پوچھے بِنا موہے پیدا نہ کیجو
اگر رافیل میاں واقعی اپنے والدین پر مقدمہ کردیتے ہیں اور جیت جاتے ہیں تو انھیں تو مالی فائدہ ہوگا۔
''اب کے جنم موہے بٹیا نہ کیجو'' تو سُنا تھا لیکن اب یہ نیا مطالبہ سامنے آنے کو ہے کہ ''پوچھے بنا موہے پیدا نہ کیجو۔''
اس مطالبے کی شروعات بھارت کے ستائیس سالہ نوجوان رافیل سموئل نے اس اعلان کے ساتھ کردی ہے کہ وہ اپنے والدین پر مقدمہ کر رہا ہے کیوںکہ اس کی رائے لیے بغیر اسے دنیا میں لایا گیا، اس لیے رافیل کے والدین کو اسے زندگی گزارنے کے لیے رقم ادا کرنی چاہیے۔ رافیل نے کہا ہے کہ ''میں بھارت سمیت دنیا بھر میں ہر شخص کو یہ احساس دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی مرضی کے بغیر پیدا ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ سمجھے کہ اس پر اپنے والدین کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔''
اگر رافیل میاں واقعی اپنے والدین پر مقدمہ کردیتے ہیں اور جیت جاتے ہیں تو انھیں تو مالی فائدہ ہوگا، لیکن اس طرح دنیا بھر میں ماں باپ بننے کے آرزومند خواتین وحضرات یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کل کلاں کو ایسے ہی کسی مقدمے میں پھنسنے سے بہتر ہے آج ہی ممکنہ اولاد سے پوچھ لو کہ میاں، بی بی! کیا آپ ہمارے ہاں تولد ہونا پسند فرمائیں گے؟ اگر واقعتاً پیدا ہونے کے لیے مرضی معلوم کرنے کا کوئی طریقہ دریافت ہوگیا تو عجیب منظر ہوگا۔ لوگ اس طرح کی درخواستیں لکھ رہے ہوں گے،''فدوی کی تنخواہ چالیس ہزار روپے ہے۔ کرائے کے گھر میں رہتا ہے۔ جس شہر میں مقیم ہے وہاں نلکوں سے ہَوا یا مٹی مِلا ہُوا پانی آتا ہے۔ درخواست گزار ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر اچھلتی بسوں اور تھرکتے چنگچیوں میں دھکے کھاتا دفتر جاتا ہے۔ جب گھر میں پورا دن بجلی ہو تو حیران ہوتا اور خوشی مناتا ہے، ورنہ تو مسلسل غم سے ناتا ہے۔ اس درخواست کا مقصود آپ سے یہ رائے لینا ہے کہ اگر آپ نے پیدا ہونے کا ارادہ کرلیا ہے اور دنیا میں آنے کی ٹھان لی ہے تو کیا آپ فدوی کے گھر کو اپنی ولادت کا اعزاز بخشنا پسند فرمائیں گے؟
وضاحت: فدوی کے مالی حالات کا سُن کر اس غلط فہمی کا شکار مت ہوئیے گا کہ آپ کی ولادت کے جملہ اُمور دائی پھاتاں یا دائی بشیرن کے سپرد کیے جائیں گے۔ ہرگز نہیں۔ اس مقصد کے لیے فدوی نے اپنا ایک گُردہ اور آپ کی ممکنہ ومجوزہ والدہ کے زیور بیچ کر ایک بڑے نجی اسپتال میں بُکنگ کروادی ہے۔
درخواست گزار
باپ بننے کا خواست گار
نورالدین دلدار''
اس درخواست کا جواب ان الفاظ میں آئے گا:
''او ہو، صاف لگ رہا ہے پاکستان سے ہو، اور وہ بھی اچھے خاصے غریب، دیکھو بھئی، پہلے پیدا گیری کرو، پھر کچھ پیدا کرنے کے خواب دیکھو اور شوق سے نورنظر لخت جگر پیدا کرو۔ اول تو فی الحال ہمارا دنیا میں وارد ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔ کچھ دنوں پہلے تک ارادہ تھا۔ بِل گیٹس کو درخواست بھیجی تھی کہ ہم آپ کے ہاں پیدا ہونا چاہتے ہیں، ہوجائیں؟ جواب آیا، 'میرے پاس پہلے ہی ایسی پندرہ بیس لاکھ درخواستیں آئی ہوئی ہیں، اگر میں نے تمھیں اپنے گھر ولادت کی اجازت دے بھی دی تو تمھارا نمبر کہیں آخر میں ہوگا، پھر کہتے پھروگے۔۔۔میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی۔ میاں! میرے پاس ماں ہے، کا ڈائیلاگ بس فلموں تک ہے، یہاں ماں بھی اُسی اولاد کے پاس ہوتی ہے جس کے پاس مال ہو۔ مجھے معاف رکھو کہیں اور پیدا ہوجاؤ۔' اس جواب نے ہمیں ایسا دل برداشتہ کیا کہ ہم نے پیدا ہونے کا ارادہ ہی ملتوی کردیا۔ ویسے بھی ہمیں پیدا ہونا ہوا تو پاکستان کے عام آدمی کے ہاں ہرگز تولد نہیں ہوں گے۔ ہمیں پتا ہے وہاں ہمارے ساتھ کیا ہوگا۔ پیدا ہوتے ہی عربی یا فارسی لغت سے کوئی مشکل سا لفظ نکال کر اسے ہمارا نام بنادیا جائے گا۔ بڑے ہوکر اس کے معنی معلوم کریں گے تو پتا چلے گا 'اُلو کی دُم' یا 'بیل کی پونچھ' جیسا کوئی مطلب ہے۔ دودھ کے لیے یا کسی تکلیف میں روئیں گے تو عجیب فضول سے منہہ بنا کر اور واہیات سی آوازیں نکال کر مزید رُلایا جائے گا۔ پھپھو کی اولاد کی اُترن پہنائی جائے گی اور میرا شہزادہ کہا جائے گا۔ نیند نہیں آرہی ہوگی مگر کسی 'بھئو' کے آنے کا ڈراوا دے کر سُلانے کی ناکام کوشش کی جائے گی۔ ہم اپنی زبان میں لاکھ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ ارے جاہلو! کوئی بھئو ووؤ نہیں ہوتا، مگر کوئی سمجھے گا ہی نہیں۔ تین چار سال کے ہوں گے کہ بھاری بستہ لاد کر ہمیں ہماری عمر سے بھی کم تنخواہ والی ٹیچروں کے حوالے کردیا جائے گا۔ نہیں بھئی، ہم یہیں ٹھیک ہیں۔ کراچی کی ڈیفینس سوسائٹی یا لاہور کے ماڈل ٹاؤن سے درخواست آئی تو پاکستان میں پیدا ہونے کا سوچیں گے۔''
usman.jamai@express.com.pk
اس مطالبے کی شروعات بھارت کے ستائیس سالہ نوجوان رافیل سموئل نے اس اعلان کے ساتھ کردی ہے کہ وہ اپنے والدین پر مقدمہ کر رہا ہے کیوںکہ اس کی رائے لیے بغیر اسے دنیا میں لایا گیا، اس لیے رافیل کے والدین کو اسے زندگی گزارنے کے لیے رقم ادا کرنی چاہیے۔ رافیل نے کہا ہے کہ ''میں بھارت سمیت دنیا بھر میں ہر شخص کو یہ احساس دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی مرضی کے بغیر پیدا ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ سمجھے کہ اس پر اپنے والدین کی کوئی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی۔''
اگر رافیل میاں واقعی اپنے والدین پر مقدمہ کردیتے ہیں اور جیت جاتے ہیں تو انھیں تو مالی فائدہ ہوگا، لیکن اس طرح دنیا بھر میں ماں باپ بننے کے آرزومند خواتین وحضرات یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کل کلاں کو ایسے ہی کسی مقدمے میں پھنسنے سے بہتر ہے آج ہی ممکنہ اولاد سے پوچھ لو کہ میاں، بی بی! کیا آپ ہمارے ہاں تولد ہونا پسند فرمائیں گے؟ اگر واقعتاً پیدا ہونے کے لیے مرضی معلوم کرنے کا کوئی طریقہ دریافت ہوگیا تو عجیب منظر ہوگا۔ لوگ اس طرح کی درخواستیں لکھ رہے ہوں گے،''فدوی کی تنخواہ چالیس ہزار روپے ہے۔ کرائے کے گھر میں رہتا ہے۔ جس شہر میں مقیم ہے وہاں نلکوں سے ہَوا یا مٹی مِلا ہُوا پانی آتا ہے۔ درخواست گزار ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر اچھلتی بسوں اور تھرکتے چنگچیوں میں دھکے کھاتا دفتر جاتا ہے۔ جب گھر میں پورا دن بجلی ہو تو حیران ہوتا اور خوشی مناتا ہے، ورنہ تو مسلسل غم سے ناتا ہے۔ اس درخواست کا مقصود آپ سے یہ رائے لینا ہے کہ اگر آپ نے پیدا ہونے کا ارادہ کرلیا ہے اور دنیا میں آنے کی ٹھان لی ہے تو کیا آپ فدوی کے گھر کو اپنی ولادت کا اعزاز بخشنا پسند فرمائیں گے؟
وضاحت: فدوی کے مالی حالات کا سُن کر اس غلط فہمی کا شکار مت ہوئیے گا کہ آپ کی ولادت کے جملہ اُمور دائی پھاتاں یا دائی بشیرن کے سپرد کیے جائیں گے۔ ہرگز نہیں۔ اس مقصد کے لیے فدوی نے اپنا ایک گُردہ اور آپ کی ممکنہ ومجوزہ والدہ کے زیور بیچ کر ایک بڑے نجی اسپتال میں بُکنگ کروادی ہے۔
درخواست گزار
باپ بننے کا خواست گار
نورالدین دلدار''
اس درخواست کا جواب ان الفاظ میں آئے گا:
''او ہو، صاف لگ رہا ہے پاکستان سے ہو، اور وہ بھی اچھے خاصے غریب، دیکھو بھئی، پہلے پیدا گیری کرو، پھر کچھ پیدا کرنے کے خواب دیکھو اور شوق سے نورنظر لخت جگر پیدا کرو۔ اول تو فی الحال ہمارا دنیا میں وارد ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔ کچھ دنوں پہلے تک ارادہ تھا۔ بِل گیٹس کو درخواست بھیجی تھی کہ ہم آپ کے ہاں پیدا ہونا چاہتے ہیں، ہوجائیں؟ جواب آیا، 'میرے پاس پہلے ہی ایسی پندرہ بیس لاکھ درخواستیں آئی ہوئی ہیں، اگر میں نے تمھیں اپنے گھر ولادت کی اجازت دے بھی دی تو تمھارا نمبر کہیں آخر میں ہوگا، پھر کہتے پھروگے۔۔۔میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا مرے حصے میں ماں آئی۔ میاں! میرے پاس ماں ہے، کا ڈائیلاگ بس فلموں تک ہے، یہاں ماں بھی اُسی اولاد کے پاس ہوتی ہے جس کے پاس مال ہو۔ مجھے معاف رکھو کہیں اور پیدا ہوجاؤ۔' اس جواب نے ہمیں ایسا دل برداشتہ کیا کہ ہم نے پیدا ہونے کا ارادہ ہی ملتوی کردیا۔ ویسے بھی ہمیں پیدا ہونا ہوا تو پاکستان کے عام آدمی کے ہاں ہرگز تولد نہیں ہوں گے۔ ہمیں پتا ہے وہاں ہمارے ساتھ کیا ہوگا۔ پیدا ہوتے ہی عربی یا فارسی لغت سے کوئی مشکل سا لفظ نکال کر اسے ہمارا نام بنادیا جائے گا۔ بڑے ہوکر اس کے معنی معلوم کریں گے تو پتا چلے گا 'اُلو کی دُم' یا 'بیل کی پونچھ' جیسا کوئی مطلب ہے۔ دودھ کے لیے یا کسی تکلیف میں روئیں گے تو عجیب فضول سے منہہ بنا کر اور واہیات سی آوازیں نکال کر مزید رُلایا جائے گا۔ پھپھو کی اولاد کی اُترن پہنائی جائے گی اور میرا شہزادہ کہا جائے گا۔ نیند نہیں آرہی ہوگی مگر کسی 'بھئو' کے آنے کا ڈراوا دے کر سُلانے کی ناکام کوشش کی جائے گی۔ ہم اپنی زبان میں لاکھ سمجھانے کی کوشش کریں گے کہ ارے جاہلو! کوئی بھئو ووؤ نہیں ہوتا، مگر کوئی سمجھے گا ہی نہیں۔ تین چار سال کے ہوں گے کہ بھاری بستہ لاد کر ہمیں ہماری عمر سے بھی کم تنخواہ والی ٹیچروں کے حوالے کردیا جائے گا۔ نہیں بھئی، ہم یہیں ٹھیک ہیں۔ کراچی کی ڈیفینس سوسائٹی یا لاہور کے ماڈل ٹاؤن سے درخواست آئی تو پاکستان میں پیدا ہونے کا سوچیں گے۔''
usman.jamai@express.com.pk