’’ لوگ کیا کہیں گے‘‘

اپنی مرضی منشا اور پسند کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔

اپنی مرضی منشا اور پسند کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔ فوٹو: فائل

''میں ملازمت کرنا چاہتی ہوں۔''

''میں کوکنگ کے بجائے ''کمپیوٹر کورس'' کرنا چاہتی ہوں۔''

''میں اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔''

''برادری سے باہر شادی کرنا چاہتی ہوں۔''

ایسی باتوں کے جواب میں اکثر لڑکیوں کو یہ سننا پڑتا ہے، ''لوگ کیا کہیں گے؟''

اور یہ محض ذاتی پسند نا پسند کا معاملہ نہیں بلکہ بہت سے رسم و رواج کی پابندی اسی لیے کی جاتی ہے کہ اگر اس سے ہٹ کر کوئی کام کیا تو لوگ کیا کہیں گے؟

'' لوگ کیا کہیں گے؟'' یہ ایسا جملہ ہے جو خوف کو ظاہر کرتا ہے۔ رسم و رواج سے لے کر زندگی بسر کرنے، رشتے نبھانے، خیالات اور کسی معاملے میں اپنی رائے کا اظہار کرنے تک یہ خوف ہمارے اعصاب پر سوار رہتا ہے۔

ہم شروع ہی سے اس جملے کے اتنے عادی ہوجاتے ہیں کہ کسی بھی موقع پر لاشعوری طور پر بھی یہ ہمارے ذہن میں گونجنے لگتا ہے اور ہماری خود اعتمادی اور قوتِ ارادی اس سے متاثر ہوتی ہے۔ خود اعتمادی اور کام یاب شخصیت کا تعلق ہمیشہ مثبت سوچ سے ہوتا ہے۔ مثبت سوچ رکھنے والے افراد عموماً تعریف یا تنقید کا زیادہ اثر نہیں لیتے اور ایسے موقع پر خود کو مضبوط اور باہمّت ثابت کرتے ہیں۔ سوچ کا انداز ان کی ذات میں وہ اعتماد پیدا کردیتا ہے کہ جس سے انہیں اس بات کی پروا نہیں رہتی کہ '' لوگ کیا کہیں گے؟''

ایسی پُر اعتماد خواتین اپنی ذات سے متعلق فیصلے سے لے کر کیریئر اور جیون ساتھی کے انتخاب میں اور بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی کام یاب نظر آتی ہیں۔ لوگوں کی باتوں کی پروا کیے بغیر وہ محض اس بنیاد پر فیصلے کرتی ہیں کہ ان کے لیے کیا بہتر ہے اور بچوں کی پسند ناپسند کیا ہے؟ اور وہ اپنے فیصلوں یا معاملات زندگی کے حوالے سے دوسروں سے ستائش کی متمنی بھی نہیں ہوتیں۔

اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کی بھی کمی نہیں جو محض'' لوگ کیا کہیں گے؟'' کے خوف کے زیر اثر زندگی گزارتی ہیں۔ بدترین حالات میںگھٹ گھٹ کر جیتی ہیں۔ اپنی اولاد کو بھی اسی سوچ کے زیر اثر کیے گئے فیصلوں کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں اور بسا اوقات اولاد عمر بھر اس کا خمیازہ بھگتتی ہے۔


ہم معاشرے میں بسنے والوں کی سوچ کو تو تبدیل نہیں کرسکتے، لیکن اپنے آپ کو تبدیل کرسکتے ہیں تاکہ ان کے رویے، منفی سوچ ہم پر اثر انداز نہ ہو۔ اس کے باوجود اکثر اوقات ہم خود کو یہ سوچنے سے روک نہیں پاتے کہ '' لوگ کیا سوچیں گے، کہیں گے؟'' درحقیقت یہ جنگ جو محض سوچ پر مبنی ہوتی ہے، دماغ میں ہوتی ہے لیکن اس کا اثر ہمارے چہرے کے تاثرات سے لے کر پوری شخصیت پر ہوتا ہے۔ منفی سوچ کے اس حصار سے باہر نکلنے کے لیے خود سے چند سوالات کریں۔

٭ کیا میری سوچ درست ہے۔

٭ کیا یہ سوچ میرے مقصدِ حیات اور معمولات میں مدد گار ثابت ہو گی۔

٭ کیا میں دوسرے کے سوچنے کے انداز کو بدل سکتی ہوں۔

٭ اگر نہیں تو کیا میں اپنا رویہ اس معاملہ میں تبدیل کرسکتی ہوں۔

٭ کیا میں جن لوگوں کے متعلق سوچ رہی ہوں ان سے میرا کوئی قریبی رشتہ ہے۔

تمام سوالوں کے جوابات پوری ایمان داری سے تحریر کرکے اس کی روشنی میں فیصلے کریں۔

لوگوں کی سوچ کو تبدیل کرنا آپ کے اختیار میں نہیں بلکہ اپنی سوچ کو تبدیل کرنا آپ کے ہاتھ میں ہے۔ کسی بات کا اثر لینا یا نہ لینا، اپنا وقت خوشی خوشی گزارنا یا اداس رہنا یہ سب آپ کے اختیار میں ہے، لہٰذا کسی کے محض ایک جملے، چند منٹ کی گفتگو یا محض رویے کی بنا پر اپنا قیمتی دن ضایع نہ کریں۔ یاد رکھیے ہم سب کو ایک ہی زندگی ملی ہے تو اس کو ڈر اور خوف (لوگوں کی باتوں کا خوف ہی کیوں نہ ہو) کے زیر اثر کیوں گزاریں۔ اپنی مرضی منشا اور پسند کے مطابق اپنی زندگی گزاریں۔

اگر ہم اپنی ذات سے ایک سوال کریں کہ کیا ہمارا کوئی عمل یا فیصلہ رب کی رضا کے مطابق ہے؟ اور اس کا جواب اثبات میں ہو تو پھر لوگوں کی ہرگز پروا نہ کریں۔ بدمزاجی کو ہرگز اپنی شخصیت کا حصہ نہ بنائیں، لیکن لوگوں کی باتوں کا اثر لینا چھوڑ دیں۔ اپنی زندگی اور فیملی کے اہم فیصلے خود اعتمادی اور بردباری سے کریں۔ مشاورت ضرور کریں لیکن حتمی فیصلہ آپ کا ہونا چاہیے۔ اس خوف اور ڈر کے بغیر کہ لوگ کیا کہیں گے۔

 
Load Next Story