’پاک بحریہ‘ اُبھرتی بحری طاقت
گہرے سمندر میں دشمن کی بڑھتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کیلیے پاکستان کی پہلی میری ٹائم ڈاکٹرائن عزم ودلیری کی علامت بن گئی
وسط 2011ء کی بات ہے، پاکستان کے اینٹلی جنس اداروں کو یہ چشم کشا خبر ملی کہ بھارت نے عمان کے ساحلی گائوں،راس الحدکے نزدیک ایک ریڈار اسٹیشن قائم کر لیا ہے۔ اسٹیشن کے ذریعے بھارتی افواج اس قابل ہو گئیں کہ بحیرہ عرب میں انجام پائیں پاکستان کی تجارتی سرگرمیوں اور پاک بحریہ کے جنگی جہازوں کی نقل وحرکت پہ نظر رکھ سکیں۔
یہ دفاع ِپاکستان کو لاحق ہو جانے والا ایک بڑا خطرہ تھا۔دراصل بھارت 2008 ء میں عمان کے ساتھ جنگی تعاون کا معاہدہ کرنے میں کامیاب رہا تھا۔اسی معاہدے کے باعث عمانی حکومت نے بھارتی افواج کو راس الحد پہ ریڈار لگانے کی اجازت دے دی۔تاہم عمانی حکمران باخبر ہوں گے کہ یہ اسٹیشن ایک برادر اسلامی ملک کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔یہ حقیقت ہے، امت میں عدم اتفاق عالم اسلام کے زوال کا اہم سبب بن گیا ہے۔
بہرحال پاک بحریہ اور سبھی پاکستانی عسکری حلقوں کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی تھی کہ دشمن نہ صرف ہمارے سمندر،بحیرہ عرب تک پہنچ چکا بلکہ وہ وہاں ہونے والی ہماری سرگرمیوں پہ بھی نظر رکھ سکتا ہے۔بدلتے حالات میں یہ ضروری ہو گیا کہ دشمن کی چالیں ناکام بنانے کی خاطر ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔یہی وجہ ہے ،2011ء سے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے اعلی دماغ پاک بحریہ کا پہلا نظریہ المعروف بہ ''میری ٹائم ڈاکٹرائن''تیار کرنے کے لیے تحقیق و محنت کرنے لگے۔ان کی بھرپور کوشش اور جدوجہد حال ہی میں رنگ لے آئی جو ملک وقوم کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے۔
سمندر کیوں اہم ؟
دور جدید میں سائنس و ٹیکنالوجی کی تیز رفتار اور بے پناہ ترقی کے باعث اسلحے اور جنگ کے شعبوں میں بھی تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ امریکا اور چین میں خصوصاً ایسے نت نئے ''روبوٹ ہتھیاروں'' پر تحقیق و تجربات جاری ہیں جو مستقبل کی جنگوں میں حصہ لیں گے۔ یوں میدان جنگ میں انسانوں کی موجودگی کم سے کم رہ جائے گی۔ایک جنگ زمین، فضا اور سمندر میں لڑی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے، ہر بڑا ملک اپنے مضبوط دفاع کی خاطر بری، فضائی اور بحری افواج رکھتا اور انہیں زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ قدرت نے پاکستان کو ایک ہزار کلو میٹر سے زائد طویل ساحل سمندر کا تحفہ عطا کررکھا ہے۔
اپنے ساحلوں کی حفاظت و دفاع کے لیے پاک بحریہ ہر دم چاق و چوبند رہتی ہے۔سمندر اور دریا بھی اس لیے اہمیت رکھتے ہیںکہ دنیا بھر ''80 فیصد تجارت'' سمندری و دریائی راستوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ اس وقت تقریباً ایک لاکھ مال بردار بحری جہاز امریکا سے لے کر نیوزی لینڈ اور ارجنٹائن تک ہر قسم کا سامان پہنچاتے ہیں۔ اسی وسیع و عریض سمندری تجارت نے بین الاقوامی معیشت کو نہ صرف ترقی دی بلکہ اسے سہارا بھی دے رکھا ہے۔ایک بڑامال بردار بحری جہاز چھ سے آٹھ ہزار تک ٹی ای یو (TEU) یعنی ٹوئنٹی فٹ ایکویلینٹ یونٹ لے جاسکتا ہے۔ اگر ٹرین کے ذریعے کہیں اتنا ہی سامان بھجوانا پڑے، تو کم از کم پندرہ ریلیں درکار ہوں گی۔
ہر ریل ایک میل لمبی ہونی چاہیے جس میں اوپر تلے دو کنٹینر لدے ہوں۔ ظاہر ہے، ریلوں کے ذریعے مال بھجوانے پر کثیر سرمایہ خرچ ہوگا۔ پھر زیادہ افرادی قوت درکار ہوگی۔ نیز دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مال بھجوانے پر بہت زیادہ ایندھن بھی لگے گا۔ مگر سمندری تجارت انسان کو ان تمام جھنجھٹوں سے بچالیتی ہے۔ یہ بات انسانی زندگی میں سمندری تجارت کی اہمیت اجاگر کرتی ہے۔
پچھلے تیس برس میں مگر سمندروں میں خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔ مثلاً کئی اسمگلر اور بین الاقوامی نیٹ ورک سمندری راستوں ہی سے اسلحہ، منشیات، قیمتی سامان حتیٰ کہ انسان تک اسمگل کرتے ہیں۔ سمندروں کے راستے اسمگلنگ بہت بڑا کاروبار بن چکا جس کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔ ہر ملک کی بحری فورسز سمگلروں کے خلاف اقدامات کرتی ہیں۔ نیز بہت سی سرگرمیاں مشترکہ طور پر بھی کی جاتی ہیں۔ کئی برس سے پاک بحریہ بھی انفرادی طور پر اور دیگر بحری فورسیز کے ساتھ مل کر مقامی و عالمی سمندروں میں قانون و معاشرہ دشمن عناصر کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ 2004ء سے مختلف ممالک کی بحری افواج ''کمبائنڈ ٹاسک فورس'' بناکر سمندروں میں اسمگلروں، دہشت گردوں اور دیگر قانون شکن عناصر کے خلاف کارروائیاں کررہی ہیں۔ پاک بحریہ کے جنگی جہازوں نے کئی کارروائیوں میں حصہ لیا اور ہمارے جوانوں نے مستعدی و دلیری کے اپنے جوہر دکھلائے۔
انڈوپیسفک ریجن میں گریٹ گیم
2015ء کے بعد مختلف وجوہ کی بنا پر دنیا کے دو بڑے سمندر...بحر ہند اور بحرالکاہل عالمی معیشت و سیاست میں اہمیت اختیار کرتے چلے گئے۔ بحرہند اس لیے اہم ہے کہ دنیا کے 80 فیصد تیل کی عالمی تجارت اسی سمندر کے مختلف بحری راستوں سے ہوتی ہے۔ یہی نہیں، ہمارے بحیرہ عرب سے متصل خلیج فارس تیل کے بحری جہازوں کی آمدورفت کا بہت بڑا مرکز ہے۔چین اپنا تقریباً سارا تیل بحر ہند یا بحرالکاہل کے راستے منگواتا ہے۔ لہٰذا چین کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ اہم مقامات پر اپنے اڈے قائم کرلے تاکہ تیل اور دیگر سامان کی سمندری تجارت بلا روک جاری رہے اور کوئی خطرہ جنم لے تو اسے دور کیا جاسکے۔ اسی سوچ کے تحت چین سری لنکا، مالدیپ، بنگلہ دیش، پاکستان، جبوتی اور صومالیہ کے ساحلی علاقوں میں تجارتی مراکز قائم کرچکا۔
2015ء کے بعد ہی چین اور پاکستان کے مشترکہ ''سی پیک منصوبے'' کا آغاز ہوا۔ اسی منصوبے کے تحت 2016ء سے چینی سرکاری کمپنی، چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی نے گوادر بندرگاہ کا انتظام سنبھال رکھا ہے۔بھارت بحرہند میں چین کے تجارتی اڈوں خصوصاً گوادر بندرگاہ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ چین گوادر کو بطور عسکری بیس بھی استعمال کرسکتا ہے۔ اسی لیے بھارت بحرہند میں چین کی سرگرمیوں اور سی پیک منصوبے کی مخالفت کرنے لگا۔
اسی دوران امریکا بھی چین کا مخالف بن کر سمندروں کی بالادستی پانے کی خاطر جاری گریٹ گیم میں شامل ہوگیا۔معاشی اور عسکری طور پر طاقتور ممالک کی خفیہ جنگ نے بحرہند اور بحرالکاہل کے مجموعی علاقے کو بڑا اہم تزویراتی جغرافیائی علاقہ بنادیا جسے عرف عام میں ''انڈوپیسفک ریجن'' کہا جاتا ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ محدود تھا مگر اب عسکری ماہرین کے نزدیک یہ علاقہ براعظم افریقہ کے ساحل سے لے کر براعظم شمالی امریکا کے ساحل تک پھیلا ہوا ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا، اسی علاقے میں دنیا بھر کی 80 فیصد سمندری تجارت ہوتی ہے۔ لہٰذا اب سپرپاورز اس علاقے کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے مختلف اقدامات کررہی ہیں۔ ہر سپرپاور کا نیا قدم مختلف واقعات جنم دینے کا سبب بن جاتا ہے۔
انڈوپیسفک ریجن میں دراصل امریکا، چین، بھارت، جاپان، انڈونیشیا، آسٹریلیا، پاکستان، ایران، سعودی عرب، تائیوان، جنوبی کوریا اور شمالی کوریا جیسے اہم و طاقتور ملکوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ امریکا چین کو تجارتی و عسکری لحاظ سے اپنا حریف سمجھتا ہے۔ امریکی جرنیل رفتہ رفتہ یہ نظریہ سامنے لائے کہ مستقبل میں چین امریکا کے عالمی مفادات کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ جب امریکی قوم پرست رہنما، ڈونالڈ ٹرمپ نے حکومت سنبھالی تو انہوں نے علی الاعلان چین کے خلاف تجارتی جنگ چھیڑ دی۔اس تجارتی جنگ میں فی الوقت تعطل آیا ہوا ہے۔ وجہ یہ کہ امریکی حکومت چینی حکمرانوں سے گفت و شنید کرکے اپنی شرائط منوانا چاہتی ہے۔
مقصد یہ ہے کہ امریکا و چین کی تجارت میں امریکیوں کو جو بھاری خسارہ ہورہا ہے، وہ کم سے کم کیا جاسکے۔ اگر دونوں سپرپاورز کے مابین مذاکرات ناکام رہے، تو خصوصاً انڈوپیسفک ریجن میں چین اور امریکا کی بحری افواج کے مابین تصادم کا خطرہ بڑھتا چلا جائے گا۔امریکا کی بحری فوج تین لاکھ انتیس ہزار سپاہ پر مشتمل ہے۔ اس کے پاس 480 جنگی جہاز ہیں۔ دنیا کی اس سب سے بڑی بحری سپاہ میں سے ڈھائی لاکھ فوجی انڈوپیسفک ریجن میں ہی موجود ہیں۔ یہ سپاہ دو سو سے زائد جنگی جہاز رکھتی ہے۔ گویا امریکا کی بحری قوت اسی علاقے میں مرتکز ہے۔
چین کی بحری فوج میں ڈھائی لاکھ سے زائد فوجی شامل ہیں۔ یہ فوج 512 جنگی جہاز رکھتی ہے۔ اس فوج کا بڑا حصہ بھی انڈوپیسفک میں موجود ہے۔ امریکا اور چین کے علاوہ اس علاقے میں بھارت، انڈونیشیا، جنوبی کوریا، جاپان، تائیوان، شمالی کوریا، پاکستان اور فلپائن بھی مضبوط بحری فوج رکھتے ہیں۔ اس باعث بحری جنگ کے حوالے سے انڈوپیسفک ریجن کو دنیا کا خطرناک ترین علاقہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس علاقے کی بڑھتی تزویراتی اہمیت کے پیش نظر ہی پچھلے سال مئی 2018ء میں امریکی حکومت نے اپنی قدیم ترین عسکری کمانڈ... یونائیٹڈ اسٹیٹس پیسفک کمانڈ کا نام تبدیل کرکے یونائٹیڈ اسٹیٹس انڈوپیسفک کمانڈ رکھ دیا تھا۔
یہ نام اس لیے بھی رکھا گیا تاکہ امریکا اور بھارت کی بحری افواج قریب آجائیں اور وہ بحرہند اور بحرالکاہل کے سمندروں میں مشترکہ طور پر مختلف سرگرمیاں انجام دے سکیں۔ یہی وجہ ہے، دونوں ممالک دو سال قبل ایک اہم معاہدے، لاجسٹکس ایکسچینج میمورنڈم آف ایگرمنٹ (LEMOA) پر دستخط کرچکے تھے۔اسی اہم معاہدے کے ذریعے امریکی بحری فوج کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ بھارتی بندرگاہیں استعمال کرسکتی ہے۔ جبکہ بھارتی بحریہ کو یہ فائدہ ملا کر اسے مشرق وسطیٰ میں ان بندرگاہوں تک رسائی مل گئی جن کا انتظام امریکا نے سنبھال رکھا ہے۔
بیرون ملک بندرگاہ تک رسائی
ایک مملکت کو کسی غیر ملک کی بندرگاہ تک رسائی مل جائے، تو یوں اسے کئی لحاظ سے فوائد ملتے ہیں۔ مثلاً سمندری تجارت کو رواں دوا ںکھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ دوران سفر ملک کا کوئی بحری جہاز خراب ہوجائے تو اسے بندرگاہ لے کر جلد ٹھیک کرنا ممکن ہے۔ بندرگاہ پر گودام بھی تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔ غرض یہ سہولت بہت کام آتی ہے۔ یہی وجہ ہے بھارت اب مختلف ممالک کی بندرگاہیں استعمال کرنے کی خاطر ان سے معاہدے کررہا ہے۔
2014ء میں قوم پرست رہنما نریندر مودی نے بھارت میں اقتدار سنبھال لیا۔ موصوف اپنی جنگجویانہ فطرت کے باعث بھارت کو علاقائی سپرپاور بنانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ان کے زیر قیادت بھارتی بحریہ بھی جارحانہ پالیسیاں بنارہی ہے۔ خاص طور پر اس نے بحرہند بلکہ پورے انڈوپیسفک ریجن میں اپنی سرگرمیاں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھادیں۔ حتیٰ کہ بحرہند کے کئی جزائر بشمول مارشیس اور سیشلیز میں بھارتی بحریہ جنگی اڈے بھی قائم کرچکی ہے۔
پاکستان میں یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ بھارت ہمارے پڑوس، ایران میں بندرگاہ چابہار کا آپریشنل کنٹرول حاصل کرچکا ہے۔ لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ بھارت عمان کے مقام دقم اور انڈونیشیا کی بندرگا، سبانگ میں بھی اپنے اڈے قائم کرچکا ہے۔ مزید براں عمان کے ساحلی علاقے، راس الحد میں بھارتی بحریہ ایک ریڈار بھی نصب کرچکی۔دقم بحیرہ عرب پر واقع عمان کی بندرگاہ ہے۔ فروری 2018ء میں عمانی حکومت نے بھارتی بحریہ کو اجازت دے دی کہ وہ بندرگاہ کو بطور لاجسٹک و سپورٹ استعمال کرسکتی ہے۔ یوں بھارتی بحریہ کو پاکستانی سمندر، بحیرہ عرب میں ایک عسکری اڈہ مل گیا۔ بھارت دقم میں مختلف تعمیراتی و صنعتی منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کررہا ہے تاکہ عمان میں اپنا اثرورسوخ بڑھاسکے۔
راس الحد خلیج عمان میں واقع ہے۔ اس کے بالکل سامنے پاکستانی بندرگاہیں، گوادر اور جیوانی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا سیاحتی مقام ہے۔جیسا کہ بتایا گیا، بھارتی بحریہ نے 2011ء سے اس مقام پر ایک ریڈار اسٹیشن بنا رکھا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے جولائی 2018ء میں انڈونیشیا کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے انڈونیشی حکومت سے درخواست کی کہ بھارتی بحریہ کو سبانگ بندرگاہ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ بندرگاہ بھارتی جزائر نکوبار و انڈیمان سے صرف 90 ناٹیکل میل دور ہے۔ بھارت بندرگاہ کی ترقی کے لیے وہاں سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتا ہے۔بھارت انڈوپیسفک ریجن میں واقع مختلف ممالک کی بندرگاہوں تک رسائی اسی لیے پارہا ہے کہ نہ صرف اپنی سمندری تجارت کو مضبوط بناسکے بلکہ جنگ کی صورت میں انہیں بطور عسکری اڈے بھی استعمال کرسکے۔
اسی لیے پاکستان بجا طور پر بحرہند میں بھارتی بحریہ کی بڑھتی سرگرمیوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگا۔ یہ خطرہ اس وقت مزید بڑھ جائے گا جب آنے والے برسوں میں گوادر کے راستے باقاعدہ سمندری تجارت شروع ہوگی۔جیسا کہ بتایا گیا، بحرالکاہل کے علاقے میں امریکی اور چینی بحری افواج کے تصادم کا خدشہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ چین کے حکمرانوں نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے یہی خدشہ مدنظر رکھ کر پاکستانی بندرگاہ گوادر کو ترقی دی اور وہاں اپنا اڈا قائم کرلیا۔ خدانخواستہ اگر بحرالکاہل میں جنگ چھڑجائے، تو چین گوادر کے راستے مشرق وسطیٰ سے تیل کی سپلائی لائن بحال رکھ سکتا ہے۔ لہٰذا گوادر بندرگاہ پاکستان اور چین، دونوں کے لیے اہمیت اختیار کرگئی۔
پاک بحریہ کا گشت
اپنے دفاع کو مضبوط بنانا ہر ملک کا حق ہے، لیکن بحرہند میں بھارت کی سرگرمیوں سے عیاں ہے کہ وہ اس سمندر میں خود کو بالادست طاقت کے طور پر دکھانا اور منوانا چاہتا ہے۔ پاکستان اس کی چودھراہٹ قبول کرنے کو تیار نہیں، اس لیے بحرہند میں بھارتی حکمران جارحانہ حکمت عملی بنارہے ہیں۔وہ اپنی عسکری طاقت سے پاکستان کو مرعوب و کمزور کرنا چاہتے ہیں۔بھارتی حکمران طبقے نے روز اول سے پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا اور وہ اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی حکمرانوں کا مسلسل قبضہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا۔ ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ پاکستان کی بری، فضائی اور بحری تینوں افواج دشمن کی چالوں پر متواتر نظر رکھیں اور اس کی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیتی رہیں۔
اسی سوچ و حکمت عملی کے تحت پچھلے سال پاک بحریہ نے بحیرہ عرب اور بحرہند میں ''ریجنل میری ٹائم سکیورٹی پٹرول'' (Regional Maritime Security Patrol) کرنے کا فیصلہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ ان سمندروں میں دوست ممالک کی بحری افواج سے تعلقات بڑھائے جائیں۔ نیز سمندروں میں گشت کرکے دشمن کو خبردار کیا جائے کہ پاک بحریہ ہر قسم کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاک بحریہ کے جنگی جہازوں کا یہ گشت وقفے وقفے سے جاری رہتا ہے۔دلچسپ بات یہ کہ ریجنل میری ٹائم سکیورٹی پٹرول کے تحت گشت کرنے والا پاک بحریہ کا پہلا جنگی جہاز، پی این ایس سیف عمان کی مسقط بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔یہ پاکستان کی بحری تاریخ میں یادگار موقع او اہم سنگ میل تھا۔ یوں پاک بحریہ نے ثابت کردیا کہ وہ وطن عزیز کے سمندروں کی حفاظت اور دفاع کرنے کی خاطر پوری طرح مستعد و تیار ہے۔
بھارت کی '' ایٹمی مثلث( بری، بحری، فضائی ایٹمی صلاحیت)
نومبر 2018ء میں بھارتی حکومت نے ایک اور جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بحرہند میں بلاسٹک ایٹمی میزائلوں سے لیس بھارتی آبدوز، اریہنت آپریشنل ہوگئی ہے۔یوں بھارت نے ''ایٹمی مثلث'' (Nuclear triad) کی صلاحیت پالی یعنی بھارتی افواج اب اس قابل ہوگئی ہیں کہ زمین، فضا اور سمندر... تینوں مقامات سے ایٹمی میزائل اور ایٹم بم چھوڑ سکیں۔تمام ایٹمی ہتھیاروں میں ایٹمی میزائلوں سے لیس آبدوز ہی سب سے زیادہ خطرناک ہتھیار ہے۔ وجہ یہ ہے کہ زمین ا ور فضا میں ایٹمی ہتھیار دشمن کے ریڈاروں، حساس آلات اور مصنوعی سیاروں کی زد میں رہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ایٹمی ہتھیاروں کی خاصی حد تک شناخت ہوجاتی ہے۔ نیز دشمن پہلے حملہ کرکے انہیں تباہ بھی کرسکتا ہے۔
ایٹمی میزائلوں سے لیس آبدوز کو مگر تہہ سمندر میں شناخت کرنا بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ یہ آبدوز بناتے ہوئے اس کی چادروں میں خصوصی مادے اور کیمیکل ملائے جاتے ہیں تاکہ حساس آلات اسے آسانی سے شناخت نہ کرسکیں۔ آبدوز میں پوشیدہ رہنے کی صلاحیتیں پیدا ہوجائیں۔ چنانچہ یہ آبدوز ''دوسرا وار''(Second strike) کرنے کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ ایسی آبدوز کئی ماہ زیر آب رہ سکتی ہے۔ نیز نہایت مختصر وقت میں اس سے ایٹمی میزائل چھوڑنا ممکن ہے۔ اسی لیے یہ آبدوز نہایت تباہ کن ہتھیار تصور ہوتا ہے۔
فی الوقت امریکا، روس، چین، بھارت، اسرائیل اور برطانیہ ''ایٹمی مثلث'' کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان بھی آبدوز سے چھوڑا جانے والا ایٹمی میزائل ''بابر سوم ''تیار کرچکا لیکن یہ کروز میزائل ہے جبکہ ایٹمی بلاسٹک میزائل زیادہ موثر اور دور تک مار کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ بہرحال بابر سوم کی ایجاد سے پاکستان بھی خاصی حد تک ''ایٹمی تکڑی'' کی صلاحیت حاصل کرچکا۔ خیال ہے کہ یہ میزائل اگوستا آبدوز میں نصب کیا گیا ہے۔ یہ 450 کلو وزنی ایٹم بم یا روایتی بارود ساڑھے چار سو کلو میٹر دور لے جاسکتا ہے۔
بھارتی میری ٹائم ڈاکٹرائن
بھارت 2004ء میں اپنی پہلی ''میری ٹائم ڈاکٹرائن'' یا بحری نظریہ سامنے لایا تھا۔ 2007ء اور 2009ء میں نظریاتی قوانین میں رودبدل کیا گیا۔ جب مودی حکومت آئی، تو اکتوبر 2015ء میں بھارتی بحریہ نئی میری ٹائم ڈاکٹرائن سامنے لائی جسے ''بھارتی بحری سکیورٹی حکمت عملی: سمندروں کو محفوظ بنانا'' (Indian Maritime Security Strategy: Ensuring Secure Seas) کا نام دیا گیا۔اس نئی میری ٹائم ڈاکٹرائن کے تحت بھارت بحرہند، بحیرہ عرب اور خلیج بنگال میں واقع تمام اہم سمندری راستوں اور جزائر کو اپنے کنٹرول میں لانا چاہتا ہے۔ نیز یہ بھی طے کیا گیا کہ انڈوپیسفک ریجن پر بھر پور توجہ دی جائے تاکہ ہر قسم کی سیاسی، معاشی، عسکری اور معاشرتی تبدیلیوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔
بھارت کا یہ نیا بحری نظریہ یا میری ٹائم ڈاکٹرائن جنگ و جدل کے نظریات بھی سموئے ہوئے ہے۔ بحری ہو، فضائی یا بری، اس قسم کے نظریات تاریخ، عملی تجربات، جنگوں، دستیاب ٹیکنالوجی اور مستقبل ذہن میں رکھ کر تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ نیز جیو پالیٹکس (ارضی سیاست)، خطرات، قومی عزائم بھی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔دنیا کے تمام بڑے ممالک کی افواج اپنے اپنے عسکری نظریے (ملٹری ڈاکٹرائن) ماہرین کی مدد سے تخلیق کرتی ہیں۔ اس کو پھر مختلف اداروں میں نافذ کیا جاتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ سبھی اداروں میں مصروف کار افسر و نوجوان عسکری نظریات کی غرض و ماہیت جان کو اپنے فرائض بخوبی انجام دیں۔ انہیں علم ہو کہ وہ کون سا کام کیوں اور کیسے کررہے ہیں۔ مزید براں انہی عسکری نظریات کے ذریعے عیاں ہوتا ہے کہ ایک ملک کی افواج اور باشندے دوران جنگ کس قسم کا ردعمل دکھائیں گے اور لڑائیاں کیسے لڑیں گے۔
یہ مگر یاد رہے کہ ملٹری ڈاکٹرائن اور حکمت عملی کے مابین فرق ہے۔ حکمت عملی کے تحت عملی منصوبہ بنتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ نظریے کے اصول و قوانین پر عمل کیا جاسکے۔گویا ملٹری ڈاکٹرائن حکمت عملی تیار کرنے کے سلسلے میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔بحری نظریہ یا میری ٹائم ڈاکٹرائن عسکری نظریے سے یوں مختلف ہے کہ اس میں سمندروں سے متعلق غیر عسکری معاملات بھی زیر بحث آتے ہیں۔ بنیادی طور پر میری ٹائم ڈاکٹرائن کے دو حصے ہوتے ہیں...عسکری اور معاشی۔ معاشی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ مملکت کے سمندروں میں کتنی معدنیات اور ایندھن موجود ہے۔ ملک کی بندرگاہوں، سمندری تجارت، جغرافیہ وغیرہ کے معاملات بھی اس حصے میں آتے ہیں جبکہ عسکری حصہ بحریہ، کوسٹ گارڈ اور سمندروں کا دفاع کرنے والے دیگر سیکورٹی اداروں سے متعلق ہوتا ہے۔
سمندروں کی آزادی محفوظ
بھارت جب جارحانہ میری ٹائم ڈاکٹرائن سامنے لایا تو یہ ضروری ہوگیا کہ پاک بحریہ بھی اپنی میری ٹائم ڈاکٹرائن پیش کردے تاکہ حال و مستقبل میں درپیش دفاعی چیلنجوں سے حُسنِ تدبر و تدبیر سے نمٹا جاسکے۔ اس ضمن میں زبردست سرگرمی دکھائی گئی اور سال گزشتہ کے آخری مہینے اسے مکمل کرلیا گیا۔11 تا 20 دسمبر2018ء لاہور میں واقع پاکستان نیول وار کالج میں پاک بحریہ کے زیر انتظام ایک سکیورٹی ورکشاپ منعقد ہوئی جس کا عنوان تھا ''نیلی معیشت: خوشحال پاکستان ''۔ اسی ورکشاپ کے آخری روز پاک بحریہ کی پہلی میری ٹائم ڈاکٹرائن بہ عنوان ''سمندروں کی آزادی محفوظ بنانا'' (Preserving Freedom of Seas") پیش کیا گیا۔ یوں پاک بحریہ نے ثابت کردیا کہ اس کے افسر و جوان بیدار و مستعد ہیں۔ وہ کبھی ملک و قوم کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ پاک بحریہ کی میری ٹائم ڈاکٹرائن پاکستان کے محفوظ و خوشحال مستقبل کی ضمانت ہے۔
ہمارے ہاں عسکری حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوگیا تھا کہ وطن عزیز پر بری اور فضائی حملوں کا زیادہ خطرہ ہے۔ حالانکہ ماضی میں سمندری راستے سے بھی لشکر ہندوستان سے آتے رہے۔ مثال کے طور پر فاتح سندھ، محمد بن قاسم کا مرکزی لشکر سمندر کے راستے ہی آیا تھا۔ بہرحال بھارتی بحریہ بحیرہ عرب میں سرگرم ہوئی تو پاکستانی عسکری حلقوں کو احساس ہوا کہ دشمن ہمارے ساحلی علاقوں تک آپہنچا ہے۔ لہٰذا اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اب جامع بحری نظریہ اور حکمت عملی وضع کرنا بہت ضروری ہے۔ اسی سوچ کے باعث پاک بحریہ کا پہلا میری ٹائم ڈاکٹرائن معرض وجود میں آیا۔
اس میری ٹائم ڈاکٹرائن میں بحری معیشت اور بحری جنگ، دونوں حصوں کی بابت بھر پور معلومات موجود ہیں۔ یہ واضح کرتی ہے کہ پاکستان کے سمندروں کو کئی خطرات درپیش ہیں۔ نیز وہ رہنما خطوط بھی واضح کیے گئے جن پر عمل کرکے پاک بحریہ اور بحری سکیورٹی سے منسلک دیگر ادارے خطرے دور کرسکتے ہیں۔یہ ڈاکٹرائن دس ابواب پر مشتمل ہے۔ شروع کے ابواب میں برصغیر پاک و ہند کی بحری تاریخ بیان ہوئی ہے۔ پھر قیام پاکستان کے بعد دفاع وطن میں پاک بحریہ کی خدمات کا تذکرہ پڑھ کر قاری جوش و جذبے سے بھرجاتا ہے۔ آخری ابواب میں ان اصول و قوانین کا ذکر ہے جن پر امن و جنگ کی حالت میں پاک بحریہ عمل کرے اور حکمت عملی بنائے گی۔ یقیناً یہ میری ٹائم ڈاکٹرائن پاک بحریہ کو بحرہند میں ابھرتی بحری طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
بحریہ کی جنگی تیاریاں
پاک بحریہ بحرہند میں دشمن کا مقابلہ کرنے کی خاطر بھر پور عسکری تیاریاں کررہی ہے۔ جون 2018ء میں اس نے دو فریگیٹ (جنگی جہاز) خریدنے کے لیے چین کی سرکاری شپ بلڈنگ کارپوریشن سے معاہدہ کیا۔ یہ ٹائپ 054AP فریگیٹ جدید ترین سازوسامان سے لیس ہوں گے۔ پاکستان اسی کمپنی سے ٹائپ 054A فریگیٹ بھی حاصل کررہا ہے۔ یہ جنگی جہاز میزائلوں سے لیس ہوں گے۔
حال ہی میں پاک بحریہ کے زیر اہتمام ''امن بحری مشقیں 2019ء'' منعقد ہوئیں۔ پاک بحریہ یہ مشقیں 2007ء سے منعقد کررہی ہے۔ ان میں دوست ممالک کی بحری افواج کے دستے بھی شرکت کرتے ہیں۔حالیہ مشقوں میں پہلی بار پاک بحریہ کے نئے نکور ریپلیشمنٹ ٹینکر( replenishment tanker) نے حصہ لیا۔'' پی این ایس معاون'' (اے 39) نامی یہ ٹینکر سمندروں میں جنگی جہازوں، آبدوزوں اور تجارتی جہازوں کو ایندھن فراہم کرتا ہے۔ ان مشقوں کے ذریعے پاک بحریہ کے جوانوں کو تجربہ حاصل کرنے کا نادر موقع ملا۔
بحیرہ عرب میں پاکستان کی سمندری حدود دو لاکھ نوے ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ اب میری ٹائم ڈاکٹرائن کی تشکیل سے اس وسیع و عریض علاقے کا انتظام و انصرام کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس علاقے میں تیل و گیس کے ذخائر موجود ہوسکتے ہیں۔ امریکا کی مشہور تیل کمپنی، ایکسون اطالوی کمپنی، ای این آئی لمیٹڈ کے تعاون سے کراچی کے ساحل سمندر سے 280 کلو میٹر دور بحیرہ عرب میں تیل کے کنوئیں تلاش کررہی ہے۔
میری ٹائم ڈاکٹرائن کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت تھی۔ اس کے تخلیق ہونے سے پاکستان اب اپنے سمندری علاقوں کا کنٹرول بخوبی سنبھال سکتا ہے۔ نیز یہ ڈاکٹرائن بحری دفاع مضبوط کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ انشاء اللہ اس کے ذریعے پاک بحریہ ایک مضبوط اور طاقتور بحری قوت کی صورت میں سامنے آئے گی۔
مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمان
جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی مقبوضہ کشمیر میں ممتاز سماجی تنظیم ہے۔اس کی تازہ رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ 2018 ء میں بھی خطہِ کشمیر میں بھارتی افواج نے کشمیریوں پہ ظلم وستم ڈھانا جاری رکھا۔اس نے 267 مجاہدین اور 160 شہری بیدردی سے شہید کر دئیے...جن میں تیس بچے بھی شامل تھے۔نیز آنکھوں اور جسم پہ چھرے لگنے سے ہزارہا چھوٹے بڑے کشمیری شدید زخمی ہوئے اور ان کی زندگیاں تباہ ہو گئیں۔ایسا خوفناک ظلم وستم کرہ ارض پہ کہیں اور کم ہی دکھائی دیتا ہے۔
اس رپورٹ کو مگر بھارت،یورپی ممالک اور امریکا کے کسی اخبار نے شائع نہیں کیا۔کسی ٹی وی نیٹ ورک پہ بیٹھے مبصروں نے تبصرے نہیں کیے۔بس چند نیوزویب سائٹس میں یہ رپورٹ شائع ہو گئی۔لیکن جیسے ہی پلوامہ میں عادل احمد ڈار نے بھارتی فوجیوں سے بھری بس کو نشانہ بنایا،پورے بھارتی ومغربی میڈیا میں جیسے طوفان برپا ہو گیا۔اس واقعے کو ''ظالمانہ'' اور ''اندوہناک''کہا گیا۔یہ بھارتی ومغربی میڈیا کی منافقت اور بے حسی کی انتہا ہے۔کیا بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیری کیڑے مکوڑے ہیں کہ ان کی جانیں کوئی وقعت نہیں رکھتیں؟
بھارتی سیکورٹی فورسیز کئی برس سے نہتے کشمیریوں پہ مظالم ڈھا رہی ہیں۔کشمیری نوجوان پہلے پتھروں سے ان کا مقابلہ کرتے رہے۔اب وہ بندوق سنبھال چکے۔کشمیر کی نئی نسل اب بھارتی افواج سے برسرپیکار ہے۔مگر بھارتی حکمران یہ سچائی چھپاتے اور پاکستان پہ الزام تھوپ دیتے ہیں کہ اس نے کشمیر میں مسلح جدوجہد کو جاری رکھا ہوا ہے۔بھارت نواز مغربی میڈیا بھی اپنے شہریوں کو یہ سچ دکھانے کو تیار نہیں کہ کشمیر میں شہری بھارتی ریاست سے نبردآزما ہیں۔وہ طویل غلامی سے تنگ آ چکے اور اب آزادی چاہتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم مودی کچھ عرصے سے دبائو کا شکار تھے۔پہلے انھیں اہم ریاستوں کے الیکشن میں شکست ہوئی۔پھر یہ رپورٹ سامنے آئی کہ ان کے دور حکومت میں بھارتی شہریوں کو کم ملازمتیں ملی ہیں۔گویا لاکھوں بھارتیوں نے انھیں ووٹ دے کر جو خواب دیکھا تھا کہ اب دودھ وشہد کی نہریں بہیں گی،وہ پورا نہیں ہو سکا۔اس صورت حال میں مودی کو آمدہ الیکشن میں اپنی ہار دکھائی دینے لگی۔مگر پلوامہ کے واقعہ نے ان میں نئی روح پھونک دی۔
وجہ یہ کہ بی جے پی اور مودی جی،دونوں نفرت کی سیاست کرکے پھلتے پھولتے ہیں۔بی جے پی بابری مسجد پر سیاست کرنے سے مقبول ہوئی۔ مودی نے2002ء میں لاشوں پہ سیاست کر کے شہرت پائی۔یہی وجہ ہے،اب وہ پلوامہ کی لاشوں پہ سیاست کر کے الیکشن پہ اثرانداز ہونے کی سعی کریں گے۔پلوامہ حملے کے بعد بھارت کے کئی شہروں میں کشمیروں پر حملے ہوئے اور انہیں ہراساں کیا گیا۔
یہ دفاع ِپاکستان کو لاحق ہو جانے والا ایک بڑا خطرہ تھا۔دراصل بھارت 2008 ء میں عمان کے ساتھ جنگی تعاون کا معاہدہ کرنے میں کامیاب رہا تھا۔اسی معاہدے کے باعث عمانی حکومت نے بھارتی افواج کو راس الحد پہ ریڈار لگانے کی اجازت دے دی۔تاہم عمانی حکمران باخبر ہوں گے کہ یہ اسٹیشن ایک برادر اسلامی ملک کے خلاف بھی استعمال ہو سکتا ہے۔یہ حقیقت ہے، امت میں عدم اتفاق عالم اسلام کے زوال کا اہم سبب بن گیا ہے۔
بہرحال پاک بحریہ اور سبھی پاکستانی عسکری حلقوں کے لیے یہ خطرے کی گھنٹی تھی کہ دشمن نہ صرف ہمارے سمندر،بحیرہ عرب تک پہنچ چکا بلکہ وہ وہاں ہونے والی ہماری سرگرمیوں پہ بھی نظر رکھ سکتا ہے۔بدلتے حالات میں یہ ضروری ہو گیا کہ دشمن کی چالیں ناکام بنانے کی خاطر ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔یہی وجہ ہے ،2011ء سے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے اعلی دماغ پاک بحریہ کا پہلا نظریہ المعروف بہ ''میری ٹائم ڈاکٹرائن''تیار کرنے کے لیے تحقیق و محنت کرنے لگے۔ان کی بھرپور کوشش اور جدوجہد حال ہی میں رنگ لے آئی جو ملک وقوم کے لیے بہت بڑی خوش خبری ہے۔
سمندر کیوں اہم ؟
دور جدید میں سائنس و ٹیکنالوجی کی تیز رفتار اور بے پناہ ترقی کے باعث اسلحے اور جنگ کے شعبوں میں بھی تیزی سے تبدیلیاں آرہی ہیں۔ امریکا اور چین میں خصوصاً ایسے نت نئے ''روبوٹ ہتھیاروں'' پر تحقیق و تجربات جاری ہیں جو مستقبل کی جنگوں میں حصہ لیں گے۔ یوں میدان جنگ میں انسانوں کی موجودگی کم سے کم رہ جائے گی۔ایک جنگ زمین، فضا اور سمندر میں لڑی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے، ہر بڑا ملک اپنے مضبوط دفاع کی خاطر بری، فضائی اور بحری افواج رکھتا اور انہیں زیادہ سے زیادہ طاقتور بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ قدرت نے پاکستان کو ایک ہزار کلو میٹر سے زائد طویل ساحل سمندر کا تحفہ عطا کررکھا ہے۔
اپنے ساحلوں کی حفاظت و دفاع کے لیے پاک بحریہ ہر دم چاق و چوبند رہتی ہے۔سمندر اور دریا بھی اس لیے اہمیت رکھتے ہیںکہ دنیا بھر ''80 فیصد تجارت'' سمندری و دریائی راستوں کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔ اس وقت تقریباً ایک لاکھ مال بردار بحری جہاز امریکا سے لے کر نیوزی لینڈ اور ارجنٹائن تک ہر قسم کا سامان پہنچاتے ہیں۔ اسی وسیع و عریض سمندری تجارت نے بین الاقوامی معیشت کو نہ صرف ترقی دی بلکہ اسے سہارا بھی دے رکھا ہے۔ایک بڑامال بردار بحری جہاز چھ سے آٹھ ہزار تک ٹی ای یو (TEU) یعنی ٹوئنٹی فٹ ایکویلینٹ یونٹ لے جاسکتا ہے۔ اگر ٹرین کے ذریعے کہیں اتنا ہی سامان بھجوانا پڑے، تو کم از کم پندرہ ریلیں درکار ہوں گی۔
ہر ریل ایک میل لمبی ہونی چاہیے جس میں اوپر تلے دو کنٹینر لدے ہوں۔ ظاہر ہے، ریلوں کے ذریعے مال بھجوانے پر کثیر سرمایہ خرچ ہوگا۔ پھر زیادہ افرادی قوت درکار ہوگی۔ نیز دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک مال بھجوانے پر بہت زیادہ ایندھن بھی لگے گا۔ مگر سمندری تجارت انسان کو ان تمام جھنجھٹوں سے بچالیتی ہے۔ یہ بات انسانی زندگی میں سمندری تجارت کی اہمیت اجاگر کرتی ہے۔
پچھلے تیس برس میں مگر سمندروں میں خطرات بھی بڑھ گئے ہیں۔ مثلاً کئی اسمگلر اور بین الاقوامی نیٹ ورک سمندری راستوں ہی سے اسلحہ، منشیات، قیمتی سامان حتیٰ کہ انسان تک اسمگل کرتے ہیں۔ سمندروں کے راستے اسمگلنگ بہت بڑا کاروبار بن چکا جس کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔ ہر ملک کی بحری فورسز سمگلروں کے خلاف اقدامات کرتی ہیں۔ نیز بہت سی سرگرمیاں مشترکہ طور پر بھی کی جاتی ہیں۔ کئی برس سے پاک بحریہ بھی انفرادی طور پر اور دیگر بحری فورسیز کے ساتھ مل کر مقامی و عالمی سمندروں میں قانون و معاشرہ دشمن عناصر کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ 2004ء سے مختلف ممالک کی بحری افواج ''کمبائنڈ ٹاسک فورس'' بناکر سمندروں میں اسمگلروں، دہشت گردوں اور دیگر قانون شکن عناصر کے خلاف کارروائیاں کررہی ہیں۔ پاک بحریہ کے جنگی جہازوں نے کئی کارروائیوں میں حصہ لیا اور ہمارے جوانوں نے مستعدی و دلیری کے اپنے جوہر دکھلائے۔
انڈوپیسفک ریجن میں گریٹ گیم
2015ء کے بعد مختلف وجوہ کی بنا پر دنیا کے دو بڑے سمندر...بحر ہند اور بحرالکاہل عالمی معیشت و سیاست میں اہمیت اختیار کرتے چلے گئے۔ بحرہند اس لیے اہم ہے کہ دنیا کے 80 فیصد تیل کی عالمی تجارت اسی سمندر کے مختلف بحری راستوں سے ہوتی ہے۔ یہی نہیں، ہمارے بحیرہ عرب سے متصل خلیج فارس تیل کے بحری جہازوں کی آمدورفت کا بہت بڑا مرکز ہے۔چین اپنا تقریباً سارا تیل بحر ہند یا بحرالکاہل کے راستے منگواتا ہے۔ لہٰذا چین کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ اہم مقامات پر اپنے اڈے قائم کرلے تاکہ تیل اور دیگر سامان کی سمندری تجارت بلا روک جاری رہے اور کوئی خطرہ جنم لے تو اسے دور کیا جاسکے۔ اسی سوچ کے تحت چین سری لنکا، مالدیپ، بنگلہ دیش، پاکستان، جبوتی اور صومالیہ کے ساحلی علاقوں میں تجارتی مراکز قائم کرچکا۔
2015ء کے بعد ہی چین اور پاکستان کے مشترکہ ''سی پیک منصوبے'' کا آغاز ہوا۔ اسی منصوبے کے تحت 2016ء سے چینی سرکاری کمپنی، چائنا اوورسیز پورٹ ہولڈنگ کمپنی نے گوادر بندرگاہ کا انتظام سنبھال رکھا ہے۔بھارت بحرہند میں چین کے تجارتی اڈوں خصوصاً گوادر بندرگاہ کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ چین گوادر کو بطور عسکری بیس بھی استعمال کرسکتا ہے۔ اسی لیے بھارت بحرہند میں چین کی سرگرمیوں اور سی پیک منصوبے کی مخالفت کرنے لگا۔
اسی دوران امریکا بھی چین کا مخالف بن کر سمندروں کی بالادستی پانے کی خاطر جاری گریٹ گیم میں شامل ہوگیا۔معاشی اور عسکری طور پر طاقتور ممالک کی خفیہ جنگ نے بحرہند اور بحرالکاہل کے مجموعی علاقے کو بڑا اہم تزویراتی جغرافیائی علاقہ بنادیا جسے عرف عام میں ''انڈوپیسفک ریجن'' کہا جاتا ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ محدود تھا مگر اب عسکری ماہرین کے نزدیک یہ علاقہ براعظم افریقہ کے ساحل سے لے کر براعظم شمالی امریکا کے ساحل تک پھیلا ہوا ہے۔ جیسا کہ بتایا گیا، اسی علاقے میں دنیا بھر کی 80 فیصد سمندری تجارت ہوتی ہے۔ لہٰذا اب سپرپاورز اس علاقے کو اپنے کنٹرول میں لانے کے لیے مختلف اقدامات کررہی ہیں۔ ہر سپرپاور کا نیا قدم مختلف واقعات جنم دینے کا سبب بن جاتا ہے۔
انڈوپیسفک ریجن میں دراصل امریکا، چین، بھارت، جاپان، انڈونیشیا، آسٹریلیا، پاکستان، ایران، سعودی عرب، تائیوان، جنوبی کوریا اور شمالی کوریا جیسے اہم و طاقتور ملکوں کے مفادات وابستہ ہیں۔ امریکا چین کو تجارتی و عسکری لحاظ سے اپنا حریف سمجھتا ہے۔ امریکی جرنیل رفتہ رفتہ یہ نظریہ سامنے لائے کہ مستقبل میں چین امریکا کے عالمی مفادات کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ جب امریکی قوم پرست رہنما، ڈونالڈ ٹرمپ نے حکومت سنبھالی تو انہوں نے علی الاعلان چین کے خلاف تجارتی جنگ چھیڑ دی۔اس تجارتی جنگ میں فی الوقت تعطل آیا ہوا ہے۔ وجہ یہ کہ امریکی حکومت چینی حکمرانوں سے گفت و شنید کرکے اپنی شرائط منوانا چاہتی ہے۔
مقصد یہ ہے کہ امریکا و چین کی تجارت میں امریکیوں کو جو بھاری خسارہ ہورہا ہے، وہ کم سے کم کیا جاسکے۔ اگر دونوں سپرپاورز کے مابین مذاکرات ناکام رہے، تو خصوصاً انڈوپیسفک ریجن میں چین اور امریکا کی بحری افواج کے مابین تصادم کا خطرہ بڑھتا چلا جائے گا۔امریکا کی بحری فوج تین لاکھ انتیس ہزار سپاہ پر مشتمل ہے۔ اس کے پاس 480 جنگی جہاز ہیں۔ دنیا کی اس سب سے بڑی بحری سپاہ میں سے ڈھائی لاکھ فوجی انڈوپیسفک ریجن میں ہی موجود ہیں۔ یہ سپاہ دو سو سے زائد جنگی جہاز رکھتی ہے۔ گویا امریکا کی بحری قوت اسی علاقے میں مرتکز ہے۔
چین کی بحری فوج میں ڈھائی لاکھ سے زائد فوجی شامل ہیں۔ یہ فوج 512 جنگی جہاز رکھتی ہے۔ اس فوج کا بڑا حصہ بھی انڈوپیسفک میں موجود ہے۔ امریکا اور چین کے علاوہ اس علاقے میں بھارت، انڈونیشیا، جنوبی کوریا، جاپان، تائیوان، شمالی کوریا، پاکستان اور فلپائن بھی مضبوط بحری فوج رکھتے ہیں۔ اس باعث بحری جنگ کے حوالے سے انڈوپیسفک ریجن کو دنیا کا خطرناک ترین علاقہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس علاقے کی بڑھتی تزویراتی اہمیت کے پیش نظر ہی پچھلے سال مئی 2018ء میں امریکی حکومت نے اپنی قدیم ترین عسکری کمانڈ... یونائیٹڈ اسٹیٹس پیسفک کمانڈ کا نام تبدیل کرکے یونائٹیڈ اسٹیٹس انڈوپیسفک کمانڈ رکھ دیا تھا۔
یہ نام اس لیے بھی رکھا گیا تاکہ امریکا اور بھارت کی بحری افواج قریب آجائیں اور وہ بحرہند اور بحرالکاہل کے سمندروں میں مشترکہ طور پر مختلف سرگرمیاں انجام دے سکیں۔ یہی وجہ ہے، دونوں ممالک دو سال قبل ایک اہم معاہدے، لاجسٹکس ایکسچینج میمورنڈم آف ایگرمنٹ (LEMOA) پر دستخط کرچکے تھے۔اسی اہم معاہدے کے ذریعے امریکی بحری فوج کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ بھارتی بندرگاہیں استعمال کرسکتی ہے۔ جبکہ بھارتی بحریہ کو یہ فائدہ ملا کر اسے مشرق وسطیٰ میں ان بندرگاہوں تک رسائی مل گئی جن کا انتظام امریکا نے سنبھال رکھا ہے۔
بیرون ملک بندرگاہ تک رسائی
ایک مملکت کو کسی غیر ملک کی بندرگاہ تک رسائی مل جائے، تو یوں اسے کئی لحاظ سے فوائد ملتے ہیں۔ مثلاً سمندری تجارت کو رواں دوا ںکھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔ دوران سفر ملک کا کوئی بحری جہاز خراب ہوجائے تو اسے بندرگاہ لے کر جلد ٹھیک کرنا ممکن ہے۔ بندرگاہ پر گودام بھی تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔ غرض یہ سہولت بہت کام آتی ہے۔ یہی وجہ ہے بھارت اب مختلف ممالک کی بندرگاہیں استعمال کرنے کی خاطر ان سے معاہدے کررہا ہے۔
2014ء میں قوم پرست رہنما نریندر مودی نے بھارت میں اقتدار سنبھال لیا۔ موصوف اپنی جنگجویانہ فطرت کے باعث بھارت کو علاقائی سپرپاور بنانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے ان کے زیر قیادت بھارتی بحریہ بھی جارحانہ پالیسیاں بنارہی ہے۔ خاص طور پر اس نے بحرہند بلکہ پورے انڈوپیسفک ریجن میں اپنی سرگرمیاں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھادیں۔ حتیٰ کہ بحرہند کے کئی جزائر بشمول مارشیس اور سیشلیز میں بھارتی بحریہ جنگی اڈے بھی قائم کرچکی ہے۔
پاکستان میں یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ بھارت ہمارے پڑوس، ایران میں بندرگاہ چابہار کا آپریشنل کنٹرول حاصل کرچکا ہے۔ لیکن بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ بھارت عمان کے مقام دقم اور انڈونیشیا کی بندرگا، سبانگ میں بھی اپنے اڈے قائم کرچکا ہے۔ مزید براں عمان کے ساحلی علاقے، راس الحد میں بھارتی بحریہ ایک ریڈار بھی نصب کرچکی۔دقم بحیرہ عرب پر واقع عمان کی بندرگاہ ہے۔ فروری 2018ء میں عمانی حکومت نے بھارتی بحریہ کو اجازت دے دی کہ وہ بندرگاہ کو بطور لاجسٹک و سپورٹ استعمال کرسکتی ہے۔ یوں بھارتی بحریہ کو پاکستانی سمندر، بحیرہ عرب میں ایک عسکری اڈہ مل گیا۔ بھارت دقم میں مختلف تعمیراتی و صنعتی منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کررہا ہے تاکہ عمان میں اپنا اثرورسوخ بڑھاسکے۔
راس الحد خلیج عمان میں واقع ہے۔ اس کے بالکل سامنے پاکستانی بندرگاہیں، گوادر اور جیوانی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ ایک چھوٹا سا سیاحتی مقام ہے۔جیسا کہ بتایا گیا، بھارتی بحریہ نے 2011ء سے اس مقام پر ایک ریڈار اسٹیشن بنا رکھا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نے جولائی 2018ء میں انڈونیشیا کا دورہ کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے انڈونیشی حکومت سے درخواست کی کہ بھارتی بحریہ کو سبانگ بندرگاہ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔ یہ بندرگاہ بھارتی جزائر نکوبار و انڈیمان سے صرف 90 ناٹیکل میل دور ہے۔ بھارت بندرگاہ کی ترقی کے لیے وہاں سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتا ہے۔بھارت انڈوپیسفک ریجن میں واقع مختلف ممالک کی بندرگاہوں تک رسائی اسی لیے پارہا ہے کہ نہ صرف اپنی سمندری تجارت کو مضبوط بناسکے بلکہ جنگ کی صورت میں انہیں بطور عسکری اڈے بھی استعمال کرسکے۔
اسی لیے پاکستان بجا طور پر بحرہند میں بھارتی بحریہ کی بڑھتی سرگرمیوں کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگا۔ یہ خطرہ اس وقت مزید بڑھ جائے گا جب آنے والے برسوں میں گوادر کے راستے باقاعدہ سمندری تجارت شروع ہوگی۔جیسا کہ بتایا گیا، بحرالکاہل کے علاقے میں امریکی اور چینی بحری افواج کے تصادم کا خدشہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔ چین کے حکمرانوں نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے یہی خدشہ مدنظر رکھ کر پاکستانی بندرگاہ گوادر کو ترقی دی اور وہاں اپنا اڈا قائم کرلیا۔ خدانخواستہ اگر بحرالکاہل میں جنگ چھڑجائے، تو چین گوادر کے راستے مشرق وسطیٰ سے تیل کی سپلائی لائن بحال رکھ سکتا ہے۔ لہٰذا گوادر بندرگاہ پاکستان اور چین، دونوں کے لیے اہمیت اختیار کرگئی۔
پاک بحریہ کا گشت
اپنے دفاع کو مضبوط بنانا ہر ملک کا حق ہے، لیکن بحرہند میں بھارت کی سرگرمیوں سے عیاں ہے کہ وہ اس سمندر میں خود کو بالادست طاقت کے طور پر دکھانا اور منوانا چاہتا ہے۔ پاکستان اس کی چودھراہٹ قبول کرنے کو تیار نہیں، اس لیے بحرہند میں بھارتی حکمران جارحانہ حکمت عملی بنارہے ہیں۔وہ اپنی عسکری طاقت سے پاکستان کو مرعوب و کمزور کرنا چاہتے ہیں۔بھارتی حکمران طبقے نے روز اول سے پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا اور وہ اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی حکمرانوں کا مسلسل قبضہ امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا۔ ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ پاکستان کی بری، فضائی اور بحری تینوں افواج دشمن کی چالوں پر متواتر نظر رکھیں اور اس کی سازشوں کا منہ توڑ جواب دیتی رہیں۔
اسی سوچ و حکمت عملی کے تحت پچھلے سال پاک بحریہ نے بحیرہ عرب اور بحرہند میں ''ریجنل میری ٹائم سکیورٹی پٹرول'' (Regional Maritime Security Patrol) کرنے کا فیصلہ کیا۔ مقصد یہ تھا کہ ان سمندروں میں دوست ممالک کی بحری افواج سے تعلقات بڑھائے جائیں۔ نیز سمندروں میں گشت کرکے دشمن کو خبردار کیا جائے کہ پاک بحریہ ہر قسم کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ پاک بحریہ کے جنگی جہازوں کا یہ گشت وقفے وقفے سے جاری رہتا ہے۔دلچسپ بات یہ کہ ریجنل میری ٹائم سکیورٹی پٹرول کے تحت گشت کرنے والا پاک بحریہ کا پہلا جنگی جہاز، پی این ایس سیف عمان کی مسقط بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا۔یہ پاکستان کی بحری تاریخ میں یادگار موقع او اہم سنگ میل تھا۔ یوں پاک بحریہ نے ثابت کردیا کہ وہ وطن عزیز کے سمندروں کی حفاظت اور دفاع کرنے کی خاطر پوری طرح مستعد و تیار ہے۔
بھارت کی '' ایٹمی مثلث( بری، بحری، فضائی ایٹمی صلاحیت)
نومبر 2018ء میں بھارتی حکومت نے ایک اور جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ بحرہند میں بلاسٹک ایٹمی میزائلوں سے لیس بھارتی آبدوز، اریہنت آپریشنل ہوگئی ہے۔یوں بھارت نے ''ایٹمی مثلث'' (Nuclear triad) کی صلاحیت پالی یعنی بھارتی افواج اب اس قابل ہوگئی ہیں کہ زمین، فضا اور سمندر... تینوں مقامات سے ایٹمی میزائل اور ایٹم بم چھوڑ سکیں۔تمام ایٹمی ہتھیاروں میں ایٹمی میزائلوں سے لیس آبدوز ہی سب سے زیادہ خطرناک ہتھیار ہے۔ وجہ یہ ہے کہ زمین ا ور فضا میں ایٹمی ہتھیار دشمن کے ریڈاروں، حساس آلات اور مصنوعی سیاروں کی زد میں رہتے ہیں۔ ان کی وجہ سے ایٹمی ہتھیاروں کی خاصی حد تک شناخت ہوجاتی ہے۔ نیز دشمن پہلے حملہ کرکے انہیں تباہ بھی کرسکتا ہے۔
ایٹمی میزائلوں سے لیس آبدوز کو مگر تہہ سمندر میں شناخت کرنا بہت کٹھن مرحلہ ہے۔ یہ آبدوز بناتے ہوئے اس کی چادروں میں خصوصی مادے اور کیمیکل ملائے جاتے ہیں تاکہ حساس آلات اسے آسانی سے شناخت نہ کرسکیں۔ آبدوز میں پوشیدہ رہنے کی صلاحیتیں پیدا ہوجائیں۔ چنانچہ یہ آبدوز ''دوسرا وار''(Second strike) کرنے کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔ ایسی آبدوز کئی ماہ زیر آب رہ سکتی ہے۔ نیز نہایت مختصر وقت میں اس سے ایٹمی میزائل چھوڑنا ممکن ہے۔ اسی لیے یہ آبدوز نہایت تباہ کن ہتھیار تصور ہوتا ہے۔
فی الوقت امریکا، روس، چین، بھارت، اسرائیل اور برطانیہ ''ایٹمی مثلث'' کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان بھی آبدوز سے چھوڑا جانے والا ایٹمی میزائل ''بابر سوم ''تیار کرچکا لیکن یہ کروز میزائل ہے جبکہ ایٹمی بلاسٹک میزائل زیادہ موثر اور دور تک مار کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ بہرحال بابر سوم کی ایجاد سے پاکستان بھی خاصی حد تک ''ایٹمی تکڑی'' کی صلاحیت حاصل کرچکا۔ خیال ہے کہ یہ میزائل اگوستا آبدوز میں نصب کیا گیا ہے۔ یہ 450 کلو وزنی ایٹم بم یا روایتی بارود ساڑھے چار سو کلو میٹر دور لے جاسکتا ہے۔
بھارتی میری ٹائم ڈاکٹرائن
بھارت 2004ء میں اپنی پہلی ''میری ٹائم ڈاکٹرائن'' یا بحری نظریہ سامنے لایا تھا۔ 2007ء اور 2009ء میں نظریاتی قوانین میں رودبدل کیا گیا۔ جب مودی حکومت آئی، تو اکتوبر 2015ء میں بھارتی بحریہ نئی میری ٹائم ڈاکٹرائن سامنے لائی جسے ''بھارتی بحری سکیورٹی حکمت عملی: سمندروں کو محفوظ بنانا'' (Indian Maritime Security Strategy: Ensuring Secure Seas) کا نام دیا گیا۔اس نئی میری ٹائم ڈاکٹرائن کے تحت بھارت بحرہند، بحیرہ عرب اور خلیج بنگال میں واقع تمام اہم سمندری راستوں اور جزائر کو اپنے کنٹرول میں لانا چاہتا ہے۔ نیز یہ بھی طے کیا گیا کہ انڈوپیسفک ریجن پر بھر پور توجہ دی جائے تاکہ ہر قسم کی سیاسی، معاشی، عسکری اور معاشرتی تبدیلیوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔
بھارت کا یہ نیا بحری نظریہ یا میری ٹائم ڈاکٹرائن جنگ و جدل کے نظریات بھی سموئے ہوئے ہے۔ بحری ہو، فضائی یا بری، اس قسم کے نظریات تاریخ، عملی تجربات، جنگوں، دستیاب ٹیکنالوجی اور مستقبل ذہن میں رکھ کر تشکیل دیئے جاتے ہیں۔ نیز جیو پالیٹکس (ارضی سیاست)، خطرات، قومی عزائم بھی اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔دنیا کے تمام بڑے ممالک کی افواج اپنے اپنے عسکری نظریے (ملٹری ڈاکٹرائن) ماہرین کی مدد سے تخلیق کرتی ہیں۔ اس کو پھر مختلف اداروں میں نافذ کیا جاتا ہے۔ مدعا یہ ہے کہ سبھی اداروں میں مصروف کار افسر و نوجوان عسکری نظریات کی غرض و ماہیت جان کو اپنے فرائض بخوبی انجام دیں۔ انہیں علم ہو کہ وہ کون سا کام کیوں اور کیسے کررہے ہیں۔ مزید براں انہی عسکری نظریات کے ذریعے عیاں ہوتا ہے کہ ایک ملک کی افواج اور باشندے دوران جنگ کس قسم کا ردعمل دکھائیں گے اور لڑائیاں کیسے لڑیں گے۔
یہ مگر یاد رہے کہ ملٹری ڈاکٹرائن اور حکمت عملی کے مابین فرق ہے۔ حکمت عملی کے تحت عملی منصوبہ بنتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ نظریے کے اصول و قوانین پر عمل کیا جاسکے۔گویا ملٹری ڈاکٹرائن حکمت عملی تیار کرنے کے سلسلے میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔بحری نظریہ یا میری ٹائم ڈاکٹرائن عسکری نظریے سے یوں مختلف ہے کہ اس میں سمندروں سے متعلق غیر عسکری معاملات بھی زیر بحث آتے ہیں۔ بنیادی طور پر میری ٹائم ڈاکٹرائن کے دو حصے ہوتے ہیں...عسکری اور معاشی۔ معاشی نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ مملکت کے سمندروں میں کتنی معدنیات اور ایندھن موجود ہے۔ ملک کی بندرگاہوں، سمندری تجارت، جغرافیہ وغیرہ کے معاملات بھی اس حصے میں آتے ہیں جبکہ عسکری حصہ بحریہ، کوسٹ گارڈ اور سمندروں کا دفاع کرنے والے دیگر سیکورٹی اداروں سے متعلق ہوتا ہے۔
سمندروں کی آزادی محفوظ
بھارت جب جارحانہ میری ٹائم ڈاکٹرائن سامنے لایا تو یہ ضروری ہوگیا کہ پاک بحریہ بھی اپنی میری ٹائم ڈاکٹرائن پیش کردے تاکہ حال و مستقبل میں درپیش دفاعی چیلنجوں سے حُسنِ تدبر و تدبیر سے نمٹا جاسکے۔ اس ضمن میں زبردست سرگرمی دکھائی گئی اور سال گزشتہ کے آخری مہینے اسے مکمل کرلیا گیا۔11 تا 20 دسمبر2018ء لاہور میں واقع پاکستان نیول وار کالج میں پاک بحریہ کے زیر انتظام ایک سکیورٹی ورکشاپ منعقد ہوئی جس کا عنوان تھا ''نیلی معیشت: خوشحال پاکستان ''۔ اسی ورکشاپ کے آخری روز پاک بحریہ کی پہلی میری ٹائم ڈاکٹرائن بہ عنوان ''سمندروں کی آزادی محفوظ بنانا'' (Preserving Freedom of Seas") پیش کیا گیا۔ یوں پاک بحریہ نے ثابت کردیا کہ اس کے افسر و جوان بیدار و مستعد ہیں۔ وہ کبھی ملک و قوم کی سالمیت پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ پاک بحریہ کی میری ٹائم ڈاکٹرائن پاکستان کے محفوظ و خوشحال مستقبل کی ضمانت ہے۔
ہمارے ہاں عسکری حلقوں میں یہ تاثر پیدا ہوگیا تھا کہ وطن عزیز پر بری اور فضائی حملوں کا زیادہ خطرہ ہے۔ حالانکہ ماضی میں سمندری راستے سے بھی لشکر ہندوستان سے آتے رہے۔ مثال کے طور پر فاتح سندھ، محمد بن قاسم کا مرکزی لشکر سمندر کے راستے ہی آیا تھا۔ بہرحال بھارتی بحریہ بحیرہ عرب میں سرگرم ہوئی تو پاکستانی عسکری حلقوں کو احساس ہوا کہ دشمن ہمارے ساحلی علاقوں تک آپہنچا ہے۔ لہٰذا اس کا مقابلہ کرنے کے لیے اب جامع بحری نظریہ اور حکمت عملی وضع کرنا بہت ضروری ہے۔ اسی سوچ کے باعث پاک بحریہ کا پہلا میری ٹائم ڈاکٹرائن معرض وجود میں آیا۔
اس میری ٹائم ڈاکٹرائن میں بحری معیشت اور بحری جنگ، دونوں حصوں کی بابت بھر پور معلومات موجود ہیں۔ یہ واضح کرتی ہے کہ پاکستان کے سمندروں کو کئی خطرات درپیش ہیں۔ نیز وہ رہنما خطوط بھی واضح کیے گئے جن پر عمل کرکے پاک بحریہ اور بحری سکیورٹی سے منسلک دیگر ادارے خطرے دور کرسکتے ہیں۔یہ ڈاکٹرائن دس ابواب پر مشتمل ہے۔ شروع کے ابواب میں برصغیر پاک و ہند کی بحری تاریخ بیان ہوئی ہے۔ پھر قیام پاکستان کے بعد دفاع وطن میں پاک بحریہ کی خدمات کا تذکرہ پڑھ کر قاری جوش و جذبے سے بھرجاتا ہے۔ آخری ابواب میں ان اصول و قوانین کا ذکر ہے جن پر امن و جنگ کی حالت میں پاک بحریہ عمل کرے اور حکمت عملی بنائے گی۔ یقیناً یہ میری ٹائم ڈاکٹرائن پاک بحریہ کو بحرہند میں ابھرتی بحری طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
بحریہ کی جنگی تیاریاں
پاک بحریہ بحرہند میں دشمن کا مقابلہ کرنے کی خاطر بھر پور عسکری تیاریاں کررہی ہے۔ جون 2018ء میں اس نے دو فریگیٹ (جنگی جہاز) خریدنے کے لیے چین کی سرکاری شپ بلڈنگ کارپوریشن سے معاہدہ کیا۔ یہ ٹائپ 054AP فریگیٹ جدید ترین سازوسامان سے لیس ہوں گے۔ پاکستان اسی کمپنی سے ٹائپ 054A فریگیٹ بھی حاصل کررہا ہے۔ یہ جنگی جہاز میزائلوں سے لیس ہوں گے۔
حال ہی میں پاک بحریہ کے زیر اہتمام ''امن بحری مشقیں 2019ء'' منعقد ہوئیں۔ پاک بحریہ یہ مشقیں 2007ء سے منعقد کررہی ہے۔ ان میں دوست ممالک کی بحری افواج کے دستے بھی شرکت کرتے ہیں۔حالیہ مشقوں میں پہلی بار پاک بحریہ کے نئے نکور ریپلیشمنٹ ٹینکر( replenishment tanker) نے حصہ لیا۔'' پی این ایس معاون'' (اے 39) نامی یہ ٹینکر سمندروں میں جنگی جہازوں، آبدوزوں اور تجارتی جہازوں کو ایندھن فراہم کرتا ہے۔ ان مشقوں کے ذریعے پاک بحریہ کے جوانوں کو تجربہ حاصل کرنے کا نادر موقع ملا۔
بحیرہ عرب میں پاکستان کی سمندری حدود دو لاکھ نوے ہزار مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلی ہوئی ہیں۔ اب میری ٹائم ڈاکٹرائن کی تشکیل سے اس وسیع و عریض علاقے کا انتظام و انصرام کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ اس علاقے میں تیل و گیس کے ذخائر موجود ہوسکتے ہیں۔ امریکا کی مشہور تیل کمپنی، ایکسون اطالوی کمپنی، ای این آئی لمیٹڈ کے تعاون سے کراچی کے ساحل سمندر سے 280 کلو میٹر دور بحیرہ عرب میں تیل کے کنوئیں تلاش کررہی ہے۔
میری ٹائم ڈاکٹرائن کی تشکیل وقت کی اہم ضرورت تھی۔ اس کے تخلیق ہونے سے پاکستان اب اپنے سمندری علاقوں کا کنٹرول بخوبی سنبھال سکتا ہے۔ نیز یہ ڈاکٹرائن بحری دفاع مضبوط کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ انشاء اللہ اس کے ذریعے پاک بحریہ ایک مضبوط اور طاقتور بحری قوت کی صورت میں سامنے آئے گی۔
مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمان
جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی مقبوضہ کشمیر میں ممتاز سماجی تنظیم ہے۔اس کی تازہ رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ 2018 ء میں بھی خطہِ کشمیر میں بھارتی افواج نے کشمیریوں پہ ظلم وستم ڈھانا جاری رکھا۔اس نے 267 مجاہدین اور 160 شہری بیدردی سے شہید کر دئیے...جن میں تیس بچے بھی شامل تھے۔نیز آنکھوں اور جسم پہ چھرے لگنے سے ہزارہا چھوٹے بڑے کشمیری شدید زخمی ہوئے اور ان کی زندگیاں تباہ ہو گئیں۔ایسا خوفناک ظلم وستم کرہ ارض پہ کہیں اور کم ہی دکھائی دیتا ہے۔
اس رپورٹ کو مگر بھارت،یورپی ممالک اور امریکا کے کسی اخبار نے شائع نہیں کیا۔کسی ٹی وی نیٹ ورک پہ بیٹھے مبصروں نے تبصرے نہیں کیے۔بس چند نیوزویب سائٹس میں یہ رپورٹ شائع ہو گئی۔لیکن جیسے ہی پلوامہ میں عادل احمد ڈار نے بھارتی فوجیوں سے بھری بس کو نشانہ بنایا،پورے بھارتی ومغربی میڈیا میں جیسے طوفان برپا ہو گیا۔اس واقعے کو ''ظالمانہ'' اور ''اندوہناک''کہا گیا۔یہ بھارتی ومغربی میڈیا کی منافقت اور بے حسی کی انتہا ہے۔کیا بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے کشمیری کیڑے مکوڑے ہیں کہ ان کی جانیں کوئی وقعت نہیں رکھتیں؟
بھارتی سیکورٹی فورسیز کئی برس سے نہتے کشمیریوں پہ مظالم ڈھا رہی ہیں۔کشمیری نوجوان پہلے پتھروں سے ان کا مقابلہ کرتے رہے۔اب وہ بندوق سنبھال چکے۔کشمیر کی نئی نسل اب بھارتی افواج سے برسرپیکار ہے۔مگر بھارتی حکمران یہ سچائی چھپاتے اور پاکستان پہ الزام تھوپ دیتے ہیں کہ اس نے کشمیر میں مسلح جدوجہد کو جاری رکھا ہوا ہے۔بھارت نواز مغربی میڈیا بھی اپنے شہریوں کو یہ سچ دکھانے کو تیار نہیں کہ کشمیر میں شہری بھارتی ریاست سے نبردآزما ہیں۔وہ طویل غلامی سے تنگ آ چکے اور اب آزادی چاہتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم مودی کچھ عرصے سے دبائو کا شکار تھے۔پہلے انھیں اہم ریاستوں کے الیکشن میں شکست ہوئی۔پھر یہ رپورٹ سامنے آئی کہ ان کے دور حکومت میں بھارتی شہریوں کو کم ملازمتیں ملی ہیں۔گویا لاکھوں بھارتیوں نے انھیں ووٹ دے کر جو خواب دیکھا تھا کہ اب دودھ وشہد کی نہریں بہیں گی،وہ پورا نہیں ہو سکا۔اس صورت حال میں مودی کو آمدہ الیکشن میں اپنی ہار دکھائی دینے لگی۔مگر پلوامہ کے واقعہ نے ان میں نئی روح پھونک دی۔
وجہ یہ کہ بی جے پی اور مودی جی،دونوں نفرت کی سیاست کرکے پھلتے پھولتے ہیں۔بی جے پی بابری مسجد پر سیاست کرنے سے مقبول ہوئی۔ مودی نے2002ء میں لاشوں پہ سیاست کر کے شہرت پائی۔یہی وجہ ہے،اب وہ پلوامہ کی لاشوں پہ سیاست کر کے الیکشن پہ اثرانداز ہونے کی سعی کریں گے۔پلوامہ حملے کے بعد بھارت کے کئی شہروں میں کشمیروں پر حملے ہوئے اور انہیں ہراساں کیا گیا۔