ایک حصے میں درد ہو تو…

مذہب سے دوری اور اس کے احکامات کو نہ سمجھنا ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔


Shirin Hyder February 24, 2019
[email protected]

کھاریاں چھاؤنی سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر، ڈیفنس روڈ پر واقعہ ہمارے گاؤں بھدر میں ایک رات میں تین اور دن دیہاڑے ہونے والی چوری کی وارداتوں نے نہ صرف تھرتھلی مچا دی ہے بلکہ گاؤں کے لوگوں کا سکون برباد کر دیا ہے۔

واردات کے بعد لوگوں کے بیانات سنیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر واردات میں کچھ نہ کچھ عنصر مخبری کا ضرور تھا کیونکہ کسی گھرمیں بیٹی کے جہیز کا سامان رکھا تھا اور کسی گھر میں بیرون ملک سے مرد حضرات چھٹی پر آئے ہوئے تھے اور ان کے پاس فارن کرنسی کافی زیادہ تھی... یا وہ اسی دن کرنسی تبدیل کروا کر لائے تھے۔

گاؤں میں ان چند حضرات نے سی سی ٹی وی کیمرے لگوا رکھے ہیں ، جن کے پاس اللہ کا دیا کافی ہے اور انھیں اس قسم کے خوف لاحق رہتے ہیں، یا پھر وہ لوگ جن کے گھروں میں صرف عورتیں ہیں کہ مرد حصول روزگار کے لیے گاؤں یا ملک ہی سے باہر ہیں ۔

اب لوگ کہتے ہیں کہ دو ایک دن سے گاؤں میں مختلف لوگ تھرماس اور ٹرے وغیرہ بیچنے کے بہانے سے آ رہے تھے، دن کو گلیوں میں آوازیں لگا لگا کر گھروں کی خواتین کو پرکشش پیشکش کرتے ہوئے اور رک رک کر گھروں کے اندر جھانکتے ہوئے۔ اس وقت کسی نے نہ پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں، کہاں سے آئے ہیں اور اب سب لوگوں کا شک انھی کی طرف ہے جن کا نہ نام معلوم ہے نہ اتا پتا۔

'' مجھے رات کو اڑھائی بجے کے قریب ان کے ہاں سے آوازیں آ رہی تھیں... بھاری چیزیں گھسیٹی جا رہی تھیں اور دروازے اور الماریاں وغیرہ کھلنے کی آوازیں ... '' بتانے والی، ایک کزن کی بیٹی ہے جن کے پڑوس میں اس رات چوری کی واردات ہوئی، ان کے اور واردات ہونیوالے گھر کے بیچ گارے کی لپائی والی ایک دیوار ہے۔ پرانے زمانے میں ایک گھر والوں کی دیوار موجود ہوتی تھی تو دوسرا گھر بناتے ہوئے اس کے متوازی ایک اور دیوار بنانے کا رواج نہ تھا۔ ان کا بیٹا بھی اٹلی سے چھٹی پر آیا تھا اور اس روز اپنے والدین کو ملنے چلا گیا اور انھی کے گھر قیام کر لیا ، اس لیے اس گھر میں بد قسمتی یا خوش قسمتی سے اس رات کوئی موجود نہ تھا۔

'' اگر آپ کی آنکھ کسی شور سے کھلی یا جاگتے ہوئے آپ کو عجیب سی آوازیں اتنی رات گئے محسوس ہوئیں تو آپ نے کیوں نہیں کسی کو بتایا، اپنے شوہر کوجگایا یا جاننے کی کوشش کی کہ اس گھر میں کیا ہو رہا ہے؟'' میں نے سوال کیا۔

'' میں سمجھی کہ وہ کوئی سیٹنگ وغیرہ تبدیل کر رہے ہیں، یوں بھی کسی کے گھر کے معاملات میں دخل دینا!!'' اس نے جواب دیا۔'' کیا؟؟ کیا واقعی گاؤں میں لوگ نصف رات کو... اڑھائی بجے اٹھ کر اپنے فرنیچر کی سیٹنگ تبدیل کرنا شروع کر دیتے ہیں؟ '' میں نے ہنس کر سوال کیا۔

'' میرے گھر کے سامنے والے ایک نہیں... دوگھروں میں بہت بڑی واردات ہوئی ہے... دونوں وارداتوں میںکافی تعداد میں مسلح افراد نے گھر والوں کو گن پوائنٹ پر یرغمال بنا کر، رات کے اڑھائی بجے ان دونوں گھروں کا صفایا کر دیا۔ ڈاکو تعداد میں پانچ یا اس سے زیادہ تھے... پہلے گھر میں انھوں نے ایک جوڑے اور ان کی بوڑھی بیمار ماں کو اڑھائی گھنٹے تک گن پوائنٹ پر رکھا اور ان کے گھر سے تسلی سے سب کچھ لے گئے جس میں زیورات، نقدی اور قیمتی پارچہ جات شامل ہیں ۔ دوسرے گھر سے بھی انھوں نے گھر والوں کو تقریبا اسی طرح دو گھنٹے تک گن پوائنٹ پر رکھا اور ہر چیز سمیٹ لی۔

یہ واقعہ رات کے اڑھائی بجے شروع ہوا اور مجھے اس کا علم اس لیے ہوا کہ میرا خونخوار السیشن کتا رات کے اس پہر کافی دیر کے لیے بھونکتا رہا۔ میرے گھر کی بچت غالبا اسی لیے ہو گئی کہ میرا گھر میں کتا تھا، جس نے کافی شور مچا رکھا تھا! '' Whatsapp پریہ پیغام میں نے صبح سویرے موصول کیا، پیغام بھیجنے والے نے جس جگہ کا نام پتا دیا تھا ، وہ میرے گھر سے فقط نصف کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، حالانکہ ہم اپنے تئیں ایک محفوظ کمیونٹی میں رہتے ہیں۔

ان دونوں واقعات کے تناظر میں میرے ذہن میں پہلا سوال یہ آیا کہ اس بات کا کیا مطلب ہوا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جسم کے ایک حصے کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے... تو کیا ہم مسلمان نہیں یا ہم نے قرآن اور احادیث پر عمل کرنا چھوڑ دیا ہے۔ فرنیچر گھسیٹنے کی آوازیں ہوں یا بے وقت اور بے مقصد کتے کا بھونکنا، اس کا مطلب تو یہ ہوا نا کہ آپ اٹھیں اور چیک کریں کہ کتے کو جس مقصد کے لیے آپ نے رکھا ہوا ہے وہ جانور ہو کر اس مقصد کو پورا کر رہا ہے تو آپ انسان ہیں ، اس سے افضل ہیں ، اٹھ کر دیکھیں کہ وہ کیوں بھونک رہا ہے۔ وہ اپنے طریقے سے جانور ہو کر بھی آپ کو بتا دیتا کہ آپ کا ہمسایہ اس وقت مشکل میں ہے، آپ ممکن ہے کہ اس کی کسی طرح مدد کر سکتے۔ ان وارداتوں کو ہونے سے بچا سکتے اور ان لوگوں کے لیے عمر بھر کا جو خوف ہمجولی بن گیا ہے وہ نہ ہوتا ۔

جب قدرت آپ کو کوئی واضع اشارہ دیتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے آپ کو کسی مقصد کے لیے چنا ہے۔ ہم اپنی جان جانے کے خوف سے پڑے رہتے ہیں، جو بہر صورت اپنے مقررہ وقت پر ہی جانی ہے خواہ ہم اپنے بستر پر لیٹے ہوئے ہی ہوں ۔ اس بے حسی نے ہم سے انسان اور اشرف المخلوقات ہونے کا شرف چھین لیا ہے۔ کل جو واردات آپ کے ہمسائے کے گھرمیں ہوئی ہے ، کسی وقت وہ آپ کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے ۔ کیا اس وقت ہم اللہ تعالی سے کسی غیبی مدد کے لیے دعائیں نہیں کر رہے ہوں گے... خوف میں مبتلا ہونے والے کا فطری رد عمل یہی ہوتا ہے ۔ ہم اس وقت کا انتظار کرتے ہیں جب ہم خود نشانہ بنیں گے اور مصیبت میں مبتلا ہوں گے، اپنے بھائی کی تکلیف ہمیں نہیں تڑپاتی۔

ملک کے چپے چپے میں چوریوں او ڈاکوں کی وارداتیں عام ہیں، ایک ہی علاقے میں کئی کئی وارداتیں ایک ہی وقت میں ہونا بھی عام ہے، ظاہر ہے کہ جو اپنے '' کام '' پر نکلے ہوتے ہیں ، انھیں اوور ٹائم بھی لگانا پڑے تو ایک علاقے میں وہ اپنا کام زیادہ سے زیادہ گھروں یا دکانوں میں کر کے جاتے ہیں کیونکہ جہاں ایک بار واردات ہو جاتی ہے، اس علاقے میں کچھ عرصہ کے لیے وہ دوبارہ نہیں آ سکتے... کیونکہ وہاں کے لوگ کچھ دنوں کے لیے الرٹ ہو جاتے ہیں، چند دن گزار کر لوگ پھر سے اسی طرح لاپروا ہوجاتے ہیں۔ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں پر لوگوں کا اعتماد ختم ہو گیا ہے اور لوگ کھلے عام کہتے ہیں کہ یہ لوگ چوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیںکہ پہلے وقتوں میں بڑی سے بڑی واردات پر اس علاقے کا ایس ایچ او اس وقت چین سے بیٹھتا تھا جب وہ مجرموں پر ہاتھ ڈال لیتا تھا۔

سانپ گزر جاتا ہے تو لکیر پیٹنے والے لوگ بن گئے ہیں ہم... ہم نے بہترین رہائشی علاقے بنا لیے ہیں، تمام سہولتوں پر مبنی بڑے بڑے آرام دہ گھر مگر ہم نے خود کو اپنی اپنی ذات اور اپنے اپنے خاندان کے ساتھ تنہا کر لیا ہے۔ محلے یا پڑوس میں کیا ہو رہا ہے اس سے ہمیںکوئی غرض نہیں ہوتی۔ پہلے وقتوں میںکسی کے ہاں کوئی ایسا مہمان بھی آتا تھا جسے لوگوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوتا تھا تو اس کی اطلاع بھی سارے محلے کو دی جاتی تھی کہ فلاں کے گھر کوئی ایسا مہمان آیا ہے جو پہلے کبھی نہیں آیا۔ گلی محلے سے گزرنیوالا کوئی اجنبی بھی روک کر چیک کیا جاتا تھا کہ وہ کون ہے ، کس لیے وہاں آیا ہے، کس کے گھر کا مہمان ہے۔

محلے کے ہرگھر کے مکینوں کے بارے میں نہ صرف ان کی تعداد اور رشتوں کا علم ہوتا تھا بلکہ یہ بھی علم ہوتا تھا کہ ان کے گھر کے مسائل کیا ہیں۔ ان کے بچے کیا پڑھتے ہیں اور کیا ملازمت کرتے ہیں۔ ان کی آمدنی اور ذرایع آمدنی کیا ہیں... اگر ان کی جائز آمدنی سے زیادہ ان کے ہاں آ رہا ہو تو اس پر اعتراض ہوتا تھا اور اگر ذرایع آمدنی جائز نہ ہوتے تھے تو پورا محلہ ان کا بائیکاٹ کر دیتا تھا۔ یہ باتیں جب ہم آج بچوں کو بتاتے ہیں تو وہ اسے خواہ مخواہ کی مداخلت کہتے ہیں، لیکن اس دور میں اس '' مداخلت '' کا نہ ہونا ہمیں ایک ایسی تنہائی اوراجنبیت کا شکار کر گیا ہے کہ ہم خود کو دنیامیں ہر مشکل میں تنہا پاتے ہیں ۔ اگر اپنے بچو ں کے سامنے خاندان کے کسی اور بچے سے یونہی پوچھ لیں ، ''بیٹا آپ کی جاب کیسی ہے... تنخواہ اچھی ہے نا؟ ''

'' آپ کو کل میں نے فلاں جگہ پر کسی لڑکے کے ساتھ گرم لہجے میں بات کرتے ہوئے سنا تھا، خیریت تو تھی نا؟ ''

'' بیٹا کل آپ ڈاکٹر کے پاس گئی تھیں، سب ٹھیک تو ہے نا؟ ''

'' آپ کی بہو نظر نہیں آ رہی؟ ''

یقین کریں اتنی اتنی بات پر بھی، جو کہ ہم صرف اس لیے پوچھتے ہیں کہ ہمیں واقعی ان کے لیے احساس ہوتا ہے، ہمارے اپنے بچے کہتے ہیں کہ ہم ان بچوں سے بہت ذاتی سوال کرتے ہیں، ہمیں دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے ۔ یہ ہماری نئی نسل کا ایک المیہ ہے کہ انھوں نے مغرب کی تقلید میں یا اسے اسلامی نقطہ نظر کا کہہ کر خود کو معاشرے میں تنہا کر لیا ہے ۔ اگر مذہب کہتا ہے کہ دوسروں کے معاملات کی ٹوہ نہ لو تو اسی مذہب میں حکم ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کے مسائل سے با خبر رہنا ہے۔

ہمسائے کے حقوق کا بھی بتایا گیا تو یہ تک تفریق نہیں کی کہ ہمسایہ مسلمان ہے یا نہیں ... ٹوہ لینے اور باخبر رہنے میں فرق ہے ۔ ہم تو اس نسل سے ہیں جو خاندان کے ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھتے تھے اس لیے ان کے مسائل کو بھی اپنے مسائل جیسا سمجھتے ہیں۔ مذہب سے دوری اور اس کے احکامات کو نہ سمجھنا ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ہر چیز کو اعتدال سے کرنا، مذہب کی روح کے مطابق زندگی بسر کرنا معاشرے میں اعتدال اور توازن قائم کرتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں