پاکستان کی خارجہ پالیسی میں مثبت اشارے
پاکستان کو بھارت، افغانستان، ایران اور امریکا سے تعلقات کی بہتری میں مزید وسعت پیدا کرنا ہوگی
پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت کو داد دینی ہوگی کہ ہم نے پچھلے کچھ عرصے میں اپنی خارجہ پالیسی میں موجود بڑے چیلنجزسے بہتر انداز سے نمٹنے کی مثبت کوششیں کی ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس وقت پاکستان خارجہ پالیسی میں علاقائی اور عالمی سیاست میں ایک اہم فریق کے طور پر کھڑا ہے اور سب کی نظریں پاکستان پر ہیں۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان محض سیاسی قیادت کی سطح پر ہی نہیں بلکہ وفود کی سطح پر وزرائے خارجہ، وزرائے تجارت اورنجی شعبے کے اہم رابطو ں، فیصلوں اور نتائج کا ٰذریعہ بنا ہے اوراس دورے کی مدد سے دونوں ملکوں نے عالمی برادری کو اہم پیغامات بھی دیے ہیں۔
اس دورے سے اس تاثر کو بھی ختم کرنے میں مدد ملی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں جو کچھ مسائل بھی تھے اب وہ نہیں ہیں۔ سعودی ولی عہد کے بقول وہ پاکستان کو 2030ء میںایک بڑی معیشت کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اس معاشی ترقی میں ہم اپنا حصہ بھی ڈالنا چاہتے ہیں اہم ہے ۔اسی طرح سعودی ولی عہد کا یہ کہنا کہ وہ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر کے طور پر موجود ہیں، غیر معمولی جملہ ہے۔
افغانستان کے تناظر میں امریکا کا پاکستان پر بڑھتا ہوا انحصار بھی ہماری اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ امریکا کی پالیسی سازوں کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ افغان امن پاکستان کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان نے جس دیانتداری سے افغان طالبان کے امریکا اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے عمل میں مفاہمت اور راستہ دکھانے یا ماحول یا دربار سجانے میں جو کردار ادا کیا ہے اس سے امریکا اور پاکستان کے درمیان جو بداعتمادی تھی وہ بھی کم ہوئی ہے۔
کچھ عرصے پہلے ملک کے اندر اورباہر سے پاکستان کی سیاسی تنہائی کی باتیں شدت سے کی جارہی تھیں۔ یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ عالمی دنیا پاکستان کی نئی حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور وزیر اعظم عمران خان کو خارجہ پالیسی میں عالمی قیادت ایک سخت مزاج فرد کے طور پر سمجھتی ہے۔ لیکن اس حکومت کے چھ ماہ میں پاکستان کے اتحادی ممالک سعودی عرب، قطر، یواے ای، ترکی، ملایشیا نے جیسے ابتدائی طورپر ہمیں معاشی بحران سے نکلنے میں مدد کی وہ ظاہر کرتا ہے کہ دوست ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی اب اس حقیقت کو تسلیم کیا جارہا ہے کہ پاکستان کا دہشتگردی کے خاتمے میں کلیدی کردار ہے۔
سعودی قیادت کی جانب سے اس بات کا عندیہ دینا کہ وہ پاکستان اوربھارت کے درمیان موجود کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا، اہم پیغام ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اگر سی پیک منصوبے میں تیسرے فریق کے طورپر شامل ہوتا ہے تو اس کا عملی نتیجہ اس خطے میں معاشی استحکام کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے ۔چین نے بھی سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت کی حمایت کی ہے جو مثبت اشارہ ہے ۔سعودی ولی عہد کا یہ کہنا کہ تنازعات کا حل جنگ نہیں بات چیت سے ہی ممکن ہے پاکستان کے موقف کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ سعودی عرب کا بھارت پاکستان سمیت افغان حل میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہش پاکستان کو مستحکم کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔اگر امریکا جیسی بڑی طاقت طالبان کے سامنے مجبور ہوگئی ہے کہ مسئلہ جنگ سے نہیں بلکہ مذاکرات سے ہی حل ہوگا تو یہ بات بھارت کو بھی سمجھنی ہوگی۔ آج نہیں تو کل بھارت کو وہی رویہ اختیار کرنا ہوگا جو آج امریکا نے طالبان کے ساتھ اختیار کیا ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چند اہم نکات مثبت ہیں۔ اول ہماری سیاسی اور عسکری قیادت برملا کہہ چکی ہے کہ ہم کسی کی پراکسی جنگ نہیں لڑیں گے۔ نہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف اورنہ ہی کسی کو اس بات کی اجازت دیں گے کہ وہ اپنی سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال کرے ۔دوئم انتہا پسند قوتوں کے بارے میں بھی اب ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان کوئی ابہام نہیں اور ہم ماضی کی طرح اچھے اوربرے کے درمیان پھنسے ہوئے نہیں ہیں اورہر صورت میں اس کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ سوئم بھارت سمیت سب کے ساتھ بہتر تعلقات، جنگوں کے مقابلے میں انسانی ترقی اور تنازعات کے حل کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔چہارم تواتر سے ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ دہشتگردی جیسے مرض کا سامنا خطے کے سب ممالک کو درپیش ہے اوراس کا حل ایک دوسرے پر الزام تراشیاں نہیں بلکہ مشترکہ طور پر اینٹی ٹیررازم میکنزم پر مل کر کام کرنے سے جڑا ہے ۔ پنجم اس وقت سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک پیچ پر رہنا بھی اہم کنجی ہے۔
یہ ہماری خارجہ پالیسی کا ہی مثبت اشارہ ہے کہ آنے والے کچھ عرصے میں ملایشیا، ترکی کی قیادت پاکستان آنے والی ہے اور اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ دیگر ملکوںکی قیادت بھی باہمی رابطوں میں مثبت اشارے دے گی۔ اگر پاکستان طالبان، امریکا اور افغان حکومت کے درمیان کسی مفاہمت کے فارمولے کو کامیاب بنانے میں کامیاب ہوتا ہے تو اس سے پاکستان کی عالمی حیثیت میں اور زیادہ اہمیت بڑھ جائے گی۔ ماضی میں نواز شریف کی حکومت نے وزیر خارجہ جیسے اہم منصب پر تقرری نہ کرکے اس ملک کی خدمت نہیں کی ۔ یہاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو داد دینی ہوگی کہ انھوں خارجی محاذ پر بڑی محنت اورجانفشانی سے کام کرکے ملک کی خارجہ پالیسی میں بہتری کے نئے امکانات پیدا کیے ہیں ۔ خارجہ محاذ پر فوجی قیادت کی بھی تعریف کرنی ہوگی ۔کیونکہ جس طرح فوجی قیادت نے علاقائی اور عالمی سیاست میں پاکستان کے تناظر میں موجود مسائل کے حل میںاپنا کردار ادا کیا وہ بھی قابل تعریف ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے تناظر میں جو نئے مثبت امکانات ابھر رہے ہیں ہمیں بطور پاکستان اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہوگا ۔ ضروری ہے کہ ہم داخلی محاذ پر تین اہم معاملات پر توجہ دیں۔ ان میں معاشی صورتحال میں بہتری، طرز حکمرانی کے مسائل سے نجات، سیاسی محاذ پر استحکام اوراپنے داخلی مسائل جو دنیا میں شک کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں جن میں دہشتگردوں کے خلاف موثر کارروائی پر بھرپور توجہ دینی ہوگی ۔ہمارے یہاں جو داخلی مسائل ہیں ان کو کم کرنا اور ایسے عناصر جو ہماری ریاست کے استحکام کے خلاف کام کر رہے ہیں ان کی سرکوبی کرنی ہو گی۔اس نکتہ پر سیاسی اور عسکری قیادت کو زیادہ مضبوطی سے کھڑا ہونا ہو گا کہ ہم مستقبل میں کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے اور ہر ملک سے ہماری حمایت علاقہ کے استحکام سے جڑی ہونی چاہیے۔ہم ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کریں کیونکہ یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
پاکستان کو بھارت، افغانستان، ایران اور امریکا سے تعلقات کی بہتری میں مزید وسعت پیدا کرنا ہوگی اور بالخصوص سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر اپنے سفارتخانوں، اہل دانش اور میڈیا کی مدد سے پاکستان کو دنیا سے مثبت انداز میں جوڑکر ملک کی مثبت تصویر پیش کرنا ہوگی۔ دنیا کو یہ باورکروانا ہوگا کہ ہم بھارت سمیت سب سے بہتر تعلقات کے عملی حامی ہیں اوراگر کہیں تعلقات کی بہتری یا مذاکراتی عمل میںکوئی رکاوٹ ہے تو اس کا سبب ہم نہیں بلکہ دوسرے ہیں جوبدستور ڈیڈ لاک پیدا کرنے کی پالیسی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اوریہ ہی عمل ہمیں دنیا میں زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنائے گا۔
اس دورے سے اس تاثر کو بھی ختم کرنے میں مدد ملی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب میں جو کچھ مسائل بھی تھے اب وہ نہیں ہیں۔ سعودی ولی عہد کے بقول وہ پاکستان کو 2030ء میںایک بڑی معیشت کے طور پر دیکھ رہے ہیں اور اس معاشی ترقی میں ہم اپنا حصہ بھی ڈالنا چاہتے ہیں اہم ہے ۔اسی طرح سعودی ولی عہد کا یہ کہنا کہ وہ سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر کے طور پر موجود ہیں، غیر معمولی جملہ ہے۔
افغانستان کے تناظر میں امریکا کا پاکستان پر بڑھتا ہوا انحصار بھی ہماری اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ امریکا کی پالیسی سازوں کو یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ افغان امن پاکستان کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان نے جس دیانتداری سے افغان طالبان کے امریکا اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کے عمل میں مفاہمت اور راستہ دکھانے یا ماحول یا دربار سجانے میں جو کردار ادا کیا ہے اس سے امریکا اور پاکستان کے درمیان جو بداعتمادی تھی وہ بھی کم ہوئی ہے۔
کچھ عرصے پہلے ملک کے اندر اورباہر سے پاکستان کی سیاسی تنہائی کی باتیں شدت سے کی جارہی تھیں۔ یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ عالمی دنیا پاکستان کی نئی حکومت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں اور وزیر اعظم عمران خان کو خارجہ پالیسی میں عالمی قیادت ایک سخت مزاج فرد کے طور پر سمجھتی ہے۔ لیکن اس حکومت کے چھ ماہ میں پاکستان کے اتحادی ممالک سعودی عرب، قطر، یواے ای، ترکی، ملایشیا نے جیسے ابتدائی طورپر ہمیں معاشی بحران سے نکلنے میں مدد کی وہ ظاہر کرتا ہے کہ دوست ممالک ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ عالمی سطح پر بھی اب اس حقیقت کو تسلیم کیا جارہا ہے کہ پاکستان کا دہشتگردی کے خاتمے میں کلیدی کردار ہے۔
سعودی قیادت کی جانب سے اس بات کا عندیہ دینا کہ وہ پاکستان اوربھارت کے درمیان موجود کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا، اہم پیغام ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اگر سی پیک منصوبے میں تیسرے فریق کے طورپر شامل ہوتا ہے تو اس کا عملی نتیجہ اس خطے میں معاشی استحکام کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے ۔چین نے بھی سی پیک میں سعودی عرب کی شمولیت کی حمایت کی ہے جو مثبت اشارہ ہے ۔سعودی ولی عہد کا یہ کہنا کہ تنازعات کا حل جنگ نہیں بات چیت سے ہی ممکن ہے پاکستان کے موقف کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔ سعودی عرب کا بھارت پاکستان سمیت افغان حل میں مثبت کردار ادا کرنے کی خواہش پاکستان کو مستحکم کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔اگر امریکا جیسی بڑی طاقت طالبان کے سامنے مجبور ہوگئی ہے کہ مسئلہ جنگ سے نہیں بلکہ مذاکرات سے ہی حل ہوگا تو یہ بات بھارت کو بھی سمجھنی ہوگی۔ آج نہیں تو کل بھارت کو وہی رویہ اختیار کرنا ہوگا جو آج امریکا نے طالبان کے ساتھ اختیار کیا ہے۔
پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چند اہم نکات مثبت ہیں۔ اول ہماری سیاسی اور عسکری قیادت برملا کہہ چکی ہے کہ ہم کسی کی پراکسی جنگ نہیں لڑیں گے۔ نہ اپنی سرزمین کسی کے خلاف اورنہ ہی کسی کو اس بات کی اجازت دیں گے کہ وہ اپنی سرزمین کو ہمارے خلاف استعمال کرے ۔دوئم انتہا پسند قوتوں کے بارے میں بھی اب ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان کوئی ابہام نہیں اور ہم ماضی کی طرح اچھے اوربرے کے درمیان پھنسے ہوئے نہیں ہیں اورہر صورت میں اس کا خاتمہ چاہتے ہیں ۔ سوئم بھارت سمیت سب کے ساتھ بہتر تعلقات، جنگوں کے مقابلے میں انسانی ترقی اور تنازعات کے حل کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔چہارم تواتر سے ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ دہشتگردی جیسے مرض کا سامنا خطے کے سب ممالک کو درپیش ہے اوراس کا حل ایک دوسرے پر الزام تراشیاں نہیں بلکہ مشترکہ طور پر اینٹی ٹیررازم میکنزم پر مل کر کام کرنے سے جڑا ہے ۔ پنجم اس وقت سیاسی اور عسکری قیادت کا ایک پیچ پر رہنا بھی اہم کنجی ہے۔
یہ ہماری خارجہ پالیسی کا ہی مثبت اشارہ ہے کہ آنے والے کچھ عرصے میں ملایشیا، ترکی کی قیادت پاکستان آنے والی ہے اور اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ دیگر ملکوںکی قیادت بھی باہمی رابطوں میں مثبت اشارے دے گی۔ اگر پاکستان طالبان، امریکا اور افغان حکومت کے درمیان کسی مفاہمت کے فارمولے کو کامیاب بنانے میں کامیاب ہوتا ہے تو اس سے پاکستان کی عالمی حیثیت میں اور زیادہ اہمیت بڑھ جائے گی۔ ماضی میں نواز شریف کی حکومت نے وزیر خارجہ جیسے اہم منصب پر تقرری نہ کرکے اس ملک کی خدمت نہیں کی ۔ یہاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو داد دینی ہوگی کہ انھوں خارجی محاذ پر بڑی محنت اورجانفشانی سے کام کرکے ملک کی خارجہ پالیسی میں بہتری کے نئے امکانات پیدا کیے ہیں ۔ خارجہ محاذ پر فوجی قیادت کی بھی تعریف کرنی ہوگی ۔کیونکہ جس طرح فوجی قیادت نے علاقائی اور عالمی سیاست میں پاکستان کے تناظر میں موجود مسائل کے حل میںاپنا کردار ادا کیا وہ بھی قابل تعریف ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے تناظر میں جو نئے مثبت امکانات ابھر رہے ہیں ہمیں بطور پاکستان اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا ہوگا ۔ ضروری ہے کہ ہم داخلی محاذ پر تین اہم معاملات پر توجہ دیں۔ ان میں معاشی صورتحال میں بہتری، طرز حکمرانی کے مسائل سے نجات، سیاسی محاذ پر استحکام اوراپنے داخلی مسائل جو دنیا میں شک کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں جن میں دہشتگردوں کے خلاف موثر کارروائی پر بھرپور توجہ دینی ہوگی ۔ہمارے یہاں جو داخلی مسائل ہیں ان کو کم کرنا اور ایسے عناصر جو ہماری ریاست کے استحکام کے خلاف کام کر رہے ہیں ان کی سرکوبی کرنی ہو گی۔اس نکتہ پر سیاسی اور عسکری قیادت کو زیادہ مضبوطی سے کھڑا ہونا ہو گا کہ ہم مستقبل میں کسی کی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے اور ہر ملک سے ہماری حمایت علاقہ کے استحکام سے جڑی ہونی چاہیے۔ہم ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے گریز کریں کیونکہ یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔
پاکستان کو بھارت، افغانستان، ایران اور امریکا سے تعلقات کی بہتری میں مزید وسعت پیدا کرنا ہوگی اور بالخصوص سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر اپنے سفارتخانوں، اہل دانش اور میڈیا کی مدد سے پاکستان کو دنیا سے مثبت انداز میں جوڑکر ملک کی مثبت تصویر پیش کرنا ہوگی۔ دنیا کو یہ باورکروانا ہوگا کہ ہم بھارت سمیت سب سے بہتر تعلقات کے عملی حامی ہیں اوراگر کہیں تعلقات کی بہتری یا مذاکراتی عمل میںکوئی رکاوٹ ہے تو اس کا سبب ہم نہیں بلکہ دوسرے ہیں جوبدستور ڈیڈ لاک پیدا کرنے کی پالیسی کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اوریہ ہی عمل ہمیں دنیا میں زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنائے گا۔