صدارتی الیکشن اور عمرے کا جواز

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بارہویں صدر کا بے کیف، بے جان اور بے وزن الیکشن بہ پایاں رسید۔ میاں صاحب جو ...

Abdulqhasan@hotmail.com

KARACHI:
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بارہویں صدر کا بے کیف، بے جان اور بے وزن الیکشن بہ پایاں رسید۔ میاں صاحب جو وزیراعظم ہیں اور ماضی میں یہ عہدہ ہمیشہ خطرے میں رہا ہے لگتا ہے اب یہ اس خطرے سے محفوظ ہو گیا ہے۔ خود میاں صاحب وزارت عظمیٰ کی زبردست سزا بھگت چکے ہیں لیکن وہ چونکہ پھر بھی باز نہیں آئے اس لیے قدرت نے ان کی کسی دعا کے جواب میں ان کو بظاہر بے خطرہ صدر دے دیا ہے اگرچہ ہم نے رسی کو سانپ اور سانپ کو رسی بنتے دیکھا ہے لیکن جس ملک میں جیل سا محفوظ ترین مقام چشم زدن میں اجڑ جائے یرغمال بنا لیا جائے اور اس کے مکین آناً فاناً غائب ہو جائیں ایسے کمزور انتظام والے ملک میں کیا نہیں ہو سکتا۔

میں نے ٹیلی وژن پر جیل ٹوٹنے کی خبر پہلے تو حیرت کے ساتھ اسے غلط سمجھتے ہوئے دیکھی سنی لیکن جب ثابت ہو گیا کہ یہ سانحہ واقعی رونما ہو چکا ہے تو میں اپنے بظاہر محفوظ گھر میں بیٹھے بیٹھے سہم گیا۔ مجھے گھر کے درودیوار ٹوٹتے ہوئے دکھائی دینے لگے اور میں نے اپنے رب کے حضور یہ عرضداشت پیش کی کہ یا اللہ ہم ان نالائق بے حس اور بد سلیقہ حکمرانوں سے کب نجات پائیں گے۔ کل تک صوبہ خیبر پختون خوا کے وزیراعلیٰ بڑے بھاری بھر کم دعوے کر رہے تھے کئی پالیسی بیان جاری کر رہے تھے اور اپنی تعریف کر کے گویا دوسرے صوبوں کی حکومتوں کا مذاق اڑا رہے تھے اور ان کی کمزور حکومتوں کے اشارتاً حوالے بھی دے رہے تھے لیکن خود ان کی انتظامیہ کے تحت اور دن دہاڑے اس کی نظروں کے سامنے یہ حیران کن واقعہ ہو گیا۔ پوری جیل قیدیوں سے خالی ہو گئی۔ سنا ہے جیل کا عملہ بھی اس واردات میں شامل ہو گیا یعنی کتی بھی چوروں سے مل گئی۔ کچھ مطلوب قیدی جو صرف 243 کی تعداد میں بیان کیے جاتے ہیں چھڑا لیے گئے اور باقی لاوارث قیدی خود ہی بھاگ گئے۔

حملہ آوروں کو یہ حوصلہ اس لیے ہوا کہ انھیں حکومت کی بد انتظامی اور جیل حکام کی بے حسی اور نالائقی کا علم تھا چنانچہ جیل کے افسروں کو صرف معطل کیا گیا ہے۔ چین میں جب انقلاب آیا تو شروع میں ایسے جرائم کی فوری سزا موت ہوتی تھی۔ جس ملک میں سزائے موت زیر بحث رہے اور اس کے نفاذ یا عدم نفاذ پر اختلاف رائے ہو اس ملک میں سزا کے خوف سے کون قانون شکن ڈر سکتا ہے۔ یہاں تو آئین کی کھلی خلاف ورزی کرنے والے بھی آرام بلکہ عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کو سزا دینے والی حکومت پر لرزہ طاری ہے اور وہ ان کی حفاظت کر رہی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان کی اس جیل کے ٹوٹے ہوئے دروازے پر کسی مجرم کو زندہ لٹکا دیا جائے اور دنیا دیکھے کہ گناہ اور جرم تو ہوتا ہی ہے مگر اس کی ایک سزا بھی ہوتی ہے۔


مجھے غلط فہمی تھی کہ اس صوبے کا زبردست با اصول لیڈر وزیراعلیٰ اس ٹوٹی ہوئی جیل کی کسی دیوار کے ساتھ چمٹ کر واویلا کر رہا ہوگا کہ اس کے ساتھ یہ سب کیا ہو گیا لیکن میری غلط فہمی بدستور غلط فہمی ہی رہی یوں نہ جانے کتنی غلط فہمیوں میں ایک اور اضافہ سہی۔ ہمارے صدارتی الیکشن کے نتیجے میں صدر ایک خاموش دھیمی اور پر امن خاندانی روائت کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اب آئینی طور پر صدر ایک نمائشی اور بے جان منصب بن چکا ہے اس سے کوئی خطرہ نہیں لیکن قومی خزانے کو اس عہدے کی پرورش اور اس کے طمطراق کو قائم رکھنے کے لیے قومی خزانے سے جو کروڑوں روپے خرچ ہوں گے ان کا حساب کون دے گا، اگر یہ عہدہ واقعی محض نمائشی ہے تو اس کی سرے سے ضرورت ہی کیا ہے، یہ دنیا بھر کی مقروض قوم آخر کس خوشی اور ثواب کے لیے یہ بوجھ اٹھائے، محض اس لیے کہ مغرب کے پارلیمانی نظام حکومت میں ایک صدر بھی ہوتا ہے اور ہم بھی اس پارلیمانی نظام کے مارے ہوئے ہیں اس لیے ہمیں بھی ایک بھاری بھر کم عہدہ دار رکھنا ہے۔

پارلیمانی نظام کے موجد ملک میں تو ایک بادشاہ بھی ہوتا ہے لیکن قومی مرکزیت اور یگانگت رکھنے کے لیے اسے بادشاہ قبول ہے وہ بھی نمائشی ہے لیکن کیسا نمائشی کہ اس خاندان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو اس ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور قوم ناچتی گاتی ہوئی باہر نکل آئی۔ وہ جو کہتے ہیں کہ نقل را عقل باشد تو یہ غلط نہیں ہے لیکن ہمیں ایسی عقل درکار نہیں۔ اس ملک میں کبھی ایک ریل گاڑی پر ڈاکہ پڑا تو پوری قوم ہل گئی اس واقعہ پر فلمیں بنیں اور اسے قومی سانحہ قرار دے کر اس کا سدباب کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ہمارے ہاں ایک جیل جیسا محفوظ مقام چند ڈاکو قسم کے لوگوں نے یرغمال بنا لیا مگر جواب میں ہم پر سکتہ سا طاری ہو گیا ہے۔

اس صوبے کے وزیراعلیٰ تو نہ جانے کہاں اور کس حال میں ہیں لیکن اس ملک کے وزیراعظم عمرہ کی نفلی عبادت کے لیے ایک لشکر لے کر سعودی عرب جا رہے ہیں مجھے ڈر ہے کہ ہمارے اس اسلامی ملک کے احترام میں وہاں مدفون کوئی درویش حکمران ہمارے اس شہزادے کو پکڑ نہ لے کہ تم پر یہ نفلی عبادت کب سے جائزہوئی کیونکہ جس کے ملک میں بدامنی اور قرض کے سوا اور کچھ نہیں وہ اپنے ساتھیوں اور اہل خانہ سمیت اتنا مہنگا سفر کیسے کر سکتا ہے اور کون مفتی اس کے جواز کا فتویٰ دے سکتا ہے۔ مجبور ہوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہریوں کو ان کے ایک لیڈر کی ایک ہلکی سی جھلک ہی دکھائوں۔

قحط پڑ گیا اور اس لیڈر نے کھانا اتنا کم کر دیا کہ اس کی سرخ و سفید رنگت ہی بدل گئی ساتھیوں نے ملک کی ذمے داریوں کو بہتر طور پر چلانے کے لیے کچھ کھانے پینے کو کہا تو جواب ملا کہ مسلمان بھوک سے مر رہے ہیں تو میں کس منہ سے کھائوں پیوں، دیکھا کہ بیٹا خربوزے کی ایک پھانک کھا رہا ہے تو اس سے چھین لی کہ لوگ کیا کہیں گے عمر کا بیٹا اس قحط میں خربوزے کھا رہا ہے۔ حکم دیا کہ خوراک کی چوری پر چور کو سزا نہ دی جائے۔ اس قحط سے وہ بڑی مشکل سے جانبر ہوئے۔ بارش کی دعا کے لیے لوگ جمع ہوئے تو پوچھا کہ کسی کے پاس حضور پاک کا کوئی تبرک موجود ہے، ایک صحابی چادر لے آئے اسے بازوئوں میں اٹھا کر اس کے صدقے بارش کی دعا مانگی جو قبول ہو گئی۔ لازم ہے کہ ہم اگر مسلمان کہلاتے ہیں اور اپنے ملک کو اسلامی جمہوریہ بھی کہتے ہیں تو ایک مسلمان حکمران کے انداز بھی اختیار کریں۔ خود معلوم نہیں تو کسی سے پوچھ لیں مگر ملک کو بدامنی افلاس اور شرمناک حد تک بد انتظامی سے نجات دلائیں تاکہ ان پر عمرہ جائز ہو سکے۔
Load Next Story