تب اور اب کے اسکول
ہم آٹھ نو اسکول فیلو مہینے میں ایک بار چائے پر اکٹھے ہوتے ہیں تو اپنے اسکول کے ٹیچرز کو ضرور یاد کرتے ہیں۔
چند روز قبل ایک سرکاری اسکول کے سامنے سے گزر ہوا میں اندر چلا گیا، اس کے کمروں کی بدحالی جو ایک کھنڈر کا منظر تھی دیکھ کر مجھے اپنا گورنمنٹ ہائی اسکول سیالکوٹ یا د آ گیا۔ میں نے واپسی پر کار میں بیٹھ کر تصور میں اپنے اسکول کا چکر لگایا ۔
گیٹ سے اندر داخل ہو کر سامنے برآمدے سے آگے ہیڈ ماسٹر ارشاد قریشی صاحب کا آفس اس کے برابر اسٹاف کا دفتر ، ذرا آگے کامن روم ، دائیں بائیں آگے پیچھے کلاس رومز عمارت کے دائیں طرف وسیع کھیل کا میدان اور ایک کونے میں ٹک شاپ اور اس کے برابر پیتل کی لٹکتی ہوئی گول گھنٹی اور لکڑی کا ہتھوڑا۔
اکثر لوگوں کو چالیس پچاس سال کے بعد اپنے اسکول کے زمانے کے اساتذہ کے نام بھی یاد نہیں رہتے لیکن قابل اور محنت سے پڑھانے والے ٹیچرز کے نام کبھی نہیں بھولتے۔ شاید اسی لیے مجھے اپنے کئی استادوں کے نام یاد ہیں۔ ماسٹر اسحاق خوش شکل اور خوش لباس انگریزی کے استاد تھے۔ دو یوسف تھے، ایک جو میتھ پڑھاتے تھے ہم ان کی لکنت کی وجہ سے یوسف تھتھہ کہتے ۔ دوسرے انگریزی کے ٹیچر یوسف بھٹی تھے۔ اللہ دتہ کو ہم اللہ دت کہتے ۔ احمد خاں حساب کے ٹیچر تھے۔
ہمارے PT ماسٹر حمید صاحب شاگردوں کو چھڑی مارنے کا شوق رکھتے تھے کبھی کبھی ہیڈ ماسٹر ارشاد قریشی بھی انگریزی پڑھاتے تھے ۔ سردیوں میں کسی دن اچھی دھوپ نکلتی تو ماسٹر اسحاق گرائونڈ میں کلاس لیتے۔ کئی بار انگریزی الفاظ کے one word پوچھتے جاتے اسٹوڈنٹ سے غلطی ہوتی، وہ کھڑا رہتا، یوں پندرہ بیس منٹ میں پندرہ بیس کھڑے ہو جانے والے اسٹوڈنٹس کو ہاتھ پر ایک سوٹی کھانی پڑتی۔ دس بارہ کے قریب اسکول کے زمانے کے کلاس فیلو اور دوستوں سے نصف صدی گزرنے کے بعد بھی میرا رابطہ ہے ، ان میں سے چند ایسے ہیں جن سے مستقل رابطہ رہتا ہے۔
گورنمنٹ ہائی اسکول کی پانچویں کلاس میں داخل ہوا تو کلاس مانیٹر سعید سے پالا پڑا ۔ کلاس ٹیچرز نے اسے مانیٹر بنایا تھا اور وہ گویا ڈکٹیٹر بن گیا۔ وہ مانیٹر دسویں تک رہا۔ تمام کلاس فیلو جن کو اس نے ٹیچر سے شکایت کر کے پٹوایا ، اسے آج تک مولوی سعید یا ملاں کہہ کر بلاتے ہیں۔ ملاں نے چھوٹی سی ملازمت سے کیرئیر کی ابتدا کی۔ قانون کی ڈگری لیاور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ریٹائرڈ ہوا۔
ہمارے دو دوست اور اسکول فیلو شفقت بخاری اور عبدل معتی بخاری بینکر تھے۔ شفقت بخاری نے کیریئر کا آغاز اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک سے کیا۔ پھر BCCI جائن کر کے کئی ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ پھر نیشنل بینک آف مسقط اومان میں چلے گئے ۔ عبدل معتی بخاری نے ملازمت کا آغاز مسلم کمرشل بینک سے کیا اور اسی بینک کے سینئر ایگزیکٹو، وائس پریذیڈنٹ ریٹائر ہونے کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری اور اپنا سارا اثاثہ بیچ کر ذوج بینکوٹ ہال کے نام سے میرج ہال اور اسکول بنایا۔
اسی میرج ہال کے ایک گوشے میں وہ ہر ماہ اپنے اسکول فیلو دوستوں کو چائے پر اکٹھا کرتے ہیں۔ اسی چائے کی پارٹی میں اسکول فیلو صوفی منیر جس نے امریکا سے ڈاکٹریٹ کی ہے، محفل میں شریک ہوتا ہے۔ سلیم اقبال علوی نے پاکستان میں انجینئرنگ کرنے کے بعد ترکی اور کینیڈا میں تعلیم مکمل کی۔انجینئرنگ ہی میں ڈاکٹریٹ کر کے پاکستان کی یونیورسٹی سے منسلک ہو کر تدریس میں مصروف ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا تعلیمی ادارہ قائم کر لیا۔ کئی سال کے بعد اب وہ بھی مولوی سعید اور صوفی منیر کی طرح کلین شیو نہیں اوراگر میرے یہ تینوں کلاس فیلو شلوار قمیض پہنے کچھ فاصلے سے اکٹھے چل کر آتے نظر آئیں تو ہم مئودب کھڑے ہو جاتے ہیں۔
شیخ محمد افضل ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے ایک انکل وائس چانسلر اور بھائی چیف انجینئر تھے اس نے بھی انجینئرنگ میں تعلیم مکمل کی اور PTCL سے وابستہ ہو گئے اور اعلیٰ عہدے تک پہنچے۔ برونائی میں کئی سال Deputation پر رہے۔ لیکن جب میں نے اسے لاہور جمخانہ کلب کا ممبر بنوا دیا تو کئی سال گزرنے کے با وجود ٹیلیفون پر بھی شکریہ تک ادا کرنے کی زحمت نہیں کی۔
سلیم مرزا وہ خوش مزاج اور خوش اخلاق اسکول فیلو ہے جسے کرکٹ سے عشق رہا ہے۔ جب کانلے پارک سیالکوٹ میں اسلامیہ اسکول اور گورنمنٹ اسکول کے درمیان کرکٹ کا مقابلہ ہوتا تھا اس وقت بھی وہ اپنی ٹیم کا کپتان ہوتا تھا۔ اس کا بیٹا بھی اسنوکر چمپیئن ہے۔ یہ وہی سلیم مرزا ہے جس کے والد نے بحیثیت چیف انجینئر 1932میں سکھر بیراج بنایا تھا۔ کوئی وقت تھا جب اس کے ڈاکٹر مبشر، مصطفیٰ کھر اور معراج خالد جیسے لوگوں سے قریبی تعلقات ہوتے تھے۔ سلیم کی دوستی اب بھی کئی بڑے لوگوں سے ہے۔ لیکن دکھ ہو یا سکھ وہ ہمیشہ مسکراتا ملے گا۔ہمارا ایک اسکول فیلو امداد بھی آج تک ہمارے درمیان موجود ہوتا ہے۔
ہمارے اسکول فیلو توقیر حسین نے فارن سروس جائین کی۔ برازیل ، اسپین اور جاپان میں سفیر رہے۔ ایڈیشنل سیکریٹری کے طور پر امریکا ، یورپ اور مڈل ایسٹ کے بیورو ہیڈ اور وزیر ِ اعظم کے ڈپلومیٹک ایڈوائزر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا میں Institute of Peace میں سینئر فیلو ، پھر جارج یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو رہے۔ ان کی Specialization میں سائوتھ ایشیا سیکوریٹی ایشوز، ایران ، افغانستان، کشمیر تنازعات تھے۔انھوں نے جان ہاپکنز اور ورجینا یونیورسٹیوں میں بطور مہمان اسپیکر لیکچر دیے، انھیں الجزیرہ اور وائس آف امریکا کے چینلز پر ان کے News Hour میں اظہار رائے کا موقع بھی ملتا ہے۔
اسکول فیلوز میں ایک شخصیت ڈاکٹر جاوید ارشد مرزا ہے۔ جسے ہم اسکول کی پانچویں سے دسویں کلاس تک ڈاکٹر کہہ کر بلاتے تھے۔ اس کا اسکول،کالج اور ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد سائنسدان تک کا ریکارڈ ثبوت ہے کہ ہم اسے جاوید کیوں ڈاکٹر کہتے تھے۔ اس نے B.Sc.(Hon) کے بعد M.Sc فزکس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن لی۔ ساتھ میں گولڈ میڈل تھا، اٹامک انرجی کمیشن جائن کر لیا۔ نیوکلیئر فزکس میں گلاسگو سےPh.D کے بعد PINSTECH میں نیو کلیئر ریسرچ مکمل کر کے Post-doctoral ریسرچ کے لیے جرمنی کی میونخ ٹیکنیکل یونیورسٹی اور نیو کلیئر ریسرچ سینٹر سے تعلیم مکمل کی۔
1974میں جاوید نے AQ. Khan ریسرچ لیبارٹری کی بنیاد رکھتے ہوئے اس کے ڈائیریکٹر ، DG اور ڈپٹی چیئرمین کے طور پر کام کیا اور پھر 2001 میں اس کی تعیناتی بطور چیئرمین ہو گئی۔ اسی کے دور میں غوری میزائل کا کامیاب تجربہ ہوا۔ وہ 1998 میں بھی Nuclear detonation کی ٹیم کا لیڈر تھا جسکے بعد حکومت نے اسے ستارہ امتیاز، ہلال ِ امتیاز اور 1998 میں تمغئہ بقا دیا۔ اس نے 30 سال تک KRL میں اور 5 سال بطور چیئرمین خدمات انجام دیں۔ جاوید نے اس کے بعد دو سال چیئرمین PCSIR کام کیا اور اس وقت ایک ویلفیئر آرگنائزیشن کا اعزازی کنسلٹنٹ ہے۔ جب وہ KRL کا چیئرمین تھا لاہور جمخانہ کلب میں میرا مہمان ہوا تو اس نے کہا کہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ میں وہاں آ رہا ہوں۔ کیونکہ ایک سائنسدان کو نہ پبلک میں کھلے عام نظر آنا چاہیے نہ اس کی اخباری مشہوری ہونی چاہیے اور ایسا ہی ہوا۔ میرے دیگر پندرہ بیس مہمانوں میں جاوید اقبال کارٹونسٹ اور عمران خان بھی تھے۔
ہم آٹھ نو اسکول فیلو مہینے میں ایک بار چائے پر اکٹھے ہوتے ہیں تو اپنے اسکول کے ٹیچرز کو ضرور یاد کرتے ہیں کیونکہ ہم انھیں سے ہاتھوں پر کھائی ہوئی سوٹیوں اور دی ہوئی تعلیم سے اس قابل ہوئے ہیں کہ ہم میں سے ایک کلاس فیلو جس کی جیب میں لاہور یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران بعض اوقات روٹی کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے ، آج ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہے۔
گیٹ سے اندر داخل ہو کر سامنے برآمدے سے آگے ہیڈ ماسٹر ارشاد قریشی صاحب کا آفس اس کے برابر اسٹاف کا دفتر ، ذرا آگے کامن روم ، دائیں بائیں آگے پیچھے کلاس رومز عمارت کے دائیں طرف وسیع کھیل کا میدان اور ایک کونے میں ٹک شاپ اور اس کے برابر پیتل کی لٹکتی ہوئی گول گھنٹی اور لکڑی کا ہتھوڑا۔
اکثر لوگوں کو چالیس پچاس سال کے بعد اپنے اسکول کے زمانے کے اساتذہ کے نام بھی یاد نہیں رہتے لیکن قابل اور محنت سے پڑھانے والے ٹیچرز کے نام کبھی نہیں بھولتے۔ شاید اسی لیے مجھے اپنے کئی استادوں کے نام یاد ہیں۔ ماسٹر اسحاق خوش شکل اور خوش لباس انگریزی کے استاد تھے۔ دو یوسف تھے، ایک جو میتھ پڑھاتے تھے ہم ان کی لکنت کی وجہ سے یوسف تھتھہ کہتے ۔ دوسرے انگریزی کے ٹیچر یوسف بھٹی تھے۔ اللہ دتہ کو ہم اللہ دت کہتے ۔ احمد خاں حساب کے ٹیچر تھے۔
ہمارے PT ماسٹر حمید صاحب شاگردوں کو چھڑی مارنے کا شوق رکھتے تھے کبھی کبھی ہیڈ ماسٹر ارشاد قریشی بھی انگریزی پڑھاتے تھے ۔ سردیوں میں کسی دن اچھی دھوپ نکلتی تو ماسٹر اسحاق گرائونڈ میں کلاس لیتے۔ کئی بار انگریزی الفاظ کے one word پوچھتے جاتے اسٹوڈنٹ سے غلطی ہوتی، وہ کھڑا رہتا، یوں پندرہ بیس منٹ میں پندرہ بیس کھڑے ہو جانے والے اسٹوڈنٹس کو ہاتھ پر ایک سوٹی کھانی پڑتی۔ دس بارہ کے قریب اسکول کے زمانے کے کلاس فیلو اور دوستوں سے نصف صدی گزرنے کے بعد بھی میرا رابطہ ہے ، ان میں سے چند ایسے ہیں جن سے مستقل رابطہ رہتا ہے۔
گورنمنٹ ہائی اسکول کی پانچویں کلاس میں داخل ہوا تو کلاس مانیٹر سعید سے پالا پڑا ۔ کلاس ٹیچرز نے اسے مانیٹر بنایا تھا اور وہ گویا ڈکٹیٹر بن گیا۔ وہ مانیٹر دسویں تک رہا۔ تمام کلاس فیلو جن کو اس نے ٹیچر سے شکایت کر کے پٹوایا ، اسے آج تک مولوی سعید یا ملاں کہہ کر بلاتے ہیں۔ ملاں نے چھوٹی سی ملازمت سے کیرئیر کی ابتدا کی۔ قانون کی ڈگری لیاور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ریٹائرڈ ہوا۔
ہمارے دو دوست اور اسکول فیلو شفقت بخاری اور عبدل معتی بخاری بینکر تھے۔ شفقت بخاری نے کیریئر کا آغاز اسٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک سے کیا۔ پھر BCCI جائن کر کے کئی ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ پھر نیشنل بینک آف مسقط اومان میں چلے گئے ۔ عبدل معتی بخاری نے ملازمت کا آغاز مسلم کمرشل بینک سے کیا اور اسی بینک کے سینئر ایگزیکٹو، وائس پریذیڈنٹ ریٹائر ہونے کے بعد بھی ہمت نہیں ہاری اور اپنا سارا اثاثہ بیچ کر ذوج بینکوٹ ہال کے نام سے میرج ہال اور اسکول بنایا۔
اسی میرج ہال کے ایک گوشے میں وہ ہر ماہ اپنے اسکول فیلو دوستوں کو چائے پر اکٹھا کرتے ہیں۔ اسی چائے کی پارٹی میں اسکول فیلو صوفی منیر جس نے امریکا سے ڈاکٹریٹ کی ہے، محفل میں شریک ہوتا ہے۔ سلیم اقبال علوی نے پاکستان میں انجینئرنگ کرنے کے بعد ترکی اور کینیڈا میں تعلیم مکمل کی۔انجینئرنگ ہی میں ڈاکٹریٹ کر کے پاکستان کی یونیورسٹی سے منسلک ہو کر تدریس میں مصروف ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا تعلیمی ادارہ قائم کر لیا۔ کئی سال کے بعد اب وہ بھی مولوی سعید اور صوفی منیر کی طرح کلین شیو نہیں اوراگر میرے یہ تینوں کلاس فیلو شلوار قمیض پہنے کچھ فاصلے سے اکٹھے چل کر آتے نظر آئیں تو ہم مئودب کھڑے ہو جاتے ہیں۔
شیخ محمد افضل ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے ایک انکل وائس چانسلر اور بھائی چیف انجینئر تھے اس نے بھی انجینئرنگ میں تعلیم مکمل کی اور PTCL سے وابستہ ہو گئے اور اعلیٰ عہدے تک پہنچے۔ برونائی میں کئی سال Deputation پر رہے۔ لیکن جب میں نے اسے لاہور جمخانہ کلب کا ممبر بنوا دیا تو کئی سال گزرنے کے با وجود ٹیلیفون پر بھی شکریہ تک ادا کرنے کی زحمت نہیں کی۔
سلیم مرزا وہ خوش مزاج اور خوش اخلاق اسکول فیلو ہے جسے کرکٹ سے عشق رہا ہے۔ جب کانلے پارک سیالکوٹ میں اسلامیہ اسکول اور گورنمنٹ اسکول کے درمیان کرکٹ کا مقابلہ ہوتا تھا اس وقت بھی وہ اپنی ٹیم کا کپتان ہوتا تھا۔ اس کا بیٹا بھی اسنوکر چمپیئن ہے۔ یہ وہی سلیم مرزا ہے جس کے والد نے بحیثیت چیف انجینئر 1932میں سکھر بیراج بنایا تھا۔ کوئی وقت تھا جب اس کے ڈاکٹر مبشر، مصطفیٰ کھر اور معراج خالد جیسے لوگوں سے قریبی تعلقات ہوتے تھے۔ سلیم کی دوستی اب بھی کئی بڑے لوگوں سے ہے۔ لیکن دکھ ہو یا سکھ وہ ہمیشہ مسکراتا ملے گا۔ہمارا ایک اسکول فیلو امداد بھی آج تک ہمارے درمیان موجود ہوتا ہے۔
ہمارے اسکول فیلو توقیر حسین نے فارن سروس جائین کی۔ برازیل ، اسپین اور جاپان میں سفیر رہے۔ ایڈیشنل سیکریٹری کے طور پر امریکا ، یورپ اور مڈل ایسٹ کے بیورو ہیڈ اور وزیر ِ اعظم کے ڈپلومیٹک ایڈوائزر رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد امریکا میں Institute of Peace میں سینئر فیلو ، پھر جارج یونیورسٹی میں ریسرچ فیلو رہے۔ ان کی Specialization میں سائوتھ ایشیا سیکوریٹی ایشوز، ایران ، افغانستان، کشمیر تنازعات تھے۔انھوں نے جان ہاپکنز اور ورجینا یونیورسٹیوں میں بطور مہمان اسپیکر لیکچر دیے، انھیں الجزیرہ اور وائس آف امریکا کے چینلز پر ان کے News Hour میں اظہار رائے کا موقع بھی ملتا ہے۔
اسکول فیلوز میں ایک شخصیت ڈاکٹر جاوید ارشد مرزا ہے۔ جسے ہم اسکول کی پانچویں سے دسویں کلاس تک ڈاکٹر کہہ کر بلاتے تھے۔ اس کا اسکول،کالج اور ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد سائنسدان تک کا ریکارڈ ثبوت ہے کہ ہم اسے جاوید کیوں ڈاکٹر کہتے تھے۔ اس نے B.Sc.(Hon) کے بعد M.Sc فزکس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن لی۔ ساتھ میں گولڈ میڈل تھا، اٹامک انرجی کمیشن جائن کر لیا۔ نیوکلیئر فزکس میں گلاسگو سےPh.D کے بعد PINSTECH میں نیو کلیئر ریسرچ مکمل کر کے Post-doctoral ریسرچ کے لیے جرمنی کی میونخ ٹیکنیکل یونیورسٹی اور نیو کلیئر ریسرچ سینٹر سے تعلیم مکمل کی۔
1974میں جاوید نے AQ. Khan ریسرچ لیبارٹری کی بنیاد رکھتے ہوئے اس کے ڈائیریکٹر ، DG اور ڈپٹی چیئرمین کے طور پر کام کیا اور پھر 2001 میں اس کی تعیناتی بطور چیئرمین ہو گئی۔ اسی کے دور میں غوری میزائل کا کامیاب تجربہ ہوا۔ وہ 1998 میں بھی Nuclear detonation کی ٹیم کا لیڈر تھا جسکے بعد حکومت نے اسے ستارہ امتیاز، ہلال ِ امتیاز اور 1998 میں تمغئہ بقا دیا۔ اس نے 30 سال تک KRL میں اور 5 سال بطور چیئرمین خدمات انجام دیں۔ جاوید نے اس کے بعد دو سال چیئرمین PCSIR کام کیا اور اس وقت ایک ویلفیئر آرگنائزیشن کا اعزازی کنسلٹنٹ ہے۔ جب وہ KRL کا چیئرمین تھا لاہور جمخانہ کلب میں میرا مہمان ہوا تو اس نے کہا کہ کسی کو معلوم نہ ہو کہ میں وہاں آ رہا ہوں۔ کیونکہ ایک سائنسدان کو نہ پبلک میں کھلے عام نظر آنا چاہیے نہ اس کی اخباری مشہوری ہونی چاہیے اور ایسا ہی ہوا۔ میرے دیگر پندرہ بیس مہمانوں میں جاوید اقبال کارٹونسٹ اور عمران خان بھی تھے۔
ہم آٹھ نو اسکول فیلو مہینے میں ایک بار چائے پر اکٹھے ہوتے ہیں تو اپنے اسکول کے ٹیچرز کو ضرور یاد کرتے ہیں کیونکہ ہم انھیں سے ہاتھوں پر کھائی ہوئی سوٹیوں اور دی ہوئی تعلیم سے اس قابل ہوئے ہیں کہ ہم میں سے ایک کلاس فیلو جس کی جیب میں لاہور یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران بعض اوقات روٹی کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے ، آج ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہے۔