ابلیس نگر

ان دنوںخالی لوگ بہت پھر رہے ہیں۔ کام اور نوکری سے فارغ تو ہیں ہی، بجلی اور گیس اور کیش نہ ہونے سے ، جو تھوڑا...


Tariq Mahmood Mian July 31, 2013
[email protected]

ان دنوں خالی لوگ بہت پھر رہے ہیں۔ کام اور نوکری سے فارغ تو ہیں ہی، بجلی اور گیس اور کیش نہ ہونے سے ، جو تھوڑا بہت دھندا کرتے تھے وہ بھی سڑکیں، پارکس اور ٹیرس ناپتے ہیں۔ فرصت کے لمحات کی تلاش ادب میں کیسا ایک رومانی تصور تھا۔ کہیں جاناں ہو، کہیں ہم دیرینہ ہو اور تنہائی ہو اور فرصت کے کچھ لمحات ہوں۔ کشتی کا خاموش سفر ہو... رات بھی ہو تنہائی بھی ... دور کنارے پر بجتی ہو...لہروں کی شہنائی بھی۔ وغیرہ وغیرہ۔ وقت کے ساتھ فرصت یہ سارے جذبے دھیرے دھیرے الّم غلّم ہوئے اور پھر عالم غم بن گئے۔ ادھر شیطان کا کام بڑھ گیا ۔ ہر خالی دماغ میں جگہ بنانے کے لیے بہت بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہوگی۔

یہاں مجھے خالی دماغ والی ایک دلچسپ صورتحال یاد آرہی ہے۔ آیئے آپ سے شیئر کرتا ہوں۔ یہ ایک خاندان کا ذکر ہے۔ اس کے بڑے زمیندار بھی تھے، سیاستدان بھی اور صنعتکار تھی۔ اولاد بڑی ہوئی تو سارا انتظام اس نے سنبھال لیا۔ نوجوانوں کی شادیاں ہوگئیں لیکن وہ کاروبار میں اتنے مصروف رہتے کہ بیویوں کو وقت ہی نہ دے پاتے۔ یہ سب ان کی فرسٹ کزنز تھیں۔ وقت نہ ملنے کا گلا کرتیں اور بڑوں سے شکایت لگاتیں۔ میں اس لیے جانتا ہوں کہ ان میں سے ایک میری اہلیہ کی کلاس فیلو اور دوست ہے۔ ان کے کاروبار میں ایک مشہور بین الاقوامی مشروب کی دو فیکٹریاں بھی تھیں۔ پھر یوں ہوا کہ اس مشروب کے غیر ملکی مالکان نے پاکستان میں موجود اپنی تمام فیکٹریوں کا کنٹرول خود حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا۔

اس کے بدلے میں انہوں نے ان لوگوں کو اتنی بھاری رقم دی کہ سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ نوجوانوں نے اپنے اپنے حصے کی رقم مناسب جگہوں پر انویسٹ کردی۔ اس سے انھیں جھولیاں بھر بھر کے نفع آنا شروع ہوگیا۔ اتنا کہ انھیں کام کرنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی۔ سارا دن گھر میں پڑے رہتے۔ دیر تک سوتے۔ اور پھر وہی ہوا جو ان حالات میں ہوا کرتا ہے۔ انہوں نے گھر کے اور بیوی بچوں کے معاملات میں بہت باریک قسم کا دخل دینا بھی شروع کردیا۔ ٹوکا ٹاکی کرنے لگے، اس پر وہی بیویاں جو وقت نہ دینے کا گلا کرتی تھیں انھیں دھکے دے دے کے اور شکایتیں لگالگا کر گھر سے باہر نکالنے لگیں۔ کہتیں یہ گھر میں خالی بیٹھے شیطان بنتے جارہے ہیں۔ ان کے دماغ میں بہت جگہ خالی ہوگئی ہے۔

شہر کی گلیوں میں ہونے والے جرائم کا تعلق بھی دماغ کی خالی جگہ سے جوڑا جاتا ہے۔ یہ خالی جگہ ایسی ہے جس کی تاک میں کئی قبضہ گروپ ہیں۔ ان میں سب سے مہلک گروہ کا نام ''بے روزگاری'' ہے۔ یہ قبضہ جمالے تو پھر مایوسی اور جرم بھی درآتے ہیں۔ یہ آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ان سے ٹکرا کے حکومتیں پاش پاش ہوجاتی ہیں پر ان کا ککھ نہیں بگڑتا۔ ایسی ہی مشکل صورتحال سے ہماری حکومتیں بھی گزر رہی ہیں اور بہت پریشان ہیں۔ یہ بروقت ادراک ہونے اور تدارک کرنے والی بات ہے۔ انہوں نے مصیبت کو خود مقرر کیا ہے۔ اب لاحاصل بحثیں فرما فرما کر پبلک کے دماغ کا دہی بناتے ہیں۔

ان سے کہیں بہتر کارکردگی تو میرے ایک دوست نے دکھائی تھی۔ پڑھا لکھا ہے اور ایک بہت ہی اچھی پر اچھی تنخواہ پر ملازم ہے۔ شادی ہوئی تو بیوی بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ملی۔ یہ ایک بہت شاندار جوڑا ہے۔ لیکن شادی کے ابتدائی عرصے میں ایک مسئلہ پیدا ہوا تھا۔ بیوی گھر میں آئی تو وہ اکیلا رہتا تھا۔ سارا کام نوکر کرتے تھے۔ شادی کے بعد اس نے بیوی کو کوئی کام نہیں کرنے دیا بلکہ وہ ایک جگہ نوکری کرتی تھی اسے بھی چھڑوادیا کہ خود اس کی نوکری بہت تگڑی تھی۔ یہیں سے خرابی کا آغاز ہوا۔ بیوی فارغ رہتی تھی اور اس کا دماغ بھی فارغ تھا۔ اس نے مصروفیت ڈھونڈنا شروع کی تو اسے اپنے اردگرد اپنے جیسی کئی عورتیں مل گئیں۔ انہوں نے وقت گزار نے کے بہت سے طریقے نکال رکھے تھے۔ وہ بھی ان میں شامل ہوتی گئی۔ کچھ ہی عرصے کے اندر وہ کئی جگہ کمیٹیاں ڈال رہی تھی، ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی کمیٹی پارٹی ہوتی۔ ان کی ایک این جی او تھی۔

ظاہر ہے کہ اس کی سرگرمیاں بھی مشکوک تھیں۔ وہ ان میں حصہ لینے لگی اور دوسرے شہروں کے بھی دورے کرنے لگی۔ سلمنگ سینٹر اور بیوٹی پارلر جانا روز کا معمول ہوگیا۔ ایک فیشن شو منعقد کرڈالا۔ کئی ریلیوں اور دھرنوں میں شریک ہوئی اور کود کود کے نعرے لگائے۔ کار کی ڈگی میں ایک روز کچھ انوکھے اوزار دیکھ کے میرے دوست کے کان کھڑے ہوئے اور اس نے سوچا کہ شاید اب بیگم ڈکیتیاں وغیرہ بھی شروع کرنے والی ہے۔ پھر ایک روز جب بیگم نے کچھ نئے استعارے استعمال کرتے ہوئے بدتمیزی سے بات کی تو میرے دوست نے پوچھا... ''کیا تم نے پی ٹی آئی جوائن کرلی ہے؟'' اس پر اس نے انکار میں سرہلایا اور ایک اور تنظیم کی طرف اظہار التفات کیا۔ تب میرا دوست بری طرح ڈر گیا۔ اگلے ہی روز وہ اس کے سابقہ باس سے ملا اور اس کی نوکری بحالی کرادی۔ اب وہ پھر سے مصروف ہے۔بڑی بڑی عمارتوں کے نقشے بناتی ہے اور خالی دماغ میں گھسنے والی خرافات کو فراموش کرچکی ہے۔

اسی طرح ایک اور جاننے والے نے ایک ذرا مختلف معاملے کے حل کے لیے ایک ذرا مختلف طریقہ استعمال کیا تھا۔ وہ بھی سن لیجیے۔ اسے شادی کے فوراً بعد ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ اہلیہ اس کی زندگی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کی تیار کررہی ہے لہذا اس نے اسے ایک اور مصروفیت میں ڈال دیا۔ پندرہ برس کی اس مصروفیت میں کرکٹ کی ایک پوری ٹیم تیار ہوگئی۔ اس کے بعد باقی کیابچنا تھا۔ ساری طنطناہٹ کہیں درمیان میں ہی کھوگئی۔ باقی کام اولاد نے بذات خود تمام کرڈالا۔

لیجیے حساب برابر ہوگیا۔ فراغت سے پیدا ہونے والی خرابیوں کا علاج سب کے پاس ایک ہی ہے کہ مصروف کردیا جائے۔ خواتین کو شکایت پیدا ہوئی تو انہوں نے خالی دماغ مردوں کے گھر میں بٹھانے سے انکار کردیا اور مردوں کو گلا ہوا تو انہوں نے فارغ خواتین کو مصروف کردیا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت اپنی کارکردگی کب دکھائے گی۔ دکھا بھی پائے گی کہ نہیں۔ نیا سفر ہے اور شہر کے بہت لوگ بے سمت پھرتے ہیں۔ فرصت اور تنہائی سے منسوب رومانی تصور گیا بھاڑ میں۔ انھیں امن، مصروفیت اور روزگار چاہئے۔ دماغ خالی ہو تو وہاں کون بسیرا کرتا ہے اور پھر کیا کچھ کراتا ہے، یہ سب جانتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |