لکڑی کی قیمت میں 70 اور فرنیچر سازی کی لاگت میں 100 فیصد اضافہ
پیداواری لاگت بڑھنے سے فرنیچر کے برآمدی آرڈرزکا حصول مشکل ہوگیا، لکڑیوں کی درآمدات پر ماہانہ 2 ارب کے ٹیکس عائدہیں
ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر درآمدہ لکڑی پرعائد ڈیوٹی، ٹیکسز اور ریگولیٹری ڈیوٹی کے باعث مقامی مارکیٹ میں لکڑی کی قیمت میں 70 فیصد اور فرنیچر سازی کی لاگت میں 100فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔
ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ پاکستان میں رقبے کے اعتبار سے جنگلات نہ ہونے کے باعث یورپ، جرمنی، ملائیشیا ، سری لنکا، امریکاودیگرافریقی ممالک سے مختلف اقسام کی لکڑی کے 5ہزار کنٹینرز سے زائد سالانہ درآمد کیے جارہے ہیں، جبکہ مقامی جنگلات سے بھی تقریبا 5 ہزار کنٹینرز کے مساوی لکڑی فرنیچر، دروازے، پھلوں کی پیٹیوں اور عمارتی ڈھانچوں کی تیاری میں استعمال ہورہی ہے۔
ٹمبر سیکٹر کے باخبر ذرائع نے بتایا کہ پاکستان میں رقبے کے اعتبار سے جنگلات کاحصہ11فیصد ہونا چاہیے لیکن فی الوقت ملک میں بلحاظ رقبہ صرف3فیصد جنگلات ہیں۔ پاکستان کے سمندری پٹی سے متصل قائم مینگروو کے جنگلات اورملک کے تمام صوبوں کے جنگلات سے حاصل ہونے والی لکڑی کے برادے سے چپ بورڈ اور پھلوں کی پیٹیاں تیار کی جاتی ہیں۔
ٹمبر سیکٹر کے درآمدکنندگان مختلف اقسام کی لکڑیوں کی درآمدات پر ریونیو کی مد میں حکومت کوماہانہ تقریباً 2ارب روپے کی ادائیگیاں کرتے ہیں۔ ملک میں درآمد ہونے والی میڈیم ڈینسٹی فائبربورڈ پرمجموعی طور پر43اعشاریہ 50فیصد کی ڈیوٹی وٹیکسز عائد ہیں جبکہ دیگر تمام اقسام کی لکڑیوں کی درآمد پرمجموعی طورپر25 فیصد کی ڈیوٹی ودیگر ٹیکسز عائد ہیں۔
اس ضمن میں آل پاکستان ٹمبرٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر شرجیل گوپلانی نے بتایا کہ پاکستان میں سافٹ وڈز میں پڑتل اور کیل جرمنی، آسٹریا، کینیڈا، برازیل اور یوکرین سے درآمد ہورہا یے جو تعمیرات، پلوں، سڑکوں کی تعمیر اور فرنیچر کی تیاری میں استعمال کیاجاتا ہے اووک لکڑی کینیڈا اور امریکا جبکہ میڈیم ڈینسٹی فائبربورڈ(ایم ڈی ایف) سری لنکا، ملائیشیا ، یورپ اور ترکی، چپ بورڈ سری لنکا یورپ اور ملائیشیا سے درآمدکیا جاتا ہے۔
شرجیل گوپلانی نے بتایا کہ پاکستان میں ایم ڈی ایف، پڑتل اور کیل لکڑی کی سب سے زیادہ کھپت ہے۔ انھوں نے بتایا کہ درآمدہ لکڑی کی لاگت مقامی لکڑی سے60فیصد زیادہ ہے جس کے منفی اثرات تعمیرات، فرنیچر مینوفیکچرنگ سمیت دیگر شعبوں کی پیداواری لاگت پر مرتب ہورہے ہیں۔
انھوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ میڈیئم ڈینسٹی فائبر بورڈ اور سافٹ وڈز کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس کی شرح کم کردے اور 5فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ کردے توپاکستان کے جنگلات کی افزائش ممکن ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی حکومت مقامی جنگلات کے تحفظ کیلیے15 سالہ طویل المیعاد منصوبہ بندی کرے۔
انھوں نے بتایا کہ درآمدہ لکڑی کی زائد لاگت کے باعث پاکستان میں تیارہونے والی ماہی گیری کی کشتیوں کی برآمدات گذشتہ 12 سال سے بند ہے، یہی وجہ ہے کہ ایران ، بحرین اومان اور دبئی کی مارکیٹ میں بھارت اپنی تیارشدہ ماہی گیری کشتیاں برآمد کررہاہے۔
حکومت کی جانب سے اگر درآمدہ لکڑی پر عائد کسٹم ڈیوٹی و ٹیکس ٹیرف میں کمی کی گئی تو پاکستان میں ماہی گیروں کی کشتیوں کی دوبارہ تیاری شروع ہوسکتی ہے اورایک ارب ڈالر مالیت کی ماہی گیری کی کشتیاں برآمدہوسکتی ہیں جبکہ کشتی سازی کی صنعت میں 15ہزار سے زائد افراد کا روزگاربھی بحال ہوسکتا ہے۔
شرجیل گوپلانی نے بتایا کہ پاکستان میں قدرتی گیس کی سہولت سے محروم خیبرپختونخوا کے دور درازپہاڑی اور پسماندہ علاقوں میں قیمتی لکڑی جن میں دیار اور بیار شامل ہیں کو وہاں کے غریب مکین بطور ایندھن استعمال کررہے ہیں۔انھیں اس کامتبادل دیاجانا چاہیے تاکہ قیمتی لکڑی ضائع نہ ہو۔
ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ پاکستان میں رقبے کے اعتبار سے جنگلات نہ ہونے کے باعث یورپ، جرمنی، ملائیشیا ، سری لنکا، امریکاودیگرافریقی ممالک سے مختلف اقسام کی لکڑی کے 5ہزار کنٹینرز سے زائد سالانہ درآمد کیے جارہے ہیں، جبکہ مقامی جنگلات سے بھی تقریبا 5 ہزار کنٹینرز کے مساوی لکڑی فرنیچر، دروازے، پھلوں کی پیٹیوں اور عمارتی ڈھانچوں کی تیاری میں استعمال ہورہی ہے۔
ٹمبر سیکٹر کے باخبر ذرائع نے بتایا کہ پاکستان میں رقبے کے اعتبار سے جنگلات کاحصہ11فیصد ہونا چاہیے لیکن فی الوقت ملک میں بلحاظ رقبہ صرف3فیصد جنگلات ہیں۔ پاکستان کے سمندری پٹی سے متصل قائم مینگروو کے جنگلات اورملک کے تمام صوبوں کے جنگلات سے حاصل ہونے والی لکڑی کے برادے سے چپ بورڈ اور پھلوں کی پیٹیاں تیار کی جاتی ہیں۔
ٹمبر سیکٹر کے درآمدکنندگان مختلف اقسام کی لکڑیوں کی درآمدات پر ریونیو کی مد میں حکومت کوماہانہ تقریباً 2ارب روپے کی ادائیگیاں کرتے ہیں۔ ملک میں درآمد ہونے والی میڈیم ڈینسٹی فائبربورڈ پرمجموعی طور پر43اعشاریہ 50فیصد کی ڈیوٹی وٹیکسز عائد ہیں جبکہ دیگر تمام اقسام کی لکڑیوں کی درآمد پرمجموعی طورپر25 فیصد کی ڈیوٹی ودیگر ٹیکسز عائد ہیں۔
اس ضمن میں آل پاکستان ٹمبرٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر شرجیل گوپلانی نے بتایا کہ پاکستان میں سافٹ وڈز میں پڑتل اور کیل جرمنی، آسٹریا، کینیڈا، برازیل اور یوکرین سے درآمد ہورہا یے جو تعمیرات، پلوں، سڑکوں کی تعمیر اور فرنیچر کی تیاری میں استعمال کیاجاتا ہے اووک لکڑی کینیڈا اور امریکا جبکہ میڈیم ڈینسٹی فائبربورڈ(ایم ڈی ایف) سری لنکا، ملائیشیا ، یورپ اور ترکی، چپ بورڈ سری لنکا یورپ اور ملائیشیا سے درآمدکیا جاتا ہے۔
شرجیل گوپلانی نے بتایا کہ پاکستان میں ایم ڈی ایف، پڑتل اور کیل لکڑی کی سب سے زیادہ کھپت ہے۔ انھوں نے بتایا کہ درآمدہ لکڑی کی لاگت مقامی لکڑی سے60فیصد زیادہ ہے جس کے منفی اثرات تعمیرات، فرنیچر مینوفیکچرنگ سمیت دیگر شعبوں کی پیداواری لاگت پر مرتب ہورہے ہیں۔
انھوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ میڈیئم ڈینسٹی فائبر بورڈ اور سافٹ وڈز کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی، سیلز ٹیکس کی شرح کم کردے اور 5فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی کا خاتمہ کردے توپاکستان کے جنگلات کی افزائش ممکن ہوسکتی ہے اور ساتھ ہی حکومت مقامی جنگلات کے تحفظ کیلیے15 سالہ طویل المیعاد منصوبہ بندی کرے۔
انھوں نے بتایا کہ درآمدہ لکڑی کی زائد لاگت کے باعث پاکستان میں تیارہونے والی ماہی گیری کی کشتیوں کی برآمدات گذشتہ 12 سال سے بند ہے، یہی وجہ ہے کہ ایران ، بحرین اومان اور دبئی کی مارکیٹ میں بھارت اپنی تیارشدہ ماہی گیری کشتیاں برآمد کررہاہے۔
حکومت کی جانب سے اگر درآمدہ لکڑی پر عائد کسٹم ڈیوٹی و ٹیکس ٹیرف میں کمی کی گئی تو پاکستان میں ماہی گیروں کی کشتیوں کی دوبارہ تیاری شروع ہوسکتی ہے اورایک ارب ڈالر مالیت کی ماہی گیری کی کشتیاں برآمدہوسکتی ہیں جبکہ کشتی سازی کی صنعت میں 15ہزار سے زائد افراد کا روزگاربھی بحال ہوسکتا ہے۔
شرجیل گوپلانی نے بتایا کہ پاکستان میں قدرتی گیس کی سہولت سے محروم خیبرپختونخوا کے دور درازپہاڑی اور پسماندہ علاقوں میں قیمتی لکڑی جن میں دیار اور بیار شامل ہیں کو وہاں کے غریب مکین بطور ایندھن استعمال کررہے ہیں۔انھیں اس کامتبادل دیاجانا چاہیے تاکہ قیمتی لکڑی ضائع نہ ہو۔