بے نامی جائیدادیں ضبط کرنے کیلیے ٹرانزیکشن ایکٹ نافذ کرنے کا فیصلہ

فروری کو بے نامی رولز وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیے جائیں گے۔


Irshad Ansari February 24, 2019
قانون کے تحت بے نامی جائیداد بحق سرکار ضبط کرکے نیلام اوربینیفشل اونرز کو سزادی جاسکے گی۔ فوٹو : فائل

KARACHI: وفاقی حکومت نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(ایف اے ٹی ایف) ایکشن پلان کے تحت مقررہ ہدف حاصل کرنے کیلیے 28 فروری تک بے نامی جائیدادیں ضبط کرنے کیلیے بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ نافذ کرنے کا اصولی فیصلہ کیا ہے۔

کابینہ کی کمیٹی برائے قانون سازی(سی سی ایل سی) بدھ کو بے نامی جائیداد ضبط کرنے کے قانون پر عملدرآمد کے لیے رولز کی منظوری دے گی، جس کے بعد رولز جمعرات کوحتمی منظوری کیلیے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پیش کیے جائیں گے۔ جبکہ کل(پیر)لاء ڈویژن کی جانب سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر)کی جانب سے بے نامی جائیداد ضبط کرنے کے قانون پر عملدرآمد کیلیے بھجوائے جانیوالے رولز کی توثیق کردی جائے گی۔

اس قانون کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی بے نامی جائیداد کو بحق سرکار ضبط کرسکے گی اور اس کی نیلامی کرسکے گی۔ اس قانون کے تحت ایف بی آر بے نامی جائیدادوں کے بینیفشل اونرز کا سْراغ لگا کر انھیں سخت سزائیں دے سکے گا اور ان کی بے نامی جائیدادیں ضبط کرکے فروخت کرسکے گا علاوہ ازیں اس جائیداد پر عائد ڈیوٹی و ٹیکس واجبات جرمانوں کے ساتھ وصول کرسکے گا۔

اس کے علاوہ اس قانون کے تحت اگر بے نام جائیداد کے متعلق معلومات فراہم کرنے والے وسل بلوئر کی فراہم کردہ معلومات یا دستاویزات جعلی و غلط ثابت ہوتی ہیں تو اس صورت میں غلط معلومات فراہم کرنے والے کے خلاف بھی نہ صرف کارروائی ہوگی بلکہ سزائیں بھی دی جائیں گی ، غلط معلومات فراہم کرنے والے کو کم ازکم 6 ماہ کی قید کی سزا دی جاسکے گی جسے بڑھا کر 5 سال تک کی قید میں بدلا جاسکے گا۔

وزارت خزانہ کے سینیئر افسر نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ ایف بی آر کی جانب سے لاء ڈویژن کو بھجوائے جانے والے بے نامی رْولز کی لاء ڈویژن سے نچلی سطح پر منظوری ہوچکی ہے اور حتمی منظوری کیلیے فائل سیکرٹری لاء ڈویژن کے پاس موجود ہے۔

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے ہفتے کو وفاقی وزیر قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے، اسد عمر نے وزیر قانون و انصان سے بے نامی رْولز کی توثیق کے بارے میں بات کی ہے اور انھوں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ پیر تک لاء ڈویژن کی جانب سے ان رْولز کی توثیق کردی جائے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بے نامی رْولز کا مسودہ پہلے سے کابینہ کی کمیٹی برائے قانون سازی(سی سی ایل سی)کے ایجنڈے پر موجود ہے اور لاء ڈویژن کی جانب سے حتمی توثیق نہ ہونے کے باعث سی سی ایل ای کے پچھلے اجلاس میں یہ موخر کردی گئی تھی اب چونکہ یہ معاملہ لاء ڈویژن سے اٹھایا گیا ہے اور توقع ہے کہ پیر کو سیکرٹری لاء ڈویژن اس کی منظوری دیں گے، اس کے بعد بدھ کو ہونے والے سی سی ایل سی کے اجلاس میں بے نامی رْولز کی منظوری دیے جانے کا امکان ہے، سی سی ایل سی کی منظوری کے بعد جمعرات کو وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حتمی منظوری کیلیے پیش کئے جائیں گے جس کے بعد نوٹیفکیشن کے ذریعے ان رْولز کا اطلاق کردیا جائیگا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے بے نامی جائیدادیں ضبط کرنے کیلیے بے نامی ٹرانزیکشن ایکٹ 2017 متعارف کروایا جاچکا ہے لیکن اس ایکٹ پر مکمل عملدرآمد کے لیے رْولز متعارف کروانا باقی تھے جو اب کروائے جارہے ہیں۔ ان رْولز کے آنے کے بعد وفاقی حکومت کسی بھی بے نامی جائیداد کو بحق سرکار ضبط کرسکے گی اور اس کی نیلامی کرسکے گی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بینامی جائیدادوں کے بارے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بہت خدشات تھے کیونکہ اس کی وجہ سے ٹیکس چوری ہورہی تھی جسے روکنے کیلیے یہ قانون لایا گیا ہے اور غیر قانونی ذرائع سے حاصل کردہ آمدنی و اثاثہ جات ٹیکس چوری کے ساتھ ساتھ ٹیررازم فنانسنگ کیلیے استعمال ہونے کا بھی خدشہ تھا جسے روکنے کیلیے وزارت خزانہ کی جانب سے اس قانون سازی کا عمل 2008 میں شروع کیا گیا تھا اور 2017 میں یہ قانون نافذ کیا گیا۔

اس قانون کے تحت ایف بی آر کو وسل بلوئرز کیلیے انعامی اسکیمیں متعارف کروانے کا بھی اختیار حاصل ہے، ویسل بلوئر کی جانب سے قابل اعتماد معلومات کی بنیاد پر جس بے نامی جائیداد کا سراغ لگایا جائیگا اس سے حاصل ہونے والے ریونیو سے معلومات فراہم کرنے والے کو انعام دیا جائیگا۔ اس کے علاوہ جائیداد کی مارکیٹ میں رائج فیئر پرائس کے 10 فیصد کے برابر جرمانہ بھی عائد کیا جاسکے گا۔

علاوہ ازیں اس قانون کے تحت وفاقی حکومت ایڈجوڈیکیشن اتھارٹیز مقرر کرسکے گی، اس اتھارٹیز کے 2 ممبران ہوںگے جنھیں سول عدالت کے اختیارات حاصل ہوں گے اور وہ اپنا پروسیجر خود بنائیں گی اور ان اتھارٹیز کو بغیر کسی پیشگی نوٹس جاری کیے کسی بھی جائیداد میں داخل ہونے کی مکمل آزادی و اختیار حاصل ہوگا۔

اس اتھارٹی کو کاغذات ،اکاؤنٹس اور کمپیوٹر تک رسائل حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تمام ریکارڈ و کمپیوٹر سی پی یو قبضے میں لینے اور ساتھ لے جانے کا بھی اختیار حاصل ہوگا، یہ ایڈجوڈیکیشن اتھارٹیز تحقیقات کیلیے 3ماہ تک یہ ریکارڈ اپنے قبضے میں رکھ سکیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں