وزیر بلدیات سعید غنی کے نام

محکمے کے پلمبرز کہیں نظر نہیں آتے اور نہ ہی اس علاقے سے متعلقہ ملازمین فیلڈ کا سروے کرتے ہیں۔


خالد گورایا February 26, 2019
[email protected]

شہید عثمان غنی بہت عوام دوست شخصیت تھے۔ ہماری ان سے ملاقات آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ایک بینک میں اکثر ہوتی رہتی تھی۔ ان دنوں میں گورنمنٹ نوکری سے ریٹائر ہوچکا تھا۔ اس کی وجہ میرا ایک جہازی ساز پوسٹر تھا جسے میں نے تقریباً پورے کراچی میں اپنے ہاتھوں سے دیواروں پر چسپاں کیا تھا، اس تین نکاتی پوسٹر میں تین نکات عوام و حکومت کے سامنے پیش کیے تھے۔

(1) اسمبلیوں میں مزدوروں، کسانوں اور شہری لوئر مڈل کلاس کو نمایندگی کا حق دیا جائے۔

( 2) پورے ملک میں یکساں نظام تعلیم کا نفاذ کیا جائے۔

(3 ) ملکی آمدن کو محنت کی بنیاد یا صلاحیتوں کی بنیاد پر تقسیم کیا جائے۔ ملازمت کے دوران نچلی کلاس کے ملازمین کو ترقی قابلیت کی بنیاد پر دی جائے اور مفت تعلیم رائج کی جائے ہر سطح کی تعلیم کے دروازے سب کے لیے یکساں کھولے جائیں ۔

یہ کافی بڑا پوسٹر تھا۔ اس دور میں نعیم گل ایڈوکیٹ ایک پارٹی کی تشکیل نوکے لیے کراچی میں بڑا متحرک تھا۔ اس پارٹی کی بنیاد پشاور میں رکھی جانی تھی ۔ نعیم گل ایڈوکیٹ کو میں نے کافی تعداد میں پوسٹر دیے اور نعیم گل ایڈوکیٹ انھیں آفس میں آنے والوں کو تقسیم کردیتا تھا۔ ''قومی انقلابی''پارٹی کی قیادت کرنے والے پشاور میں تھے۔کراچی سے دو بوگیاں بھرکر ورکرز کو پشاور لے جایا گیا۔ ان بوگیوں پر میرے پوسٹرز کو چسپاں کیا گیا تھا۔ پشاور جانے والے دوستوں میں ایوب قریشی مزدور لیڈر، ڈاکٹر اعزاز نذیر و دیگر بہت سے دوست تھے۔ جس دن پشاور میں جلسہ منعقد کیاگیا۔ راقم نے تمام پنڈالوں پر تین نکاتی پوسٹرمقامی کارکنوں کے ذریعے چسپاں کرادیے ۔ عین جلسے کے دوران تمام باتیں جو پوسٹر میں درج تھیں ان میں سے کوئی بات بھی نہیں لی گئی بلکہ ایک بڑے جاگیردار کی قیادت میں جاگیردارانہ سسٹم میں '' قومی انقلابی'' کا منشور شایع کردیاگیا۔

اسٹیج پرڈاکٹر اعزاز نذیر سے میں نے کہا کہ سر یہ کچھ الٹ ہورہا ہے اور میں سخت احتجاج کروں گا۔ اس دوران اسلم نامی نوجوان نے اپنے ساتھیوں سمیت احتجاج کرنا شروع کردیا کہ '' عام آدمی'' کو پارٹی کے عہدوں میں نمایندگی دی جائے۔ میں بھڑکا ہوا تھا۔ پارٹی کا سربراہ جو بننے جارہا تھا، اس نے ڈاکٹر اعزاز نذیر سے کچھ کہا۔ مرحوم ڈاکٹر نے نعیم گل ایڈوکیٹ کے کان میں کچھ کہا۔ نعیم گل میرے پاس آیا اورکہا گورایا صاحب آپ ذرا میرے ساتھ باہر چلیں ضروری بات کرنی ہے۔ حالات کو میں بھانپ چکا تھا مقامی ورکرز پارٹی کی تشکیل سے بدظن ہوچکے تھے۔ جلسہ گاہ کے باہر احتجاج شروع ہوچکا تھا۔ میں نے سوچا مجھے باہر لانا میرے کام کی نفی کرنا تھا ۔ اس پارٹی کے لیے چار ہزار کا کیڈر اکھٹا ہوا تھا لیکن قومی انقلابی پارٹی جنم لینے کے تیسرے دن ہی ٹوٹ گئی۔

میرے پوسٹر کے ذریعے خفیہ ایجنسی نے میرا پتا لگا لیا اوپر ہی اوپر سے سول اسپتال کراچی سے حیدرآباد تبادلہ کرکے اسی وقت Relieve کرکے سرکاری کوارٹر خالی کرنے کے آرڈر دے دیے۔ اس زمانے میں صوبائی وزیر صحت جاوید اختر نامی نوجوان تھا جس کا تعلق ایم کیو ایم سے تھا۔ جاوید اختر سے میں ملا اور اسے کہا کہ میں گورنمنٹ کی ملازمت سے ریٹائر ہونا چاہتا ہوں اس لیے میرا تبادلہ یہیں کراچی اوجھا سینیوٹوریم کردیا جائے۔ اس کے بعد میں نے اوجھا جوائن کرلیا۔ راقم سروس کوالیفائی کرچکا تھا اور سروس سے خود ریٹائرمنٹ لے لی۔ منظور رضی ریلوے یونین کے صدر ہوتے تھے۔ یکم مئی کو کینٹ اسٹیشن میں ایک بڑے ہال میں مزدوروں کا جلسہ ہر سال منعقد کیا کرتے۔

جلسے میں شہید عثمان غنی جو پیپلزپارٹی کے بہادر سینئر رکن تھے، ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد میرے لیے معاشی مسئلہ آن کھڑا ہوا۔ پینشن میں گزر بسر مشکل ہونے پر میں نے ''نیچرل ورلڈ '' رسالے کے نام سے ڈیکلریشن حاصل کر لیا ۔ شہید عثمان غنی نے بینک کی طرف سے 5 ہزار روپے اشتہار دلا دیا ۔ عوام دوست لیڈر حبیب الدین جنیدی جو حبیب بینک یونین کے صدر تھے۔ انھوں نے چار ہزار روپے کا اشتہار دلا دیا۔ رسالے کو پہلے نکالنے کے لیے سرمایہ اور تگڑی ٹیم درکار تھی جو میرے پاس نہیں تھا۔ ڈمی رسالہ نکال کر اشتہارات کا فائدہ اٹھا سکتا تھا لیکن میرے اندر کا انسان اس کے لیے تیار نہیں تھا۔

غالباً 1995-96ء میں شہید عثمان غنی کو کالا پل پر دہشت گردوں نے شہید کردیا۔ ان کی جگہ سعیدغنی نے قیادت سنبھال لی تھی، میں نے ان سے ملاقات کرکے اشتہار واپس کردیے۔ اسی طرح حبیب الدین جنیدی کو اشتہار واپس کردیے۔ حبیب الدین جنیدی پیپلزپارٹی سے وابستہ لیکن پیپلزپارٹی نے اتنے پرانے سینئر ترین لیڈر کو نہ تو صوبے یا مرکز میں کوئی ذمے داری نہیں دی؟ صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کے ذمے تمام صوبے کے بلدیاتی اداروں کا نظام ہے۔ ایک چھوٹا لیکن عوام کا مسئلہ ہے کہ کراچی کے اکثر علاقوں میں صفائی کا فقدان ہے اور ان علاقوں میں محکمہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی عدم توجہ کی وجہ سے گندگی اور گٹروں کا پانی جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ کئی علاقوں میں پانی کی سپلائی بند ہے جیسے فیڈرل بی ایریا بلاک نمبر5 کے بلاک ایچ پلاٹ نمبرS-9 گلی نمبر10 رائل بلیسنگ بلڈنگ میں جنوری 2019ء سے پانی سپلائی بند پڑی ہے۔

اس طرح صرف اس علاقے کی کئی بلڈنگوں میں پانی آتا ہے اور کئی بلڈنگوں میں پانی نہیں آتا ہے۔ اس علاقے سے پی ٹی آئی کے نمایندے غائب ہیں۔ نہ ہی ایم کیو ایم کا نمایندہ نظر آتا ہے۔ چند روز قبل حکومت سندھ نے واٹر بورڈ کے سینئر افسر اور ڈپٹی مینجنگ ڈائریکٹر ٹیکنیکل سروسز اسد اللہ خان کو واٹر بورڈ کا مینجنگ ڈائریکٹر مقرر کیا ہے۔ اسد اللہ خان سینئر ہونے کے ناتے عوامی مسائل کے حوالے سے کافی تجربہ رکھتے ہیں۔ محکمے کے پلمبرز کہیں نظر نہیں آتے اور نہ ہی اس علاقے سے متعلقہ ملازمین فیلڈ کا سروے کرتے ہیں۔ حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ ہر علاقے کے پلمبرز اور ٹیکنشن اپنے علاقے میں ذمے داری سے کام انجام دیں تو عوام کو پینے کے پانی کی دقت نہ ہو۔ سعید غنی عوامی شخصیت ہیں ضرور اس مسئلے کو حل کرائیں۔

شہید عثمان غنی ہر دل عزیز شخصیت تھے اور شہید بے نظیر بھٹو کے دور میں مسلم کمرشل بینک کی نجکاری کے خلاف ملازموں کے ساتھ جیل میں گئے لیکن اس کے باوجود اصولی سیاست کی بنا پر شہید بے نظیر بھٹو ان کی بڑی عزت کرتی تھیں۔ یاد رہے کہ ٹینکروں کی خرید و فروخت جاری ہے اورکئی علاقوں کا پانی بیچ دیا جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں