آثار قدیمہ کی تحقیق کا دائرہ کار
افسوس اس بات کا ہے کہ ماہرین کی توجہ کا مرکز اس دور کی تہذیبی ترقی رہتی ہے۔
لاڑکانہ سے 30 کلومیٹر کی دوری پر رتو ڈیرو قصبے کے مقامات میں ایک مقبرہ واقع ہے۔ سترہویں صدی میں تعمیر کردہ (ایک ٹیلے) پر یہ مقبرہ مقامی آبادی میں بھانڈو جو قبوکے نام سے مقبول ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس مقبرے میں رتو ڈیرو کے بانی رتو خان جلبانی کی باقیات دفن ہیں۔ رتو خان جلبانی کی وجہ شہرت یہ تھی کہ انھوں نے بیرونی حملہ آوروں سے اپنی سرزمین کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان قربان کردی۔
عین ممکن تھا کہ یہ مقبرہ اور اس سے منسلک داستان مقامی آبادی تک ہی محدود رہتی تاہم دو عشرے قبل رونما ہونے والے ایک حادثے کے نتیجے میں یہاں قدیم انسانی ساختہ اشیا و نوادرات دریافت ہوئے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مقبرہ مقامی آبادی کے لیے قابل احترام ہستی کی آخری آرام گاہ ہی نہیں بلکہ کسی قدیم تہذیب کا مدفن بھی ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ''بھانڈو جو قبو'' میں دریافت ہونے والے آثار وادی سندھ کی تہذیب سے بھی قدیم ہیں۔ شاہ لطیف یونیورسٹی کے شعبہ آثاریات کے چیئرمین ڈاکٹر غلام محی الدین ویسار نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس مقام پر کھدائی کے دوران ہم نے جو دستکاریاں دریافت کی ہیں وہ کوٹ ڈیجی سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہیں، جن کے بارے میں مقامی اور عالمی ماہرین آثار قدیمہ کو یقین ہے کہ وہ وادی سندھ کی تہذیب سے زیادہ قدیم ہیں۔ ڈاکٹر محی الدین نے بتایا کہ کوٹ ڈیجی کی 2800 قبل مسیح سے گزرتے ہوئے 2500 ق م میں وادی سندھ کی تہذیب کی شکل اختیار کرلی۔
انسان ہمیشہ ماضی کی معلومات حاصل کرنے کی جستجو کرتا رہتا ہے خاص طور پر تہذیبی ورثے کے حوالے سے معلومات کی جستجو انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب بہت پرانی ہے آثار قدیمہ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے اس حوالے سے مسلسل کوششوں میں رہتے ہیں۔ رتو ڈیرو سندھ کا ایک تاریخی مقام ہے اس حوالے سے ماہرین جو کوشش کر رہے ہیں اس کے نتیجے میں ماضی بعید کی زندگی کے اسرار سے پردہ اٹھتا جائے گا۔ ڈاکٹر محی الدین ویسار کے مطابق 2800 ق م میں قدیم ثقافت پیچیدہ سماجی اقتصادی نظام کے ارتقائی عمل سے گزرتے ہوئے 2500 قبل مسیح میں وادی سندھ کی تہذیب کی صورت اختیار کرگئی۔
افسوس اس بات کا ہے کہ ماہرین کی توجہ کا مرکز اس دور کی تہذیبی ترقی رہتی ہے جب کہ آج کا انسان جو انتہائی نامنصفانہ سماجی اور اقتصادی کلچر سے گزر رہا ہے اس کی بڑی خواجہ یہ ہے کہ وہ یہ معلوم کرے کہ ماضی بعید کی اقتصادی زندگی کس طرح کی تھی ماضی بعید کی سماجی زندگی انسانی مساوات پر مبنی تھی یا طبقاتی نظام پر استوار تھی۔ آج کا سماجی نظام جس طرح اونچ نیچ پر استوار ہے کیا 2800 قبل مسیح میں بھی سماجی عدم مساوات کا وہی نظام تھا جو آج ہے یا اس دور میں انسانی مساوات کو اہمیت دی جاتی تھی اقتصادی زندگی آج کی طرح اشرافیہ کی جاگیر بنی ہوئی تھی اور غریب اور امیر طبقات میں وہی فاصلے تھے جو آج موجود ہیں۔
ڈاکٹر غلام محی الدین ویسار کے مطابق وہ جو بھانڈو قبو پر آثار قدیمہ دریافت کرنے والی ٹیم کے رکن تھے، ماہر آثار قدیمہ کے علم میں یہ جگہ 1998 میں آچکی تھی جب سندھ کو باقی حصوں سے ملانے والی انڈس ہائی وے تیار کی جا رہی تھی انھوں نے ایکسپریس کو بتایا کہ ہمیں اس ٹیلے کا ہائی وے کے حکام سے پتا چلا تھا۔ شاہراہ کی تعمیر کے دوران تعمیراتی کارکنوں نے 400 میٹر چوڑے ٹیلے کا نصف حصہ کھود ڈالا تھا۔ ڈاکٹر موصوف کے مطابق جلد ہی انھوں نے اپنی ٹیم کے ہمراہ اس جگہ کا دورہ کیا اور بہت جلد کھدائی شروع کردی۔
یہ غالباً 1958 کا دور تھا ہم چند دوستوں نے فیصلہ کیا کہ سندھ کے مشہور مقامات کا وزٹ کیا جائے ہم نے اپنے دورے کا آغاز سکھر سے کیا۔ سکھر بھی ایک تاریخی شہر ہے اس دورے کو اب 50 سال گزر گئے اب ذہن سے بہت ساری یادیں اور باتیں محو ہوچکی ہیں۔ ہوٹل پہنچے تو دوستوں نے طے کیا کہ کوٹ ڈیجی دیکھا جائے یہ بھی تاریخی عمارت تھی یہاں کا قلعہ بہت مشہور تھا۔ ہم نہ آثار قدیمہ کی تلاش میں گئے تھے نہ کوئی دریافت ہمارے دورے میں شامل تھی لیکن 50 سال پہلے غربت اور امارت کا وہی حال تھا جو آج ہے دیہی علاقوں کے عوام جاگیرداروں اور وڈیروں کے غلام تھے وڈیرے جب چاہتے کسانوں اور ہاریوں کی غریب بہو بیٹیوں کو اٹھا لیتے یہ ایک وڈیرہ شاہی کلچر کا حصہ تھا۔
آثار قدیمہ کا مطلب ماضی بعید میں زیر زمین چلی جانے والی بستیوں کا معائنہ اور اس دور کے سماجی اور اقتصادی دور کا کھوج لگانا ہوتا ہے۔ دنیا مذہب قوم کے حوالے سے بے شمار ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے اگر ماضی بعید میں یہ تقسیم موجود تھی تو آثار قدیمہ کے ماہرین کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس دور کی تجارت اس دور کے انسانوں کے درمیان مذہب رنگ و نسل کی تفریق تھی تو اس کے سماجی زندگی پر اثرات کی نوعیت کیا تھی۔
خود سماجی زندگی کی صورت حال کیا تھی۔ اس دور کے عوام میں مذہب، ذات پات کے حوالے سے نفرتوں عداوتوں جنگوں کی کیا صورتحال تھی؟کیا مذہب کے حوالے سے انسانوں کے درمیان نفرت اور عداوت موجود تھی؟ رنگ نسل ذات پات کے حوالے سے انسانی رشتوں کی نوعیت کیا تھی؟ یہ وہ اہم مقاصد ہیں جن پر محققین کو تحقیق کرنا چاہیے۔
سب سے بڑا مسئلہ جو محققین اور آثار قدیمہ کے ماہرین کا یہ فرض ہے کہ وہ ہزاروں سال پہلے کے اقتصادی نظاموں کا کھوج لگائیں اور دیکھیں کہ ہزاروں سال پہلے ریاست اور حکومت کی نوعیت کیا تھی قومیں اپنے مسائل کو کس طرح حل کرتی تھیں کیا ہزاروں سال پہلے ریاست اور حکومت کے اداروں کی ذمے داریاں اور کام وہی تھے جو آج کی ریاست اور حکومت انجام دے رہی ہے۔ محض برتن بھانڈے زیورات تلاش کرنے سے ہماری موجودہ دنیا کے مسائل حل کرنے میں مدد نہیں مل سکتی؟