صدارتی الیکشن میں جلدبازی کی گئی بائیکاٹ کے مستقبل کی سیاست پرمنفی اثرات مرتب ہوں گے

ایکسپریس فورم میں سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں کا اظہارِ خیال

فوٹو : فائل

GILGIT:
ملک میں ایک طویل عرصہ کے بعد جمہوری حکومت کے منتخب صدر اپنی آئینی مدت پوری کرکے اقتدار سے رخصت ہورہے ہیں اور ان کی جگہ ایک دوسرے منتخب صدر اس عہدہ جلیلہ پر فائز ہونے جارہے ہیں ۔

یہ جمہوری عمل آئینی تقاضوں کے مطابق پرامن انداز سے مکمل کرنے کے انتظامات کیے جارہے تھے جس کے لیے الیکشن کمشن آف پاکستان نے تما م تیاریاں مکمل کرلی تھیں، لیکن الیکشن کے انعقاد سے پہلے ہی اس کے انعقاد کی تاریخ کے تعین کے ضمن میں خرابی پیدا ہوگئی ۔ الیکشن کمشن نے عدالت کے حکم پر الیکشن کی تاریخ میں تبدیلی کرکے اسے ایک ہفتہ پہلے انعقاد پذیر کرنے کا فیصلہ کرد یا جس سے اختلاف رائے پیدا ہوگیا، الیکشن کا انعقاد متنازعہ بن گیا اور ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی نے اس بنا پر الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔

پیپلزپارٹی کے اس فیصلے کے بعد صورت حال میں خاصی تبدیلی پیدا ہوگئی اور نئی بحث نے جنم لے لیا ۔ الیکشن کے بائیکاٹ سے پیدا ہونے والی صورت حال کے مستقبل کی سیاست پر اثرات کے حوالے سے روزنامہ ''ایکسپریس '' اور ''ایکسپریس نیوز ''نے ایک فورم کا اہتمام کیا جس میں متعلقہ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ دیگر جماعتوں کے نمائندوں اور ماہرین نے بھی اظہار خیال کیا اور الیکشن کے انعقاد اور بائیکاٹ کے حوالے سے اس کا تفصیلی جائزہ لیا ۔

''الیکشن کے بائیکاٹ کے مستقبل کی سیاست پر اثرات '' کے موضوع پر اظہارخیال کرنے والوں میں چیئرمین آل پاکستان مینارٹی الائنس اور سابق انچارج وفاقی وزیر برائے بین المذاہب ہم آہنگی ڈاکٹر پال بھٹی، صوبائی وزیر صحت، اقلیتی امور خلیل طاہر سندھو، قائد حزب اختلاف میاں محمودالرشید، پارلیمانی لیڈر جماعت اسلامی پنجاب اسمبلی ڈاکٹر وسیم اختر ، مرکزی میڈیا کوآرڈی نیٹر پاکستان مسلم لیگ ن محمد مہدی اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے استاد اور تجزیہ نگار پروفیسر منور صابر شامل تھے۔ ایکسپریس فورم میں ہونے والی سیاسی شخصیات اور ماہرین کی گفتگو کی تفصیلات نذر قارئین ہیں۔

ڈاکٹر پال بھٹی
( چیئرمین آل پاکستان مینارٹی الائنس اور سابق انچارج وفاقی وزیر برائے بین المذاہب ہم آہنگی)

پیپلزپارٹی کے صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ کے بڑے منفی اثرات ملکی سیاست اور معاشرے پر پڑیں گے۔ اس وقت ہمارا ملک غربت، انتہا پسندی، دہشت گردی کے حالات سے گزر رہا ہے۔ سابق حکومت کی کچھ مجبوریاں تھیں کہ فیصلے کرنے میں انہیں دشواریاں پیش آتی تھیں کیونکہ اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا تھا لیکن مسلم لیگ (ن)کو اکثریت ملی تو ہم سمجھتے تھے کہ انہیں فیصلے کرنے میں آسانی ہوگی ، ہماری ان کی حکومت سے مخالفت کے باوجود بہت سی امیدیں وابستہ تھیں ۔

وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی کہا تھا کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے اس سے امید پیدا ہوئی تھی لیکن صدارتی انتخاب کی ڈیڈ لائن سے پیپلزپارٹی کا یہ موقف تھا کہ 6اگست کی تاریخ ہی رہنے دیں۔ اب پٹیشن دائر ہونے سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر بہت سے سوالات پیدا ہوگئے ہیں۔ الیکشن کمشن اور سپریم کورٹ پر مختلف سیاست دانوں کی طرف سے شک وشبے کا اظہارکیا گیا ہے ۔ عمران خان نے واضح کہا تھا کہ ملک کی سب سے بڑی دھاندلی اس عدلیہ اور الیکشن کمشن نے کروائی ہے۔



رضا ربانی ایسی شخصیت ہیں کہ اگر پیپلز پارٹی نے بھی اپنے دور میں ملک اور جمہوریت کے خلاف کوئی قدم اٹھایا تو انہوں نے اس کی بھی مخالفت کی تھی ایسی شخصیت کو متنازعہ بناکر ن لیگ نے اپنے رول کو مذید شک میں ڈال دیا۔ ایم کیو ایم کے رابطوں نے بھی شکوک وشبہات پیدا کئے۔ ایم کیو ایم کے بارے میں واضح فیصلہ ہوا تھا کہ مستقبل میں اس پارٹی کو ساتھ نہ ملایا جائے لیکن پیپلزپارٹی نے کہا تھا کہ کسی پارٹی پر بھی دروازے بند نہیں ہونے چاہئیں۔ ایم کیو ایم کا کراچی میں بڑا کردار ہے لیکن اگر ن لیگ کا اس کے پاس جانے والا یہی قدم کسی اور وقت اٹھایا جاتا تو شائد ہمیں اعتراض نہ ہوتا۔ ایم کیو ایم کو قومی دھارے میں شمولیت سے ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے اسے رشوت دی گئی ہو۔

میں ذاتی طور پر اس فیصلے کے خلاف ہوں۔ ایم کیو ایم کو ضرورت نہیں تھی تو پھر چل کر ان کے پاس جانے کو ہم سیاسی رشوت ہی کہیں گے۔ ہمیں عالمی سطح پر اپنی کریڈیبلٹی اور شناخت قائم کرنی ہے۔ پیپلزپارٹی کی مجبوری تھی اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا لیکن ن لیگ کی یہ مجبوری نہیں تھی۔ ڈاکٹر پال بھٹی نے کہاکہ صدر اور وزیراعظم کے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے اقلیتی افراد کو بھی اہل قرار دیا جانا چاہیے خواہ اس کے لئے آئین میں ترمیم کرنا پڑے ۔

کیو نکہ بطور پاکستانی ہر کسی کو اس عہدے کیلئے انتخاب لڑنے کی آزادی ہونی چاہیے لیکن اقلیتیوں کیلئے آٓئین میں یہ قدغن لگادی گئی ہے کہ صدر اور وزیراعظم کا انتخاب لڑنے والا لازمی طور پر مسلمان ہو حالانکہ میں سمھجتاہوں کہ مسلمانوں کی طرح اقلیتوں نے بھی تحریک پاکستان ، قیام پاکستان اور پھر تعمیر پاکستان میں حصہ لیا اس لیے ان کو بھی اس عہدے کیلئے اہل قراردیا جانا چاہیے جیسا کہ دیگر جمہوری ممالک میں ہوتا ہے۔

خلیل طاہر سندھو
(صوبائی وزیر صحت، اقلیتی امور )

پیپلزپارٹی کی سیاست پر میں حیران ہوں کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے فرمایا تھا کہ 85ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کرکے ہم بڑے پچھتائے ہیں اور اب ایک بار پھر صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کردیا گیا ہے اور یہ الزام کہ کیمپیئن کا موقع نہیں دیا گیا توکیا ممنون حسین کو کیمپیئن کا موقع مل گیا ہے۔گزشتہ دور حکومت میں 187بار ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا اور اتنی ہی دفعہ پیپلزپارٹی نے حکومتی اتحادی ہونے کی وجہ سے انہیں منایا تو کیا اس وقت ان کی ساکھ متاثر نہیں ہوئی تھی جو اب مسلم لیگ(ن) کے ایم کیو ایم سے رابطوں پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔

یہ بائیکاٹ کرنے سے دوروز پہلے تو لندن میں الطاف حسین سے ووٹ مانگ رہے تھے کہ اگر ہم نے بائیکاٹ نہ کیا تو ووٹ ہمیں دینا۔ ممنون حسین کا تعلق اہم صوبے سندھ سے ہے اور ان کا بھی حق بنتا ہے کہ وہ ایم کیو ایم سمیت سب کے پاس جاکر اپنے حق میں ووٹ مانگیں۔ انہوں نے کہاکہ جیسے کہ کہا گیا ہے کہ صدارتی الیکشن میں عجلت کا مظاہرہ کیا گیا ہے میں کہتا ہوں اس میں کسی عجلت کا مظاہرہ نہیں ہوا۔ میں نے قانون کی تعلیم حاصل کررکھی ہے مجھے معلوم ہے آئینی طور پر کوئی بھی شہری جاکر عدالت میں کسی بھی کیس میں پارٹی بن سکتا ہے لیکن اعتزاز احسن اور پیپلزپارٹی کے دیگر سینئر وکلاء سمیت ان میں سے کوئی بھی پارٹی کیوں نہیں بنا۔



اپنے دور حکومت میں پیپلزپارٹی نے رضا ربانی کو سینٹ کا چیئرمین بھی بننے نہیں دیا تھا اور اب شکست دیکھتے ہوئے انہیں صدارتی امیدوار بنادیا گیا ہے۔ یہ اب بھی سپریم کورٹ سے ریویوکرسکتے تھے۔ اگر ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کو ووٹ دے دیتی تو بہت اچھا تھا اور اب ن لیگ کو دے گی تو بہت غلط ہوگا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنا صدارتی امیدوارکھڑا کرکے جمہوریت کیلئے اچھا کردار ادا کیا ہے۔ میں خود حیران ہوں پیپلزپارٹی کی تو بائیکاٹ کی فلاسفی ہی نہیں ہے۔

صدارتی الیکشن کے بائیکاٹ کا انہیں آگے چل کر نقصان ہوگا۔ یہ کوئی گلی محلے کا الیکشن نہیں کہ صدارتی امیدوار ہر جگہ جاکر ووٹ مانگے ۔ میثاق جمہوریت کا ہم نے مکمل پاس رکھا اور اس کی روشنی میں گزشتہ پانچ سالوں میں ہم نے جمہوری پراسیس کو چلنے دیا اوراسے ختم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جس پر ہمارے اوپر فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا الزام بھی لگا۔

میاں محمودالرشید
(قائد حزب اختلاف )

صدارتی انتخابات متنازعہ ہوگئے ہیں جو نہیں ہونے چاہئیں تھے۔ عجلت کا مظاہرہ کیا گیا اور رٹ کرکے 6اگست کی تاریخ کو 30جولائی تک لایا گیا۔ اس سے ملک میں جو تاثر پھیلا کہ عدلیہ، مسلم لیگ(ن) کی حکومت اور الیکشن کمشن یہ سب ایک دوسرے کو فسیلیٹیٹ کرتے ہیں اور سب آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ ہماری عام انتخابات کے بارے میں بھی رائے تھی کہ دھاندلی کی گئی ہے خصوصاً ریٹرننگ افسر اپنے فرائض ادا کرے میں ناکام رہے اس لئے ہم ان انتخابات کو منصفانہ اور دیانتدارانہ نہیں مانتے ۔
اس پر ہماری پارٹی کی طرف سے احتجاج بھی کیا گیا ۔ سپریم کورٹ نے بھی عجلت میں یہ فیصلہ کردیا جس سے جواز پیدا ہوگیا اور بعض سیاسی جماعتوں نے صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کردیا اور اس عمل سے الگ ہوگئے۔ تحریک انصاف کو انتخابی نتائج اور حالیہ صدارتی انتخابات کے بارے میں تحفظات ہیں لیکن پارٹی نے فیصلہ کیا کہ الیکشن کھلا نہیں چھوڑیں گے ۔ تحریک انصاف کے امیدوار جسٹس(ر) وجیہہ الدین کے لئے دیگر سیاسی جماعتوں اور آزاد گروپوں سے بھی ووٹ مانگ رہے ہیں۔



ہم چاہتے تھے ملک میں استحکام اور ٹھہراؤ آجائے، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ق) ، اے این پی کے بائیکاٹ کی وجہ سے محاذ آرائی کی کیفیت دوبارہ دکھائی دیتی ہے۔ عدلیہ کے فیصلے پر کھل کر سیاسی جماعتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ عدلیہ نے انصاف ہوتا ہوا دکھائی دینے والی بات کو نظر انداز کردیا ، جس طرح راتوں رات سب کچھ ہوا اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آئے۔ صدارتی امیدوار کو اتنا وقت نہیں دیا گیا کہ وہ لاہور ، پشاور، کوئٹہ جاکر ووٹ مانگ سکے۔ 30جولائی صدارتی انتخاب کیلئے ناکافی وقت ہے، ایسا فیصلہ آنا چاہیے تھا جو سب پارٹیوں کیلئے قابل قبول ہوتا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا اور کئی بڑی جماعتوں کو حالیہ صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ کرنا پڑا ۔


ڈاکٹر وسیم اختر
( پارلیمانی لیڈر جماعت اسلامی پنجاب اسمبلی)

پاکستان میں ایک طویل عرصہ کے بعد جمہوری انداز میں ایک صدر کے جانے کے بعد یہ منصب دوسرے صدر کو منتقل ہونے کی یہ خوشگوار صورت پیدا ہوئی تھی اور جمہوری حوالے سے یہ ایک رجحان تھا لیکن افسوس آخر میں صدارتی الیکشن کے حوالے سے تھوڑا سا معاملہ خراب ہوگیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مناسب بات یہ تھی کہ جس طرح الیکشن کمشن نے تاریخ مقررکی تھی اس پر اتفاق رائے پیدا کرلیا جاتا یا الیکشن کمشن کے ساتھ بات چیت کی جاتی اور اس کے بعد کوئی تاریخ طے کی جاتی اور اس مقصد کے لیے بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی مشاورت کی جاتی اور اس کی روشنی میں اتفاق رائے کے ساتھ الیکشن کی ایک تاریخ مقرر کر لی جاتی جو اچھا شگون ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوسکا جو افسوس ناک ہے ۔

اصل میں المیہ یہ ہے کہ ہماری اونچی سطح کی قیادتیں شروع میں چیزوں کو بڑا لائٹ لیتی ہیں جس سے بعد میں خرابیاں جنم لیتی ہیں ۔ بہتر ہوتا اگر پہلے ہی الیکشن کمشن سے نیگوشی ایٹ کرلیتے اورا س کے بعد کوئی تاریخ طے کرتے ۔ اس ملک میں اداروں کے کردار اور ان کے احتساب کے حوالے سے سپریم کورٹ کا کردار بڑا اہم رہا ہے موجودہ چیف جسٹس اور موجودہ عدلیہ بلاشبہ اس اعتبار سے لائق تحسین ہیں لیکن مسائل کے حل کے سلسلے میں پارلیمنٹ ہی بہترین فورم ہوتا ہے۔



کیونکہ عوامی نمائندوں کو منتخب ہی اس لیے کیا جاتا ہے کہ ان کے حقوق کا تحفظ ہوسکے لیکن ماضی میں پارلیمنٹ نے اپنا یہ کردار پوری طرح ادا نہیں کیا ۔ جس کی وجہ سے چیف جسٹس کو بھی بعض ایشوز پر ازخودنوٹس لینا پڑا۔ البتہ حالیہ صدارتی الیکشن کے ضمن میں جو فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا وہ اچھا شگو ن نہیں ہے۔ اس کے لیے متعلقہ امیدواروں سے بھی بات کی جانی چاہیے تھی جو کہ نہیں کی گئی ۔ اس طرح پیپلزپارٹی کا یہ جواز کہ اسے وقت نہیں ملا اور نہ ہی انہیں سنا گیا وہ درست ہے کیونکہ میرے جیسے رکن اسمبلی کی بھی یہ خواہش تھی کہ صدارتی امیدوار ان سے براہ راست رابطہ کرکے ووٹ کی درخواست کرتا لیکن ہمیں اس سے محروم ہونا پڑا۔ اب ظاہر ہے کہ صدر کا الیکشن کوئی کونسلر کا الیکشن تو نہیں ۔ ہمیں تواس بندے کو ووٹ دینا ہے۔

جس نے وفاق کی نمائندگی کرنی ہے اور اس طرح پیپلزپارٹی کو بائیکاٹ کا موقع مل گیا ۔ اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ پیپلزپارٹی نے بائیکاٹ کرکے ٹھیک نہیں کیا اس طرح انہوں نے مسلم لیگ ن کی کامیابی کو یقینی بنا دیا۔ اگر اپوزیشن مل بیٹھ کر کو ئی مشترکہ امیدوار لاتی تو ا س سے بہتر صورت حال پیدا ہوتی ۔

میثاق جمہوریت میں شامل سب جماعتوں نے یہ بات تسلیم کی تھی کہ جو بھی جماعت اقتدار میں آئے گی وہ ایم کیو ایم کو آن بورڈ نہیں لے گی لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت نے اقتدار میں آکر میثاق جمہوریت کو نظر انداز کرتے ہوئے ایم کیوایم سے دوستی کرلی۔ لیکن اس دوستی کے باوجود کراچی کے حالات بہترنہیں ہوسکے ۔ وہاں بھتہ مافیا آج بھی اسی طرح سرگرم عمل ہے حتیٰ کہ حکومت کی تبدیلی کے باوجود حالات میں بہتری نہیں آئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایم کیوایم وہ مچھلی ہے جو اقتدارکے پانی سے باہر زندہ نہیں رہ سکتی ۔کراچی میں کبھی آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہیں ہوئے ، اگر وہاں پر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوں تو نتائج یقینی طورپر حوصلہ افزا ہوسکتے ہیں ۔

محمد مہدی
(مرکزی میڈیا کوآرڈی نیٹر پاکستان مسلم لیگ ن)

پہلے میں یہ بات واضح کردوں کہ میثاق جمہوریت میں کہیں بھی یہ طے نہیں ہوا تھاکہ ایم کیوایم کے ساتھ رابطہ نہیں کرنا ۔ میں اس اے پی سی میں موجود تھا جس میں یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ ایم کیوایم سے رابطہ نہ رکھا جائے اور پیپلزپارٹی کے علاوہ وہاں شریک تمام جماعتوں نے اس سے اتفاق کیا تھا لیکن پیپلزپارٹی کے مخدوم فہیم نے اس سے اختلاف کیا تھا۔ جہاں تک مسلم لیگ ن کی طرف سے ایم کیوایم سے ملنے کا تعلق ہے تو یہ تو یہاں بھی کہا گیا کہ ووٹ لینے کے لیے خود چل کر جانا ہوتا ہے۔ ہم ایم کیوایم کے پاس ووٹ کے لیے اسی طرح گئے جس طرح جماعت اسلامی کے پاس گئے تھے ۔

یہ ایم کیوایم کی مہربانی ہے کہ اس نے ہمیں ووٹ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ محمود الرشید صاحب کا یہ کہنا کہ پاکستان مسلم لیگ ن نے صدارتی الیکشن کی تاریخ کے تعین کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا درست نہیں ہے۔ دراصل راجہ ظفرالحق نے جو رٹ پیٹیشن دائر کی تھی وہ مسلم لیگ ن کی طرف سے نہیں بطور سینیٹر ذاتی طورپر دائر کی تھی کہ 27رمضان کے دن یہ مناسب نہیں ہوگا ۔اس روز بہت سے لوگ عمرے کی سعادت کیلئے سعودی عرب ہوتے ہیں جو ووٹ ڈالنے سے محروم رہ سکتے ہیں ۔ میاں محمودالرشید کا یہ کہنا کہ عدلیہ نے فیصلہ عجلت میں دیا جبکہ آئین میں ہے کہ عدالت کو مکمل اختیار ہے ۔



اگر عدلیہ کا فیصلہ کسی کو پسند نہ ہوتو وہ نظرثانی کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتا ہے لیکن ایسا نہیں کیا گیا ۔ اسی سپریم کورٹ نے شجاعت عظیم اور نجم سیٹھی کے کیس میں ہمارے خلاف فیصلہ دیا لیکن ہم نے توکوئی اعتراض نہیں کیا۔ انہوں نے کہاکہ میثاق جمہوریت میں دراصل یہ بیان کیا گیا تھا کہ جو بھی حکومت آئندہ اقتدار میں آئے گی اسے اس کی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے گی اور اس کے راستے میں روڑے اٹکانے کے بجائے اسے کام کرنے دیا جائے گا۔

اسے ڈی ریل نہیں کیا جائے گا جس پر ہماری جماعت پورا اتری اور اس نے پیپلزپارٹی کے اقتدارکے دوران اسے پورا موقع دیا اس کے لیے فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے بھی سننا پڑے لیکن پیپلزپارٹی کی طرف سے ایسا کوئی مثبت رویہ نہیں دکھایا جارہا حالانکہ اسے بھی مسلم لیگ(ن) کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے اور اس کی حکومت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے دیگر سیاسی جماعتوں کوبھی ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہیے تاکہ بارہ اکتوبر والا واقعہ دوبارہ کبھی ملک میں رونما نہ ہوسکے ۔

پروفیسر ڈاکٹر منورصابر
(تجزیہ کار)

پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات کے استاد اور تجزیہ نگار پروفیسر ڈاکٹر منور صابر نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو دھچکا ضرور لگا ہے۔ لندن میں ہونے والی آل پارٹیزکانفرنس میں مسلم لیگ(ن)کی نمائندگی کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے کہا تھا کہ کوئی بھی پارٹی ایم کیو ایم سے اتحاد نہیں کرے گی کیونکہ یہ ملیٹینٹ پارٹی ہے۔ پیپلزپارٹی جو ہمیشہ جمہوری پراسیس کی چیمپیئن رہی اس نے پہلی بار الیکشن کا بائیکاٹ کیا حالانکہ گزشتہ الیکشن میں پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ(ن)کو انتخابی بائیکاٹ کرنے سے روکا تھا۔

اگر پیپلزپارٹی ان انتخابات کا بائیکاٹ نہ کرتی تو اس کی قدر میں مذید اضافہ ہوتا۔ پاکستانی سیاست اب نظریات سے زیادہ حالات پر منحصر ہے، اب لوگ حالات کو دیکھ کر ووٹ ڈالتے ہیں۔ اب اکانومی کا نظریہ ہی سب سے بڑا نظریہ ہے ۔ متحدہ قومی موومنٹ سے ن لیگ نے جو ڈیل کی اس میں ہمیں کچھ اشارے ملتے ہیں کہ پاکستان دنیا کے چند ان ملکوں میں سے ہے جس میں انٹرنیشنل لابیاں کام کررہی ہیں اور ہوسکتا ہے کہ انہی لابیوں کے کہنے پر مسلم لیگ(ن )کو ایم کیو ایم کے خلاف ہونے کے باوجود اس کے پاس جانا پڑا ہو اور اس کے بارے میں سوفٹ کارنر قائم کرنا پڑا ہو ۔ انہوں نے کہاکہ اس میں کچھ شک نہیں کہ کراچی کے امن وامان کی چابی ایم کیو ایم کے پاس ہے اور کراچی میں ہی زیادہ بجلی چوری ہوتی ہے ، اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کل ہی ن لیگ کو چھوڑ دے البتہ ن لیگ کو فرق ضرور پڑے گا۔



ہوسکتا ہے ایم کیو ایم سے کہا گیا ہوکہ کراچی میں جو بجلی چوروں کے خلاف آپریشن شروع کرنے جارہے ہیں اس میں آپ شامل نہیں ہوںگے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سندھ کی گورنر شپ ایم کیو ایم کے پاس ہی رہنے دی جائے۔ پیپلزپارٹی کے صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کرنے کے اثرات کے بارے میں انھوں نے کہاکہ اس بائیکاٹ کے اثرات آئندہ گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات اور صوبوں میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر پڑیں گے۔

نوجوانوں کا ووٹ میچور نہیں بلکہ جذباتی ووٹ ہوتا ہے۔ ایم کیو ایم ن لیگ کی نمبر گیم میں قطعاً کوئی مجبوری نہیں تھی جبکہ اس اقدام سے فنکشنل لیگ ن لیگ سے ناراض ہوگئی، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنے لوگوں کی ناراضگی مول لے کر ن لیگ ایم کیو ایم کے پاس کیوں گئی۔ اب اگر ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے سے کراچی میں امن قائم ہوگیا اور بجلی چوری رک گئی تو بہتر ورنہ مسلم لیگ(ن) کی یہی ایک غلطی ایک ضرب دس ہوجائے گی۔ انہوں نے کہاکہ دوسرے بڑے صوبے سندھ سے صدر بنانا بہترین فیصلہ ہے۔

ملک کے بارہویں صدر ممنون حسین
مسلم لیگ نواز کے صدارتی امیدوار ممنون حسین بھاری اکثریت سے ملک کے بارہویں صدر مملکت منتخب ہوگئے ہیں ۔ انہیں 706 کے الیکٹورل کالج میں سے 432 جبکہ ان کے مدمقابل تحریک انصاف کے امیدوار جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کو 77 ووٹ ملے ۔ پیپلزپارٹی ، اے این پی اور مسلم لیگ (قائد اعظم) نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور انتخابی عمل میں حصہ نہیں لیا ۔ پیپلزپارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کے امیدوار رضا ربانی تھے ۔

1956ء میں نئے آئین کے نافذالعمل ہونے کے بعد سے لے کر اب تک صدر بننے والی بارہ شخصیات میں سے سات سویلین اور پانچ فوجی جرنیل شامل ہیں۔ میجر جنرل سکندر مرزا، فیلڈ مارشل جنرل محمد ایوب خان، جنرل محمد یحیٰ خان، جنرل ضیاء الحق ، جنرل پرویز مشرف کا تعلق فوج سے تھا جب کہ سویلین صدور میں ذوالفقارعلی بھٹو، چوہدری فضل الٰہی ، غلا م اسحاق خان، سردار فاروق خان لغاری ، محمد رفیق تارڑ اور آصف علی زرداری کے بعد اب ممنون حسین صدر منتخب ہوئے ہیں ۔

ممنون حسین 2مارچ 1940 کو بھارت کے شہر آگرہ میں پیدا ہوئے۔1954ء میں وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے اورکراچی کواپنا مسکن بنایا۔ 1960 ء میں انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے گریجوایشن کی ۔ وہ ایوان صنعت وتجار ت کراچی کے صدر اور 1999میں گورنر سندھ کے عہدہ پر بھی فائز رہ چکے ہیں ۔ موجودہ صدر آصف علی زرداری کے صدارت کے عہدے سے سبکدوش ہونے کے بعد 8 ستمبر2013ء کو بطور صدرمملکت اپنے نئے عہدے کا چارج سنبھالیں گے۔
Load Next Story