علم ہر قید ہر رکاوٹ سے آزاد
ہم کتنا ہی علم کیوں نہ حاصل کر لیں تب بھی ہمارے علم کی حیثیت کائنات، زمین اور آسمان کا علم رکھنے والے کے سامنےسمندر...
KARACHI:
ہم کتنا ہی علم کیوں نہ حاصل کر لیں تب بھی ہمارے علم کی حیثیت کائنات، زمین اور آسمان کا علم رکھنے والے کے سامنے سمندر کے قطرے سے زیادہ نہ ہو گی، کُل کائنات کا علم رکھنے والی ذات اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے لہٰذا اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا بجا ہو گا کہ علم خدا ہے اور خدا علم ہے اور جو علم کے حصول کے منکر ہیں وہ دراصل ذات باری تعالیٰ کے وجود کے منکر ہیں۔ علم ایک ایسا شعبہ ہے جس کے حصول پر دنیا بھر کے ممالک کا کوئی قانون پابندی عائد نہیں کرتا ہے، علم جغرافیائی حدود، مذہبی تعلیمات، مذاہب کے اصول و ضوابط و تعلیمات، رنگ و نسل ذات و جنس کی تفریق سے آزاد اور بالا تر ہوتا ہے۔ جو لوگ علم کے حصول میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والے ہیں وہ دراصل انسان کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔
بیشتر مستند روایات کے تحت جو پہلی وحی سرکار دو عالم ﷺ پر نازل کی گئی اس کا آغاز حصول علم کے درس سے ہی ہوتا (اقراء باسم ربک الذی خلق، خلق الانسان من علق) یعنی پڑھ اللہ کے نام سے جس نے تجھے خلق کیا، تجھے پیدا کیا... اس رب کے نام سے پڑھ... پڑھنے کو علم کے لاکھوں اجزاء میں سے ایک جز تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن مکمل علم ہر گز قرار نہیں دیا جا سکتا بدقسمتی سے علمائے سو اور چند آیات اور چند احادیث پڑھ لینے والوں نے اپنی سوچ و سمجھ کے مطابق اقراء کے معنی صرف اور صرف ''پڑھ'' بتائے ہیں یعنی کہ "Read" اگر صرف لکھے ہوئے کو پڑھ لینے کے عمل کو علم قرار دے دیا جائے تو ہر خبر پڑھنے والے اس حساب سے دنیا کے نامی گرامی اور چوٹی کے عالموں کی صف میں شامل ہوتے... خبریں پڑھنے والے ہی نیوٹن، ارشمیدس، آئن اسٹائن، گلیلیو، افلاطون اور سقراط بنتے۔ اقراء کے معنی لغوی اعتبار سے ''پڑھ'' کے نکالے جاتے ہیں لیکن بسا اوقات ایک لفظ کے ڈکشنری یا لغت میں معنی وہی ہوتے ہیں مگر اس کی Spirit ہوتی ہے کہ تلاش کرو، ڈھونڈو، سیکھو۔
ہم نے اتنے عظیم لفظ کو جوخداوند کی طرف سے آیا اس کو محدود کر دیا تا کہ اس کے حصول معنی، اس کا اصل مفہوم پس پشت چلا جائے اور صرف لغوی معنی سامنے آ جائیں۔ قرآن مجید میں ہے ''اور ہم نے تمہارے لیے زمین و آسمان کو مسخر کر دیا ہے اور اس میں نشانیاں ہیں علم والوں کے لیے'' ۔ اب اس آیت میں یہ کہا لکھا ہے کہ اس میں نشانیاں ہیں پڑھنے والوں کے لیے؟ تو علم کا مقصد صرف پڑھنا نہیں ہے علم دراصل مخفی یعنی چھپے ہوئے اور پوشیدہ خزانے کو دریافت کرنے اور خدانے جو ذہن عطا کیا ہے اسے استعمال کرنے کے معنوں میں آتا ہے کہ علم حاصل کرو یعنی غور کرو، فکر کرو، سوچو، ... جو فرد بھی مسلک، عقیدے یا جبر اور ظلم کے تحت طاقت استعمال کر کے علم کے حصول پر پابندی لگاتا ہے وہ انسانیت کا دشمن ہے اور ایسے فرد کو انسان کہنا انسان کی توہین ہے۔
آپ نے شاید کتابوں میں پڑھاہو یا بزرگوں سے سنا ہو گا کہ جب انگریزوں نے برصغیر پر قبضہ کیا تو بیشتر علماء نے فتویٰ دیا کہ انگریزی غیر مسلموں کی زبان ہے... اس زبان کو پڑھنا اور اس زبان کا جاننا اور اس زبان میں علم حاصل کرنا غیر شرعی ہے اور اب ایسے علماء کو عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے اس کے بعد آہستہ آہستہ جب لوگوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کی... تو بعض مولویوں نے فتوے دیے کہ بچیوں کو اسکول نہ بھیجا کرو بچیوں کا گھر سے باہر نکلنا، تعلیم حاصل کرنا غیر شرعی ہے، انھیں گھر میںدینی تعلیم دو... دنیاوی تعلیم تو بیکار ہے کیونکہ دنیا ختم ہو جائے گی... اصل جو کام آئے گی وہ دینی تعلیم ہے۔ بدقسمتی سے آج اکیسویں صدی میں بھی ہمارے پاکستان میں ایسے علماء موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ دنیاوی علم حاصل کرنا بیکار ہے، کیونکہ یہ علم تو دنیا کے ختم ہونے کے ساتھ ختم ہو جائے گا... اصل علم تو دینی علم ہے وہ حاصل کرو جو آخرت میں بھی کام آئے گا لہٰذا اب اس سوچ کو آپ کیا نام دیجیے گا؟
علم ہر قید ہر رکاوٹ سے آزاد ہوتا ہے اسے غلامی میں تبدیل کرنے والے ظالم، سفاک، درندہ صفت انسان ہوتے ہیں جو بظاہر انسان ہوتے ہیں لیکن ان کا ہر علم حیوانیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک عجیب تماشہ، ایک مذاق، ایک انتہائی گھنائونا ظلم، جبر اور غیر شرعی بات ہے کہ ہمارے ملک میں فرسودہ جاگیردارانہ، وڈیرانہ اور سردارانہ نظام آج بھی رائج ہے اور یہ جاگیردار، وڈیرے اور سردار اتنے طاقتور ہیں کہ یہ اپنی اپنی جاگیروں پر اسکول اور دیگر تعلیمی اداروں کو کھلنے نہیں دیتے۔ بڑے بڑے دانشور، اکابرین علم کے دعویدار، ریڈیو، ٹیلی ویژن پر بحث و مباحثے میں مذاکروںمیں آتے ہیں کہ ہمارے ملک میں illiteracy (ناخواندگی) زیادہ ہے، ہمارے ملک میں صحت کی سہولتیں کم ہیں۔ ہمارے ملک کی معاشی صورتحال خراب ہے، تعلیم کا تناسب بہت کم ہے، غربت زیادہ ہے، لہٰذا حکومت کو یہ کرنا چاہیے، یہ دانشور، اکابرین حصول علم کی راہ میں اصل رکاوٹ کا تذکرہ نہیں کرتے ایسا دانشور جو سچ کہہ نہ سکے کیا اسے دانشور قرار دیا جا سکتاہے؟ یہ اصل بات کیوں نہیں بتاتے کہ ہمارے ملک کی تمام تر بد حالی کا ذمے دار فرسودہ ، جاگیردارانہ، وڈیرانہ، سردارانہ نظام ہے جو 65 سال سے ملک میں رائج ہے اور دسری طرف علمائے سو کی ایک طویل قطار ہے جو علم کی راہ میں رکاوٹ ہے، ایسی صورتحال میں ملک میں نہ تو کبھی معاشی استحکام آئے گا نا ہی Literacy Rate بڑھے گا، نہ صرف عامہ کی سہولیات کبھی عام ہوں گی۔
ملک 65 سالوں سے بھکاری ہے... بھیک مانگتے مانگتے آدھا ملک فارغ ہو گیا اور بھیک مانگتے مانگتے خاکم بد ہن کہیں یہ باقی ماندہ ملک بھی فارغ نہ ہو جائے؟ میرے پیغام کو پورے پاکستان کے پڑھے لکھے طلبا و طالبات تک پہنچایئے کہ وہ باقی ماندہ آدھے ملک کو بچائیں اور علم کی راہ میں جو ٹولہ رکاوٹ بنے اس سے نجات حاصل کریں۔ جب مجھے یہ اطلاع ملتی ہے کہ فلاں کالج میں فلاں یونیورسٹی میں فلاں اسکول میں طلبا وطالبات نے اساتذہ سے بد تمیزی کی اور ستم بالائے ستم یہ اطلاع کہ بہت سی جگہوں پر طالب علموں نے استاد پر ہاتھ اٹھایا تو جس قوم میں طلبا و طالبات استادوں کی بے حرمتی کریں حتیٰ کہ ان پر ہاتھ تک اٹھائیں ایسا معاشرہ نہ صرف جاہل رہتا ہے بلکہ تباہ و برباد ہو جایا کرتا ہے۔
جب یہ اطلاع ملتی ہے کہ طلبا و طالبات اپنے والدین سے تو تڑاک ہی نہیں کرتے بلکہ بے ہودہ مغلظات بکنے تک میں کسی قسم کی شرم محسوس نہیں کرتے تو مجھے خوف آتا ہے کہ اس معاشرے کا مستقبل کیا ہوگا، علم تو آگہی، فہم، معاشرتی اقدار، تہذیب اور ادب سکھاتاہے ان صفات کے بغیر حاصل کیا جانے والا علم بالکل اسی طرح ہے جیسے گدھے کے اوپر کتابیں لاد دینا۔ میں جب جامعہ کراچی میں Pharmacy کا طالب علم تھا تو میں نے APMSO کی بنیاد ڈالی اور آہستہ آہستہ وہ ترقی کرنے لگی تو آپ یقین کیجیے میں نے ہمیشہ یہی درس دیا کہ آپ کو کسی بھی طلبہ تنظیم کے کارکنان گالی دیں، بد تمیزی کریں، جملے کسیں... لیکن آپ جواب میں کچھ بھی نہ کہیں اور اگر کہنا ہو تو بس اتنا کہیں کہ اﷲ آپ کو ہدایت دے لیکن فقرے بازی کے جواب میں تصادم مت کیجیے اور وہی لہجہ... وہی بے ہودہ الفاظ جو کوئی آپ کے خلاف استعمال کرتاہو آپ ہرگز وہ الفاظ استعمال نہ کیجیے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ہمارا پیغام پھیلنے لگا۔ 78ء میں تنظیم بنائی اور 81ء میں جب ہم بہت تیزی سے پھیلنے لگے تو اسلامی جمعیت طلبا نے فیصلہ کیا کہ اب طاقت کے زور پر جامعہ کراچی سے ہمیں نکال دیں گے، میں جامعہ کراچی میں موجود تھا اور مجھے اندازہ ہو چلا تھا لہٰذا ایک دن پہلے میں نے تمام ساتھیوں کا طلبا و طالبات کا اجلاس کیا اور کہا آپ کو لڑنا نہیں ہے وہ بزدل کہیں... کہنے دیں آپ لڑیے گا ہر گز نہیں... تصادم مت کیجیے گا... بالآخر 3فروری 1981 کو جمعیت والوں نے ہمارے ساتھیوں پر حملہ کیا ۔
کئی ساتھی ہمارے زخمی ہوئے۔ سارے اسٹالوں کو آگ لگا دی، اس سے پہلے مجھے اشتعال میں لانے کی کوشش کی گئی ... ایک دو ساتھیوں کی تیوری پر بل آئے لیکن میں نے ان کو آنکھ سے اشارہ کیا کہ نہیں صبر کرو... صبر کو اﷲ تعالیٰ دیکھ رہا ہے صبر کرو اور کسی قسم کا کوئی تصادم نہیں کیا وہ دن ہے اور آج کا دن ہے کہ ہم تمام پر جو انھوںنے طاقت کے زور پر جامعہ میں داخلے پر پابندی لگائی تو اس کے بعد ہم دوبارہ پھر جامعہ کراچی نہیں جاسکے میں ایم فارمیسی میں تھا لہٰذا میں ایم فارمیسی نہیں کرسکا۔ اگر جذبہ سچا ہو، مقصد نیک ہو، ارادے پختہ اور ٹھوس ہوں تو ضروری نہیں کہ آپ اپنے پیغام کو تعلیمی اداروں سے ہی پھیلاسکتے ہیں بلکہ آپ اس کو اور دیگر طریقوں سے بھی پھیلاسکتے ہیں۔ بالآخر ہم نے گلی کوچوں میں آہستہ آہستہ کام شروع کیا اور آج جو شکل متحدہ کی صورت میں آپ کے سامنے ہے یہ ہم 35سالہ طویل سفر اور محنت کرتے ہوئے یہاں تک پہنچے۔
میں آج بھی جواب میں صبر کرنے کا درس دوںگا اور کسی کی بھی زیادتی کے جواب میں کوئی کارروائی کرنے کا درس نہیں دوںگا۔ مکافات عمل قانون قدرت ہے یہ مکافات عمل انشاء اﷲ سامنے آئے اور اللہ آپ کو زندگی دے کہ آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیںگے کہ ''جب تخت گرائے جائیںگے... سب تاج اچھالے جائیں گے''