شیر شاہ طبیب اور ادیب
شیر شاہ کو انسانوں سے محبت ہے، وہ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کو اپنا فرض جانتے ہیں۔
فروری کا مہینہ رخصت ہو رہا ہے۔ یہ غالبؔ کی یاد گیری کا مہینہ ہے لیکن شیر شاہ سید کی کہانیوں کے مجموعے '' تو مرا دل بنا دیا'' نے دامن تھام لیا ۔ شیر شاہ پیدا ہوئے تو ادب کے عشق میں گرفتار ہوئے لیکن دوسری طرف ان کے والد تھے جن کا خیال تھا کہ ان کے ہر بیٹے ، بیٹی ، آنے والی بہوؤں ، پوتا پوتی ، نواسہ ، نواسی ، حد تو یہ ہے کہ ان کی نیم خواندہ بیوی کو بھی طب کے شعبے سے وابستہ ہونا چاہیے اور پھر انھوں نے یہی کیا۔
شیر شاہ کئی مرتبہ انٹر سائنس میں فیل ہوئے، ان کا خیال تھا کہ اس طرح انھیں اپنے والد کی خواہش سے نجات مل جائے گی لیکن جب انھیں یقین ہوگیا کہ وہ کتنی ہی مرتبہ انٹر سائنس میں فیل ہوں ، ڈاکٹری تو انھیں پڑھنا ہی پڑے گی ۔ اس یقین کے بعد ہی شیر شاہ نے ڈاکٹری اختیار کی لیکن دل سے ادب کے عشق کو دیس نکالا نہ دے پائے اور اب وہ ایک بہت اچھے کہانی کار اور ملک کے معروف طبیب ہیں ۔
ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں عام انسانوں کو کیڑے مکوڑوں اور بُھنگوں سے بھی کم اہمیت دی جاتی ہے۔ کسی ایسے سماج میں شیر شاہ ایسے ڈاکٹر نعمت غیر مترقبہ ہوتے ہیں ۔ وہ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس کے رہبر اور رہنما ڈاکٹر رحمان ہاشمی ، ڈاکٹر ادیب رضوی ، ڈاکٹر سرور اور دوسرے ترقی پسند طلبہ تھے جنہوں نے شہر بدری بھگتی ، سرکار کی سختیاں سہیں لیکن جن کے قدم نہیں ڈگمگائے ۔ ان میں سے بیشتر رخصت ہوئے ، ڈاکٹر ادیب رضوی کا دم سلامت رہے ۔ یہ ان کی اور ان کے ساتھی ڈاکٹروں کی استقامت تھی جس نے شہر میں اور ملک میں ان لوگوں کا سکہ جمادیا ۔
شیر شاہ ، ڈاکٹر ادیب رضوی کے بعد آنے والوں میں ہیں ۔ ان کی ضمانت کے لیے ایدھی صاحب کا یہ جملہ کافی ہے جو انھوںنے اپنے آخری دنوں میں اپنے بیٹے فیصل سے شیر شاہ کا نام سن کر انھیں کمیونسٹ ڈاکٹر کہا تھا ۔ اس بارے میں شیر شاہ نے لکھا کہ یہ سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ ایدھی صاحب کی زبان سے اپنے لیے کمیونسٹ ہونے کا اعزاز سننا کوئی معمولی بات نہیں تھی ۔ وہ لکھتے ہیں کہ انھیں شرمندگی بھی ہوئی کہ انھوں نے مجھے مولانا حسرت موہانی اور مولانا عبید اللہ سندھی کی صف میں کھڑا کردیا تھا۔ کاش میں ان لوگوں کی طرح کا کمیونسٹ ہوتا ۔
شیر شاہ کو انسانوں سے محبت ہے، وہ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کو اپنا فرض جانتے ہیں۔ اس کے لیے وہ کبھی سوبھراج میٹرنٹی ہوم میں ان تھک محنت کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی کوہی گوٹھ ، کبھی عطیہ اسپتال میں اور سندھ کے دور افتادہ علاقوں میں کیمپ لگاکر غریب عورتوں کا،آپریشن کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انسانوں کو رنگ ، نسل ، زبان ، مذہب اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم نہیں کرتے ۔ان کی کہانیاں بھی انسانوں کے دکھ درد کی کہانیاں ہیں ۔ یہ وہ درد ہے جو شیر شاہ ایسے لوگوں کے دل کو مضطرب رکھتا ہے۔ ان کی کہانیوں کے تمام مجموعوں کے عنوانات میں لفظ ''دل'' کا ہونا لازمی ہے ۔
'دل کی وہی تنہائی ' جس کو دل کہتے ہیں ،دل ہی تو ہے ، دل کی بساط ، چاک ہوا دل ، حد تو یہ ہے کہ بالاکوٹ اور اس کے گرد و نواح میں آنے والے زلزلے کی کہانیاں لکھیں تو اس کا عنوان ''دل ہوا بالاکوٹ'' رکھا ۔ اس کے بعد بھی ان کے جتنے مجموعے آئے اس میں ''دل'' کا لفظ لازمی ہے ، شاید اس لیے انھوں نے جو کہانیاں لکھیں ، وہ خونِ دل میں ڈبو کر لکھیں۔ اس مرتبہ انھوںنے اپنے مجموعے کا نام نگینہ ، بجنور کے ایک شاعر نجمی نگینوی کے شعر سے مستعار لیا :
بے تابیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
جو کچھ نہ بن سکا تو مرا دل بنا دیا
نجمی نگینوی نے جانے کس عالم میں یہ شعر لکھا ہوگا لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ شعر شیر شاہ پر سو فی صد صادق آتا ہے ۔
اپنے اس مجموعے میں انھوں نے ارد شیر کاؤس جی ، عبدالستار ایدھی اور ایم اے قوی کے بارے میں بہت دل سوزی سے لکھا ہے ۔ لوگ ارد شیر کاؤس جی کو آج بھی یاد کرتے ہیں جو ایک معاصر انگریزی اخبار میں کیسی کاٹ دار تحریریں لکھتے تھے ۔ ارد شیر کو کراچی سے عشق تھا ۔ انھوں نے اس کی بدحالی پر اور اس کے تعلیمی اداروں میں میرٹ کی تباہ حالی پر کھل کر لکھا ۔ وہ کراچی ایسے شہر میں رہتے تھے جہاں کے بانکے نوجوانوں کی چلائی ہوئی آوارہ گرد گولیاں کاؤس جی ایسے لوگوں کا نام و نشان ڈھونڈتی پھرتی تھیں ۔ لوگوں نے کاؤس جی کو ڈرانا دھمکانا چاہا لیکن وہ ارد شیر تھے۔ دبنگ اور شیر دل، کسی کے دباؤ میں آئے بغیر وہ اس زمانے کے فرعونوں کے خلاف بولتے رہے ، لکھتے رہے ۔
ارد شیر کے بارے میں شیر شاہ نے لکھا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ عوام کو ان کے حقوق ملیں ۔ انھیں صاف پانی ، صاف ہوا ، صاف غذا ، انصاف اور ذمے دار حکمران ملیں وہ عورتوں کے حقوق کے زبردست حمایتی تھے ، انھوں نے کئی کالم لڑکیوں اور عورتوں کی جنسی پامالی اور ماؤں کی شرح اموات کے بارے میں لکھے ۔ کراچی کے لیے ان کے دل میں درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ ایمپریس مارکیٹ اور جہانگیر پارک کے بارے میں وہ بار بار لکھتے تھے ۔ جہانگیر پارک پر مسجد بناکر قبضے کے خلاف انھوں نے بلا خوف و ڈرکے لکھا ۔ موجودہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے جہانگیر پارک کے بچے کچھے حصے کو بحال کرکے اچھا کام کیا ہے ۔ کاش وہ کاؤس جی کے کراچی کے بقیہ باغات کو بھی بحال کریں ۔ کے ڈی اے ، کے بی سی اے کو لگام دیں ، بلڈنگ مافیا کو سنبھالیں ، سڑکوں پر توجہ دیں ، سمندر کی عزت کریں اور تقسیم سے پہلے کی بنی ہوئی پرانی عمارتوں کو بربادی سے بچائیں ۔
ان ہی کی زبان سے وہ ہمیں پرانے کراچی کا قصہ سناتے ہیں کہ ہم جب ان کے گھر پہنچے تو ان کے پڑھے لکھے خانساماں نے مچھلی ، بروکلی ، گاجر اور آلوؤں کا بھرتہ بنایا ہوا تھا ۔ وہ میری ان سے طویل ملاقات تھی ۔ وہ محبتوں کے ساتھ اپنے مخصوص لہجے میں سالا ، حرامی شیم لیس جیسے الفاظ کی آمیزش میں پرانے کراچی کے قصے سناتے رہے۔ چتومل سوبھراج کا خاندان کہاں رہتا تھا ، سیون ڈے اسپتال کیسے بنا ، ہولی فیملی اسپتال کی زمین کس نے دی تھی ، یہودیوں کے سینی گاگ میں ایک قتل ہوا تھا ، کراچی کے یہودی کیسے رہتے تھے ، صدر میں عیسائیوں کی کیا سرگرمیاں ہوتی تھیں ، کراچی میونسپلٹی کیسے کام کرتی تھی ۔ جانوروں کا اسپتال کس نے بنایا ، ٹراموے کمپنی کیسے بنی ، پورے شہر میں جانوروں کا کیسے خیال ہوتا تھا ، انگریزوں نے کراچی کے لیے پانی کا انتظام کیسے کیا تھا ، کراچی کے ڈسٹرکٹ عیسائی ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر ڈریگو نے وائسرائے کو ائیرپورٹ پر روک دیا تھا ۔ وہ کراچی کے میئر نصر وانجی کے زبردست دلدادہ تھے۔ انھوں نے بتایا تھا کہ میونسپلٹی کس کس طرح سے کراچی کے لیے کام کرتی تھی ، مگر سالا سب کچھ تباہ ہوگیا کراچی کا ۔
کاؤس جی کو جانوروں سے محبت تھی ۔ وہ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے پاس چار کتے ، ایک بلی ، ایک طوطا اور اک نایاب پرندہ تھا جو انھوں نے بحرین کے ایک شیخ سے لیا تھا ، وہ پرندہ ابھی زندہ ہے مگر اندھا ہوچکا ہے ۔ ان کے کتوں اور بلیوں سے میں بھی کئی بار ملا تھا اور مجھے اندازہ تھا کہ وہ کیوں کراچی میں ریڈیو پاکستان کے برابر انگریزوں کے بنائے ہوئے جانوروں کے اسپتال کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں جس پر ابھی بھی کئی بے ضمیر ، بے شرم سیاستدانوں، بلڈنگ مافیا اور طاقتور لوگوں کی نظریں ہیں۔
شہر کو اس طرح چاہنے والے اب کہاں رہ گئے ہیں ۔ کچھ لوگوں کو اس بات پر شدید اعتراض ہوتا تھا کہ کاؤس جی گورنروں اور وزیروں کو بے دھڑک گالیاں دیتے ہیں لیکن شیرشاہ ایسے لوگ کم تھے جو ان کے آئینہ دل میں اپنے لوگوں کی شقاوت اور طمع کے نظارے دیکھتے تھے ۔ اپنے تازہ ترین افسانوی مجموعے میں انھوں نے کاؤس جی کے ساتھ ہی عبدالستار ایدھی کے بارے میں لکھا ہے جنہوںنے بلقیس کو اپنی شریکِ حیات بنانے کا فیصلہ صرف اس بات پر کیا تھا کہ بلقیس نے اپنی ماں سے میمنی چلّے بنانے کا ہنر سیکھا تھا اور وہ عمر بھر ایدھی صاحب کو چلّے بناکر کھلاتی رہی اور اس شخص کے ساتھ زندگی گزارتی رہی جس کی کل کائنات ملیشیا کے دو جوڑے تھے ۔ ایک میں وہ اپنی وصیت کے مطابق دفن ہوا دوسرا فیصل کے حصے میں آیا۔ (جاری ہے )
شیر شاہ کئی مرتبہ انٹر سائنس میں فیل ہوئے، ان کا خیال تھا کہ اس طرح انھیں اپنے والد کی خواہش سے نجات مل جائے گی لیکن جب انھیں یقین ہوگیا کہ وہ کتنی ہی مرتبہ انٹر سائنس میں فیل ہوں ، ڈاکٹری تو انھیں پڑھنا ہی پڑے گی ۔ اس یقین کے بعد ہی شیر شاہ نے ڈاکٹری اختیار کی لیکن دل سے ادب کے عشق کو دیس نکالا نہ دے پائے اور اب وہ ایک بہت اچھے کہانی کار اور ملک کے معروف طبیب ہیں ۔
ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں عام انسانوں کو کیڑے مکوڑوں اور بُھنگوں سے بھی کم اہمیت دی جاتی ہے۔ کسی ایسے سماج میں شیر شاہ ایسے ڈاکٹر نعمت غیر مترقبہ ہوتے ہیں ۔ وہ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس کے رہبر اور رہنما ڈاکٹر رحمان ہاشمی ، ڈاکٹر ادیب رضوی ، ڈاکٹر سرور اور دوسرے ترقی پسند طلبہ تھے جنہوں نے شہر بدری بھگتی ، سرکار کی سختیاں سہیں لیکن جن کے قدم نہیں ڈگمگائے ۔ ان میں سے بیشتر رخصت ہوئے ، ڈاکٹر ادیب رضوی کا دم سلامت رہے ۔ یہ ان کی اور ان کے ساتھی ڈاکٹروں کی استقامت تھی جس نے شہر میں اور ملک میں ان لوگوں کا سکہ جمادیا ۔
شیر شاہ ، ڈاکٹر ادیب رضوی کے بعد آنے والوں میں ہیں ۔ ان کی ضمانت کے لیے ایدھی صاحب کا یہ جملہ کافی ہے جو انھوںنے اپنے آخری دنوں میں اپنے بیٹے فیصل سے شیر شاہ کا نام سن کر انھیں کمیونسٹ ڈاکٹر کہا تھا ۔ اس بارے میں شیر شاہ نے لکھا کہ یہ سن کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ ایدھی صاحب کی زبان سے اپنے لیے کمیونسٹ ہونے کا اعزاز سننا کوئی معمولی بات نہیں تھی ۔ وہ لکھتے ہیں کہ انھیں شرمندگی بھی ہوئی کہ انھوں نے مجھے مولانا حسرت موہانی اور مولانا عبید اللہ سندھی کی صف میں کھڑا کردیا تھا۔ کاش میں ان لوگوں کی طرح کا کمیونسٹ ہوتا ۔
شیر شاہ کو انسانوں سے محبت ہے، وہ ان کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کو اپنا فرض جانتے ہیں۔ اس کے لیے وہ کبھی سوبھراج میٹرنٹی ہوم میں ان تھک محنت کرتے نظر آتے ہیں اور کبھی کوہی گوٹھ ، کبھی عطیہ اسپتال میں اور سندھ کے دور افتادہ علاقوں میں کیمپ لگاکر غریب عورتوں کا،آپریشن کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انسانوں کو رنگ ، نسل ، زبان ، مذہب اور علاقے کی بنیاد پر تقسیم نہیں کرتے ۔ان کی کہانیاں بھی انسانوں کے دکھ درد کی کہانیاں ہیں ۔ یہ وہ درد ہے جو شیر شاہ ایسے لوگوں کے دل کو مضطرب رکھتا ہے۔ ان کی کہانیوں کے تمام مجموعوں کے عنوانات میں لفظ ''دل'' کا ہونا لازمی ہے ۔
'دل کی وہی تنہائی ' جس کو دل کہتے ہیں ،دل ہی تو ہے ، دل کی بساط ، چاک ہوا دل ، حد تو یہ ہے کہ بالاکوٹ اور اس کے گرد و نواح میں آنے والے زلزلے کی کہانیاں لکھیں تو اس کا عنوان ''دل ہوا بالاکوٹ'' رکھا ۔ اس کے بعد بھی ان کے جتنے مجموعے آئے اس میں ''دل'' کا لفظ لازمی ہے ، شاید اس لیے انھوں نے جو کہانیاں لکھیں ، وہ خونِ دل میں ڈبو کر لکھیں۔ اس مرتبہ انھوںنے اپنے مجموعے کا نام نگینہ ، بجنور کے ایک شاعر نجمی نگینوی کے شعر سے مستعار لیا :
بے تابیاں سمیٹ کے سارے جہان کی
جو کچھ نہ بن سکا تو مرا دل بنا دیا
نجمی نگینوی نے جانے کس عالم میں یہ شعر لکھا ہوگا لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ شعر شیر شاہ پر سو فی صد صادق آتا ہے ۔
اپنے اس مجموعے میں انھوں نے ارد شیر کاؤس جی ، عبدالستار ایدھی اور ایم اے قوی کے بارے میں بہت دل سوزی سے لکھا ہے ۔ لوگ ارد شیر کاؤس جی کو آج بھی یاد کرتے ہیں جو ایک معاصر انگریزی اخبار میں کیسی کاٹ دار تحریریں لکھتے تھے ۔ ارد شیر کو کراچی سے عشق تھا ۔ انھوں نے اس کی بدحالی پر اور اس کے تعلیمی اداروں میں میرٹ کی تباہ حالی پر کھل کر لکھا ۔ وہ کراچی ایسے شہر میں رہتے تھے جہاں کے بانکے نوجوانوں کی چلائی ہوئی آوارہ گرد گولیاں کاؤس جی ایسے لوگوں کا نام و نشان ڈھونڈتی پھرتی تھیں ۔ لوگوں نے کاؤس جی کو ڈرانا دھمکانا چاہا لیکن وہ ارد شیر تھے۔ دبنگ اور شیر دل، کسی کے دباؤ میں آئے بغیر وہ اس زمانے کے فرعونوں کے خلاف بولتے رہے ، لکھتے رہے ۔
ارد شیر کے بارے میں شیر شاہ نے لکھا ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ عوام کو ان کے حقوق ملیں ۔ انھیں صاف پانی ، صاف ہوا ، صاف غذا ، انصاف اور ذمے دار حکمران ملیں وہ عورتوں کے حقوق کے زبردست حمایتی تھے ، انھوں نے کئی کالم لڑکیوں اور عورتوں کی جنسی پامالی اور ماؤں کی شرح اموات کے بارے میں لکھے ۔ کراچی کے لیے ان کے دل میں درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ ایمپریس مارکیٹ اور جہانگیر پارک کے بارے میں وہ بار بار لکھتے تھے ۔ جہانگیر پارک پر مسجد بناکر قبضے کے خلاف انھوں نے بلا خوف و ڈرکے لکھا ۔ موجودہ سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے جہانگیر پارک کے بچے کچھے حصے کو بحال کرکے اچھا کام کیا ہے ۔ کاش وہ کاؤس جی کے کراچی کے بقیہ باغات کو بھی بحال کریں ۔ کے ڈی اے ، کے بی سی اے کو لگام دیں ، بلڈنگ مافیا کو سنبھالیں ، سڑکوں پر توجہ دیں ، سمندر کی عزت کریں اور تقسیم سے پہلے کی بنی ہوئی پرانی عمارتوں کو بربادی سے بچائیں ۔
ان ہی کی زبان سے وہ ہمیں پرانے کراچی کا قصہ سناتے ہیں کہ ہم جب ان کے گھر پہنچے تو ان کے پڑھے لکھے خانساماں نے مچھلی ، بروکلی ، گاجر اور آلوؤں کا بھرتہ بنایا ہوا تھا ۔ وہ میری ان سے طویل ملاقات تھی ۔ وہ محبتوں کے ساتھ اپنے مخصوص لہجے میں سالا ، حرامی شیم لیس جیسے الفاظ کی آمیزش میں پرانے کراچی کے قصے سناتے رہے۔ چتومل سوبھراج کا خاندان کہاں رہتا تھا ، سیون ڈے اسپتال کیسے بنا ، ہولی فیملی اسپتال کی زمین کس نے دی تھی ، یہودیوں کے سینی گاگ میں ایک قتل ہوا تھا ، کراچی کے یہودی کیسے رہتے تھے ، صدر میں عیسائیوں کی کیا سرگرمیاں ہوتی تھیں ، کراچی میونسپلٹی کیسے کام کرتی تھی ۔ جانوروں کا اسپتال کس نے بنایا ، ٹراموے کمپنی کیسے بنی ، پورے شہر میں جانوروں کا کیسے خیال ہوتا تھا ، انگریزوں نے کراچی کے لیے پانی کا انتظام کیسے کیا تھا ، کراچی کے ڈسٹرکٹ عیسائی ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر ڈریگو نے وائسرائے کو ائیرپورٹ پر روک دیا تھا ۔ وہ کراچی کے میئر نصر وانجی کے زبردست دلدادہ تھے۔ انھوں نے بتایا تھا کہ میونسپلٹی کس کس طرح سے کراچی کے لیے کام کرتی تھی ، مگر سالا سب کچھ تباہ ہوگیا کراچی کا ۔
کاؤس جی کو جانوروں سے محبت تھی ۔ وہ جب دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کے پاس چار کتے ، ایک بلی ، ایک طوطا اور اک نایاب پرندہ تھا جو انھوں نے بحرین کے ایک شیخ سے لیا تھا ، وہ پرندہ ابھی زندہ ہے مگر اندھا ہوچکا ہے ۔ ان کے کتوں اور بلیوں سے میں بھی کئی بار ملا تھا اور مجھے اندازہ تھا کہ وہ کیوں کراچی میں ریڈیو پاکستان کے برابر انگریزوں کے بنائے ہوئے جانوروں کے اسپتال کے بارے میں لکھتے رہتے ہیں جس پر ابھی بھی کئی بے ضمیر ، بے شرم سیاستدانوں، بلڈنگ مافیا اور طاقتور لوگوں کی نظریں ہیں۔
شہر کو اس طرح چاہنے والے اب کہاں رہ گئے ہیں ۔ کچھ لوگوں کو اس بات پر شدید اعتراض ہوتا تھا کہ کاؤس جی گورنروں اور وزیروں کو بے دھڑک گالیاں دیتے ہیں لیکن شیرشاہ ایسے لوگ کم تھے جو ان کے آئینہ دل میں اپنے لوگوں کی شقاوت اور طمع کے نظارے دیکھتے تھے ۔ اپنے تازہ ترین افسانوی مجموعے میں انھوں نے کاؤس جی کے ساتھ ہی عبدالستار ایدھی کے بارے میں لکھا ہے جنہوںنے بلقیس کو اپنی شریکِ حیات بنانے کا فیصلہ صرف اس بات پر کیا تھا کہ بلقیس نے اپنی ماں سے میمنی چلّے بنانے کا ہنر سیکھا تھا اور وہ عمر بھر ایدھی صاحب کو چلّے بناکر کھلاتی رہی اور اس شخص کے ساتھ زندگی گزارتی رہی جس کی کل کائنات ملیشیا کے دو جوڑے تھے ۔ ایک میں وہ اپنی وصیت کے مطابق دفن ہوا دوسرا فیصل کے حصے میں آیا۔ (جاری ہے )