منفی شخص کی منفی سوچ
’ملک میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے‘ کیا آپ کو اس کی توقع تھی؟‘‘
وہ بار بار یقین کے ساتھ میز پر ہاتھ مار رہے تھے' ان کا دعویٰ تھا ''حکومت یہ کر گزرے گی اور آپ چند دنوں میں اپنی آنکھوں سے یہ ہوتا ہوا دیکھیں گے'' میں نے انھیں ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانے' ان کا کہنا تھا ''حکومت پوری سنجیدگی سے ہفتہ وار چھٹی اتوار سے جمعے کو شفٹ کرنا چاہتی ہے' یہ ایشو کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش ہو جائے گا' کابینہ منظوری دے دے گی اور یوں اتوار کی چھٹی جمعہ میں تبدیل ہو جائے گی''۔
میں نے ان سے عرض کیا ''سر اس خبر کی تردید ہو چکی ہے' حکومت دور دور تک اس آپشن پر غور نہیں کر رہی' چھٹی اتوار کو ہی رہے گی تاہم اگر یہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں'' وہ تلملا کر بولے'' ہم ایک بار یہ ناکام تجربہ کر چکے ہیں' ذوالفقار علی بھٹو نے 11مئی 1977ء کو اپنی حکومت بچانے کے لیے اتوار کی جگہ جمعے کی چھٹی کر دی تھی' یہ سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی جاری رہا' پاکستان کو ٹھیک ٹھاک معاشی نقصان ہوا' دنیا کے 95 فیصد ملکوں میں جمعہ کو آدھی اور ہفتہ اور اتوار کو پوری چھٹی ہوتی ہے۔
ہم نے جمعرات کو آدھی اور جمعہ کو پوری چھٹی شروع کر دی یوں جمعرات اور جمعہ کو ہمارے دفتر' فیکٹریاں' بینک اور دکانیں بند ہوتی تھیں اور ہفتہ اور اتوار کو باقی 95 فیصد دنیا کی چھٹی ہوتی تھی یوں ہمارے پاس سوموار' منگل اور بدھ صرف تین دن بچتے تھے چنانچہ 11مئی 1977ء سے لے کر23 فروری 1997ء تک پاکستان کا ہفتہ تین دن کا ہوتا تھا'23 فروری 1997ء کو نوازشریف نے جمعہ کی جگہ اتوار کی چھٹی کی اور یوں ہم دنیا کے ساتھ مل گئے''۔
میں نے ان سے عرض کیا''لیکن سر پوری اسلامی دنیا میں جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے' ہم بھی کر دیںگے تو کوئی حرج نہیں'' وہ غصے سے بولے '' دنیا اب گلوبل ویلج بن چکی ہے' ہم اس گلوبل ویلج سے کٹ کر زندگی نہیں گزار سکیں گے اور یہ حکومت اس حقیقت سے واقف نہیں لہٰذا یہ لوگ یہ غلطی کرگزریں گے'' میں نے عرض کیا ''سر پورا عرب جمعرات اور جمعہ کو بند ہوتا ہے اور یہ اس کے باوجود ٹھیک ٹھاک خوش حال ہے' یہ آپ جیسے لوگ ہیں جو لوگوں کو غربت اور پسماندگی سے ڈرا کر گمراہ کرتے ہیں' یہ ان سے اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کراتے ہیں''۔
وہ مزید بھڑک اٹھے اور زور سے بولے'' یہ ملک بھی اب چھٹی کا دن تبدیل کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں' یہ شروع میں بین الاقوامی کمپنیوں' فارن بینکوں اور یورپ اور امریکا کے تاجروں اور گروپوں کے ساتھ جمعرات اور جمعے کو کاروبار کریں گے اور اس کے بعد آہستہ آہستہ پورے عرب میں اتوار کی چھٹی ہو جائے گی'' میں نے عرض کیا ''گویا عرب ممالک اللہ کے حکم کو فراموش کر دیں گے''۔
وہ غصے سے اپنا سر ہوا میں دائیں بائیں مارنے لگے اور اپنی انگلیاں میرے سامنے نچا کر بولے ''بے وقوف انسان اسلام میں ہفتہ وار چھٹی کا کوئی تصور موجود نہیں' اللہ تعالیٰ نے صرف نماز جمعہ کا حکم دیا ہے' جمعہ کی چھٹی کا نہیں' ہفتہ وار چھٹی کا تصور خالصتاً یورپین ہے ' عربوں نے یورپ کی تقلید میں ہفتہ وار چھٹی کا آغاز کیا اور برکت کے لیے اتوار کے بجائے جمعہ کا دن طے کر دیا' ہفتے کے سات کے سات دن اللہ تعالیٰ کے ہوتے ہیں اور آپ اپنی سہولت کے لیے کسی بھی دن کو پسند کر سکتے ہیں تاہم جمعہ کی نماز ہم سب پر فرض ہے اور اسلامی معاشرے کو اس کی گنجائش ضرور نکالنی چاہیے''۔
میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا''سر عمران خان سمجھ دار وزیراعظم ہیں' یہ چھٹی کا ایشو چھیڑ کر معیشت کا رہا سہا بھرم نہیں توڑیں گے ' میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں حکومت یہ نہیں سوچ رہی'' وہ ہنسے' قہقہہ لگایا اور بڑے یقین کے ساتھ بولے ''میں آپ کو ایک بات بتائوں!'' میں ہمہ تن گوش ہو گیا' وہ بولے ''آپ لوگ عمران خان کو نہیں جانتے' یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں' آپ ان سے ہر قسم کی توقع کر سکتے ہیں''۔
میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا' وہ بولے ''ملک میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے' کیا آپ کو اس کی توقع تھی؟'' میں خاموش رہا' وہ بولے'' آپ ٹرکوں کے کسی اڈے پر فون کر لیں' آپ کو ٹرک مالکان اور ڈرائیور دونوں روتے ہوئے ملیں گے' کیوں؟ کیونکہ ٹرک معیشت کا پہیہ ہوتے ہیں' معیشت چلتی ہے تو ٹرک چلتے ہیں اور جب معیشت رک جاتی ہے تو ٹرک رک جاتے ہیں اور آپ کو اس وقت ملک کے زیادہ تر فارورڈنگ ایجنٹس مکھیاں مارتے نظر آئیں گے' آپ کسی دفتر' کسی فیکٹری اور کسی دکان میں چلے جائیں' آپ ان سے کاروبار کے بارے میں پوچھیں' لوگ آپ کے گلے پڑ جائیں گے، آپ دیہاڑی دار مزدوروں سے پوچھ لیں' ملک میں چھ ماہ پہلے تک رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن انڈسٹری چل رہی تھی' یہ بھی اب بند ہو چکی ہے' پراپرٹی ڈیلروں کے شٹرڈائون ہیں' بینک بھی بدحال ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور ملک میں پہلی بار ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پیسے بھی پھنسنا شروع ہو گئے ہیں' کیا آپ نے کبھی یہ تصور کیا تھا؟''۔
میں نے آہستہ سے عرض کیا ''سر حکومت کوشش کر رہی ہے' میں جانتا ہوں وزیراعظم اور وزیر خزانہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کر تے ہیں' ملک میں آج تک کسی حکومت نے اتنا کام نہیں کیا''۔
وہ مزید چڑ گئے اور بولے ''آپ ان دونوں سے درخواست کریں' یہ بے شک پندرہ پندرہ گھنٹے سو یا کریں لیکن ملک کو چلنے دیں' یہ ملک تین چار ماہ بعد چلنے کے قابل نہیں رہے گا'' میں نے ان سے عرض کیا ''سر آپ کچھ زیادہ ہی منفی سوچ رہے ہیں' ملک کے حالات اتنے خراب نہیں ہیں' معیشت ٹیک آف کر رہی ہے' یہ دو تین ماہ میں ٹھیک ہو جائے گی' آپ صبر تو کریں' کرپشن نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں' حکومت بے چاری آخر کیا کرے؟''۔
وہ غصے سے کھڑے ہو گئے اور چلا کر بولے'' کرپشن' کرپشن اور کرپشن' یہ سن سن کر میرے کان پک گئے ہیں' آپ لوگوں نے بتایا تھا ڈاکٹر عاصم حسین 479ارب روپے کھا گیا'ساڑھے تین سال سے کیسز بھی چل رہے ہیں لیکن وہ پیسے کہاں ہیں؟ الٹا ڈاکٹر عاصم علاج کے لیے ملک سے باہر بھی جا رہا ہے' شرجیل میمن پرپونے چھ ارب روپے کا الزام لگا' اس کیس کا کیا بنا؟ شرجیل میمن بھی مزے سے کبھی اسپتال چلا جاتا ہے اور کبھی جیل' آپ دیکھ لیجیے گا یہ بھی بری ہو جائے گا' نیب نے اب آغا سراج درانی کو گرفتار کر لیا' یہ بھی صاف بچ جائے گا۔
نیب کورٹ نے میاں نواز شریف کو ناجائز فلیٹس کے جرم میں سزا دے دی لیکن وہ فلیٹس کہاں ہیں' وہ آج بھی لندن میں ہیں اور حکومت یہ فلیٹس لے سکی اور نہ باقی رقم کی ریکوری کر سکی' میاں نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز میں سزا ہوئی' یہ بھی جلد یا بدیررہا ہو جائیں گے ' وہ تین سو ارب روپے کہاں ہیں جن کا ڈھنڈورا عمران خان دس سال سے پیٹ رہا تھا' حکومت نے میاں شہباز شریف کو آشیانہ ہائوسنگ اسکیم اور رمضان شوگر ملز میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا' یہ چار ماہ12 دن نیب کی حراست میں رہے لیکن 14 فروری کو ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کا حکم جاری کر دیا'22 فروری کو ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری ہوا اور عدالت نے نیب کے دونوں الزامات کو اڑا کر رکھ دیا۔
عدالت نے لکھا'' شہباز شریف کے خلاف آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کے الزامات بے بنیاد اور غلط ہیںجب کہ رمضان شوگر ملز کیس میں نیب کی پالیسی میں بدنیتی صاف دکھائی دیتی ہے'' آپ خود فیصلہ کرو وہ کرپشن کہاں ہے جس کے الزام میں میاں شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا تھا اور یہ معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں ' میں 1992ء سے کرپشن کے الزامات سن رہا ہوں' میں نے آج تک کوئی ریکوری دیکھی اور نہ ہی کسی سیاستدان کو سزا پاتے چنانچہ میں کیسے یقین کروں یہ سارے الزام سچے ہیں' پاکستان میں اگر عمران خان کے دور میں بھی کسی کرپٹ کو سزا نہیں ہوتی یا یہ عدالت سے چھوٹ جاتے ہیں تو پھر اس کا ایک ہی مطلب ہو گا' یہ ساری کہانیاں جھوٹی ہیں' یہ سارے الزام افسانے ہیں''۔
میں نے آہستہ سے عرض کیا ''جناب یہ ہمارے جسٹس سسٹم کی خرابیاں ہیں' عمران خان کی اس میں کوئی کوتاہی نہیں'' وہ مزید ناراض ہو گئے اور انھوں نے غصے میں اٹھ کر چلنا شروع کر دیا' میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا' وہ چلتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے ''ملک میں اب کوئی چیز بعید نہیں' آپ ہر قسم کی خبر کے لیے تیار رہیں''۔
میں ان کی طرف دیکھتا رہا' وہ چلتے چلتے رکے' میری طرف دیکھا اور نہایت سنجیدگی سے بولے ''پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک ایسا شخص آیا ہے جو جنگ بھی چھیڑ سکتا ہے' مجھے مودی سے نہیں عمران خان سے خطرہ ہے' یہ شخص کچھ بھی کر سکتا ہے'' میں نے نفی میں سر ہلایا اور عرض کیا'' جناب دفاع ہمارا حق ہے' یہ پہلا وزیراعظم ہے جو اپنا یہ حق پورا پورا استعمال کرے گا' ہمیں تو خوش ہونا چاہیے''۔
وہ رکے' میرے قریب آئے اور ٹھہر ٹھہر کر بولے''تم وہ لوگ ہو جو جنگ کو کھیل اور کھیل کو جنگ سمجھتے ہو' تم جانتے ہی نہیں ہو جنگ ہوتی کیا ہے اور وہ بھی ایسے ملکوں کے درمیان جو نیوکلیئر پاور ہوں' یہ جنگ جس دن چھڑ گئی ہم اس دن کے بعد تاریخ لکھنے کے قابل نہیں رہیں گے اور یہ وہ شخص ہے جو پوری زندگی کھیل کو جنگ کی طرح کھیلتا رہا ' یہ کھیل ہی کھیل میں کچھ بھی کر سکتا ہے چنانچہ تم لوگ جاگ جائو ورنہ تم سونے کے قابل بھی نہیں رہو گے'' میں نے غصے سے ان کی طرف دیکھا اور اٹھ کر باہر آ گیا' وہ حقیقتاً ایک منفی شخص تھے' سر سے پائوں تک منفی شخص۔
میں نے ان سے عرض کیا ''سر اس خبر کی تردید ہو چکی ہے' حکومت دور دور تک اس آپشن پر غور نہیں کر رہی' چھٹی اتوار کو ہی رہے گی تاہم اگر یہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں'' وہ تلملا کر بولے'' ہم ایک بار یہ ناکام تجربہ کر چکے ہیں' ذوالفقار علی بھٹو نے 11مئی 1977ء کو اپنی حکومت بچانے کے لیے اتوار کی جگہ جمعے کی چھٹی کر دی تھی' یہ سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی جاری رہا' پاکستان کو ٹھیک ٹھاک معاشی نقصان ہوا' دنیا کے 95 فیصد ملکوں میں جمعہ کو آدھی اور ہفتہ اور اتوار کو پوری چھٹی ہوتی ہے۔
ہم نے جمعرات کو آدھی اور جمعہ کو پوری چھٹی شروع کر دی یوں جمعرات اور جمعہ کو ہمارے دفتر' فیکٹریاں' بینک اور دکانیں بند ہوتی تھیں اور ہفتہ اور اتوار کو باقی 95 فیصد دنیا کی چھٹی ہوتی تھی یوں ہمارے پاس سوموار' منگل اور بدھ صرف تین دن بچتے تھے چنانچہ 11مئی 1977ء سے لے کر23 فروری 1997ء تک پاکستان کا ہفتہ تین دن کا ہوتا تھا'23 فروری 1997ء کو نوازشریف نے جمعہ کی جگہ اتوار کی چھٹی کی اور یوں ہم دنیا کے ساتھ مل گئے''۔
میں نے ان سے عرض کیا''لیکن سر پوری اسلامی دنیا میں جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے' ہم بھی کر دیںگے تو کوئی حرج نہیں'' وہ غصے سے بولے '' دنیا اب گلوبل ویلج بن چکی ہے' ہم اس گلوبل ویلج سے کٹ کر زندگی نہیں گزار سکیں گے اور یہ حکومت اس حقیقت سے واقف نہیں لہٰذا یہ لوگ یہ غلطی کرگزریں گے'' میں نے عرض کیا ''سر پورا عرب جمعرات اور جمعہ کو بند ہوتا ہے اور یہ اس کے باوجود ٹھیک ٹھاک خوش حال ہے' یہ آپ جیسے لوگ ہیں جو لوگوں کو غربت اور پسماندگی سے ڈرا کر گمراہ کرتے ہیں' یہ ان سے اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کراتے ہیں''۔
وہ مزید بھڑک اٹھے اور زور سے بولے'' یہ ملک بھی اب چھٹی کا دن تبدیل کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں' یہ شروع میں بین الاقوامی کمپنیوں' فارن بینکوں اور یورپ اور امریکا کے تاجروں اور گروپوں کے ساتھ جمعرات اور جمعے کو کاروبار کریں گے اور اس کے بعد آہستہ آہستہ پورے عرب میں اتوار کی چھٹی ہو جائے گی'' میں نے عرض کیا ''گویا عرب ممالک اللہ کے حکم کو فراموش کر دیں گے''۔
وہ غصے سے اپنا سر ہوا میں دائیں بائیں مارنے لگے اور اپنی انگلیاں میرے سامنے نچا کر بولے ''بے وقوف انسان اسلام میں ہفتہ وار چھٹی کا کوئی تصور موجود نہیں' اللہ تعالیٰ نے صرف نماز جمعہ کا حکم دیا ہے' جمعہ کی چھٹی کا نہیں' ہفتہ وار چھٹی کا تصور خالصتاً یورپین ہے ' عربوں نے یورپ کی تقلید میں ہفتہ وار چھٹی کا آغاز کیا اور برکت کے لیے اتوار کے بجائے جمعہ کا دن طے کر دیا' ہفتے کے سات کے سات دن اللہ تعالیٰ کے ہوتے ہیں اور آپ اپنی سہولت کے لیے کسی بھی دن کو پسند کر سکتے ہیں تاہم جمعہ کی نماز ہم سب پر فرض ہے اور اسلامی معاشرے کو اس کی گنجائش ضرور نکالنی چاہیے''۔
میں نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا''سر عمران خان سمجھ دار وزیراعظم ہیں' یہ چھٹی کا ایشو چھیڑ کر معیشت کا رہا سہا بھرم نہیں توڑیں گے ' میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں حکومت یہ نہیں سوچ رہی'' وہ ہنسے' قہقہہ لگایا اور بڑے یقین کے ساتھ بولے ''میں آپ کو ایک بات بتائوں!'' میں ہمہ تن گوش ہو گیا' وہ بولے ''آپ لوگ عمران خان کو نہیں جانتے' یہ کچھ بھی کر سکتے ہیں' آپ ان سے ہر قسم کی توقع کر سکتے ہیں''۔
میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا' وہ بولے ''ملک میں اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے' کیا آپ کو اس کی توقع تھی؟'' میں خاموش رہا' وہ بولے'' آپ ٹرکوں کے کسی اڈے پر فون کر لیں' آپ کو ٹرک مالکان اور ڈرائیور دونوں روتے ہوئے ملیں گے' کیوں؟ کیونکہ ٹرک معیشت کا پہیہ ہوتے ہیں' معیشت چلتی ہے تو ٹرک چلتے ہیں اور جب معیشت رک جاتی ہے تو ٹرک رک جاتے ہیں اور آپ کو اس وقت ملک کے زیادہ تر فارورڈنگ ایجنٹس مکھیاں مارتے نظر آئیں گے' آپ کسی دفتر' کسی فیکٹری اور کسی دکان میں چلے جائیں' آپ ان سے کاروبار کے بارے میں پوچھیں' لوگ آپ کے گلے پڑ جائیں گے، آپ دیہاڑی دار مزدوروں سے پوچھ لیں' ملک میں چھ ماہ پہلے تک رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن انڈسٹری چل رہی تھی' یہ بھی اب بند ہو چکی ہے' پراپرٹی ڈیلروں کے شٹرڈائون ہیں' بینک بھی بدحال ہونے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور ملک میں پہلی بار ملٹی نیشنل کمپنیوں کے پیسے بھی پھنسنا شروع ہو گئے ہیں' کیا آپ نے کبھی یہ تصور کیا تھا؟''۔
میں نے آہستہ سے عرض کیا ''سر حکومت کوشش کر رہی ہے' میں جانتا ہوں وزیراعظم اور وزیر خزانہ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کر تے ہیں' ملک میں آج تک کسی حکومت نے اتنا کام نہیں کیا''۔
وہ مزید چڑ گئے اور بولے ''آپ ان دونوں سے درخواست کریں' یہ بے شک پندرہ پندرہ گھنٹے سو یا کریں لیکن ملک کو چلنے دیں' یہ ملک تین چار ماہ بعد چلنے کے قابل نہیں رہے گا'' میں نے ان سے عرض کیا ''سر آپ کچھ زیادہ ہی منفی سوچ رہے ہیں' ملک کے حالات اتنے خراب نہیں ہیں' معیشت ٹیک آف کر رہی ہے' یہ دو تین ماہ میں ٹھیک ہو جائے گی' آپ صبر تو کریں' کرپشن نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں' حکومت بے چاری آخر کیا کرے؟''۔
وہ غصے سے کھڑے ہو گئے اور چلا کر بولے'' کرپشن' کرپشن اور کرپشن' یہ سن سن کر میرے کان پک گئے ہیں' آپ لوگوں نے بتایا تھا ڈاکٹر عاصم حسین 479ارب روپے کھا گیا'ساڑھے تین سال سے کیسز بھی چل رہے ہیں لیکن وہ پیسے کہاں ہیں؟ الٹا ڈاکٹر عاصم علاج کے لیے ملک سے باہر بھی جا رہا ہے' شرجیل میمن پرپونے چھ ارب روپے کا الزام لگا' اس کیس کا کیا بنا؟ شرجیل میمن بھی مزے سے کبھی اسپتال چلا جاتا ہے اور کبھی جیل' آپ دیکھ لیجیے گا یہ بھی بری ہو جائے گا' نیب نے اب آغا سراج درانی کو گرفتار کر لیا' یہ بھی صاف بچ جائے گا۔
نیب کورٹ نے میاں نواز شریف کو ناجائز فلیٹس کے جرم میں سزا دے دی لیکن وہ فلیٹس کہاں ہیں' وہ آج بھی لندن میں ہیں اور حکومت یہ فلیٹس لے سکی اور نہ باقی رقم کی ریکوری کر سکی' میاں نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز میں سزا ہوئی' یہ بھی جلد یا بدیررہا ہو جائیں گے ' وہ تین سو ارب روپے کہاں ہیں جن کا ڈھنڈورا عمران خان دس سال سے پیٹ رہا تھا' حکومت نے میاں شہباز شریف کو آشیانہ ہائوسنگ اسکیم اور رمضان شوگر ملز میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کیا' یہ چار ماہ12 دن نیب کی حراست میں رہے لیکن 14 فروری کو ہائی کورٹ نے شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کا حکم جاری کر دیا'22 فروری کو ضمانت کا تفصیلی فیصلہ جاری ہوا اور عدالت نے نیب کے دونوں الزامات کو اڑا کر رکھ دیا۔
عدالت نے لکھا'' شہباز شریف کے خلاف آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کے الزامات بے بنیاد اور غلط ہیںجب کہ رمضان شوگر ملز کیس میں نیب کی پالیسی میں بدنیتی صاف دکھائی دیتی ہے'' آپ خود فیصلہ کرو وہ کرپشن کہاں ہے جس کے الزام میں میاں شہباز شریف کو گرفتار کیا گیا تھا اور یہ معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں ' میں 1992ء سے کرپشن کے الزامات سن رہا ہوں' میں نے آج تک کوئی ریکوری دیکھی اور نہ ہی کسی سیاستدان کو سزا پاتے چنانچہ میں کیسے یقین کروں یہ سارے الزام سچے ہیں' پاکستان میں اگر عمران خان کے دور میں بھی کسی کرپٹ کو سزا نہیں ہوتی یا یہ عدالت سے چھوٹ جاتے ہیں تو پھر اس کا ایک ہی مطلب ہو گا' یہ ساری کہانیاں جھوٹی ہیں' یہ سارے الزام افسانے ہیں''۔
میں نے آہستہ سے عرض کیا ''جناب یہ ہمارے جسٹس سسٹم کی خرابیاں ہیں' عمران خان کی اس میں کوئی کوتاہی نہیں'' وہ مزید ناراض ہو گئے اور انھوں نے غصے میں اٹھ کر چلنا شروع کر دیا' میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا' وہ چلتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے ''ملک میں اب کوئی چیز بعید نہیں' آپ ہر قسم کی خبر کے لیے تیار رہیں''۔
میں ان کی طرف دیکھتا رہا' وہ چلتے چلتے رکے' میری طرف دیکھا اور نہایت سنجیدگی سے بولے ''پاکستان میں پہلی مرتبہ ایک ایسا شخص آیا ہے جو جنگ بھی چھیڑ سکتا ہے' مجھے مودی سے نہیں عمران خان سے خطرہ ہے' یہ شخص کچھ بھی کر سکتا ہے'' میں نے نفی میں سر ہلایا اور عرض کیا'' جناب دفاع ہمارا حق ہے' یہ پہلا وزیراعظم ہے جو اپنا یہ حق پورا پورا استعمال کرے گا' ہمیں تو خوش ہونا چاہیے''۔
وہ رکے' میرے قریب آئے اور ٹھہر ٹھہر کر بولے''تم وہ لوگ ہو جو جنگ کو کھیل اور کھیل کو جنگ سمجھتے ہو' تم جانتے ہی نہیں ہو جنگ ہوتی کیا ہے اور وہ بھی ایسے ملکوں کے درمیان جو نیوکلیئر پاور ہوں' یہ جنگ جس دن چھڑ گئی ہم اس دن کے بعد تاریخ لکھنے کے قابل نہیں رہیں گے اور یہ وہ شخص ہے جو پوری زندگی کھیل کو جنگ کی طرح کھیلتا رہا ' یہ کھیل ہی کھیل میں کچھ بھی کر سکتا ہے چنانچہ تم لوگ جاگ جائو ورنہ تم سونے کے قابل بھی نہیں رہو گے'' میں نے غصے سے ان کی طرف دیکھا اور اٹھ کر باہر آ گیا' وہ حقیقتاً ایک منفی شخص تھے' سر سے پائوں تک منفی شخص۔