کسی صورت میں جنگ نہیں ہونی چاہیے
پوری دنیادونوں متحارب ممالک کے رویوں پر پریشان ہے
لاہور:
پلوامہ کے خود کش حملہ پر بہت زیادہ توجہ نہ دی۔وجہ بالکل سادہ ہے۔جس دن سے ہوش سنبھالا ہے،پاکستان اورہندوستان کی باہمی چپقلش،جنگیں،سرحدی جھڑپیں اور نفرت پرمبنی بیانات کے سواکبھی کچھ دیکھنے یاسننے کوملاہی نہیںہے۔اب ان بُری خبروں کاعادی ہوچکاہوں۔سونے پرسہاگا،پاکستان میں ایک لاکھ کے قریب انسانی جانوں کے ضایع ہونے کے دلخراش دہشتگردی کے واقعات بھی ہیں۔ مسلسل واقعات نے مجھے ان تمام خبروں،واقعات کا عادی بنادیاہے۔کچھ لمحے افسوس کے۔اس کے بعدزندگی پھرسے رواں دواں۔ہمارے جیسے ملکوں میں انسانی زندگیوں کاالمیہ یہ ہے کہ وہ خوشی کی عادی نہیں رہتیں۔
وہ المناک خبروں کواپناحال اورمستقبل جان کربیکار زندگی گزارنے کی عادت بنالیتیں ہیں۔دوسال قبل میں اکثرملک سے باہر جاتا تھا۔ مگر اب عرصے سے کسی مغربی ملک میں نہیں گیا۔ صرف اس لیے کہ واپس آکراپنی ذہنی اورسماجی پسماندگی دیکھ کر دکھ ہوتاہے۔ یاخدا،اگرمغربی دنیامیں رہنے والے انسان ہیں توہم کیا ہیں۔بالکل اسی تناظرمیں مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والے خودکش دھماکے کوکوئی اہمیت نہیں دی۔ ٹھیک ہے، ہوگیا۔ الزامات کی بارش ہوگی، مغربی ممالک صلح کروائینگے اور پھر دونوں ممالک خاموشی سے زندگی گزارنے لگ جائینگے۔
حملے کے تین چاردن بعد عابدصاحب کافون آیا۔ حسبِ معمول اپنی چھوٹی سی لائبریری میں بیٹھاہواتھا۔کہنے لگے کہ کیاآپ نے جوہندوستانی سپاہی پلوامہ کے خودکش حملے میں مارے گئے ہیں،ان کی آخری رسومات دیکھی ہیں۔ جواب تھاکہ نہیں۔شائداس لیے بھی کہ ٹی وی دیکھنا تقریباً متروک کرچکاہوں۔زیادہ سے زیادہ انیمل پلانیٹ (Animal Planet)دیکھنے پراکتفاکرتاہوں۔ٹی وی چینل نہ دیکھنے کی وجہ بالکل عام سی ہے۔وہ حضرات جو درست اردوبول نہیں سکتے،جنہوں نے ہرموضوع پربغیر مطالعے کیے جہالت پھیلانے کاعزم کررکھاہے،جنہوں نے شام کو سوٹ اورٹائیاں لگاکرجزوی عالم اورتجزیہ کاربننے کو شعارِزندگی بنارکھاہے۔چندخواتین جوپارلرسے تیار ہوکر، بغیرکسی مطالعہ اورمشاہدہ پرسنجیدہ ترین موضوعات پرادنیٰ گفتگوکرنے کاحوصلہ رکھتی ہیں،مجھے اس طرح کے مناظرے یاٹی وی ٹاک شودیکھنا مناسب نہیں لگتا۔ ہاں، مجھے ڈیوڈفروسٹ(David Frost)جیسے سنجیدہ میڈیا پرسنز پسندہیں جن میں مطالعے کی گہرائی،سچ بولنے کی ہمت اورتحقیق کی جستجوہے۔بہرحال عابدکے فون نے مجبور کردیا کہ ہندوستانی چینل دیکھوں۔انٹرنیٹ پر ہندی، اردو اور انگریزی چینل دیکھے۔ششدررہ گیا۔
جوسپاہی پلوامہ میں مارے گئے تھے۔ ان کی آخری رسومات کے لیے تقریباً ہر شہر میں ہزاروں نہیں لاکھوں کامجمع تھا۔ہندوستانی میڈیا پرجنگی ترانے چل رہے تھے۔وطن دوستی کے نعرے لگ رہے تھے۔ پاکستان کے خلاف نعرے لگ رہے تھے۔ یہ خصوصی ٹرانسمیشن دیکھنے کے بعد اندازہ ہواکہ اس واقعے کاردِعمل پہلے سے مختلف ہوسکتاہے ۔پلوامہ واقعے کے ردِعمل میں دونوں ملکوں میں باہمی جنگ ہوسکتی ہے۔کیونکہ ہمارے ملک میں انڈین چینل دیکھنے کی سہولت عام نہیں ہے۔اس لیے عوامی سطح پرپلوامہ کے واقعے کاہندوستانی ردِعمل دیکھنا اور پرکھنا قدرے مشکل ہے۔ تین چاردن سے میں پاکستانی اور دیگر بین الاقوامی چینلز مسلسل دیکھ رہاہوں،تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ معاملہ کس طرف جارہاہے۔
پاکستان میںایک انتہائی سطحی عمل بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ مختلف میڈیاپرسنز،شہرکی مصروف شاہراہ اورمارکیٹوں میں کھڑے ہوکرعام لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ دونوں ممالک کی جنگ ہونی چاہیے کہ نہیں۔رکشہ روک کرسوال کیاجاتا ہے کہ جنگ پرآپکے کیاتاثرات ہیں۔خریدوفروخت میں مصروف لوگوں کوپوچھاجاتاہے کہ اگرجنگ ہوئی تو پھر کیا ہوگا۔ سفارتی پیچیدگیوںسے بے بہرہ مرداورخواتین کا جواب ایک جیساہی ہوتاہے کہ جنگ ہوئی توہم دشمن کوتباہ کر ڈالینگے۔یہ جذبہ کس حدتک قابل قدرہے۔مگرکیاان لوگوں کو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ کااندازہ یاتجربہ ہے۔یہ جنگ صرف اورصرف جاپان نے دیکھی ہے۔
عوام توکیا،خواص کو بھی اندازہ نہیں کہ ایٹمی جنگ کتنی ہلاکت خیز ہوتی ہے۔ روایتی جنگ کے متعلق پھربھی کچھ کہاجاسکتاہے۔مگرایٹمی جنگ جو پاکستان کے پاس آخری آپشن کے طورپر موجود ہے،اس میں اگلے سیکڑوں سال تک تمام برصغیرصرف بنجرعلاقہ ہی ہوگا۔حیرت ہوتی ہے جب چندپڑھے لکھے لوگ بھی یہ کہتے ہیں کہ ایٹم بم بھی تواستعمال کرنے کے لیے ہوتا ہے۔نہیں،صاحب،نہیں۔ایٹم بم کسی بھی جنگ کو روکنے کے لیے ہوتاہے۔اس کے استعمال کے متعلق تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔امریکا اورروس بدترین دشمن ہیں۔ان کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے انبارلگے ہوئے ہیں۔مگرآج تک دونوں نے باہمی ایٹمی جنگ کاذکرتک نہیں کیا۔مگرہمارے ہاں جس جہالت کے ساتھ ذکرکیاجاتاہے،وہ ناقابل قبول ہے۔ یہی معاملہ انڈیامیں ہے۔عوام کوپروپیگنڈے کے زورپراس درجہ متاثرکردیاگیاہے کہ اپنے ہرمسئلے کی جڑ پاکستان میں ڈھونڈتے ہیں۔بی جے پی چونکہ ایک مذہبی جماعت ہے، لہذااس کی حکومت پاکستان کے ساتھ ایک جنگ کرناضروری گردانتی ہے۔انڈیامیں مجموعی طورپر حالات اورجذبات مکمل طورپرجنگ کی جانب رواں دواں ہیں۔بدقسمتی دونوں طرف بال کھولے رقص کررہی ہے۔ وزیراعظم مودی کارویہ حددرجہ غیرذمے دارانہ ہے۔ راجھستان میں تقریرکرتے وقت انھوں نے جوکچھ کہا ہے، وہ کسی بزرگ سیاستدان کا نہیں، بلکہ کسی ادنیٰ شخص ہی کا ہو سکتاہے۔اس نازک موڑپرمودی جیساشدت پسند انسان، معاملے کی کشیدگی کوحددرجہ بڑھا رہا ہے۔
اس کے برعکس،وزیراعظم عمران خان نے کمال مدبرپن کاثبوت دیاہے۔یہ کہناکہ''آپ آئیں اور دہشت گردی پر بات کریں۔کوئی ٹھوس ثبوت دیں تو پاکستان ان عناصرکے خلاف اپنے مفادمیں فوری کارروائی کریگا''۔یہ بات آج تک کسی وزیراعظم نے نہیں کہی۔اس سنجیدہ بیان کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان نے مشاورت ان لوگوں اور اداروں سے کی ہے، جو موقعے کی نزاکت اور مضمرات کو خوب سمجھتے ہیں۔ورنہ یہاں توایسے دانشوروں کی کوئی کمی نہیں، جو اپنے کالموں، بیانات اورٹاک شوزمیں ہر مسئلہ میں مذہبی علم کوپیش کرنا لازم سمجھتے ہیں۔انھوں نے موجودہ علوم اور جدید کتابوں کونہ پڑھنے کی قسم کھارکھی ہے۔دین کاوہ رخ پیش کرتے ہیں جوآج کی دنیامیں ایک انچ پربھی نافذنہیں ہے۔ عربوں کی تاریخ کی تین چار کتابیں رَٹ کروہ جدیدعلم کے نزدیک جاناکفرسمجھتے ہیں۔
انتہائی سفاکی سے ملک میں جدت پسندی اورحقیقت کی دنیاکی نفی کرتے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم نے دلیل پربات کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔خان سے لاکھ اختلافات کریں،مگرآپ اس کی مدلل تقریرکی تعریف کیے بغیرنہیں رہ سکتے۔اس کے برعکس مودی بطور وزیراعظم انتہائی متعصب اور غیر حقیقی رویہ اپنائے ہوئے ہے۔یہ کہنا کہ فوج کوکھلاہاتھ دیدیاہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔یہ ایک ایٹمی طاقت کے ملک کے وزیراعظم کا نہیں ہوناچاہیے۔وہ اس وقت عوامی جلسوں کااہتمام کررہے ہیں۔پاکستان کوسبق سکھانے کی باتیں کررہے ہیں۔مودی کاتعلق بی جے پی کے عسکری ونگ سے ہے۔ اس لیے ان کی پوری زندگی کی ذہنی تربیت اور خواہشات، زبان وبیاں پر جاری ہیں۔بیانیہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کو اَزحدنقصان پہنچایا جائے۔
پاکستان میں عمران خان اورعسکری ادارے پوری کوشش کررہے ہیں کہ معاملہ کوبگڑنے نہ دیاجائے۔ مگر حیرت نہیں دکھ کی بات ہے کہ جناب شہبازشریف اور جناب زرداری صاحب کسی بھی طرح اس مشکل وقت میں قومی یک جہتی کارویہ اپنانے کوتیارنہیں ہے۔شہبازشریف تو پھربھی ایک آدھی بارحالیہ صورتحال پربیان دے چکے ہیں۔ مگرزرداری صاحب تومکمل طورپرخاموش ہیں۔اس نازک وقت پرسراج درانی کے ساتھ یکجہتی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔بہرحال آج کاموضوع ان دونوں خاندانوں کے مقدمات نہیں،بلکہ اس کڑے وقت میں ان کا غیرمشروط تعاون کانہ ہوناہے۔ویسے اب تولگتاہے کہ انکاعدم تعاون ہمارے ملک کے لیے شائدبہترہے۔ان کے بیانات توعالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف ہندوستانی وکلاء نے بطور ثبوت پیش کیے ہیں۔کیایہ قابل قبول ہے۔
پوری دنیادونوں متحارب ممالک کے رویوں پر پریشان ہے۔سفارتی سطح پرپاکستان بھی ہرگز ہرگز تنہا نہیں ہے۔ ہندوستان ہمارے خلاف بھرپورسفارت کاری میں مصروف ہے۔دونوں ملک اپنی اپنی حکمتِ عملی میں کامیاب ہیں۔ مگر دیکھاجائے تودونوں ممالک کاغریب آدمی ہرطرح سے ناکام ہے۔اس کے متعلق کیابات کی جائے بلکہ کیوں کی جائے۔اس لیے کہ ہمارے اصل دشمن توجہالت،غربت اور شدت پسندی ہے مگرکسی کوان دشمنوں سے جنگ کرنے کی فرصت نہیں۔ایٹمی ممالک جوہرطرح کے کیل کانٹے سے لیس ہیں،جوایک دوسرے کوفناکرسکتے ہیں،تباہ کرسکتے ہیں۔ ان کے درمیان صرف اورصرف امن ہوناچاہیے۔کسی صورت میں بھی جنگ نہیں ہونی چاہیے۔
پلوامہ کے خود کش حملہ پر بہت زیادہ توجہ نہ دی۔وجہ بالکل سادہ ہے۔جس دن سے ہوش سنبھالا ہے،پاکستان اورہندوستان کی باہمی چپقلش،جنگیں،سرحدی جھڑپیں اور نفرت پرمبنی بیانات کے سواکبھی کچھ دیکھنے یاسننے کوملاہی نہیںہے۔اب ان بُری خبروں کاعادی ہوچکاہوں۔سونے پرسہاگا،پاکستان میں ایک لاکھ کے قریب انسانی جانوں کے ضایع ہونے کے دلخراش دہشتگردی کے واقعات بھی ہیں۔ مسلسل واقعات نے مجھے ان تمام خبروں،واقعات کا عادی بنادیاہے۔کچھ لمحے افسوس کے۔اس کے بعدزندگی پھرسے رواں دواں۔ہمارے جیسے ملکوں میں انسانی زندگیوں کاالمیہ یہ ہے کہ وہ خوشی کی عادی نہیں رہتیں۔
وہ المناک خبروں کواپناحال اورمستقبل جان کربیکار زندگی گزارنے کی عادت بنالیتیں ہیں۔دوسال قبل میں اکثرملک سے باہر جاتا تھا۔ مگر اب عرصے سے کسی مغربی ملک میں نہیں گیا۔ صرف اس لیے کہ واپس آکراپنی ذہنی اورسماجی پسماندگی دیکھ کر دکھ ہوتاہے۔ یاخدا،اگرمغربی دنیامیں رہنے والے انسان ہیں توہم کیا ہیں۔بالکل اسی تناظرمیں مقبوضہ کشمیرمیں ہونے والے خودکش دھماکے کوکوئی اہمیت نہیں دی۔ ٹھیک ہے، ہوگیا۔ الزامات کی بارش ہوگی، مغربی ممالک صلح کروائینگے اور پھر دونوں ممالک خاموشی سے زندگی گزارنے لگ جائینگے۔
حملے کے تین چاردن بعد عابدصاحب کافون آیا۔ حسبِ معمول اپنی چھوٹی سی لائبریری میں بیٹھاہواتھا۔کہنے لگے کہ کیاآپ نے جوہندوستانی سپاہی پلوامہ کے خودکش حملے میں مارے گئے ہیں،ان کی آخری رسومات دیکھی ہیں۔ جواب تھاکہ نہیں۔شائداس لیے بھی کہ ٹی وی دیکھنا تقریباً متروک کرچکاہوں۔زیادہ سے زیادہ انیمل پلانیٹ (Animal Planet)دیکھنے پراکتفاکرتاہوں۔ٹی وی چینل نہ دیکھنے کی وجہ بالکل عام سی ہے۔وہ حضرات جو درست اردوبول نہیں سکتے،جنہوں نے ہرموضوع پربغیر مطالعے کیے جہالت پھیلانے کاعزم کررکھاہے،جنہوں نے شام کو سوٹ اورٹائیاں لگاکرجزوی عالم اورتجزیہ کاربننے کو شعارِزندگی بنارکھاہے۔چندخواتین جوپارلرسے تیار ہوکر، بغیرکسی مطالعہ اورمشاہدہ پرسنجیدہ ترین موضوعات پرادنیٰ گفتگوکرنے کاحوصلہ رکھتی ہیں،مجھے اس طرح کے مناظرے یاٹی وی ٹاک شودیکھنا مناسب نہیں لگتا۔ ہاں، مجھے ڈیوڈفروسٹ(David Frost)جیسے سنجیدہ میڈیا پرسنز پسندہیں جن میں مطالعے کی گہرائی،سچ بولنے کی ہمت اورتحقیق کی جستجوہے۔بہرحال عابدکے فون نے مجبور کردیا کہ ہندوستانی چینل دیکھوں۔انٹرنیٹ پر ہندی، اردو اور انگریزی چینل دیکھے۔ششدررہ گیا۔
جوسپاہی پلوامہ میں مارے گئے تھے۔ ان کی آخری رسومات کے لیے تقریباً ہر شہر میں ہزاروں نہیں لاکھوں کامجمع تھا۔ہندوستانی میڈیا پرجنگی ترانے چل رہے تھے۔وطن دوستی کے نعرے لگ رہے تھے۔ پاکستان کے خلاف نعرے لگ رہے تھے۔ یہ خصوصی ٹرانسمیشن دیکھنے کے بعد اندازہ ہواکہ اس واقعے کاردِعمل پہلے سے مختلف ہوسکتاہے ۔پلوامہ واقعے کے ردِعمل میں دونوں ملکوں میں باہمی جنگ ہوسکتی ہے۔کیونکہ ہمارے ملک میں انڈین چینل دیکھنے کی سہولت عام نہیں ہے۔اس لیے عوامی سطح پرپلوامہ کے واقعے کاہندوستانی ردِعمل دیکھنا اور پرکھنا قدرے مشکل ہے۔ تین چاردن سے میں پاکستانی اور دیگر بین الاقوامی چینلز مسلسل دیکھ رہاہوں،تاکہ معلوم ہوسکے کہ یہ معاملہ کس طرف جارہاہے۔
پاکستان میںایک انتہائی سطحی عمل بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ مختلف میڈیاپرسنز،شہرکی مصروف شاہراہ اورمارکیٹوں میں کھڑے ہوکرعام لوگوں سے پوچھتے ہیں کہ دونوں ممالک کی جنگ ہونی چاہیے کہ نہیں۔رکشہ روک کرسوال کیاجاتا ہے کہ جنگ پرآپکے کیاتاثرات ہیں۔خریدوفروخت میں مصروف لوگوں کوپوچھاجاتاہے کہ اگرجنگ ہوئی تو پھر کیا ہوگا۔ سفارتی پیچیدگیوںسے بے بہرہ مرداورخواتین کا جواب ایک جیساہی ہوتاہے کہ جنگ ہوئی توہم دشمن کوتباہ کر ڈالینگے۔یہ جذبہ کس حدتک قابل قدرہے۔مگرکیاان لوگوں کو ایٹمی ملکوں کے درمیان جنگ کااندازہ یاتجربہ ہے۔یہ جنگ صرف اورصرف جاپان نے دیکھی ہے۔
عوام توکیا،خواص کو بھی اندازہ نہیں کہ ایٹمی جنگ کتنی ہلاکت خیز ہوتی ہے۔ روایتی جنگ کے متعلق پھربھی کچھ کہاجاسکتاہے۔مگرایٹمی جنگ جو پاکستان کے پاس آخری آپشن کے طورپر موجود ہے،اس میں اگلے سیکڑوں سال تک تمام برصغیرصرف بنجرعلاقہ ہی ہوگا۔حیرت ہوتی ہے جب چندپڑھے لکھے لوگ بھی یہ کہتے ہیں کہ ایٹم بم بھی تواستعمال کرنے کے لیے ہوتا ہے۔نہیں،صاحب،نہیں۔ایٹم بم کسی بھی جنگ کو روکنے کے لیے ہوتاہے۔اس کے استعمال کے متعلق تو سوچا بھی نہیں جا سکتا۔امریکا اورروس بدترین دشمن ہیں۔ان کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کے انبارلگے ہوئے ہیں۔مگرآج تک دونوں نے باہمی ایٹمی جنگ کاذکرتک نہیں کیا۔مگرہمارے ہاں جس جہالت کے ساتھ ذکرکیاجاتاہے،وہ ناقابل قبول ہے۔ یہی معاملہ انڈیامیں ہے۔عوام کوپروپیگنڈے کے زورپراس درجہ متاثرکردیاگیاہے کہ اپنے ہرمسئلے کی جڑ پاکستان میں ڈھونڈتے ہیں۔بی جے پی چونکہ ایک مذہبی جماعت ہے، لہذااس کی حکومت پاکستان کے ساتھ ایک جنگ کرناضروری گردانتی ہے۔انڈیامیں مجموعی طورپر حالات اورجذبات مکمل طورپرجنگ کی جانب رواں دواں ہیں۔بدقسمتی دونوں طرف بال کھولے رقص کررہی ہے۔ وزیراعظم مودی کارویہ حددرجہ غیرذمے دارانہ ہے۔ راجھستان میں تقریرکرتے وقت انھوں نے جوکچھ کہا ہے، وہ کسی بزرگ سیاستدان کا نہیں، بلکہ کسی ادنیٰ شخص ہی کا ہو سکتاہے۔اس نازک موڑپرمودی جیساشدت پسند انسان، معاملے کی کشیدگی کوحددرجہ بڑھا رہا ہے۔
اس کے برعکس،وزیراعظم عمران خان نے کمال مدبرپن کاثبوت دیاہے۔یہ کہناکہ''آپ آئیں اور دہشت گردی پر بات کریں۔کوئی ٹھوس ثبوت دیں تو پاکستان ان عناصرکے خلاف اپنے مفادمیں فوری کارروائی کریگا''۔یہ بات آج تک کسی وزیراعظم نے نہیں کہی۔اس سنجیدہ بیان کی اصل وجہ یہ بھی ہے کہ عمران خان نے مشاورت ان لوگوں اور اداروں سے کی ہے، جو موقعے کی نزاکت اور مضمرات کو خوب سمجھتے ہیں۔ورنہ یہاں توایسے دانشوروں کی کوئی کمی نہیں، جو اپنے کالموں، بیانات اورٹاک شوزمیں ہر مسئلہ میں مذہبی علم کوپیش کرنا لازم سمجھتے ہیں۔انھوں نے موجودہ علوم اور جدید کتابوں کونہ پڑھنے کی قسم کھارکھی ہے۔دین کاوہ رخ پیش کرتے ہیں جوآج کی دنیامیں ایک انچ پربھی نافذنہیں ہے۔ عربوں کی تاریخ کی تین چار کتابیں رَٹ کروہ جدیدعلم کے نزدیک جاناکفرسمجھتے ہیں۔
انتہائی سفاکی سے ملک میں جدت پسندی اورحقیقت کی دنیاکی نفی کرتے ہیں۔ پاکستانی وزیراعظم نے دلیل پربات کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔خان سے لاکھ اختلافات کریں،مگرآپ اس کی مدلل تقریرکی تعریف کیے بغیرنہیں رہ سکتے۔اس کے برعکس مودی بطور وزیراعظم انتہائی متعصب اور غیر حقیقی رویہ اپنائے ہوئے ہے۔یہ کہنا کہ فوج کوکھلاہاتھ دیدیاہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔یہ ایک ایٹمی طاقت کے ملک کے وزیراعظم کا نہیں ہوناچاہیے۔وہ اس وقت عوامی جلسوں کااہتمام کررہے ہیں۔پاکستان کوسبق سکھانے کی باتیں کررہے ہیں۔مودی کاتعلق بی جے پی کے عسکری ونگ سے ہے۔ اس لیے ان کی پوری زندگی کی ذہنی تربیت اور خواہشات، زبان وبیاں پر جاری ہیں۔بیانیہ صرف ایک ہے کہ پاکستان کو اَزحدنقصان پہنچایا جائے۔
پاکستان میں عمران خان اورعسکری ادارے پوری کوشش کررہے ہیں کہ معاملہ کوبگڑنے نہ دیاجائے۔ مگر حیرت نہیں دکھ کی بات ہے کہ جناب شہبازشریف اور جناب زرداری صاحب کسی بھی طرح اس مشکل وقت میں قومی یک جہتی کارویہ اپنانے کوتیارنہیں ہے۔شہبازشریف تو پھربھی ایک آدھی بارحالیہ صورتحال پربیان دے چکے ہیں۔ مگرزرداری صاحب تومکمل طورپرخاموش ہیں۔اس نازک وقت پرسراج درانی کے ساتھ یکجہتی میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔بہرحال آج کاموضوع ان دونوں خاندانوں کے مقدمات نہیں،بلکہ اس کڑے وقت میں ان کا غیرمشروط تعاون کانہ ہوناہے۔ویسے اب تولگتاہے کہ انکاعدم تعاون ہمارے ملک کے لیے شائدبہترہے۔ان کے بیانات توعالمی عدالت میں پاکستان کے خلاف ہندوستانی وکلاء نے بطور ثبوت پیش کیے ہیں۔کیایہ قابل قبول ہے۔
پوری دنیادونوں متحارب ممالک کے رویوں پر پریشان ہے۔سفارتی سطح پرپاکستان بھی ہرگز ہرگز تنہا نہیں ہے۔ ہندوستان ہمارے خلاف بھرپورسفارت کاری میں مصروف ہے۔دونوں ملک اپنی اپنی حکمتِ عملی میں کامیاب ہیں۔ مگر دیکھاجائے تودونوں ممالک کاغریب آدمی ہرطرح سے ناکام ہے۔اس کے متعلق کیابات کی جائے بلکہ کیوں کی جائے۔اس لیے کہ ہمارے اصل دشمن توجہالت،غربت اور شدت پسندی ہے مگرکسی کوان دشمنوں سے جنگ کرنے کی فرصت نہیں۔ایٹمی ممالک جوہرطرح کے کیل کانٹے سے لیس ہیں،جوایک دوسرے کوفناکرسکتے ہیں،تباہ کرسکتے ہیں۔ ان کے درمیان صرف اورصرف امن ہوناچاہیے۔کسی صورت میں بھی جنگ نہیں ہونی چاہیے۔