موسیقار نذیر علی کی تیار دھمالیں ہر دور میں مقبول ہوئیں

بطور میوزک ڈائریکٹر کیرئیر کا آغاز 1969 میں فلم ’’پیداگیر ‘‘سے کیا


Cultural Reporter August 01, 2013
بطور میوزک ڈائریکٹر کیرئیر کا آغاز 1969 میں فلم ’’پیداگیر ‘‘سے کیا۔ فوٹو: فائل

لاہور: پاکستانی فلم انڈسٹری کے پاس اعلیٰ پائے کے فنکار رہے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر بڑا نام کمایا تھا۔

ایسے ہی قابل فخر اور قابل رشک فنکاروں میں موسیقار نذیر علی کا نام بھی آتا ہے۔جن کے کریڈٹ پر بے شمار سپرہٹ گیت ہیں، انھیںفلمی دھمال کا موجد قرار دیا جاتا ہے ، ان کی بنائی ہوئی دھمالیں ہر دور میں پسند کی گئیں ۔موسیقار نذیر علی ایک مدت تک ساٹھ کے عشرہ کے معروف موسیقار جوڑی ایم اشرف اور ماسٹر نذیر کے ساتھ معاون رہے تھے ۔ موسیقار نذیر نے اپنے چار عشروں کے فلمی کیرئیر میں ڈیڑھ سو کے قریب فلموں کی موسیقی ترتیب دی تھی جن میں چالیس کے قریب اردو اور باقی سبھی پنجابی فلمیں تھیں ۔ انھوں نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز ایک میوزیشن (ڈھولک نواز) کے طور پر کیا اور وہ کافی دیر تک موسیقار ایم اشرف کے ساتھ بطور میوزیشن ڈھولک بجاتے رہے ۔1969میں انھوں فلم ''پیداگیر ''سے بطور میوزک ڈائرکٹر اپنے کیرئیر کاآغاز کیا ۔ان کے ابتدائی دور کی فلم ''جنٹر مین'' ان کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔

فلمساز و ہدائتکار اسد بخاری کی فلم ''دلاں دے سودے''میں ان کی بنائی ہوئی دھمال ''لعل میری پت رکھیو بلا جھولے لعلن'' نے ان کو فلم انڈسٹری کے بڑے موسیقاروں کی صف میں لا کھڑا کیا ۔اس فلم میں ان کی بنائی ہوئی دھمال ''حسینی لعل قلندر ، میرے غم ٹال قلندر'' کو ملک گیر شہرت ملی جس کے بعد انھوں نے درجنوں فلموں میں دھمالوں کی موسیقی ترتیب دی ، ان کی بنائی ہوئی ہر دھمال کو عوامی پذیرائی نصیب ہوئی۔جن میں ''شہباز کرے پرواز''، ''اسی آن قلندری دیوانے لج پال دے''، ''حسینی لعل قلندر میرے غم ٹال قلندر'' ، ''بری بری امام بری ، میری کھوٹی قسمت کرو کھری''، ''سجنوں ایہہ نگری داتا دی'' کے علاوہ کئی دوسری دھمالیں شامل ہیں۔



نذیر علی نے 1971ء میں پہلی بار ایک اردو فلم ''آنسو'' کی موسیقی ترتیب دے کے ثابت کردیا تھا کہ وہ ہر فن مولا موسیقار ہیں۔ اسی سال کی دو پنجابی فلموں مستانہ ماہی اور آسو بلا کی موسیقی تھی ۔ فلم ''مستانہ ماہی'' کی شہرت نذیر علی کی دھن میں نغمہ نگار حزیں قادری کے لکھے ہوئے اور ملکہ ترنم نورجہاں کی آواز میں گائے ہوئے ''سیونی میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آگیا'' تھا۔ اس سال انھیں پندرہ فلموں کی موسیقی ترتیب دینے کا موقع ملا تھا جن میں بیشتر فلموں کے گیت سپرہٹ ہوئے تھے جن میں خان چاچا، سلطان ، پردیس، دل نال سجن دے ، سجن بے پرواہ اور سردھڑ دی بازی قابل ذکر ہیں ۔فلم پردیس اس سال کی واحد اردو فلم تھی جس کے ہیرو اور فلمساز حبیب تھے جس کی شوٹنگ برطانیہ میں ہوئی تھی ۔

اصل میں حبیب نے اپنے ہمصر فلمی ہیرو اعجاز کی تقلید کرتے ہوئے یہ فلم بنائی تھی جن کی فلم دوستی گزشتہ سال کی سپرہٹ فلم تھی لیکن فلم پردیس اپنے اچھے گیتوں کے باوجود ناکام رہی تھی ۔ اس فلم کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ موسیقار نذیر علی نے مہدی حسن سے چار گیت گوائے تھے جو خانصاحب کے فلمی کیرئیر کا پہلا اتفاق تھا جب انھوں نے کسی ایک فلم میں اتنے گیت گوائے ہوں جب کہ احمد رشدی سے بھی چار ہی گیت گوائے تھے جو اردو فلموں کے سب سے مقبول ترین گلوکار ہوتے تھے۔ نغمات کے لحاظ سے اس سال کی سب سے بڑی فلم خان چاچا تھی جو پاکستان کی پہلی ڈائمند جوبلی پنجابی فلم بھی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

امن لازم ہے

Dec 22, 2024 03:40 AM |

انقلابی تبدیلی

Dec 22, 2024 03:15 AM |