نواز شریف کی عمرے پر روانگی اور سعودی حکمران
پاکستانی عوام اور پالیسی سازوں کی نظریں دو ملاقاتوں اور ان کے نتائج پر لگی ہوئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وزیراعظم...
KOTLI:
پاکستانی عوام اور پالیسی سازوں کی نظریں دو ملاقاتوں اور ان کے نتائج پر لگی ہوئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ وزیراعظم محمد نواز شریف کی عمرہ کے بعد سعودی حکمرانوں سے ملاقات ہو گی تو خادم الحرمین الشریفین وزیراعظم اور پاکستان پر کیا کیا مہربانیاں فرمائیں گے۔ دوسری یہ کہ ستمبر 2013ء میں جب وزیراعظم نواز شریف اقوام متحدہ کے ایک خصوصی اجلاس میں شرکت کے دوران بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ سے ''سائیڈ لائن'' پر ملاقات کریں گے تو پاک بھارت تعلقات کا ''نیا اونٹ'' کس کروٹ بیٹھے گا؟ ہمارے وزیراعظم صاحب سعودی شاہی خاندان سے جس قدر گہرے تعلقات رکھتے ہیں اور بھارتی وزیراعظم مسٹر سنگھ سے ملاقات کرنا ان کی جو شدید خواہش ہے، اس پس منظر میں یہ توقعات وابستہ کرنا بے جا نہ ہو گا کہ یہ دونوں ملاقاتیں ثمر آور ہی ثابت ہوں گی۔
پاکستانی حکمرانوں کے اقتدار سنبھالنے کے بعد (اس کی باقاعدہ بنیاد جنرل ضیاء الحق نے ڈالی تھی) عمرہ کی ادائیگی اور سعودی حکمرانوں سے ملاقاتیں کرنے کے حوالے سے عالم عرب کے معروف اخبار ''گلف نیوز'' نے ایک دلچسپ سوال اٹھایا ہے۔ یہ کہ پاکستان کے مقتدرین کے لیے کتنے عمرے ضروری ہیں اور یہ کہ ان عمروں کی ادائیگی دراصل سیاسی و اقتصادی نوعیت کی بھی ہوتی ہے۔ اب نواز شریف صاحب اقتدار سنبھالنے اور جنابِ ممنون حسین کو صدر بنانے کی مہم سر کرنے کے بعد اگست کے ابتدائی دنوں میں سعودی عرب روانہ ہو رہے ہیں تاکہ بادشاہ سلامت سے بھی مصافحہ و معانقہ ہو جائے اورعمرہ بھی ادا کر لیں۔ اُن کے وفد میں چار درجن سے زائد افراد شامل ہوں گے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ 53 افراد پر مشتمل اِس وفد کے اخراجات کون ادا کرے گا؟
سعودی عرب کے فرمانروا ہمیشہ پاکستان پر مہربان رہے ہیں۔یہ ملک جس نے پاکستان میں صرف ایک ادارے کی خریداری میں 2ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کردی، اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ اِسے ہم کبھی نادم نہ کریں۔ساٹھ کے عشرے سے سعودی عرب ہر اہم موقع پر پاکستان کی اعانت کرتا آرہا ہے۔1970ء میں سعودی عرب نے برطانیہ سے جنگی طیارے خریدے تو سعودی پائلٹوں کو تربیت دینے کے لیے ہماری ائرفورس کے ماہرین کو بلایاگیا۔70ء کے عشرے میں ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب نے پاکستان کے 15ہزار فوجی اپنے ہاں تعینات کیے جس سے پاکستانی فوجیوں کے گھروں میں خوشحالی بھی آئی اور پاکستان کو برسہا برس تک زرِ مبادلہ بھی ملتا رہا۔ 80ء کی دہائی میںجب پاکستان کے زکوٰۃ فنڈ میں ایک دھیلا نہیں تھا'ریاض سے فوری طور پر اِس فنڈ کے لیے ''سِیڈ منی'' فراہم کردی گئی۔1969ء میں جب جنوبی یمن نے سعودیہ کے خلاف یلغار کرنا چاہی تو سعودی حکمرانوں کے کہنے پر پاکستان کے ہزاروں فوجیوں نے اِس یلغار کو روک کر اُنہیں میلوں پیچھے دھکیل دیا۔ ہمارے 15ہزار فوجی مدتوں سعودی عرب کی اُس سرحد پر متعین رہے جو اسرائیل اور اُردن سے ملتی ہے۔
جناب نوازشریف نے جرات کے ساتھ مئی 1998ء میں جوہری دھماکے کیے تو امریکا نے ہم پر سخت اقتصادی پابندیاںعائد کردیں۔ایسے میں یہ سعودی عرب تھا جس نے پاکستان کی دستگیری کی اور اعلان کیا کہ وہ غیر معینہ مدت تک پاکستان کو Deferred Paymentکی ٹرم پر روزانہ 50ہزار بیرل تیل فراہم کرتا رہے گا۔ اِس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان اسٹرٹیجک تعلقات خاصے مستحکم ہیں۔سعودی عرب' پاکستان کے تیارکردہ ''الخالد'' نامی 150ٹینک خریدنا چاہتا ہے جن کی مالیت60کروڑ ڈالر ہے۔سعودی عرب اور پاکستان یک مشت اور یک جہت ہو کر ''القاعدہ'' کو جڑسے اکھیڑنا چاہتے ہیں اور اِس سلسلے میں دونوں کے درمیان معلومات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔جتنا نقصان ''القاعدہ'' نے پاکستان کو پہنچایا ہے 'اتنا ہی سعودی عرب کو بھی پہنچایا ہے۔سعودی عرب مسئلہ کشمیر حل کرانے میں بھی گہری دلچسپی رکھتا ہے۔شاہ فہد کی وفات کے بعد جب جناب شاہ عبداللہ نے بھارت کا دورہ کیا تو انھوں نے اس موقع پر جو بیان جاری کیا'اس کا بین السطور پیغام یہی تھا کہ پاکستان کو بھارت سے مل کر اور تصادم سے گریز اختیار کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر حل کرنا چاہیے۔
سعودی عرب سے پاکستانیوں کی والہانہ وابستگی کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایاجاسکتا ہے کہ جب 1974ء میں بھٹو صاحب نے لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس کروائی تو مدعومعزز مہمانانِ گرامی میں جس شخصیت پر عوام نے سب سے زیادہ محبت واکرام کے پھول نچھاور کیے'وہ خادم الحرمین الشریفین جناب شاہ فیصل تھے۔جب شاہ فیصل کو ان کے بھتیجے نے گولی مار کر شہید کردیاتوپاکستان کے گھر گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔یوں لگا تھا جیسے ہمارا کوئی انتہائی پیارا عزیز ہم سے بچھڑگیا ہے۔شاہ فیصل کے نام پر ہمارے لوگوں نے اپنے بچوں کے نام رکھ کراُن سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ کراچی میں تو کئی رہائشی کالونیاں شاہ فیصل اور سعودی عرب کے دوسرے فرمانروائوں کے نام سے موسوم ہیں۔ مثلاً سعود کالونی ،سعود آباد اور فیصل کالونی ۔کراچی میں ائرفورس کے ایک ہوائی اڈے کانام بھی ''فیصل ائربیس'' رکھاگیا ہے۔
کراچی کی ایک مشہور سڑک کا نام بھی ''شاہراہِ فیصل '' ہے اور پاکستان کے ایک مشہور صنعتی شہر'لائل پور کا نام تبدیل کرکے فیصل آباد رکھ دیاگیا۔وطن عزیز کے دارالحکومت کا تعارف''فیصل مسجد'' ہے جو مکمل طور پر سعودی عرب کے تعاون اور فنڈز سے بنائی گئی۔ یہ پُرشکوہ' کشادہ اور انتہائی دلکش مسجد سعودی عرب کے حکمرانوں کی دلی کشادگی اور پاکستان کے ساتھ گہرے تعلقات کا مظہر بھی ہے'اگرچہ جنرل ضیاء الحق کے قریبی ساتھیوں نے اِس کی تعمیر میں بڑے بڑے گھپلے کرکے اپنے اپنے پیٹ جہنم بنائے تھے۔ مجھے پاکستان کے نامور مصور گل جی'جو اِس مسجد کے ڈیزائنروں میں سے ایک تھے' نے بتایا تھا کہ فیصل مسجد کی بلند چھت پر نصب ہلال کا نشان خالص سونے کا تھا جو سعودی عرب کی طرف سے عطیہ کیاگیا تھا لیکن جنرل ضیاء الحق کے انتہائی قریبی ساتھی اِسے بھی ہڑپ کرگئے۔
نوازشریف صاحب جنرل پرویزمشرف کے ہاتھوں جلاوطن ہو کر سعودی عرب گئے تو شاہی خاندان نے ان سے بھائیوں جیسا سلوک کیا۔اُن کے لیے اپنے محلات پیش کیے اور مسلسل 8سال اُن سے تعاون کرتے رہے۔حتیٰ کہ شریف خاندان کو ایک مخصوص لائسنس سے نوازا گیا جس کے تحت وہ سعودی عرب میں آزادانہ بزنس بھی کرسکتے تھے۔مارچ 2008ء میں جب پاکستان شدید مالی بحران سے دوچار تھا'سعودی عرب نے فوری طور پر پاکستان کو 300ملین ڈالر کی امداد عطیہ میں دے ڈالی۔ جب 8اکتوبر 2005ء کو آزادکشمیر میں ہماری تاریخ کا بدترین زلزلہ آیا تو اس موقع پر سعودی عرب دنیا کا واحد ملک تھا جس نے زلزلہ زدگان کے لیے سب سے زیادہ امداد دی اور یہ رقم 600 ملین ڈالر تھی ۔ پچھلے برسوں میں پاکستان میں ہلاکت خیز سیلاب آئے تو سیلاب زدگان کے ریسکیو اور بحالی میں ایک بار پھر سعودی عرب دنیا کے تمام ممالک پر بازی لے گیا۔
سعودی عرب میں اب بھی اتنی گنجائش ہے کہ وہ پاکستان کے سیکڑوں انجینئروں،کاریگروں اور ماہرینِ تعمیرات کو اپنے ہاں کھپا سکتا ہے۔مثلاً:شاہ عبداللہ کی براہ راست نگرانی میں سعودیہ میں ایک نیا جدید شہربسایا جارہا ہے۔اِسے ''کنگ عبداللہ اکنامک سٹی'' کا نام دیاگیا ہے۔یہ جدہ سے تقریباً 100کلومیٹر کے فاصلے پر عین شمال میں واقع ہے اور اِس کی تعمیر پر 27ارب ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں۔یہ شہر 20برسوں میں مکمل ہوگا اور اِس کی آبادی15لاکھ کے قریب ہوگی۔جناب شاہ عبداللہ کا منصوبہ یہ ہے کہ سعودی عرب کے طول وعرض میں ایسے پانچ مزید شہر تعمیر کیے جائیں گے جن میں 60لاکھ گھر ہوں گے اور جن پر 150ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔اگرہمارے حکمران مزید توجہ دیں تو پاک سعودی تعلقات میں مزید گہرائی اور وسعت آسکتی ہے۔عالمِ اسلام کے یہ دونوں اہم ممالک مزید قریب آکر مسلم اُمہ کے محافظ بھی بن سکتے ہیں مگراِس میں لگتی ہے محنت زیادہ۔اُمید یہی ہے کہ اب وزیراعظم محمد نواز شریف کی خادم الحرمین الشریفین سے باقاعدہ ملاقات کے بعد پاکستان اور سعودی عرب میں محبتوں کے مزید چشمے پھوٹیں گے ۔اِس کی وجہ سے پاکستان میں بے روزگاری کے عفریت کو لگام بھی دی جاسکے گی اورسعودی عرب میں بروئے کار 30 ہزار سے زائد پاکستانیوں کے مسائل کا کوئی اچھا سا حل بھی نکل آئے گا۔