کاش ایسا ہوجائے
اسرائیل کی جعلی اور غیر قانونی ریاست کی مخالفت ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ ہے
SIALKOT/
MULTAN:
مغرب کے سامراجی ملکوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ پسماندہ ملکوں کو مختلف حوالوں سے بانٹ کر رکھا جائے، ان میں ایسے اختلافات پیدا کر دیے جائیں کہ وہ ایک دوسرے کے قریب نہ آسکیں ،ان پیدا کردہ اختلافات کو استعمال کرکے سیاسی اور معاشی فوائد حاصل کیے جائیں، اس گندے کھیل میں ریفری ہمیشہ انکل سام رہا ہے۔ جب سے امریکا میں ٹرمپ برسر اقتدار آئے ہیں،اس کھیل میں بڑی گیرائی اور گہرائی آتی جا رہی ہے لیکن اسے تاریخ کی ستم ظریفی کہیں یا حالات کا جبر کہ پسماندہ ملکوں میں عوام کے دباؤ کی وجہ حکمران طبقات اپنے دیرینہ اختلافات کو بھول کر ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایران اور مشرق وسطیٰ کے عرب ملکوں کے درمیان مغرب نے جو معنوی اختلافات پیدا کر رکھے تھے، وہ اب آہستہ آہستہ دم توڑ رہے ہیں اور مختلف متحارب ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کا آغاز ہو رہا ہے، اس حوالے سے ایرانی صدر حسن روحانی کا بیان ایران اور عربوں کے درمیان تعلقات کی استواری کا راستہ کھولتا نظر آرہا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے ملکی ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی اپنی ایک تقریر میں کہا ہے کہ تہران حکومت خلیج کی عرب ریاستوں کے ساتھ قریبی اور بہتر تعلقات کی خواہش رکھتی ہے، انھوں نے کہا کہ ایران خطے میں سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے علاقائی ریاستوں کے ساتھ مکالمے کے لیے تیار ہے ۔انھوں نے ایرانی عوام کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے مشترکہ دشمن امریکا اور اسرائیل ایرانی عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ان عوام دشمن طاقتوں کی پالیسی ناکام ہوگی۔
جرمنی میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ یورپ کو ایران کے ساتھ جوہری ڈیل برقرار رکھنے کے لیے مزید عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ہفتے کو اسی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی نائب صدر نے ایران پر ایک نئے ہولوکاسٹ کی تیاری کا الزام لگایا تھا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی نے کہا امریکی نائب صدر کے الزامات ایرانی عوام کے اسرائیل دشمن جذبات پر اثرانداز نہیں ہوں گے، کیونکہ مسلم ممالک کے حوالے سے امریکا کی پالیسی ایرانی عوام کو تقسیم کرنے کی پالیسی ہے۔ ماضی میں بھی ایرانی عوام کے اسرائیل دشمن جذبات کو ختم کرنے کی بہت کوشش کی گئی لیکن ایرانی عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل کی سیاست ایران دشمنی پر استوار ہے۔ اسرائیل کی جعلی اور غیر قانونی ریاست کی مخالفت ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل ایک مذہبی ریاست ہے اور فلسطینی عوام کے خلاف اس کی ریاستی دہشتگردی سے مسلم ملکوں کے عوام میں سخت نفرت پائی جاتی ہے۔ اسرائیل کی پیدائش جیسی بھی ہو لیکن اسرائیل کی سیاست نے سارے مسلم ممالک کے عوام کے دلوں میں اسرائیل کے خلاف نفرت کے جو جذبات پیدا کردیے ہیں وہ اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام بند نہیں کرتا اور فلسطینی ریاست کی تشکیل کی راہ میں روڑے اٹکانا نہیں چھوڑتا۔ اگر یہودیوں کو اپنا ایک الگ ملک چاہیے تھا تو فلسطینیوں کو بھی اپنا ایک علیحدہ اور آزاد ملک درکار ہے جس کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں۔
سامراجی ملکوں نے مشرق وسطیٰ میں عربوں کی تیل کی دولت پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے یہودیوں کے حقوق کے نام پر جو صیہونی ریاست تشکیل دی، اس کا اصل مقصد عربوں کے تیل کی دولت پر قبضہ برقرار رکھنا تھا۔ اسرائیل امریکا کی ایما پر 70 سال سے عربوں کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرتا آرہا ہے جس کی مزاحمت مصر کے مرحوم صدر جنرل ناصر سے لے کر آج تک جاری ہے ۔ اس تنازع کی وجہ سے امریکا اور دیگر مغربی ملکوں کو جو اقتصادی فوائد حاصل ہو رہے ہیں، اس کے علاوہ مغرب کی اسلحہ ساز کمپنیوں کا اربوں ڈالر کا اسلحہ بھی فروخت ہو رہا ہے جس کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک اسرائیل عربوں کے سر پر سوار رہے گا اور عربوں اور ایرانیوں کے درمیان اختلافات کی خلیج حائل رہے گی۔
ایک طویل عرصے بعد ایران کی طرف سے عربوں سے تعلقات بہتر بنانے کی غیر مشروط خواہش کا اظہار کیا گیا ہے، جسے ہم ایران کی خارجہ پالیسی کا ایک مثبت پہلو کہہ سکتے ہیں۔ یہاں اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ امریکا نے اپنے قومی مفادات اور عربوں کے تیل پر بغیر رکاوٹ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے نہ صرف اسرائیل کو عربوں کے سر پر مسلط کر رکھا ہے بلکہ ایران اور مشرق وسطیٰ کی عرب ریاستوں کے درمیان بھی کشیدگی کو ہوا دیتا آرہا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کی عرب ملکوں سے تعلقات کی بہتری کی خواہش اسرائیلی مفادات کو زک پہنچاتی ہے۔
ایران سے عربوں کے دو طرح کے اختلافات ہیں، ایک فقہ کی بنیاد پر دوسرے امریکا سے دوستی کے حوالے سے۔ ایران امریکا کو اپنا ازلی دشمن سمجھتا ہے اور امریکا سے عربوں کی دوستی کی بنیادیں بھی بہت گہری ہیں جسے آسانی سے توڑا نہیں جاسکتا۔ دنیا میں اکیسویں صدی کا انسان دوست کلچر عام ہو رہا ہے، اب عقائدی نظام کم ازکم ترقی یافتہ دنیا میں درہم و برہم ہو رہا ہے۔ مسلم ملکوں میں شرح تعلیم کی کمی اور طرز حکمرانی نے ذہنی پسماندگی کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کی وجہ یہ رجحان مسلم ملکوں کے درمیان دوری کا سبب بنا ہوا ہے۔ ایران اور عربوں کے تعلقات کی خرابی میں بھی فقہی اختلافات ایک بڑا فیکٹر بنے ہوئے ہیں۔
یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ پاکستان کے ایران سے خوشگوار تعلقات ہیں اور عربوں سے دوستی میں اور بہتری آرہی ہے، عربوں میں سعودی عرب کے اثر و رسوخ سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اب سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں اور مضبوطی اور استحکام آئے گا ۔ عمران خان وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے سعودی عرب اور ایران کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جس کا اظہار وزیر اعظم عمران خان نے بارہا کیا ہے۔ سعودی عرب عربوں میں اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے عرب ملکوں کو ایران کے قریب لانے میں بہت مثبت کردار ادا کرسکتا ہے۔ کاش ایسا ہوجائے!