شادم از زندگی

معروف ادیب، شاعر اور باکمال مترجم باقر نقوی کی یاد میں۔


مبین مرزا February 24, 2019
معروف ادیب، شاعر اور باکمال مترجم باقر نقوی کی یاد میں۔ فوٹو: فائل

معروف ادیب، شاعر اور باکمال مترجم باقر نقوی 13 فروری کی شب اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔

وہ 1936ء میں ہندوستان کے شہر الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمے داریاں ان کے نوجوان کاندھوں پر آگئیں جنھیں انھوں نے بہ حسن و خوبی نبھایا۔ پاکستان آنے کے بعد کارِ معاش کے سلسلے میں ان کا دوسرے شہروں میں بھی آنا جانا رہا، لیکن زیادہ وقت کراچی میں گزرا۔ کم و بیش تینتالیس برس پہلے وہ اہلِ خانہ کے ساتھ برطانیہ منتقل ہوگئے تھے۔

کسبِ معاش کے لیے باقر نقوی نے انشورنس کے شعبے کا انتخاب کیا، اور ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ ترین مدارج تک پہنچے۔ پاکستان میں ای ایف یو لائف انشورنس کمپنی سے وابستہ ہونے کے بعد 1993ء سے اُن کا پاکستان آنا جانا خاصے تواتر سے رہا۔ اس کمپنی کے ایک ذیلی ادارے آلیانز ہیلتھ انشورنس کے سربراہ کی حیثیت سے بھی وہ خدمات انجام دیتے رہے۔ چند برس پہلے وہ اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش ہوکر واپس برطانیہ منتقل ہوگئے تھے۔

باقر نقوی نے اپنے ادبی سفر کا آغاز ایک خوش فکر اور تازہ کار شاعر کے طور پر کیا تھا اور ادبی حلقوں میں ایک اچھے تخلیق کار کے طور پر پہچانے بھی جانے لگے، لیکن ان کا پہلا شعری مجموعہ ''تازہ ہوا'' خاصی تاخیر سے (1988ء میں) مرتب ہوا۔ تاہم اس کتاب کی اشاعت پر ادبی دنیا کی معروف و ممتاز شخصیات نے اس کی پذیرائی کی۔ اس کے بعد باقر نقوی کے دو شعری مجموعے ''مٹھی بھر تارے'' (1991ء) اور ''موتی موتی رنگ'' (1994ء) میں منظرِعام پر آئے۔ جب کہ ان کا چوتھا مجموعہ ''بہتے پانی کی آواز'' 2004ء میں شائع ہونے والے کلیاتِ شعری ''دامن'' میں شامل ہوا۔ باقر نقوی نے غزل اور نظموں دونوں کو اظہار کا ذریعہ بنایا، لیکن غزل سے ان کو خاص طبیعی مناسبت تھی۔ اسی لیے ان کا تخلیقی جوہر اسی صنف میں خصوصیت کے ساتھ نمایاں ہوا۔



باقر نقوی اُن لوگوں میں نہیں تھے جو دنیا و مافیہا سے بے خبر شاعرانہ سرمستی میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ ایک باخبر اور عملی آدمی تھے۔ وہ اپنے زمانے کے مسائل اور علوم سے گہری دل چسپی رکھتے تھے۔ ادب کے ساتھ انھوں نے دوسرے علوم، بالخصوص سائنسی موضوعات کا سنجیدگی اور تواتر سے مطالعہ کیا۔ آگے چل کر یہ دل چسپی محض مطالعے تک محدود نہ رہی، بلکہ سائنسی موضوعات پر ان کی کتابیں بھی شائع ہوئیں۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب ''الفریڈ نوبیل'' 1999ء میں منظرِ عام پر آئی۔ اس کے بعد جینیات اور کلوننگ کے موضوع پر انھوں نے اپنا حاصلِ مطالعہ ''خلیے کی دنیا'' کے نام سے 2002ء میں پیش کیا۔ بعد ازاں 2005ء میں ''برقیات مع الیکٹرونکس کی مختصر تاریخ'' اور پھر عہدِ جدید کے نہایت اہم موضوع آرٹی فیشل انٹیلی جنس کے حوالے سے ان کی بے حد اہم اور چشم کشا کتاب ''مصنوعی ذہانت'' 2006ء میں شائع ہوئی۔ آخر الذکر کتاب اردو میں اپنی نوعیت کا پہلا اور بہت قابلِ قدر کام ہے۔

الفریڈ نوبیل کی زندگی اور کاموں کا مطالعہ کرتے ہوئے باقر نقوی نے نوبیل انعام یافتگان کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ وہ چوںکہ خود ادیب شاعر تھے، اس لیے سب سے پہلے ان کی توجہ ادب کا نوبیل انعام پانے والوں پر مرکوز ہوئی۔ مطالعے کے دوران میں خیال آیا کہ ان سب لوگوں پر ایک سوانحی مضمون لکھا جائے اور اُن کے فن پر بھی کچھ تھوڑی سی بات کی جائے تاکہ اردو قارئین کی ایک بڑی تعداد ان سے استفادہ کرسکے اور ممکن ہے، اس کے بعد ہمارے یہاں کچھ لوگوں کے دل میں ان بڑے ادیبوں شاعروں کے تفصیلی مطالعے کی خواہش بھی پیدا ہو۔ بس اب اس کام میں جی لگا تو باقر نقوی اسی کے ہورہے۔ ان کے اہلِ خانہ چونکہ برطانیہ میں تھے اور ای ایف یو سے وابستگی کے زمانے میں وہ یہاں تنہا رہتے تھے، اس لیے دفتر کے بعد اُن کی کم ہی کوئی مصروفیت ہوتی۔

ادبی تقریبات، جلسوں اور مشاعروں میں وہ کبھی کبھار مارے باندھے ہی شریک ہوتے۔ البتہ ہفتے عشرے میں ہم دوستوں کی منڈلی کم سے کم ایک بار ضرور پابندی سے جمتی اور کبھی دو بار بھی۔ یہ محفل گھنٹوں پر محیط ہوتی۔ باقر نقوی اس کا بہ صد شوق حصہ بنتے۔ وہ مزاجاً قدرے کم آمیز آدمی تھے۔ سب سے گھل مل جانے والی طبیعت نہیں پائی تھی۔ عام طور سے لیے دیے رہتے، لیکن جن دوستوں سے بے تکلفی کا رشتہ تھا، ان سے شیروشکر کا معاملہ رہتا۔ چھیڑ خوباں سے کبھی چوکتے اور نہ ہی بزمِ یاراں میں مقطع چُغَتّا رہنے پر آمادہ ہوتے۔ دوستوں کے دوست تھے اور اندر باہر سے ایک طرح۔ جب تک وہ پاکستان میں رہے، سیّد مظہر جمیل، پروفیسر سحر انصاری، سلیم یزدانی اور ہم اُن کے ساتھ پابندی سے اکٹھے ہوتے اور خوب گپ شپ رہتی۔ اس محفل کے لیے کوئی طے شدہ ایجنڈا نہیں ہوتا تھا، لیکن ادب، سیاسیات، سماجیات، نئی تھیوریز اور سائنس کے موضوعات پر عام طور پر بات ہوتی، اور کبھی کبھی تازہ شعر سنانے کی فرمائش بھی ایک دوسرے سے کی جاتی۔ فتح محمد ملک اور افتخار عارف کا بھی جب کراچی آنا ہوتا تو مل بیٹھنے کی صورت بن جاتی۔



خیر، اب جو باقر نقوی نوبیل ادیبوں میں دل چسپی لینے لگے تو گویا انھوں نے اپنے لیے ایک کام، ایک ذمے داری بھی طے کرلی اور اس میں جی جان سے جٹ گئے۔ اب وہ دفتر سے سیدھا گھر پہنچتے اور ذرا تازہ دم ہوکر لیپ ٹاپ لے کر بیٹھ جاتے۔ کاغذ قلم سے وہ مدت ہوئی آزاد ہوگئے تھے۔ جو کچھ لکھتے، براہِ راست کمپیوٹر پر لکھتے۔ رات کو جلد سوجاتے اور سویرے بہت جلد، یعنی کوئی ساڑھے تین چار بجے اٹھ بیٹھتے۔ بڑے سے مگ میں دودھ اور شکر کے بغیر کافی بناکر لاتے اور کمپیوٹر پر آبیٹھتے۔ اس کے بعد دفتر جانے کے وقت تک ذمے داری سے کام میں منہمک رہتے۔ غرض یوں کوئی ڈیڑھ برس کی محنت رنگ لائی اور نوبیل ادب کے مصنّفین پر مختصر مضامین کی ایک مستند اور تحقیقی کتاب تیار ہوگئی اور چھپنے کے لیے ہمارے پاس آگئی۔

یہ مسودہ پریس بھیجنے کی تیاری کے آخری مرحلے میں تھا کہ ایک روز دوستوں کی محفل میں باقر نقوی نے اس خیال کا اظہار کیا کہ انھوں نے یہ کتاب چھپوانے کا تو سوچ لیا، لیکن اصل میں اُن کا جی چاہتا تھا کہ وہ ایک ایسی کتاب تیار کریں جس میں نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کو انعام دیتے ہوئے ان کے بارے میں جو تقریر کی گئی وہ اور جو انھوں نے لیکچر دیا ہے وہ بھی، ترجمہ کرکے شامل کیا جائے۔ دوستوں کی ساری منڈلی نے اس خیال کو نہ صرف سراہا، بلکہ سب ہی نے اپنے اپنے انداز سے باقر نقوی کو اکسایا کہ بھائی یہ سوچنے کا نہیں، کرنے کا کام ہے، اور اگر ایسی کتاب آئی تو وہ بلاشبہ اردو ترجمے کے باب میں ایک اضافہ ہوگا۔ سو بس ابھی اس کتاب کو پریس نہ بھیجا جائے، باقر نقوی اسی میں اب یہ اضافہ کریں پھر کتاب چھپے۔ کچھ تو باقر نقوی کی اپنی خواہش، کچھ ماحول کی گرمائش اور اس پر دوستوں کی ایسی پرزور فرمائش- اور شاید وہ گھڑی بھی قبولیت کی تھی۔ باقر نقوی کام پر آمادہ ہوگئے۔

اب سوچا گیا، کام شروع کرنے سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ ان میں سے کتنا کام اس سے پہلے اردو میں منتقل ہوچکا ہے۔ اس کے لیے دوستوں کی خدمات حاصل کی گئیں کہ اس معاملے کی تحقیق کریں۔ کچھ نہ کچھ کام تو ضرور ہوا تھا، لیکن اس میں اچھا بہت کم، اوسط درجے کا زیادہ اور کچھ تو بہت ہی ناقص- اور سارا کام بھی سامنے رکھا جائے تو وہ کل سرمایہ بیس فی صد بھی نہیں۔ بس اب باقر نقوی نے ہمت پکڑی اور اس کام میں جٹ گئے۔ کئی سال کی شبانہ روز محنت کے بعد ''نوبیل ادبیات'' کے نام سے کتاب 2009ء میں شائع ہوئی۔ اردو میں اپنی نوعیت کا شان دار کام۔ ہر ادیب شاعر پر ایک تحقیقی سوانحی نوٹ، اس کے لیے کی گئی تقریر اور خود اس کے لیکچر کا خوب صورت اور معیاری ترجمہ۔

یہاں اس سلسلے میں ایک اور واقعہ بھی قابلِ ذکر ہے۔ ہمارے یہاں تو خیر، ادب اور ادیبوں کے کاپی رائٹ کا معاملہ صرف نام کی حد تک ہے۔ اس لیے قانون کی پاس داری نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتی ہے۔ باقر نقوی چوںکہ برطانیہ کے شہری ہوچکے تھے، اس لیے انھیں ہر معاملے میں قانون کا لحاظ ہوتا۔ جب کتاب تیار ہوگئی اور بس پریس جانے کے آخری مرحلے میں تھی کہ باقر نقوی نے سوچا کہ یہ کاپی رائٹ کا معاملہ ہے۔ اس میں کوئی قانونی بے ضابطگی نہیں ہونی چاہیے۔ سو انھوں نے نوبیل فاؤنڈیشن سے رابطہ کیا اور انھیں بتایا کہ وہ ایسا ایک کام تیار کرچکے ہیں اور اسے شائع کررہے ہیں۔ اس کے لیے انھیں فاؤنڈیشن کی طرف سے باضابطہ اجازت درکار ہے۔ فاؤنڈیشن نے اجازت کے لیے ایک طریقِ کار اور اُس کی فیس کے بارے میں بتایا۔ ہدایت کے مطابق ضابطے کی کارروائی کی گئی اور فیس ادا کرکے اجازت نامہ حاصل کیا گیا۔ ظاہر ہے، اس کام میں وقت لگا اور روپے بھی خرچ ہوئے، لیکن کام اصول اور قاعدے کے مطابق کیا گیا۔

ظاہر ہے، اس کتاب کی بہت پذیرائی ہوئی اور ہونی بھی چاہیے تھی کہ اردو میں اپنی طرح کا ایک ہی کام تھا۔ اس پذیرائی نے باقر نقوی کا بہت دل بڑھایا، بلکہ ان کے دوستوں کا بھی۔ اب یہ فرمائش ہوئی کہ باقر نقوی امن کا انعام حاصل کرنے والوں کے حوالے سے بھی لیکچرز اور تقریروں کی ایک کتاب تیار کریں۔ فرمائش بڑی تھی، لیکن اُس وقت دوستوں کی خوشی اورپاکستان ہندوستان کے بڑے بڑے لوگوں سے ملنے والی داد کے بل بوتے پر باقر نقوی کا حوصلہ اس سے کہیں بڑا تھا۔ سو وہ کسی تأمل کے بغیر اس کام پر آمادہ ہوگئے۔ البتہ اس کتاب میں انعام یافتگان پر سوانحی نوٹ کی ضرورت محسوس نہ کی گئی، اس لیے کہ بیشتر لوگ حکومت اور سیاست سے تعلق رکھتے تھے۔

کام شروع ہوا تو پہلی کتاب کا تجربہ کام آیا اور صرف دو سال بعد ہی ایک اور اعلیٰ پائے کی چشم کشا اور بصیرت افروز دستاویز تیار ہوگئی۔ یہ کتاب ''نوبیل امن کے سو برس'' کے سرنامے کے ساتھ 2011ء میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد انھوں نے میڈیسن کے شعبے میں انعام پانے والوں پر کتاب مکمل کی جو ''نوبیل حیاتیات'' کے نام سے منظرِعام پر آئی۔ اس کے بعد دوستوں کی رائے تھی کہ باقر نقوی فزکس اور کیمسٹری کے نوبیل انعام یافتگان پر بھی کتابیں ضرور پیش کریں۔ اس لیے کہ اردو دنیا میں ان کی شہرت اس عرصے میں ''ماہرِ نوبیلیات'' کے طور پر ہوچکی تھی۔ تاہم ایک مشورہ یہ بھی تھا کہ اب اُن کو نوبیل انعام یافتہ ادیبوں کے فکشن کو اردو میں منتقل کرنا چاہیے۔ یہ رائے وزن رکھتی تھی اور خاص طور پر اس لیے دی گئی کہ اس دوران میں باقر نقوی نے خود بھی افسانہ نگاری میں کچھ طبع آزمائی کی تھی اور ان کے افسانوں کا مجموعہ ''آٹھواں رنگ'' کے عنوان سے 2012ء میں شائع ہوچکا تھا۔

قبولیت کی گھڑی والی بات کو محض کاندھے اچکا کر نہیں ٹالا جاسکتا۔ واقعی بعض لمحے ایسے ہوتے ہیں کہ ذہن میں آئی اور منہ سے نکلی ہوئی بات جیسے پتھر کی لکیر ہوجاتی ہے۔ فکشن کے ترجمے کی رائے کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ باقر نقوی اس کام میں مصروف ہوئے تو ایسے کہ پھر لگ بھگ سات برس کے عرصے میں انھوں نے اردو قارئین کے لیے ایک آدھ نہیں پوری چار کتابیں اردو کے قالب میں ڈھالیں اور کون سی کتابیں؟ ذرا دیکھیے تو سہی۔ ہرٹامیولر کی ''دی نادرز'' کا اردو ترجمہ ''نشیبی سرزمین''، گنتر گراس کے معروفِ زمانہ ناول ''دی ٹن ڈرم'' کا ترجمہ بہ عنوان ''نقارہ'' وکٹر ہیوگو کے شہرۂ آفاق ناول ''لامضراب'' کا ترجمہ بہ عنوان ''مضراب'' (دو جلدیں) اور ''جاپان کا نوبیل ادب'' جس میں یاسوناری کاوا باتا اور کینزا بورو او ای کے تین ناول شامل ہیں۔ ان کاموں پر محض ایک نگاہ ڈال کر بھی یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ باقر نقوی جب کسی کام کی جانب متوجہ ہوتے ہیں تو بس پھر جی جان سے اس میں لگ جاتے تھے۔ ذہانت، شوق اور محنت کا ایسا حیران کن امتزاج کم ہی لوگوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔

اب رہی بات ان کے تراجم کے معیار کی تو اس کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ پروفیسر سحر انصاری اور ہم جو انگریزی ادب کے باقاعدہ قاری ہیں، ان کے کام کو ہمیشہ ناقدانہ اور غائر نگاہ سے دیکھتے اور سچ یہ ہے کہ داد دیے بغیر نہ رہ پاتے۔ ہم دو ہی کیا، باقر نقوی کے بلند پایہ کارناموں کی داد تو جمیل الدین عالی، ڈاکٹر جمیل جالبی، ڈاکٹر گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی، شہزاد احمد، فتح محمد ملک، افتخار عارف، سیّد مظہر جمیل، رضی مجتبیٰ، ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر قاضی افضال حسین، ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی، ڈاکٹر ہلال نقوی، زاہدہ حنا، سلیم یزدانی، سیّد نعمان الحق، ضیاء الحسن اور نجیبہ عارف سے اہلِ دانش و بینش نے جس کشادہ دل سے دی ہے، وہ کسی بھی بڑے سے بڑے کام کرنے والے کے لیے مایۂ افتخار ٹھہرے۔

زندگی کے تقاضے تھے یا ادب کا شوق، باقر نقوی نے جو کام کیا پوری ذمے داری اور خالص جذبے سے کیا۔ والد کے انتقال کے بعد گھر کی ذمے داریوں کو اس طرح خوش اسلوبی سے نبھایا کہ سب چھوٹے بہن بھائی کام یاب اور خوش حال زندگی گزارتے ہیں۔ خود اپنی زندگی بھی بنائی۔ گھر بار کی تعمیر اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں انھوں نے قطعاً کسی غفلت کا اظہار نہ کیا۔ یہی نہیں، بلکہ ہم نے انھیں کتنے ہی لوگوں کی مدد کرتے ہوئے دیکھا، خاموشی اور حتی الوسع کھلے ہاتھ سے۔ باقر نقوی نے ہر لحاظ سے ایک کامیاب اور کارآمد زندگی گزاری۔ سفر کا آغاز ادنیٰ سطح سے کیا اور ان اعلیٰ مدارج تک پہنچے جن کی لوگ تمنا کرتے ہیں۔ اچھی بات یہ کہ ساری ترقی اور کامیابی کے باوجود ان کے اندر کا سچا، مخلص، محبت کرنے والا اور منکسر المزاج شخص اپنے اصل جوہر کے ساتھ آخری وقت تک قائم رہا۔ جن دوستوں سے ان کا بے تکلفی کا رشتہ تھا، اس میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔

اچھے لوگوں کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ ان کی زندگی کا خاتمہ ایسے ہی ہوتا نظر آتا ہے جیسے کوئی ستارہ ٹوٹتا ہے، اپنے پیچھے روشنی کی لکیر چھوڑتا ہوا۔ ختم ہوتے ہوئے بھی اپنے اثبات کا نشان دیتا ہوا۔ باقر نقوی بھی ایسے ہی دنیا سے رخصت ہوئے۔ موت برحق ہے، لیکن قابلِ رشک موت وہ ہے کہ اپنے پرائے جانے والے کی کمی محسوس کریں۔ اسے اچھے لفظوں میں یاد کریں۔ باقر نقوی نے آخری ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ کینسر جیسے موذی مرض سے لڑتے ہوئے گزارا۔ دوست مسلسل پرسانِ حال اور صحت کے لیے دعاگو رہتے اور جب اُن کی سناؤنی آئی تو لاہور، اسلام آباد ہی نہیں ہندوستان اور کینیڈا سے دوستوں نے رابطہ کرکے ایک دوسرے سے تعزیت کی اور دکھ کا اظہار کیا۔

ایسا سب کے ساتھ نہیں ہوتا۔ سچ پوچھیے تو سگے رشتوں میں بھی کم لوگوں کو اس طرح گہرے دُکھ کے احساس کے ساتھ لوگ رخصت کرتے ہیں، چہ جائے کہ کسی دوست کو، لیکن باقر نقوی کی جدائی کا صدمہ دور و نزدیک کے سبھی دوستوں نے محسوس کیا۔ یہی اِس دنیا میں آدمی کی اصل کمائی ہوتی ہے۔ زندگی اور ادب کی طرح باقر نقوی محبت کے بھی مردِ میداں تھے اور ایسے ہی لوگ نہایت اعتماد سے کہہ سکتے ہیں:

شادم از زندگیِ خویش کہ کارے کردم

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں