اردو میں بیرونی الفاظ
اردو میں آکر دوسری زبانوں سنسکرت عربی فارسی وغیرہ کے الفاظ کی اصل صورت باقی نہیں رہ سکتی۔
اب اس مسئلے کی طرف آتے ہیں جس پر اکثر اخبارات اورسائل یا تقریبات ومجالس میں بات ہوتی رہتی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اردو میں دوسری زبانوں خصوصاً انگریزی اور عربی کے الفاظ لائے جاتے ہیں اور ان کی درست ادائیگی نہیں ہوتی، مثالیں بھی دی جاتی ہیں کہ فلاں فلاں زبان کا لفظ ہے اور اس کی ادائیگی یا تحریر ویسی ہونی چاہیے جیسی اس زبان میں ہوتی ہے۔
ہمارے خیال میں یہ سراسرغلط رویہ ہے جس میں وہ قباحت پائی جاتی ہے جس نے سنسکرت زبان کو محدود اور پھر فنا کردیاہے۔ایک زمانے میں عوام کی زبان پراکرت کہلاتی تھی اور پراکرت کسی خاص خطے کی کوئی خاص زبان نہیں بلکہ عوام الگ الگ علاقوں میں جو زبان بولتے تھے وہ وہاں کی ''پراکرت'' ہوتی ہے۔
پراکرت کے معنی بہت سارے کیے جاتے ہیں۔ دور دور، الگ الگ، ٹولی ٹولی وغول غول اجڈ گنوار جاہل وغیرہ۔لیکن یہ سارے معنی مجازی ہیں، اصل لغوی معنی پراکرت کے یوں ہے کہ پرا۔پرایا، پرانا پرے، پرہ وغیرہ عوام ہی کے لیے استعمال ہوتے ہیں جن کوبزعم خویش''شرفا'' پرے پرے سمجھ کر پرائے کرتے ہیں اور اپنی برتری کے احساس کو لے کر جاہل اجڈ یعنی ''عوام کالانعام'' کہتے ہیں اور''کرت'' تو پشتو میں اب بھی ''باتوں'' کو کہتے ہیں لیکن اس میں بھی حقارت کا پہلو ہوتاہے، فضول اور ناپسندیدہ باتوں کو ''کڑت'' اور ایسی باتیں کرنے والوں کو ''کڑتو'' کہاجاتاہے۔
پھر ''پانینی''نام کا ایک علامہ پیدا ہوا، اس کی پیدائش یوں تو لاہور میں ہوئی لیکن یہ وہ بڑا لاہور نہیں جہاں راوی دریا بہتا ہے بلکہ یہ صوابی ضلع کا ایک تحقیقی شہر تھا جو جی ٹی روڈ پر جہانگیرہ کے قریب ہے۔
پانینی نے اس جاہلانہ ، اجڈ گنوار اور عوام کالانعام کی زبان''پراکرت'' پر محنت کرکے اسے صاف ستھرا کیا، اس کے لیے قواعد اور ترتیب وضع کی اور نام رکھا سم کرت۔ سم کا لفظ اب بھی پشتو میں درست کرنے، سنوارنے اور سیدھا کرنے کے لیے استعمال ہوتاہے چنانچہ یہ سم کیاہوا سنوارا ہوا سمکرت ہوا، پھر بعد میں سنسکرت ہوگیا۔نہایت خوبصورت شستہ اور اعلیٰ درجے کی زبان تھی، اس لیے اعلیٰ اور اونچے لوگوں ہی میں رہی ، عوام کی زبان پر کبھی نہیں چڑھی اور صرف مندروں مناجاتوں اور تحریروں میں محدود ہوکر معدوم ہوگئی۔
ہم حسن کے اس موتی کو دیکھ سکے پر چھو نہ سکے
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ موتی کیا وہ خزانہ کیا
دراصل کچھ لوگ اپنی اعلیٰ دانائی اور علمیت میں یہ بھول جاتے ہیں کہ زبان کوئی عمارت نہیں جو جیسی بن گئی ویسی ہی ہمیشہ رہے گی بلکہ زبان ایک درخت، ایک پیڑ کی طرح ہوتی ہے جس کے نئے نئے پتے نکلتے ہیں اور پرانے جھڑتے رہتے ہیں۔زبان زندہ لوگوں کی زندگی کا ایک حصہ ہوتی ہے، اپنے محدود اور طے شدہ الفاظ یا مال مسالہ کے ساتھ زندہ رہ ہی نہیں سکتی۔بلکہ یہاں وہاں سے الفاظ اور لغات لے کر کھانا اور انھیں جزوبدن بنانا ہی زبان کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔ کسی جاندار کی طرح جتنا زیادہ کھاتی ہے، اتنی ہی بڑھتی اور فربہ ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ خوبی اردو زبان میں ساری زبانوں سے زیادہ ہے۔بلکہ اس کی بنیاد ہی یہاں وہاں سے کھاکر جزو بدن بنانے پر ہے، اگر اس کی اس خوبی کو اس سے چھین لیاگیا تو محدودہوکر اسے بھی معدومیت کا شکار ہوناپڑے گا۔
اس لیے میرے خیال میں اس پرغیر زبانوں سے الفاظ لینے کی قدغن لگانا درست بھی نہیں اور ممکن بھی نہیں۔ ہاں اگر بغیر قدغن اور پابندی کے اسے چھوڑ کر اپنے مزاج پر جانے دیاگیا تو اس میں ایک مکمل بین الاقوامی اور ''لینگوافرنیکا''بننے کی استعداد موجود ہے۔ ویسے یہ بیرونی الفاظ روکنے یا نکالنے یا رد کرنے یا ناپسند کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے تو اردو کے پاس اپنا تو ایک بھی لفظ نہیں ہے۔باقی بچے گا کیا؟۔
اور الفاظ کا تویہ ہے کہ پہلے پہلے یہ اجنبی لگتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ اتنے زیادہ گھل مل جاتے ہیں کہ اسی زبان کے لگتے ہیں مثلاً فیل اور پاس کے الفاظ کو لے لیجیے کوئی کہہ سکتاہے اردو کے نہیں انگریزی کے ہیں۔ افراتفری کو عربی کا افراط وتفریط کہہ سکتے ہیں۔ لاٹین، بوٹ پالش،گلاس کو آپ بیرونی کہہ سکتے ہیں؟ اسکول ، اسپتال، اردلی ،کیس ، مسٹر، مسز اور ممی کو آپ چھوڑ سکتے ہیں؟ جمہوریت (ڈیماکریسی) صیہونیت(شاونزم) مسمریزم، موٹر، مشین، انجن وغیرہ سب کو اردو نے اپنا لیاہے۔
ایک اور مکتبہ فکر ان لوگوں کا ہے جو الفاظ کی درستگی پر زور دیتے ہیں کہ یہ فلاں لفظ جو اردو میں بولا یا لکھا جاتا ہے، یہ اصل میں فلاں زبان کا ہے جس کی درست شکل یہ ہے۔یہ بھی ایک غلط فہمی اور خواہ مخواہ کی سعی لاحاصل ہے، ہر زبان کا اپنا ایک نظام ادائیگی اور ووکل ساونڈ ہوتاہے اور اپنا ہی لفظ سازی کا طریقہ کار ہوتاہے۔جس کے مطابق بیرونی لفظ کو ادا کرنا پڑتاہے چنانچہ ایسے بہت سارے الفاظ اردو میں استعمال ہوتے ہیں جو جس زبان سے آئے ہیں وہاں ان کی شکل وصورت ادائیگی اور تحریر بالکل ہی الگ ہوتی ہے مثلاً کوئی کہہ سکتاہے،کہ یہ جو ''بازو'کا لفظ ہے، یہ سنسکرت سے آیا ہے۔ وہاں یہ ''بجائیں'' ہے۔
سچ وہاں ''ستیہ''ہے اور بجلی وہاں''وجربجر'' ہے جو اندر دیوتا کا ایک سم شاخہ ہتھیار''وجر''سے بناہے کیونکہ اندر(بارش) نے خشک سالی کے عفریت کو اسی وجر سے ہلاک کیاتھا۔ عربی میں مفلس اور افلاس کے معنی مالدار یعنی صاحب فلوس(نقدی) کو کہتے ہیں۔لاٹین کو لے لیجیے اصل لفظ ''لٹرن'ہے ۔منولین لفظ''قلی'' مالدار اور اہل ثروت کو کہتے ہیں۔
لفظ ''پوچھ'' سنسکرت میں پرش۔فارسی میں پرسان، پشتو میں پوشتنہ ہے۔بہت ساری مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ اردو میں آکر دوسری زبانوں سنسکرت عربی فارسی وغیرہ کے الفاظ کی اصل صورت باقی نہیں رہ سکتی۔کیونکہ ہر زبان کا اپنا اپنا لہجہ (ووکل ساونڈ) اور تلفظ ہوتا ہے۔ عرب کبھی پاکستان نہیں کہہ سکتے وہ باکستان ہی کہیں گے، جس طرح اردو میں ساؤتھ والے غیر کو گیر نظام کو نجام کہتے ہیں، ویسے بھی زبان کے اصل مالک تو اس کے بولنے والے اور عوام ہوتے ہیں علماء اور پانینی نہیں ہوتے۔
ہمارے خیال میں یہ سراسرغلط رویہ ہے جس میں وہ قباحت پائی جاتی ہے جس نے سنسکرت زبان کو محدود اور پھر فنا کردیاہے۔ایک زمانے میں عوام کی زبان پراکرت کہلاتی تھی اور پراکرت کسی خاص خطے کی کوئی خاص زبان نہیں بلکہ عوام الگ الگ علاقوں میں جو زبان بولتے تھے وہ وہاں کی ''پراکرت'' ہوتی ہے۔
پراکرت کے معنی بہت سارے کیے جاتے ہیں۔ دور دور، الگ الگ، ٹولی ٹولی وغول غول اجڈ گنوار جاہل وغیرہ۔لیکن یہ سارے معنی مجازی ہیں، اصل لغوی معنی پراکرت کے یوں ہے کہ پرا۔پرایا، پرانا پرے، پرہ وغیرہ عوام ہی کے لیے استعمال ہوتے ہیں جن کوبزعم خویش''شرفا'' پرے پرے سمجھ کر پرائے کرتے ہیں اور اپنی برتری کے احساس کو لے کر جاہل اجڈ یعنی ''عوام کالانعام'' کہتے ہیں اور''کرت'' تو پشتو میں اب بھی ''باتوں'' کو کہتے ہیں لیکن اس میں بھی حقارت کا پہلو ہوتاہے، فضول اور ناپسندیدہ باتوں کو ''کڑت'' اور ایسی باتیں کرنے والوں کو ''کڑتو'' کہاجاتاہے۔
پھر ''پانینی''نام کا ایک علامہ پیدا ہوا، اس کی پیدائش یوں تو لاہور میں ہوئی لیکن یہ وہ بڑا لاہور نہیں جہاں راوی دریا بہتا ہے بلکہ یہ صوابی ضلع کا ایک تحقیقی شہر تھا جو جی ٹی روڈ پر جہانگیرہ کے قریب ہے۔
پانینی نے اس جاہلانہ ، اجڈ گنوار اور عوام کالانعام کی زبان''پراکرت'' پر محنت کرکے اسے صاف ستھرا کیا، اس کے لیے قواعد اور ترتیب وضع کی اور نام رکھا سم کرت۔ سم کا لفظ اب بھی پشتو میں درست کرنے، سنوارنے اور سیدھا کرنے کے لیے استعمال ہوتاہے چنانچہ یہ سم کیاہوا سنوارا ہوا سمکرت ہوا، پھر بعد میں سنسکرت ہوگیا۔نہایت خوبصورت شستہ اور اعلیٰ درجے کی زبان تھی، اس لیے اعلیٰ اور اونچے لوگوں ہی میں رہی ، عوام کی زبان پر کبھی نہیں چڑھی اور صرف مندروں مناجاتوں اور تحریروں میں محدود ہوکر معدوم ہوگئی۔
ہم حسن کے اس موتی کو دیکھ سکے پر چھو نہ سکے
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ موتی کیا وہ خزانہ کیا
دراصل کچھ لوگ اپنی اعلیٰ دانائی اور علمیت میں یہ بھول جاتے ہیں کہ زبان کوئی عمارت نہیں جو جیسی بن گئی ویسی ہی ہمیشہ رہے گی بلکہ زبان ایک درخت، ایک پیڑ کی طرح ہوتی ہے جس کے نئے نئے پتے نکلتے ہیں اور پرانے جھڑتے رہتے ہیں۔زبان زندہ لوگوں کی زندگی کا ایک حصہ ہوتی ہے، اپنے محدود اور طے شدہ الفاظ یا مال مسالہ کے ساتھ زندہ رہ ہی نہیں سکتی۔بلکہ یہاں وہاں سے الفاظ اور لغات لے کر کھانا اور انھیں جزوبدن بنانا ہی زبان کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔ کسی جاندار کی طرح جتنا زیادہ کھاتی ہے، اتنی ہی بڑھتی اور فربہ ہوتی چلی جاتی ہے اور یہ خوبی اردو زبان میں ساری زبانوں سے زیادہ ہے۔بلکہ اس کی بنیاد ہی یہاں وہاں سے کھاکر جزو بدن بنانے پر ہے، اگر اس کی اس خوبی کو اس سے چھین لیاگیا تو محدودہوکر اسے بھی معدومیت کا شکار ہوناپڑے گا۔
اس لیے میرے خیال میں اس پرغیر زبانوں سے الفاظ لینے کی قدغن لگانا درست بھی نہیں اور ممکن بھی نہیں۔ ہاں اگر بغیر قدغن اور پابندی کے اسے چھوڑ کر اپنے مزاج پر جانے دیاگیا تو اس میں ایک مکمل بین الاقوامی اور ''لینگوافرنیکا''بننے کی استعداد موجود ہے۔ ویسے یہ بیرونی الفاظ روکنے یا نکالنے یا رد کرنے یا ناپسند کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے تو اردو کے پاس اپنا تو ایک بھی لفظ نہیں ہے۔باقی بچے گا کیا؟۔
اور الفاظ کا تویہ ہے کہ پہلے پہلے یہ اجنبی لگتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ اتنے زیادہ گھل مل جاتے ہیں کہ اسی زبان کے لگتے ہیں مثلاً فیل اور پاس کے الفاظ کو لے لیجیے کوئی کہہ سکتاہے اردو کے نہیں انگریزی کے ہیں۔ افراتفری کو عربی کا افراط وتفریط کہہ سکتے ہیں۔ لاٹین، بوٹ پالش،گلاس کو آپ بیرونی کہہ سکتے ہیں؟ اسکول ، اسپتال، اردلی ،کیس ، مسٹر، مسز اور ممی کو آپ چھوڑ سکتے ہیں؟ جمہوریت (ڈیماکریسی) صیہونیت(شاونزم) مسمریزم، موٹر، مشین، انجن وغیرہ سب کو اردو نے اپنا لیاہے۔
ایک اور مکتبہ فکر ان لوگوں کا ہے جو الفاظ کی درستگی پر زور دیتے ہیں کہ یہ فلاں لفظ جو اردو میں بولا یا لکھا جاتا ہے، یہ اصل میں فلاں زبان کا ہے جس کی درست شکل یہ ہے۔یہ بھی ایک غلط فہمی اور خواہ مخواہ کی سعی لاحاصل ہے، ہر زبان کا اپنا ایک نظام ادائیگی اور ووکل ساونڈ ہوتاہے اور اپنا ہی لفظ سازی کا طریقہ کار ہوتاہے۔جس کے مطابق بیرونی لفظ کو ادا کرنا پڑتاہے چنانچہ ایسے بہت سارے الفاظ اردو میں استعمال ہوتے ہیں جو جس زبان سے آئے ہیں وہاں ان کی شکل وصورت ادائیگی اور تحریر بالکل ہی الگ ہوتی ہے مثلاً کوئی کہہ سکتاہے،کہ یہ جو ''بازو'کا لفظ ہے، یہ سنسکرت سے آیا ہے۔ وہاں یہ ''بجائیں'' ہے۔
سچ وہاں ''ستیہ''ہے اور بجلی وہاں''وجربجر'' ہے جو اندر دیوتا کا ایک سم شاخہ ہتھیار''وجر''سے بناہے کیونکہ اندر(بارش) نے خشک سالی کے عفریت کو اسی وجر سے ہلاک کیاتھا۔ عربی میں مفلس اور افلاس کے معنی مالدار یعنی صاحب فلوس(نقدی) کو کہتے ہیں۔لاٹین کو لے لیجیے اصل لفظ ''لٹرن'ہے ۔منولین لفظ''قلی'' مالدار اور اہل ثروت کو کہتے ہیں۔
لفظ ''پوچھ'' سنسکرت میں پرش۔فارسی میں پرسان، پشتو میں پوشتنہ ہے۔بہت ساری مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں کہ اردو میں آکر دوسری زبانوں سنسکرت عربی فارسی وغیرہ کے الفاظ کی اصل صورت باقی نہیں رہ سکتی۔کیونکہ ہر زبان کا اپنا اپنا لہجہ (ووکل ساونڈ) اور تلفظ ہوتا ہے۔ عرب کبھی پاکستان نہیں کہہ سکتے وہ باکستان ہی کہیں گے، جس طرح اردو میں ساؤتھ والے غیر کو گیر نظام کو نجام کہتے ہیں، ویسے بھی زبان کے اصل مالک تو اس کے بولنے والے اور عوام ہوتے ہیں علماء اور پانینی نہیں ہوتے۔