بھارتی دراندازی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جمعرات کو ہوگا
بھارت اگر 40 کلومیٹر اندر آیا ہے تو ہم 80 کلومیٹر اندر داخل ہو جائیں، خورشید شاہ
بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی پر اپوزیشن جماعتوں کے مطالبے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جمعرات کو طلب کرلیا گیا ہے۔
علی محمد خان
وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے سینیٹ میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 28 فروری بروز جمعرات سہ پہر 3 بجے ہوگا جب کہ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ کل نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس کے بعد پارلیمانی رہنماؤں کو بریفنگ دی جائے گی۔
علی محمدخان کا کہنا تھا کہ بھارت نے رات کے اندھیرے میں بزدلانہ کارروائی کی،ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، بھارت بزدلانہ حرکتوں سے باز نہ آیا تو جواب دینا جانتے ہیں، بھارت کے ہزاروں ٹکرے کردیئےجائیں گے۔
خورشید شاہ
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس کے دوران نکتہ اعتراض پر خورشید شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم کہتے تھے کہ بھارت نےجارحیت کی توسوچیں گے بھی نہیں اور سوچنا چاہیے بھی نہیں، ہم حالت جنگ میں آگئے ہیں ، پارلیمنٹ بیٹھےاور فیصلہ کرے، ہمیں بھارت اور دنیا کو دکھانا ہے اور پورا ملک یکجا رکھنا ہے۔ بھارت اگر 40 کلومیٹر اندر آیا ہے تو ہم 80 کلومیٹر اندر داخل ہو جائیں۔ ہم بتائیں گے کہ جنگ اور الیکشن کیا ہوتا ہے پھر نریندر مودی کا الیکشن کا خواب کیسے پورا ہوتا ہے۔
خواجہ آصف
مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے کہا کہ جس طرح یہ حکومت چلا رہے ہیں ایسے حکومت نہیں چلتی، او آئی سی میں سشما سوراج کو بلایا جانا پاکستان کی توہین ہے سفارتی سطح پرہماری ناکامی ہے جو بھارتی وزیرخارجہ کو او آئی سی میں بلایا گیا ، ہمیں اس معاملے پر او آئی سی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ سیاسی اختلافات کے باوجود پاکستان کے لیے ہم سب ایک ہیں، یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، عوام افواج پاکستان کے ساتھ ہے، یہ قومی سلامتی کامسئلہ ہے۔
سردارایاز صادق
مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق نے کہا کہ گزشتہ 5 سال میں پاکستان نے اسلامی تعاون کی تنظیم کی ہر پارلیمانی میٹنگ میں شرکت کی، لیکن اب پاکستان کو کسی صورت او آئی سی کے اجلاس میں نہیں جانا چاہیے، آو آئی سی کی ہمت کیسے ہوئی کہ اس نے بھارت کو گیسٹ آف آنر بلایا، کیا بھارت کو دعوت دینے سے پہلے کیا پاکستان سے پوچھا گیا تھا۔ ہمیں عزت سے جینا ہے یا بے عزتی کے ساتھ جینا ہے۔ بھارت کی طرح پاکستان کو بھی اپنی اشیاء کی برآمدات پر ڈیوٹی لگانے کی ضرورت ہے۔
مولانا اسعدالرحمان
جے یو آئی (ف) کے مولانا اسعدالرحمان کا کہنا تھا کہ بھارتی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں، ہم پاکستان کی سالمیت پر سمجھوتہ نہیں کریں گے ، حکومت کو اس حوالےسےایک متفقہ پالیسی دینی چاہیے۔ ہمیں افواج پاکستان کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد ہے، بھارت او آئی سی کا رکن نہیں ہے، او آئی سی میں بھارتی ممبر کو مدعو کیا گیا ہے۔
امیر حیدر ہوتی
عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ ایوان کے رکن کی حیثیت سے فخر ہے کہ اس معاملے پر مکمل اتحاد کا مظاہرہ کیا گیا، اختلاف رائے ایک قدرتی عمل ہے، ہمیں حکومت سے اور حکومت کو ہم سے گلے شکوے ہوں گے لیکن جب ملکی سلامتی کا معاملہ ہوتا ہے تو ملک سب سے پہلے ہوتا ہے، بھارت میں اس وقت الیکشن ہیں ، مودی صاحب نے خطے کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا ہے، جب مقبوضہ کشمیر سے ردعمل آتا ہے تو پاکستان پر الزام لگادیا جاتا ہے، بھارت ظلم و جبر کے ذریعے کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوشش کررہا ہے۔ پاک فوج کے سربراہان کو بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بلایا جائے۔
علی محمد خان
وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے سینیٹ میں اپنے بیان میں کہا ہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس 28 فروری بروز جمعرات سہ پہر 3 بجے ہوگا جب کہ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ کل نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس کے بعد پارلیمانی رہنماؤں کو بریفنگ دی جائے گی۔
علی محمدخان کا کہنا تھا کہ بھارت نے رات کے اندھیرے میں بزدلانہ کارروائی کی،ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے، بھارت بزدلانہ حرکتوں سے باز نہ آیا تو جواب دینا جانتے ہیں، بھارت کے ہزاروں ٹکرے کردیئےجائیں گے۔
خورشید شاہ
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی سربراہی میں قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا، اجلاس کے دوران نکتہ اعتراض پر خورشید شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم کہتے تھے کہ بھارت نےجارحیت کی توسوچیں گے بھی نہیں اور سوچنا چاہیے بھی نہیں، ہم حالت جنگ میں آگئے ہیں ، پارلیمنٹ بیٹھےاور فیصلہ کرے، ہمیں بھارت اور دنیا کو دکھانا ہے اور پورا ملک یکجا رکھنا ہے۔ بھارت اگر 40 کلومیٹر اندر آیا ہے تو ہم 80 کلومیٹر اندر داخل ہو جائیں۔ ہم بتائیں گے کہ جنگ اور الیکشن کیا ہوتا ہے پھر نریندر مودی کا الیکشن کا خواب کیسے پورا ہوتا ہے۔
خواجہ آصف
مسلم لیگ (ن) کے خواجہ آصف نے کہا کہ جس طرح یہ حکومت چلا رہے ہیں ایسے حکومت نہیں چلتی، او آئی سی میں سشما سوراج کو بلایا جانا پاکستان کی توہین ہے سفارتی سطح پرہماری ناکامی ہے جو بھارتی وزیرخارجہ کو او آئی سی میں بلایا گیا ، ہمیں اس معاملے پر او آئی سی کے اجلاس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے۔ سیاسی اختلافات کے باوجود پاکستان کے لیے ہم سب ایک ہیں، یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، عوام افواج پاکستان کے ساتھ ہے، یہ قومی سلامتی کامسئلہ ہے۔
سردارایاز صادق
مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق نے کہا کہ گزشتہ 5 سال میں پاکستان نے اسلامی تعاون کی تنظیم کی ہر پارلیمانی میٹنگ میں شرکت کی، لیکن اب پاکستان کو کسی صورت او آئی سی کے اجلاس میں نہیں جانا چاہیے، آو آئی سی کی ہمت کیسے ہوئی کہ اس نے بھارت کو گیسٹ آف آنر بلایا، کیا بھارت کو دعوت دینے سے پہلے کیا پاکستان سے پوچھا گیا تھا۔ ہمیں عزت سے جینا ہے یا بے عزتی کے ساتھ جینا ہے۔ بھارت کی طرح پاکستان کو بھی اپنی اشیاء کی برآمدات پر ڈیوٹی لگانے کی ضرورت ہے۔
مولانا اسعدالرحمان
جے یو آئی (ف) کے مولانا اسعدالرحمان کا کہنا تھا کہ بھارتی جارحیت کی مذمت کرتے ہیں، ہم پاکستان کی سالمیت پر سمجھوتہ نہیں کریں گے ، حکومت کو اس حوالےسےایک متفقہ پالیسی دینی چاہیے۔ ہمیں افواج پاکستان کی صلاحیتوں پر مکمل اعتماد ہے، بھارت او آئی سی کا رکن نہیں ہے، او آئی سی میں بھارتی ممبر کو مدعو کیا گیا ہے۔
امیر حیدر ہوتی
عوامی نیشنل پارٹی کے امیر حیدر ہوتی نے کہا کہ ایوان کے رکن کی حیثیت سے فخر ہے کہ اس معاملے پر مکمل اتحاد کا مظاہرہ کیا گیا، اختلاف رائے ایک قدرتی عمل ہے، ہمیں حکومت سے اور حکومت کو ہم سے گلے شکوے ہوں گے لیکن جب ملکی سلامتی کا معاملہ ہوتا ہے تو ملک سب سے پہلے ہوتا ہے، بھارت میں اس وقت الیکشن ہیں ، مودی صاحب نے خطے کی سلامتی کو داؤ پر لگا دیا ہے، جب مقبوضہ کشمیر سے ردعمل آتا ہے تو پاکستان پر الزام لگادیا جاتا ہے، بھارت ظلم و جبر کے ذریعے کشمیریوں کی آواز دبانے کی کوشش کررہا ہے۔ پاک فوج کے سربراہان کو بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بلایا جائے۔