حادثاتی واقعہ کو قتل خطا تصور نہیں کرنا چاہیے چیف جسٹس

سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمے کا 10 سال بعد فیصلہ سنا دیا، مجرم کی رہائی کا حکم

سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمے کا 10 سال بعد فیصلہ سنا دیا، مجرم کی رہائی کا حکم فوٹو:فائل

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ہے کہ حادثاتی واقعہ کو قتل خطا تصور نہیں کرنا چاہے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل اور جسٹس سجاد علی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے قتل کے مقدمے کا 10 سال بعد فیصلہ سنا دیا۔ عدالت نے مجرم منصور خان کی جیل میں گزاری ہوئی مدت کو سزا میں تبدیل کرتے ہوئے اسے رہا کرنے کا حکم دیدیا۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ قتل خطا اور حادثاتی واقعہ کی درست تشریح ضروری ہے، حادثاتی واقعہ کو قتل خطا تصور نہیں کرنا چاہیے، زیر دفعہ 80 کے تحت حادثاتی واقعے کی کوئی سزا نہیں۔


چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ گولی کسی جانور یا مقام پر چلائی جائے اور کسی انسان کو لگ جائے تو یہ قتل خطا ہے، لیکن اگر کہیں بیٹھے ہوئے گولی چل جائے تو یہ قتل خطا نہیں بلکہ حادثاتی واقعہ قرار پائے گا۔

چیف جسٹس نے فیصلہ دیا کہ اگر اس کیس میں قتل خطا بھی تصور کریں تو مجرم اپنی سزا پوری کرچکا ہے، واقعہ فارم ہاؤس پر دوستوں کے درمیان اچانک رونما ہوا۔

پولیس کے مطابق 2008 میں شرافی گوٹھ میں لانڈھی تھانے کی حدود میں قتل کا واقعہ پیش آیا۔ ٹرائل کورٹ نے مجرم کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جبکہ ہائیکورٹ نے بھی سزا برقرار رکھی تھی۔
Load Next Story