آرٹس کونسل کراچی کا مستحسن اقدام
مسلمان اداکار بھتہ ضرور دیتے ہیں مگر وہ بھارت میں پھیلی ہوئی غنڈہ گردی کی مذمت بھی کرتے رہتے ہیں۔
آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اب ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے لحاظ سے صف اول کا ادارہ بن چکا ہے۔ ہر سال شایان شان منعقد ہونے والی اردو کانفرنسوں کے ذریعے پوری دنیا میں اردو کی ترویج کے حوالے سے اس کا ڈنکا بج رہا ہے۔ یہ صرف پاکستانی ادیبوں شاعروں اور فنکاروں کو فوقیت نہیں دے رہا بلکہ بھارت سمیت دنیا کے تمام ہی فنون لطیفہ سے متعلق لوگوں کی ہمت افزائی کر رہا ہے۔
گزشتہ دنوں اس نے بھارت کے مشہور شاعر کیفی اعظمی کی شاعری اور ان کے صد سالہ جشن ولادت کے حوالے سے 23 اور 24 فروری کو دو روزہ ادبی کانفرنس منعقد کرنے کا اہتمام کیا تھا اور اس کانفرنس میں کیفی اعظمی کی بیٹی شبانہ اعظمی اور داماد جاوید اختر کو خصوصی طور پر مدعو کیا تھا مگر 14 فروری کو پلوامہ میں بھارتی فوجیوں کے قافلے پر ایک کشمیری مجاہد کے خودکش حملے کے نتیجے میں کثیر تعداد میں قابض فوجیوں کے مارے جانے کی وجہ سے جاوید اختر اور شبانہ اعظمی نے اس کانفرنس کا نہ صرف بائیکاٹ کردیا بلکہ پاکستان کے خلاف ناپسندیدہ ریمارکس دیے تھے جس کی وجہ سے یہ کانفرنس اب ختم کردی گئی ہے۔
اس سلسلے میں آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے ایک پریس کانفرنس منعقد کرکے پاکستان کے بارے میں جاوید اختر کے ناروا رویے کی سخت مذمت کی اور ان کی اداکارہ اہلیہ شبانہ اعظمی کے اشتعال انگیز ٹوئیٹ اور خاص طور پر اس کی آخری سطر کو قابل افسوس قرار دیا۔ جس میں انھوں نے لکھا کہ پلوامہ واقعے کے بعد اب ادیبوں اور فنکاروں کے دونوں ممالک کے درمیان تبادلے کے عمل کو ختم کردینا چاہیے۔
احمد شاہ کا کہنا تھا کہ اگر پلوامہ کے واقعے کی وجہ سے ان دونوں میاں بیوی پر ہندو انتہا پسندوں کا سخت دباؤ تھا تو بھی انھیں خاموش رہنا چاہیے تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ خود انتہا پسندوں میں شامل ہوکر پاکستان کے خلاف زہر اگلنے لگے ان کی بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی قابل مذمت ہے۔ آرٹس کونسل کراچی کی انتظامیہ نے یہ پریس کانفرنس منعقد کرکے نہ صرف اپنی حب الوطنی کا مظاہرہ کیا بلکہ پاکستان مخالف عناصر کے ناپاک عزائم کو ناقابل برداشت قرار دے کر رد کردیا۔
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی مسلمان جس خوف و ہراس کے ماحول میں رہ رہے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ وہ ہندو انتہا پسندوں کی ہاں میں ہاں ملائیں ورنہ انھیں پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر نشانہ بنانے میں ذرا دیر نہیں کی جاتی۔ تاہم انسانیت اور امن پسندی کی بات کرنے والے اس جوڑے کو اتنا بھی خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے تھا آخر دوسرے مسلمان اداکار بھی تو ہندو دہشت گردوں کے نرغے میں رہ رہے ہیں انھیں بھی اکثر قتل اور بھارت چھوڑنے کی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں مگر وہ نہ تو انسانیت کا دامن چھوڑتے ہیں اور نہ ہی بی جے پی کے غنڈوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔
حال ہی میں مشہور اداکار نصیرالدین شاہ نے ہندو غنڈوں کی دھمکی کے جواب میں وہ کرارا بیان دیا تھا جس سے پورے بھارت میں دہشت گردوں کی آنکھیں کھل گئی تھیں اور خود بی جے پی اور شیو سینا کے رہنما بوکھلا گئے تھے کہ وہ مسلمان فنکاروں کو ڈرا دھمکا کر اپنا ہمنوا نہیں بنا سکتے اور پاکستان مخالف بیان دینے پر مجبور نہیں کرسکتے۔
نصیر الدین شاہ نے بھارت سرکار پر واضح کردیا تھا کہ انھوں نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے ذریعے بھارت کا نام روشن کیا ہے اب انھیں ڈرا دھمکا کر ان کی آزاد خیالی کو زنجیریں نہیں پہنائی جاسکتیں۔ دراصل مسلمان اداکاروں کو تنگ کرنا اور اس کی آڑ میں ان سے بھاری بھتے وصول کرنا بی جے پی اور شیو سینا کے غنڈوں کی عادت بن گئی ہے۔ اپنے بیٹے کا نام تیمور علی خان رکھنے پر سیف علی خان پر ہندو غنڈے سخت سیخ پا ہوئے تھے مگر انھوں نے دھمکیوں کے باوجود نام نہیں بدلا تھا۔
مسلمان اداکار بھتہ ضرور دیتے ہیں مگر وہ بھارت میں پھیلی ہوئی غنڈہ گردی کی مذمت بھی کرتے رہتے ہیں۔ جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کو اداکار عامر خان سے بھی سبق لینا چاہیے کہ جب ہندو غنڈوں نے انھیں دھمکیاں دیں تو انھوں نے برملا بیان دیا کہ اب بی جے پی کے دور میں بھارت انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں رہ گیا ہے یہ ایک حقیقت پسندانہ بیان تھا مگر اس بیان پر تو کلدیپ نیر جیسے دانشور اور امن کے پجاری بھی عامر خان سے سخت ناراض ہوگئے تھے اور انھوں نے عامر خان کو اپنا بیان واپس لینے پر زور دیا تھا۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی نام نہاد دانشور طیش میں آگئے تھے مگر عامر خان نے اپنا بیان واپس نہیں لیا تھا یہ تھا حقیقت پسندانہ اور بولڈ رویہ۔ ارون دھتی رائے وہ قابل فخر انسان دوست خاتون ہیں جو کشمیریوں کے موقف کی ہمیشہ بھرپور حمایت کرتی رہتی ہیں حالانکہ انھیں اپنے مطالبے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ بی جے پی کے غنڈے کئی مرتبہ انھیں مار پیٹ کر ان کے جلسوں کو درہم برہم کرچکے ہیں۔
بھارتی حکومت بھی ان کی دشمن بنی ہوئی ہے مگر وہ مسلسل حق و انصاف کی بات کر رہی ہیں۔ پلوامہ واقعے پر اگرچہ بھارت کا پورا میڈیا اور سیاسی پارٹیاں یک زبان ہوکر پاکستان کو بغیر کسی ثبوت کے مورد الزام ٹھہرا رہی ہیں مگر بھارت میں ایسے جی دار ہندو صحافی بھی ہیں جو مودی سرکار کی انسان کش کشمیر پالیسی کے سخت خلاف ہیں۔ سری نگر سے شایع ہونے والے اخبار کشمیر ٹائمز کے مدیر انو رادھا بھیشن نے ایک اداریے میں پلوامہ واقعے کا خود بھارت کو ذمے دار قرار دیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ یہ کون سا انصاف ہے کہ بھارتی فوج روز کشمیریوں پر گولیاں برسا کر انھیں اندھا اور ہلاک کرتی رہے اور وہ خاموشی سے یہ ظلم و ستم برداشت کرتے رہیں آخر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
انھوں نے یہ بھی لکھا کہ جب پلوامہ واقعے کا ذمے دار ایک مقامی کشمیری ہے تو پھر پاکستان پر الزام تراشی کیوں کی جا رہی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ کشمیریوں سے مذاکرات کیے جائیں اور مسئلے کا مستقل حل نکالا جائے۔ ادھر بھارت نواز رہنما فاروق عبداللہ نے بھی مودی سے کشمیریوں سے مذاکرات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ محبوبہ مفتی نے بھی مودی کی توجہ کشمیر مسئلے کے حل کی جانب مبذول کرائی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق خودکش بمبار اور تازہ محاصرے میں شہید ہونے والے مجاہدین کی نماز جنازہ میں بلاخوف و خطر ہزاروں کی تعداد میں کشمیریوں نے شرکت کی۔ کئی علاقوں میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی۔ اس سے پتا لگتا ہے کہ پورا کا پورا کشمیر آزادی کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے اب مودی کس کس کو ماریں گے۔ خبروں کے مطابق کشمیری طلبا جوق در جوق آزادی کی مہم کا حصہ بننے کے لیے آگے آرہے ہیں ان میں سائنس اور الیکٹرانک ٹیکنالوجی سے واقفیت رکھنے والے بھی ہیں جو اپنا اسلحہ خود تیار کر رہے ہیں۔
ایک جانب بھارت میں پاکستان دشمنی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان سے بدلہ لو کے ہر طرف نعرے گونج رہے ہیں اور یہاں کراچی کے اسکول میں ایک فنکشن میں بڑی اسکرین پر بھارتی پرچم لہرا کر بچوں سے ایک بھارتی قومی گانے پر رقص کرایا گیا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ کراچی ابھی بھی ''را'' کے ایجنٹوں سے مکمل طور پر پاک نہیں ہوسکا ہے۔ جہاں تک جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کا معاملہ ہے چونکہ وہ پاکستان دشمنی میں تمام حدیں پار کرچکے ہیں چنانچہ آرٹس کونسل کراچی کی انتظامیہ کو اب انھیں اپنے کسی بھی پروگرام میں مدعو نہ کرنے کا اعلان کرنا چاہیے۔
گزشتہ دنوں اس نے بھارت کے مشہور شاعر کیفی اعظمی کی شاعری اور ان کے صد سالہ جشن ولادت کے حوالے سے 23 اور 24 فروری کو دو روزہ ادبی کانفرنس منعقد کرنے کا اہتمام کیا تھا اور اس کانفرنس میں کیفی اعظمی کی بیٹی شبانہ اعظمی اور داماد جاوید اختر کو خصوصی طور پر مدعو کیا تھا مگر 14 فروری کو پلوامہ میں بھارتی فوجیوں کے قافلے پر ایک کشمیری مجاہد کے خودکش حملے کے نتیجے میں کثیر تعداد میں قابض فوجیوں کے مارے جانے کی وجہ سے جاوید اختر اور شبانہ اعظمی نے اس کانفرنس کا نہ صرف بائیکاٹ کردیا بلکہ پاکستان کے خلاف ناپسندیدہ ریمارکس دیے تھے جس کی وجہ سے یہ کانفرنس اب ختم کردی گئی ہے۔
اس سلسلے میں آرٹس کونسل کراچی کے صدر محمد احمد شاہ نے ایک پریس کانفرنس منعقد کرکے پاکستان کے بارے میں جاوید اختر کے ناروا رویے کی سخت مذمت کی اور ان کی اداکارہ اہلیہ شبانہ اعظمی کے اشتعال انگیز ٹوئیٹ اور خاص طور پر اس کی آخری سطر کو قابل افسوس قرار دیا۔ جس میں انھوں نے لکھا کہ پلوامہ واقعے کے بعد اب ادیبوں اور فنکاروں کے دونوں ممالک کے درمیان تبادلے کے عمل کو ختم کردینا چاہیے۔
احمد شاہ کا کہنا تھا کہ اگر پلوامہ کے واقعے کی وجہ سے ان دونوں میاں بیوی پر ہندو انتہا پسندوں کا سخت دباؤ تھا تو بھی انھیں خاموش رہنا چاہیے تھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ خود انتہا پسندوں میں شامل ہوکر پاکستان کے خلاف زہر اگلنے لگے ان کی بھارتی پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی قابل مذمت ہے۔ آرٹس کونسل کراچی کی انتظامیہ نے یہ پریس کانفرنس منعقد کرکے نہ صرف اپنی حب الوطنی کا مظاہرہ کیا بلکہ پاکستان مخالف عناصر کے ناپاک عزائم کو ناقابل برداشت قرار دے کر رد کردیا۔
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی مسلمان جس خوف و ہراس کے ماحول میں رہ رہے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ وہ ہندو انتہا پسندوں کی ہاں میں ہاں ملائیں ورنہ انھیں پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر نشانہ بنانے میں ذرا دیر نہیں کی جاتی۔ تاہم انسانیت اور امن پسندی کی بات کرنے والے اس جوڑے کو اتنا بھی خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے تھا آخر دوسرے مسلمان اداکار بھی تو ہندو دہشت گردوں کے نرغے میں رہ رہے ہیں انھیں بھی اکثر قتل اور بھارت چھوڑنے کی دھمکیاں ملتی رہتی ہیں مگر وہ نہ تو انسانیت کا دامن چھوڑتے ہیں اور نہ ہی بی جے پی کے غنڈوں سے خوفزدہ ہوتے ہیں۔
حال ہی میں مشہور اداکار نصیرالدین شاہ نے ہندو غنڈوں کی دھمکی کے جواب میں وہ کرارا بیان دیا تھا جس سے پورے بھارت میں دہشت گردوں کی آنکھیں کھل گئی تھیں اور خود بی جے پی اور شیو سینا کے رہنما بوکھلا گئے تھے کہ وہ مسلمان فنکاروں کو ڈرا دھمکا کر اپنا ہمنوا نہیں بنا سکتے اور پاکستان مخالف بیان دینے پر مجبور نہیں کرسکتے۔
نصیر الدین شاہ نے بھارت سرکار پر واضح کردیا تھا کہ انھوں نے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کے ذریعے بھارت کا نام روشن کیا ہے اب انھیں ڈرا دھمکا کر ان کی آزاد خیالی کو زنجیریں نہیں پہنائی جاسکتیں۔ دراصل مسلمان اداکاروں کو تنگ کرنا اور اس کی آڑ میں ان سے بھاری بھتے وصول کرنا بی جے پی اور شیو سینا کے غنڈوں کی عادت بن گئی ہے۔ اپنے بیٹے کا نام تیمور علی خان رکھنے پر سیف علی خان پر ہندو غنڈے سخت سیخ پا ہوئے تھے مگر انھوں نے دھمکیوں کے باوجود نام نہیں بدلا تھا۔
مسلمان اداکار بھتہ ضرور دیتے ہیں مگر وہ بھارت میں پھیلی ہوئی غنڈہ گردی کی مذمت بھی کرتے رہتے ہیں۔ جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کو اداکار عامر خان سے بھی سبق لینا چاہیے کہ جب ہندو غنڈوں نے انھیں دھمکیاں دیں تو انھوں نے برملا بیان دیا کہ اب بی جے پی کے دور میں بھارت انسانوں کے رہنے کی جگہ نہیں رہ گیا ہے یہ ایک حقیقت پسندانہ بیان تھا مگر اس بیان پر تو کلدیپ نیر جیسے دانشور اور امن کے پجاری بھی عامر خان سے سخت ناراض ہوگئے تھے اور انھوں نے عامر خان کو اپنا بیان واپس لینے پر زور دیا تھا۔
اس کے علاوہ اور بھی کئی نام نہاد دانشور طیش میں آگئے تھے مگر عامر خان نے اپنا بیان واپس نہیں لیا تھا یہ تھا حقیقت پسندانہ اور بولڈ رویہ۔ ارون دھتی رائے وہ قابل فخر انسان دوست خاتون ہیں جو کشمیریوں کے موقف کی ہمیشہ بھرپور حمایت کرتی رہتی ہیں حالانکہ انھیں اپنے مطالبے کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ بی جے پی کے غنڈے کئی مرتبہ انھیں مار پیٹ کر ان کے جلسوں کو درہم برہم کرچکے ہیں۔
بھارتی حکومت بھی ان کی دشمن بنی ہوئی ہے مگر وہ مسلسل حق و انصاف کی بات کر رہی ہیں۔ پلوامہ واقعے پر اگرچہ بھارت کا پورا میڈیا اور سیاسی پارٹیاں یک زبان ہوکر پاکستان کو بغیر کسی ثبوت کے مورد الزام ٹھہرا رہی ہیں مگر بھارت میں ایسے جی دار ہندو صحافی بھی ہیں جو مودی سرکار کی انسان کش کشمیر پالیسی کے سخت خلاف ہیں۔ سری نگر سے شایع ہونے والے اخبار کشمیر ٹائمز کے مدیر انو رادھا بھیشن نے ایک اداریے میں پلوامہ واقعے کا خود بھارت کو ذمے دار قرار دیا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ یہ کون سا انصاف ہے کہ بھارتی فوج روز کشمیریوں پر گولیاں برسا کر انھیں اندھا اور ہلاک کرتی رہے اور وہ خاموشی سے یہ ظلم و ستم برداشت کرتے رہیں آخر برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
انھوں نے یہ بھی لکھا کہ جب پلوامہ واقعے کا ذمے دار ایک مقامی کشمیری ہے تو پھر پاکستان پر الزام تراشی کیوں کی جا رہی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ کشمیریوں سے مذاکرات کیے جائیں اور مسئلے کا مستقل حل نکالا جائے۔ ادھر بھارت نواز رہنما فاروق عبداللہ نے بھی مودی سے کشمیریوں سے مذاکرات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ محبوبہ مفتی نے بھی مودی کی توجہ کشمیر مسئلے کے حل کی جانب مبذول کرائی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق خودکش بمبار اور تازہ محاصرے میں شہید ہونے والے مجاہدین کی نماز جنازہ میں بلاخوف و خطر ہزاروں کی تعداد میں کشمیریوں نے شرکت کی۔ کئی علاقوں میں ان کی غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی گئی۔ اس سے پتا لگتا ہے کہ پورا کا پورا کشمیر آزادی کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے اب مودی کس کس کو ماریں گے۔ خبروں کے مطابق کشمیری طلبا جوق در جوق آزادی کی مہم کا حصہ بننے کے لیے آگے آرہے ہیں ان میں سائنس اور الیکٹرانک ٹیکنالوجی سے واقفیت رکھنے والے بھی ہیں جو اپنا اسلحہ خود تیار کر رہے ہیں۔
ایک جانب بھارت میں پاکستان دشمنی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان سے بدلہ لو کے ہر طرف نعرے گونج رہے ہیں اور یہاں کراچی کے اسکول میں ایک فنکشن میں بڑی اسکرین پر بھارتی پرچم لہرا کر بچوں سے ایک بھارتی قومی گانے پر رقص کرایا گیا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ کراچی ابھی بھی ''را'' کے ایجنٹوں سے مکمل طور پر پاک نہیں ہوسکا ہے۔ جہاں تک جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کا معاملہ ہے چونکہ وہ پاکستان دشمنی میں تمام حدیں پار کرچکے ہیں چنانچہ آرٹس کونسل کراچی کی انتظامیہ کو اب انھیں اپنے کسی بھی پروگرام میں مدعو نہ کرنے کا اعلان کرنا چاہیے۔