مودی کی انتہا پسندانہ پالیسی اور خطے کی صورتحال
بھارت کے اقتدار پر قابض انتہا پسند ماحول میں تلخی پیدا کررہے ہیں
پلوامہ واقعے کے بعد پاکستان کو بھارت کی جانب سے جنگ کی دھمکیوں کے بعد خطے میں صورت حال کشیدہ ہو گئی ہے جب کہ بھارتی حکمران طبقہ اس صورت حال پر قابو پانے کے بجائے جنگی جنون کو مزید ہوا دے رہا ہے۔بھارتی وزیراعظم نریندری مودی اور بی جے پی کے لیڈر عوام میں جنگی جنوں پیدا کرنے میں مصروف ہیں جب کہ بھارتی میڈیا اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ پاکستان بھارت پر واضح کر چکا ہے کہ اگر جنگ مسلط کی گئی تو پھر وہ اس کا بھرپور جواب دے گا۔
پاکستان بھارت کو پلوامہ واقعے کی شفاف تحقیقات کی پیشکش کر چکا ہے بلکہ وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر بھارت دہشت گردی پر بات چیت پر بضد ہے تو پاکستان اس پر بھی تیار ہے مگر بھارت ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا مثبت جواب دینے کے بجائے منفی رویہ اپناتے ہوئے دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔جس کی وجہ سے بھارتی عوام میں انتہاپسند رویہ جنم لے رہا ہے ، حد تو یہ ہے کہ بھارت کے شہر منگلورو میں ایک بیکری کا نام کراچی بیکری ہے، اب انتہا پسند اس نام کو ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کس طرف جارہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں جہاں بھارت نے مزید دس ہزار فوجیوں کو بھیجا ہے وہاں وادی میں بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کرتے ہوئے حریت رہنمائوں سمیت سیکڑوں کارکنوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے، اس کے علاوہ سرینگر میں بھارتی جنگی طیاروں نے پروازیں شروع کر دی ہیں' بھارتی فوج نے کنٹرول لائن پر پاک بھارت فائرنگ کے بعد نوشہرہ سیکٹر میں 27دیہات کے باشندوں کو ہجرت کے لیے تیار رہنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جو حالات ہیں، وہ اب پوری دنیا کے سامنے ہیں ، بھارت کے مظالم کے خلاف کشمیری سراپا احتجاج ہیں لیکن بھارتی پالیسی ساز مسئلے کا حل نکالنے میں سنجیدہ ہیں بلکہ مزید سخت اقدامات کررہے اور پاکستان کو بھی بلاوجہ اس معاملے میں ملوث کیا جارہا ہے۔ بھارت کے ان اقدامات کے باعث جنوبی ایشیا کے خطے پر ایک بار پھر جنگ کے خوفناک بادل منڈلانے لگے ہیں اور روز بروز سرحدی حالات بگڑتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ امن کی صورتحال قائم رہے لیکن بھارت کے اقتدار پر قابض انتہا پسند ماحول میں تلخی پیدا کررہے ہیں۔
بھارت کے بڑھتے ہوئے جنگی جنون کے بعد پیدا شدہ صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے پاکستان نے مختلف فورم پر اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں' ایک جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی برادری کو بھارتی جارحیت سے آگاہ کرنے کے لیے اپنی سفارتی مہم تیز کر دی' ان کے سارک' اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اور علاقائی تنظیموں' اداروں کے علاوہ مختلف ممالک کے ہم منصبوں سے رابطے جاری ہیں' انھوں نے نیپال کے اپنے ہم منصب اور چیئر آف سارک پردیپ کمار گیاوالی سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ سارک فورم خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے زیادہ قریب لانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
اس پر نیپال کے وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے میں امن برقرار رکھنا اجتماعی ذمے داری ہے اور علاقے کے تمام ملکوں کے مفاد میں ہے' حالانکہ بھارت ہی وہ ملک ہے جس نے سارک کو مفلوج بنانے کی کوشش کی ، علاوہ ازیں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سری لنکن ہم منصب سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطے میں استحکام کے لیے امن کا خواہاں ہے۔ سری لنکن وزیر خارجہ نے کہا کہ محاذ آرائی کسی کے مفاد میں نہیں' تمام تنازعات کو بات چیت سے حل کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کو ایک خط میں پلوامہ واقعے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بالخصوص اور بھارت میں بالعموم انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی طرف توجہ مبذول کرائی۔
شاہ محمود قریشی نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کا جنگی جنون سارک کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے' ہندوستان میں کشمیری طلباء پر حملے ہو رہے ہیں' پاکستان دیرینہ مسائل کے حل کے لیے تعاون اور مذاکرات کا خواہاں ہے۔ ادھر بھارتی دھمکیوں کے بعد خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سبب پاکستان نے دفتر خارجہ میں کرائسز مینجمنٹ سیل تشکیل دیا ہے جو 24گھنٹے کام کرے گا' یہ سیل ایمرجنسی حالات کے لیے بنایا جا رہا ہے جو تمام صورت حال پر نظر رکھے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت پر جنگی جنون سوار ہے اور مودی سرکار اپنی الیکشن مہم میں ہر چیز جھونکنے پر بضد ہے' اگر جنگ مسلط کی گئی تو ہم اس کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں مودی کی شکل میں انتہا پسند اور مکار گروہ نے آنے والے الیکشن میں کامیابی کے لیے پلوامہ کا سارا ڈرامہ رچایا اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں کو اس ڈرامے کی بھینٹ چڑھا کر خطے میں جنگی جنون کو ہوا دی تاکہ عوام کے جذبات سے کھیل کر اقتدار تک بآسانی پہنچا جا سکے، بی جے پی اور مودی اینڈ کمپنی ماضی میں بھی پاکستان اور مسلم دشمنی کو ہوا دے کر الیکشن جیتی آئی ہے اور اب بھی وہ اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے آیندہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش رہی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے پلوامہ واقعہ کی آڑ میں پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت نہ تو کسی قسم کا ثبوت دینے کے لیے آمادہ ہے اور نہ ہی تحقیقات کے حوالے سے پاکستانی پیشکش کا مثبت جواب دے رہی ہے۔
پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کے لیے بیک ڈور رابطے شروع ہو چکے ہیں اس سلسلے میں تحریک انصاف کے رہنما ایم این اے رمیش کمار ونکوانی نے نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ سشما سوراج سمیت کئی رہنمائوں سے ملاقات کی۔ انھوں نے بھارتی وزیر خارجہ سے کہا کہ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ پلوامہ حملے میں کوئی پاکستانی ادارہ ملوث نہیں' الزامات کی سیاست سے باہر نکلنا ہو گا۔ ادھر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتحال انتہائی بری اور خطرناک ہے، امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود کشیدگی ختم ہو، امریکی انتظامیہ اس ضمن میں دونوں ممالک سے رابطے میں ہے۔
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ دشمنی کو ختم کرنا ہو گا' بھارتی آرمی چیف علاقائی امن و استحکام کے لیے جنرل باجوہ کے ویژن کی تقریر کرتے ہوئے پاکستان دشمنی ترک کردیں۔ پاک بھارت کشیدگی کسی کے بھی مفاد میں نہیں' بھارتی حکومت کسی نہ کسی واقعے کو بہانہ بنا کر خطے میں جنگی جنون کو ہوا دینا شروع کر دیتی ہے۔ اس وقت بھارتی حکومت پاکستان کے بارے میں جو رویہ اپنائے ہوئے ہے ایسا پہلی بار نہیں ہوا' ماضی میں بھی وہ ایسا متعدد بار کر چکی ہے' ایک ایسا وقت بھی آیا کہ بھارتی حکومت نے اپنی فوجوں کی بڑی تعداد پاکستانی سرحد کے ساتھ متعین کر دی جس سے جنگ چھڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ بھارتی حکومت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے باہمی تعلقات کو مضبوط بنانا ہو گا' جنگ سے سوائے تباہی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
پاکستان بھارت کو پلوامہ واقعے کی شفاف تحقیقات کی پیشکش کر چکا ہے بلکہ وزیراعظم عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر بھارت دہشت گردی پر بات چیت پر بضد ہے تو پاکستان اس پر بھی تیار ہے مگر بھارت ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا مثبت جواب دینے کے بجائے منفی رویہ اپناتے ہوئے دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔جس کی وجہ سے بھارتی عوام میں انتہاپسند رویہ جنم لے رہا ہے ، حد تو یہ ہے کہ بھارت کے شہر منگلورو میں ایک بیکری کا نام کراچی بیکری ہے، اب انتہا پسند اس نام کو ختم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کس طرف جارہا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں جہاں بھارت نے مزید دس ہزار فوجیوں کو بھیجا ہے وہاں وادی میں بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کرتے ہوئے حریت رہنمائوں سمیت سیکڑوں کارکنوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے، اس کے علاوہ سرینگر میں بھارتی جنگی طیاروں نے پروازیں شروع کر دی ہیں' بھارتی فوج نے کنٹرول لائن پر پاک بھارت فائرنگ کے بعد نوشہرہ سیکٹر میں 27دیہات کے باشندوں کو ہجرت کے لیے تیار رہنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں جو حالات ہیں، وہ اب پوری دنیا کے سامنے ہیں ، بھارت کے مظالم کے خلاف کشمیری سراپا احتجاج ہیں لیکن بھارتی پالیسی ساز مسئلے کا حل نکالنے میں سنجیدہ ہیں بلکہ مزید سخت اقدامات کررہے اور پاکستان کو بھی بلاوجہ اس معاملے میں ملوث کیا جارہا ہے۔ بھارت کے ان اقدامات کے باعث جنوبی ایشیا کے خطے پر ایک بار پھر جنگ کے خوفناک بادل منڈلانے لگے ہیں اور روز بروز سرحدی حالات بگڑتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔پاکستان کی پوری کوشش ہے کہ امن کی صورتحال قائم رہے لیکن بھارت کے اقتدار پر قابض انتہا پسند ماحول میں تلخی پیدا کررہے ہیں۔
بھارت کے بڑھتے ہوئے جنگی جنون کے بعد پیدا شدہ صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے پاکستان نے مختلف فورم پر اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں' ایک جانب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عالمی برادری کو بھارتی جارحیت سے آگاہ کرنے کے لیے اپنی سفارتی مہم تیز کر دی' ان کے سارک' اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی اور علاقائی تنظیموں' اداروں کے علاوہ مختلف ممالک کے ہم منصبوں سے رابطے جاری ہیں' انھوں نے نیپال کے اپنے ہم منصب اور چیئر آف سارک پردیپ کمار گیاوالی سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ سارک فورم خطے کے ممالک کو ایک دوسرے کے زیادہ قریب لانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
اس پر نیپال کے وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے میں امن برقرار رکھنا اجتماعی ذمے داری ہے اور علاقے کے تمام ملکوں کے مفاد میں ہے' حالانکہ بھارت ہی وہ ملک ہے جس نے سارک کو مفلوج بنانے کی کوشش کی ، علاوہ ازیں پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سری لنکن ہم منصب سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان خطے میں استحکام کے لیے امن کا خواہاں ہے۔ سری لنکن وزیر خارجہ نے کہا کہ محاذ آرائی کسی کے مفاد میں نہیں' تمام تنازعات کو بات چیت سے حل کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کو ایک خط میں پلوامہ واقعے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بالخصوص اور بھارت میں بالعموم انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی طرف توجہ مبذول کرائی۔
شاہ محمود قریشی نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان کا جنگی جنون سارک کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے' ہندوستان میں کشمیری طلباء پر حملے ہو رہے ہیں' پاکستان دیرینہ مسائل کے حل کے لیے تعاون اور مذاکرات کا خواہاں ہے۔ ادھر بھارتی دھمکیوں کے بعد خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے سبب پاکستان نے دفتر خارجہ میں کرائسز مینجمنٹ سیل تشکیل دیا ہے جو 24گھنٹے کام کرے گا' یہ سیل ایمرجنسی حالات کے لیے بنایا جا رہا ہے جو تمام صورت حال پر نظر رکھے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت پر جنگی جنون سوار ہے اور مودی سرکار اپنی الیکشن مہم میں ہر چیز جھونکنے پر بضد ہے' اگر جنگ مسلط کی گئی تو ہم اس کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں مودی کی شکل میں انتہا پسند اور مکار گروہ نے آنے والے الیکشن میں کامیابی کے لیے پلوامہ کا سارا ڈرامہ رچایا اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے سپاہیوں کو اس ڈرامے کی بھینٹ چڑھا کر خطے میں جنگی جنون کو ہوا دی تاکہ عوام کے جذبات سے کھیل کر اقتدار تک بآسانی پہنچا جا سکے، بی جے پی اور مودی اینڈ کمپنی ماضی میں بھی پاکستان اور مسلم دشمنی کو ہوا دے کر الیکشن جیتی آئی ہے اور اب بھی وہ اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے آیندہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش رہی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے پلوامہ واقعہ کی آڑ میں پاکستان مخالف جذبات کو بھڑکایا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی حکومت نہ تو کسی قسم کا ثبوت دینے کے لیے آمادہ ہے اور نہ ہی تحقیقات کے حوالے سے پاکستانی پیشکش کا مثبت جواب دے رہی ہے۔
پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کے لیے بیک ڈور رابطے شروع ہو چکے ہیں اس سلسلے میں تحریک انصاف کے رہنما ایم این اے رمیش کمار ونکوانی نے نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ سشما سوراج سمیت کئی رہنمائوں سے ملاقات کی۔ انھوں نے بھارتی وزیر خارجہ سے کہا کہ ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ پلوامہ حملے میں کوئی پاکستانی ادارہ ملوث نہیں' الزامات کی سیاست سے باہر نکلنا ہو گا۔ ادھر امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان صورتحال انتہائی بری اور خطرناک ہے، امریکا چاہتا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود کشیدگی ختم ہو، امریکی انتظامیہ اس ضمن میں دونوں ممالک سے رابطے میں ہے۔
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ بھارت کو پاکستان کے ساتھ دشمنی کو ختم کرنا ہو گا' بھارتی آرمی چیف علاقائی امن و استحکام کے لیے جنرل باجوہ کے ویژن کی تقریر کرتے ہوئے پاکستان دشمنی ترک کردیں۔ پاک بھارت کشیدگی کسی کے بھی مفاد میں نہیں' بھارتی حکومت کسی نہ کسی واقعے کو بہانہ بنا کر خطے میں جنگی جنون کو ہوا دینا شروع کر دیتی ہے۔ اس وقت بھارتی حکومت پاکستان کے بارے میں جو رویہ اپنائے ہوئے ہے ایسا پہلی بار نہیں ہوا' ماضی میں بھی وہ ایسا متعدد بار کر چکی ہے' ایک ایسا وقت بھی آیا کہ بھارتی حکومت نے اپنی فوجوں کی بڑی تعداد پاکستانی سرحد کے ساتھ متعین کر دی جس سے جنگ چھڑنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ بھارتی حکومت کو اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے باہمی تعلقات کو مضبوط بنانا ہو گا' جنگ سے سوائے تباہی کے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔