اردو ادب کی ایک اہم تقریب

ہم جیسے کم آمیز اورگوشہ نشین ادب کے قاریوں کے لیے یہ سلسلہ بے حد پرمسرت ثابت ہوا ہے۔

najmalam.jafri@gmail.com

انجمن ترقی اردو پاکستان کی ڈاکٹر فاطمہ حسن جب سے معتمدِ عمومی مقرر ہوئی ہیں، انھوں نے پاکستان اور بیرون ممالک خصوصاً اردو کی نئی بستیوں کے ادیبوں، شاعروں، محققین اور دانشوروں سے دلچسپی رکھنے والوں کی ملاقات کا ایک سلسلے کا آغاز کیا تھا جو ماشاء اﷲ اب تک جاری ہے۔ یورپ، امریکا ، کینڈا غرض کسی بھی جگہ اردو کی کسی بھی طرح خدمت کرنے والوں کی وہ کراچی والوں سے ملاقات کرواتی رہتی ہیں ۔

ہم جیسے کم آمیز اورگوشہ نشین ادب کے قاریوں کے لیے یہ سلسلہ بے حد پرمسرت ثابت ہوا ہے۔ ادب پڑھنے والے سب کو پڑھتے تو رہتے ہیں مگر ان لکھنے والوں سے ملاقات عموماً زندگی بھر نہیں ہوتی ۔ اس لیے میں شہر میں موجود سیکڑوں ادبی گروپ، انجمنوں اور پلیٹ فارمز میں سے کسی میں بھی شامل نہ ہونے کے باعث ادبی سرگرمیوں کی روئیداد اخبارات میں ہی پڑھ لیتی ہوں، مگر انجمن ترقی اردو کیونکہ ایک غیرجانبدار، فعال اور ملکی سطح پر اردو کی خدمت کرنے والا ادارہ ہے تو اس کے تحت منعقدہ ایسی تقاریب میں شرکت کی ضرور کوشش کرلیتی ہوں ۔

یہ ضروری ہے کہ اپنے پسندیدہ یا زیر مطالعہ ادیبوں، شاعروں اور اردو زبان کے محسنوں سے ملاقات سے جو سرورحاصل ہوتا ہے کئی ہفتوں اس کا خمار قائم اور دل مسرتوں سے بھرا محسوس ہوتا ہے۔ یہ تقاریب عموماً سنیچر کی صبح منعقد ہوتی ہیں۔ 9 فروری کو ایک بے حد منفرد تقریب انجمن اردوکے نئے مرکز میں ہوئی جس میں عالمی اردو ادب دہلی کے مدیر نند کشور وکرم سے ملاقات اور علی عباس حسینی کی کہانیوں پر گفتگو کا اہتمام کیاگیا تھا۔ جیسے ہی انجمن کی جانب سے یہ پیغام موصول ہوا میں نے اپنی تمام گھریلو اور خاندانی مصروفیات کا جائزہ لے کر اس دن خود کو سب ذمے داریوں سے آزاد کرکے گھر میں اعلان کردیا نو فروری کو میں صبح دستیاب نہیں ہوں۔

یہ تقریب اس لیے منفرد تھی کہ اس میں ''عالمی اردو ادب'' (رسالہ)کے مدیر کے علاوہ بچپن سے سنے ہوئے نام اور جب مطالعہ کا آغاز کیا تو علی عباس حسینی کی کہانیوں نے بے حد متاثر کیا تھا۔ ان کی کہانیوں پر گفتگو سے کہانی کار کی زندگی کے اہم گوشوں سے آگاہی کا موقعہ مل رہا تھا ۔ یہ اجلاس دو حصوں پر مشتمل تھا پہلا نند کشور وکرم سے ملاقات اور دوسرا علی عباس حسینی پرمذاکرے پر ۔ اس اجلاس کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر رخسانہ صبا نے ہمیشہ کی طرح بے حد دلچسپ اور معلوماتی انداز میں ادا کیے۔

رسمی آغاز کے بعد انھوں نے ڈاکٹر فاطمہ حسن کو مہمان خصوصی نند کشور وکرم کا تعارف (جو کہ قابل تعارف نہ تھے) کرانے کے لیے بلایا۔ فاطمہ حسن نے وکرم صاحب کا مکمل تعارف کراتے ہوئے کہا کہ موصوف طویل عرصے سے تن تنہا عالمی اردو ادب دہلی کے مدیر کی حیثیت سے اردو زبان و ادب کی گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں اور آج نوے برس کی عمر میں بھی مسلسل کام کر رہے ہیں۔ وکرم صاحب کا یوں تو ہرکام ہی اہم ہے مگر انھوں نے ایک زبردست کام علی عباس حسینی کی تمام کہانیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر دو جلدوں میں مرتب کرکے شایع کیا ہے، یہ بھی ایک کارنامے سے کم نہیں۔


اس کے ساتھ فاطمہ حسن نے علی عباس حسینی کے افسانے '' لیڈر'' سے ایک اقتباس پڑھا جو علی عباس کے طرز تحریر و طرز فکر کی مکمل عکاسی کرتا تھا ۔ اس کے بعد نند کشور وکرم کو رخسانہ صبا نے نے دعوت دی کہ وہ اپنے تاثرات بیان کریں۔ وکرم صاحب کا کہنا تھاکہ کراچی کے بارے میں بچپن سے سنتے آئے کہ بہت اچھا اور بڑا شہر ہے مگر عرصے تک کراچی نہ دیکھ سکا۔ کراچی میرے خوابوں کا شہر ہے اور میری دیرینہ آرزو اب پوری ہوئی۔ ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اردو باغ مدعو کیا یوں کراچی والوں سے براہ راست ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ انھوں نے علی عباس حسینی کے مکمل کام کا احاطہ کرتے ہوئے کہانیوں، افسانوں، ناول ، تنقید و تحقیق اور ڈرامے پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

تقریب کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر آصف فرخی نے وکرم صاحب سے علی عباس حسینی کی کہانیوں، شاعری اور دیگر کام پر سوالات کے ذریعے علی عباس کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کو مزید اجاگر کرکے ناظرین کے سامنے پیش کیا۔ مہمان خصوصی نے بھی بڑی وضاحت سے جواب دیے۔ جس سے علی عباس کی شخصیت نکھر کر سامنے آئی یہ لمحہ قارئین کے لیے بے حد خوشگوار اور دلچسپ تھا کہ جس کو پڑھتے رہے تھے آج اس کی نجی اور معاشرتی و ادبی کردار سے واقف ہوئے۔

وکرم صاحب کے بقول وہ نقاد بھی تھے اور قدیم شاعری پر ان کا بہت کام ہے۔ فلموں پر بھی ان کا کام ہے میرے پاس وقت کم ہے اور علی عباس پر ابھی بہت کام کرنا ہے۔ انھیں پریم چند ، منٹو یا کسی بھی افسانہ نگار کے مد مقابل نہیں قرار دیا جاسکتا ۔ ان کی کہانیوں کے کردار خود کہانی سے نکلتے ہیں۔ علی عباس انسان دوست تھے۔ انھوں نے مزدوروں اور معاشرے کے کچلے طبقے پر خصوصی توجہ دی۔ ان کی عمدہ کتاب ''مرثیے'' کے بارے میں ہے۔

اس محفل کے صدر سحر انصاری نے کہا کہ یہ ایک یادگار تقریب ہے انھوں نے ادب کی مختلف اصناف کا مختصراً جائزہ خصوصاً شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شاعری ہر دور میں ہوتی رہی اور ہر دور میں اس پر تنقید بھی ہوئی۔ کسی نے شاعری کو اہم اور کسی نے غیر ضروری قرار دیا مگر حقیقت یہی ہے کہ شاعروں نے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ علی عباس کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ علی عباس نے بڑا متنوع ادب اردو ادب کو دیا ہے''اردو شاعری کا دفاع'' ان کا بے حد اہم مقالہ ہے۔

تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر پیرزادہ نے اپنے خطاب میں وکرم صاحب کو اس تقریب میں تشریف لانے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج بڑا اہم دن ہے کہ اردو کے محسن وکرم صاحب ہمارے درمیان ہیں اور ان کی وجہ سے علی عباس حسینی کو بھی یاد کیاگیا جو کہ اردو کے بے حد مقبول افسانہ نگار تھے۔ ان کے ادبی کارنامے بے حد متنوع ہیں۔ قاری ان کے تازہ افسانوں کا انتظار کرتے تھے۔ ڈاکٹر ایم معین نے اردو، ہندی کو سگی بہنیں قرار دیتے ہوئے کہا کہ اردو کی ترقی میں ہندوستان کے اہل قلم کا بڑا کردار ہے۔ وہ بڑے کارنامے انجام دے رہے ہیں۔ محمود شام نے گفتگو میں کہا کہ مذاہب کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے مگر زبان کو کسی مذہب کی ضرورت نہیں ۔ ہوتی اس لیے اسے اختلاف کا ذریعہ نہیں بنانا چاہیے۔

اس تقریب کو ہم نے بے حد اہم اور منفرد اس لیے قرار دیا کہ اس میں اردو کے بڑے بڑے نام، ادیب ، شاعر ، صحافی کے علاوہ علی عباس حسینی کی بیٹی گیتی آرا نے بھی اپنے والد کی نجی زندگی پر بے حد دلچسپ گفتگو کی اور انجمن ترقی اردو خاص کر فاطمہ حسن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پاکستان میں اپنے والد کے کام شایع نہ کراسکنے کی وجوہات پر بھی روشنی ڈالی کہ یہاں کسی پبلشر نے دلچسپی نہ لی۔ فاطمہ حسن نے بعد میں اعلان کیا کہ وکرم صاحب کا علی عباس حسینی پر جو کام ہے اس کو انجمن ترقی اردو کے تحت پاکستان میں شایع کیا جائے گا۔
Load Next Story