی سیاست سے باہر نکل کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنا ہوگی۔
THE HAGUE:
بھارت کاجنگی جنون اورہندواتہ پر مبنی سیاست اس وقت عملی طور پر صرف بھارت ہی نہیں بلکہ پاکستان سمیت خطہ کی سیاست کے لیے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے ۔اگرچہ بھارت کا جنگی جنون ماضی میں بھی دیکھنے کو ملتاہے مگر بی جے پی اور بالخصوص نریندر مودی کی مجموعی سیاست عملا پاکستان اور مسلم دشمنی کی بنیاد پر کھڑی ہے۔
پلوامہ کے واقعہ کے بعد فوری طور پر بھارت اور مودی حکومت کے شدت پسندی پر مبنی رویے نے ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں پہلے سے موجود سیاسی فاصلوں کو اور زیادہ گہرا کردیا ہے ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بھارت کی مجموعی سیاست اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری پیدا کرنے کے بجائے اس میں بگاڑ پیدا کرکے کچھ سیاسی فوائد حاصل کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہے ۔
بنیادی طور پر بھارت اورمودی حکومت کے سامنے پاکستان کے تناظر میں چار بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ اول حالیہ برسوں میں مقبوضہ کشمیر کی بدترین صورتحال اوربالخصوص انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں نے بھارت کی کشمیر پالیسی پر بنیادی نوعیت کے سوالات کھڑے کر دیے ہیں ۔ یو این او کی 2018رپورٹ برائے کشمیر اور انسانی حقوق کی پاسداری نے بھارتی چہرہ کو بری طرح مسخ کیا ہے ۔اسی طرح یورپی پارلیمنٹ میں 19فروری کو ہونے والے اجلاس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کا سوال شدت سے اٹھایا گیا ہے۔
مودی کے کشمیر کے حالیہ دورے میں وہاں ان کے خلاف ہونے والے مظاہرے بھی صورتحال کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ مودی حکومت مسئلہ کشمیر میں حالیہ بحران پیدا کرکے اصل صورتحال سے سب کو گمراہ کرنا چاہتا ہے ۔دوئم حالیہ مہینوں میں پانچ ریاستوں کے انتخابات میں مودی سرکار کی بدترین شکست نے مودی کو مجبور کیا کہ وہ شدت کے ساتھ انتہا پسندی , پاکستان دشمنی اورمسلم دشمنی کو بنیاد بنا کر وہاں کے ووٹروں پر سیاسی طور پر اثرانداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ مطلوبہ نتائج مل سکیں ۔
سوئم پاکستان معاشی صورتحال میں اپنے لیے بہتری پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہا ہے اور اسی بنیاد پر دوست ممالک کی طرف سے تعاون حاصل کیا جارہا ہے ۔ بھارت معاشی طور پر پاکستان کو کمزور کرنے کے ایجنڈے کو اہمیت دے رہا ہے اور سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان سے قبل پلوامہ کے واقعہ کو بنیاد بناکر اس دورے کو ناکام بنانے کی بھی کوشش کی گئی ۔
چہارم افغانستان کے بحران کے حل میں ہونے والی پیش رفت میں پاکستان کا بڑھتا ہوا کردار اور علاقائی سطح پر اس کی اہمیت میں اضافہ نے بھی بھارت کو جنجھوڑا ہے ۔کیونکہ بھارت نے افغان انٹیلی جنس ایجنسی کی مدد سے پاکستان کو عملی طور پر عدم استحکام سے دوچار کیا ہوا ہے اور وہ اس کھیل کو جاری رکھنا چاہتا ہے۔
اس لیے پلوامہ کے بعد جو صورتحال بن رہی ہے وہ پاکستان کے تناظر میں غیر متوقع نہیں تھی ۔ اگرچہ پلوامہ کے واقعہ سے قبل بھی عملی طور پر دونوں ملکوں میں مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار اور بداعتمادی موجود تھی ۔لیکن اب حالیہ صورتحال نے اس بداعتمادی کی کیفیت کو اور زیادہ سخت کردیا ہے ۔بھارت کی موجودہ قیادت سخت گیر ہندواتہ کی سیاست کرنے والے افراد اورجماعتوں سمیت میڈیا پر جنگی جنون پیدا کرکے یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ حالیہ بھارت کا بحران پاکستان کا پیدا کردہ ہے ۔ ان کے بقول پاکستان کی ریاست خود دہشت گردوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
یہ آوازیں کہ ہم اسلا م آباد کو سیاسی طور پر تنہا کردیں گے , ختم کردیں گے , سبق سکھا دیں گے ,اوقات یاد دلادیں گے یا اب کوئی رعایت نہیں ہوگی اور فوج کو حکم دے دیا گیا ہے کہ شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے ۔اس شدت پسندی کا عملی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کے مختلف شہروںمیں جنونی ہندو کشمیری اور مسلمان افراد یا خاندان کے خلاف سڑکوں پر آگئے ہیں اور ان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ بھارت کے میڈیا کا مجموعی مزاج ایسے ہے جیسے جنگ کا سماں ہے اور ایک خاص شدت پسندی کو ابھار کر نفرت او رلاشوں کی سیاست کو طاقت دی جارہی ہے ۔
وزیر اعظم عمران خان نے حالیہ بھارت کے جارحانہ جنگی عزائم پر قومی پالیسی کا اظہا رکرکے دو ٹوک موقف اختیار کرکے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ وہ ہماری مفاہمتی پالیسی کو کمزور سمجھ کر جنگی جنون اور جارحیت سے گریزکرے ۔وزیر اعظم کا بھار ت کو پلوامہ کے واقعہ پر مشترکہ تحقیق کی پیش کش اور انٹیلی جنس تبادلہ کی پیش کش اہم ہے ۔اسی طرح یہ پالیسی کہ ہم نئے پاکستان میں اپنی سرزمین دہشت گردوں کو کسی کے خلاف یا کسی کی زمین کو اپنے خلاف دہشت گردی کی پالیسی کے حامی نہیں۔
وزیر اعظم کی یہ بات کافی حد تک وزن رکھتی ہے کہ بھارت کو ماضی کی سیاست سے باہر نکل کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کرنا ہوگی ۔اسی طرح دو نکتوں پر کہ مذاکرات میں دہشت گردی پر بات چیت کی دعوت او رکشمیر کے مسئلہ کو طاقت کے بجائے بات چیت سے حل کرنے کی دعوت عملا گیند بھارت کی کورٹ میں ڈال دی ہے ۔وزیر اعظم کا یہ دو ٹوک موقف کافی واضح ہے ۔