کیا یہ قوم واقعی ٹیکس نہیں دیتی
حکومت کو اب نئے قرضوں سے اجتناب کرتے ہوئے ترقی وخوشحالی کے دیگر ذرائع تلاش کرنا ہونگے۔
پاکستانی قوم کے بارے میں ہمارے حکمرانوں کی جانب سے اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ ٹیکس ادا نہیںکرتے ۔ ٹیکس دہندگان سے متعلق یہ بے بنیاد اور غلط پروپیگنڈہ بھی کیا جاتا ہے کہ ملک کی آبادی کا صرف ایک فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔
خود ہمارے موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی اپنے غیر ملکی دوروں میں ایک سے زائد مرتبہ یہ بات دہرا چکے ہیں کہ پاکستانی لوگ زکوۃ اور خیرات دینے میں توکوئی کسر نہیں چھوڑتے لیکن حکومت کو ٹیکس دینے سے کتراتے ہیں ۔ یہ بات گرچہ اُنہوں نے اپنی اُسی سوچ کے تناظر میں کی تھی جو وہ اپنی عرصہ دراز سے اپنائے ہوئے ہیں یعنی اُن سے پہلے برسراقتدار آنے والے سارے حکمراں چونکہ کرپٹ ، چور اورڈاکو تھے لٰہذا عوام اُن پر اعتبار نہیں کیا کرتے تھے۔
ہمارے لوگوں کو یہ خدشہ لاحق رہتا تھا کہ اُن کا دیا ہوا پیسہ درست اور صحیح جگہ پر خرچ ہوگا بھی یا نہیں ۔ خانصاحب ساتھ ہی ساتھ ٹیکس دہندگان کے اعداد وشمار بتاتے ہوئے بھی کچھ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں اور اکثر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارے ملک کی بہت کم آبادی ٹیکس ادا کرتی ہیں ۔ وہ یہ بات کہتے ہوئے بھارت اوردیگر پڑوسی ملکوں کا حوالہ بھی دیتے رہتے ہیں کہ وہاں چار فیصد یا اُس سے بھی زیادہ لوگ برابر ٹیکس ادا کرتے ہیں جب کہ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، جب کہ اگر دیکھا جائے تو یہ بات بالکل غلط اور بے بنیاد ہے ۔
پاکستانی تو ضروریات زندگی کی ہر چیز پر ٹیکس اداکرتے ہیں ۔ اِس ملک میں ایسی کونسی چیز ابھی باقی رہ گئی ہے جس پر ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے ۔کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر سامان تعیش تک ہر چیز پر تو ٹیکس لاگو ہے ۔ ہمارے لوگوں کی یہی تو خرابی ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اپنے عوام کا خراب اور مسخ چہرہ پیش کرتے رہتے ہیں اور اُنہیں حقیقت بیان کرتے ہوئے صرف آدھا سچ بتاتے ہیں ، جب کہ حقیقت حال اِس سے قطعاً مختلف ہوتی ہے۔ خان صاحب یہ بات کہتے ہوئے واضح کر دیتے کہ ٹیکس سے متعلق اُن کی یہ رائے صرف انکم ٹیکس کے بارے میں ہے تو بہتر ہوتا ۔
ہمارے ملک کی آبادی اِس وقت تقریباً 22 کروڑ ہے اوراِس میں سے نصف حصہ بچوں اور نا بالغوں پر مشتمل ہے۔ اِس کے علاوہ بیس پچیس فیصد لوگوں میں وہ گھریلو عورتیں اور بوڑھے افراد ہیں جن کا کوئی ذریعہ معاش ، روزگار یا کام کاج نہیں ہوتا ۔ لہذا صرف پچیس فیصد لوگ ہی باقی رہ جاتے ہیں جو باقاعدہ کسی کاروبار یا جاب سے منسلک ہیں ۔ ایسے میں انکم ٹیکس ادا کرنے والوں سے یہ گلہ درست معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بہت کم ٹیکس دیتے ہیں ۔ انکم ٹیکس دینے والوں کے علاوہ ہماری آبادی کا ہرفرد کسی نہ کسی شکل میں حکومت کو برابرٹیکس دیتا ہے ۔
بچوں کے دودھ سے لے کرکھانے پینے کی ہر شے پر یہاں ٹیکس لاگو ہے ۔ گیس ، بجلی اور ٹیلی فون کے ہر بل پر نجانے کتنے قسم کے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں ۔ پٹرول اور اُس کی مصنوعات پر بھی اصل قیمت سے دگنا ٹیکس نافذ ہے جو ہر پاکستانی کو دینا پڑتا ہے۔ اِس کے علاوہ کوکنگ آئل ، گھی، دوائیاں ، ٹوتھ پیسٹ ، کتابیں اور اسٹیشنری سمیت ہر چیز پر ہماری یہ قوم ٹیکس دیتی ہے ۔ موبائل فونز اوراُن کے بیلنس کارڈ بے شمار چیزیں ایسی گنوائی جاسکتی ہیں جن پر حکومت ٹیکس بھی لیتی ہے اوراُس کی کوئی رسید بھی نہیں دیتی ۔
حکومتی اخراجات کا سارا دارو مدار ہی عوام سے وصول کیے جانے والے ٹیکس پر منحصر ہے ۔ وہ اگر ٹیکس نہیںدیتے تو بھلا بتایا جائے کہ حکومت اپنے اخراجات کیسے پورے کرتی ہے ۔ ریوینوکی شکل میں حاصل ہونے والی آمدنی کا سارا حصہ ہی عوام کے ادا کیے ہوئے ٹیکسوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے یہاں فائلرز کی تعداد بہت کم ہے تو شاید درست ہو لیکن فائلرز بنے بناء ہمارے عوام حکومت کو روزانہ کی مد میں بے حساب ٹیکس دیتے رہتے ہیں ۔ وہ فائلر اِس لیے بن نہیں پاتے کیونکہ اُس کا طریقہ کار بہت مشکل اور پیچیدہ ہے ۔
ایک جاہل اور ان پڑھ شخص خود سے یہ کام ہرگزنہیں کر پاتا ۔ بلکہ پڑھے لکھے افراد بھی کسی قانونی ماہر یا کسی وکیل کی مدد کے بغیر فائلر نہیں بن سکتے ہیں اور اِس کام کے لیے اُنہیں اپنی جیب سے اضافی رقم بھی اداکرنی پڑتی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ فائلر بننے کے طریقہ کارکو سہل اور آسان بنائے کہ ہر شخص خود اپنے تئیں فائلر بن جائے۔ اُسے کسی وکیل کی فیس ادا نہ کرنی پڑے ۔ وہ ہر سال باقاعدہ ریٹرن داخل کرے اور اُسے کوئی پریشانی بھی اُٹھانی نہیں پڑے ۔
ہمارے یہاں اِس وقت فائلر بننے کا طریقہ کار اتنا کٹھن اور مشکل ہے کہ کوئی بھی شخص یہ کام آسانی سے نہیں کر پاتا۔ اُسے آسان بنانے کی باتیں تو ہر حکومت کرتی ہے لیکن عملاً کچھ نہیں کرتی ۔ پھر یہ گلہ کہ ہمارے عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے کچھ زیب نہیں کھاتا اور حکومت اپنی سوچ اور فکرکو بھی بدلے کہ ٹیکس دینے والی دیگر قوموں کے مقابلے میں ہمارے عوام کا تناسب سب سے کم ہے اور اپنے لوگوں کا بھارتی عوام سے موازنہ کرکے اُن کی تضحیک نہ کیا کرے ۔ یہ قوم اپنا پیٹ کم بھرتی ہے اور اپنے حکمرانوں کا زیادہ ۔
خدارا کھلی آنکھوں اور کھلے دماغ سے اپنی سالانہ آمدنی کا بغورجائزہ لیں تواحساس ہوجائے گا ، یہ پیسہ اِس قوم کے لوگوں نے ہی دیا ہے۔ وہ اگر ٹیکس ادا نہ کریں تو حکومت ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا پائے ۔ سالانہ بجٹ بناتے وقت ریوینو سے حاصل ہونے والی آمدنی ہی کوبنیاد بنایا جاتا ہے اور یہ ریوینیو کیا ہے ۔ عوام سے حاصل ہونے والی آمدنی ہی ہے۔ جسے بڑھانے کے لیے حکومت ہر سال ایک نیا ٹارگٹ مقرر کرتی ہے، یہ اگر پورا نہ ہو تو حکومت کے خسارے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور وہ ایک نئے مالی بحران میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔
عوام کے اِس بڑی قربانی کے عوض اُسے دیا کیا جاتا ہے۔ اُس کے لیے کون سے راحتیں پیدا کی جاتی ہیں ۔ دنیا میں اگرحکومتیں ٹیکس وصول کرتی ہے تو جواب میں اُنہیں سہولتیں بھی دیتی ہیں ۔ اُنہیں ٹرانسپورٹ سمیت صحت وصفائی اور علاج کے مفت سہولتیں فراہم کرتی ہیں، جب کہ ہمارے یہاں عوام کو کیا دیا جاتا ہے ۔کچرا ، گندگی ، بیماریاں اور غیر ممالک سے لیے جانے والے بڑے بڑے قرضے۔گرانی اور مہنگائی اِس کے علاوہ ہے جس کا کوئی حساب نہیں ۔
ہر حکومت اپنے سے پہلے آنے والی حکومت کے بارے میں شکوہ شکایتیں تو بہت کرتی ہے کہ اُس نے عوام پر غیر ملکی قرضوں کے انبار لگا دیے ہیں ، جب کہ خود اُس کا حال بھی اُن سے مختلف نہیں ہوتا ۔ پرانے قرضے اُتارنے کے لیے نئے اور پہلے سے بڑے قرضے ۔ یہی حال ہماری اِس نئی حکومت کا بھی ہے۔ گزشتہ چھ مہینوں سے وہ تمام مسائل اورمشکلات کا سبب صرف اور صرف پچھلی حکومت ہی کو گردانتی رہی ہے اور اِس کے حل کے لیے وہ بے شمار نئے قرضے بھی لے رہی ہے۔
خطرات اور خدشات بتا رہے ہیں کہ جب یہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرکے جائے گی تو نئی آنے والی حکومت بھی شاید اِس کے بارے میں وہی کچھ کہہ رہی ہوگی جویہ آج پچھلی حکومتوں کے بارے میں کہہ رہی ہے۔ حکومت کو اب نئے قرضوں سے اجتناب کرتے ہوئے ترقی وخوشحالی کے دیگر ذرائع تلاش کرنا ہونگے۔ قرضوں سے معیشت کبھی درست نہیں ہوسکتی۔ اِن سے وقتی راحت تو مل سکتی ہے لیکن دائمی خوشحالی ہرگز نہیں ۔
خود ہمارے موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی اپنے غیر ملکی دوروں میں ایک سے زائد مرتبہ یہ بات دہرا چکے ہیں کہ پاکستانی لوگ زکوۃ اور خیرات دینے میں توکوئی کسر نہیں چھوڑتے لیکن حکومت کو ٹیکس دینے سے کتراتے ہیں ۔ یہ بات گرچہ اُنہوں نے اپنی اُسی سوچ کے تناظر میں کی تھی جو وہ اپنی عرصہ دراز سے اپنائے ہوئے ہیں یعنی اُن سے پہلے برسراقتدار آنے والے سارے حکمراں چونکہ کرپٹ ، چور اورڈاکو تھے لٰہذا عوام اُن پر اعتبار نہیں کیا کرتے تھے۔
ہمارے لوگوں کو یہ خدشہ لاحق رہتا تھا کہ اُن کا دیا ہوا پیسہ درست اور صحیح جگہ پر خرچ ہوگا بھی یا نہیں ۔ خانصاحب ساتھ ہی ساتھ ٹیکس دہندگان کے اعداد وشمار بتاتے ہوئے بھی کچھ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں اور اکثر یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہمارے ملک کی بہت کم آبادی ٹیکس ادا کرتی ہیں ۔ وہ یہ بات کہتے ہوئے بھارت اوردیگر پڑوسی ملکوں کا حوالہ بھی دیتے رہتے ہیں کہ وہاں چار فیصد یا اُس سے بھی زیادہ لوگ برابر ٹیکس ادا کرتے ہیں جب کہ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے، جب کہ اگر دیکھا جائے تو یہ بات بالکل غلط اور بے بنیاد ہے ۔
پاکستانی تو ضروریات زندگی کی ہر چیز پر ٹیکس اداکرتے ہیں ۔ اِس ملک میں ایسی کونسی چیز ابھی باقی رہ گئی ہے جس پر ٹیکس عائد نہیں کیا گیا ہے ۔کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر سامان تعیش تک ہر چیز پر تو ٹیکس لاگو ہے ۔ ہمارے لوگوں کی یہی تو خرابی ہے کہ ہم دنیا کے سامنے اپنے عوام کا خراب اور مسخ چہرہ پیش کرتے رہتے ہیں اور اُنہیں حقیقت بیان کرتے ہوئے صرف آدھا سچ بتاتے ہیں ، جب کہ حقیقت حال اِس سے قطعاً مختلف ہوتی ہے۔ خان صاحب یہ بات کہتے ہوئے واضح کر دیتے کہ ٹیکس سے متعلق اُن کی یہ رائے صرف انکم ٹیکس کے بارے میں ہے تو بہتر ہوتا ۔
ہمارے ملک کی آبادی اِس وقت تقریباً 22 کروڑ ہے اوراِس میں سے نصف حصہ بچوں اور نا بالغوں پر مشتمل ہے۔ اِس کے علاوہ بیس پچیس فیصد لوگوں میں وہ گھریلو عورتیں اور بوڑھے افراد ہیں جن کا کوئی ذریعہ معاش ، روزگار یا کام کاج نہیں ہوتا ۔ لہذا صرف پچیس فیصد لوگ ہی باقی رہ جاتے ہیں جو باقاعدہ کسی کاروبار یا جاب سے منسلک ہیں ۔ ایسے میں انکم ٹیکس ادا کرنے والوں سے یہ گلہ درست معلوم نہیں ہوتا کہ وہ بہت کم ٹیکس دیتے ہیں ۔ انکم ٹیکس دینے والوں کے علاوہ ہماری آبادی کا ہرفرد کسی نہ کسی شکل میں حکومت کو برابرٹیکس دیتا ہے ۔
بچوں کے دودھ سے لے کرکھانے پینے کی ہر شے پر یہاں ٹیکس لاگو ہے ۔ گیس ، بجلی اور ٹیلی فون کے ہر بل پر نجانے کتنے قسم کے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں ۔ پٹرول اور اُس کی مصنوعات پر بھی اصل قیمت سے دگنا ٹیکس نافذ ہے جو ہر پاکستانی کو دینا پڑتا ہے۔ اِس کے علاوہ کوکنگ آئل ، گھی، دوائیاں ، ٹوتھ پیسٹ ، کتابیں اور اسٹیشنری سمیت ہر چیز پر ہماری یہ قوم ٹیکس دیتی ہے ۔ موبائل فونز اوراُن کے بیلنس کارڈ بے شمار چیزیں ایسی گنوائی جاسکتی ہیں جن پر حکومت ٹیکس بھی لیتی ہے اوراُس کی کوئی رسید بھی نہیں دیتی ۔
حکومتی اخراجات کا سارا دارو مدار ہی عوام سے وصول کیے جانے والے ٹیکس پر منحصر ہے ۔ وہ اگر ٹیکس نہیںدیتے تو بھلا بتایا جائے کہ حکومت اپنے اخراجات کیسے پورے کرتی ہے ۔ ریوینوکی شکل میں حاصل ہونے والی آمدنی کا سارا حصہ ہی عوام کے ادا کیے ہوئے ٹیکسوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہاں اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے یہاں فائلرز کی تعداد بہت کم ہے تو شاید درست ہو لیکن فائلرز بنے بناء ہمارے عوام حکومت کو روزانہ کی مد میں بے حساب ٹیکس دیتے رہتے ہیں ۔ وہ فائلر اِس لیے بن نہیں پاتے کیونکہ اُس کا طریقہ کار بہت مشکل اور پیچیدہ ہے ۔
ایک جاہل اور ان پڑھ شخص خود سے یہ کام ہرگزنہیں کر پاتا ۔ بلکہ پڑھے لکھے افراد بھی کسی قانونی ماہر یا کسی وکیل کی مدد کے بغیر فائلر نہیں بن سکتے ہیں اور اِس کام کے لیے اُنہیں اپنی جیب سے اضافی رقم بھی اداکرنی پڑتی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ فائلر بننے کے طریقہ کارکو سہل اور آسان بنائے کہ ہر شخص خود اپنے تئیں فائلر بن جائے۔ اُسے کسی وکیل کی فیس ادا نہ کرنی پڑے ۔ وہ ہر سال باقاعدہ ریٹرن داخل کرے اور اُسے کوئی پریشانی بھی اُٹھانی نہیں پڑے ۔
ہمارے یہاں اِس وقت فائلر بننے کا طریقہ کار اتنا کٹھن اور مشکل ہے کہ کوئی بھی شخص یہ کام آسانی سے نہیں کر پاتا۔ اُسے آسان بنانے کی باتیں تو ہر حکومت کرتی ہے لیکن عملاً کچھ نہیں کرتی ۔ پھر یہ گلہ کہ ہمارے عوام ٹیکس ادا نہیں کرتے کچھ زیب نہیں کھاتا اور حکومت اپنی سوچ اور فکرکو بھی بدلے کہ ٹیکس دینے والی دیگر قوموں کے مقابلے میں ہمارے عوام کا تناسب سب سے کم ہے اور اپنے لوگوں کا بھارتی عوام سے موازنہ کرکے اُن کی تضحیک نہ کیا کرے ۔ یہ قوم اپنا پیٹ کم بھرتی ہے اور اپنے حکمرانوں کا زیادہ ۔
خدارا کھلی آنکھوں اور کھلے دماغ سے اپنی سالانہ آمدنی کا بغورجائزہ لیں تواحساس ہوجائے گا ، یہ پیسہ اِس قوم کے لوگوں نے ہی دیا ہے۔ وہ اگر ٹیکس ادا نہ کریں تو حکومت ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا پائے ۔ سالانہ بجٹ بناتے وقت ریوینو سے حاصل ہونے والی آمدنی ہی کوبنیاد بنایا جاتا ہے اور یہ ریوینیو کیا ہے ۔ عوام سے حاصل ہونے والی آمدنی ہی ہے۔ جسے بڑھانے کے لیے حکومت ہر سال ایک نیا ٹارگٹ مقرر کرتی ہے، یہ اگر پورا نہ ہو تو حکومت کے خسارے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور وہ ایک نئے مالی بحران میں مبتلا ہوجاتی ہے ۔
عوام کے اِس بڑی قربانی کے عوض اُسے دیا کیا جاتا ہے۔ اُس کے لیے کون سے راحتیں پیدا کی جاتی ہیں ۔ دنیا میں اگرحکومتیں ٹیکس وصول کرتی ہے تو جواب میں اُنہیں سہولتیں بھی دیتی ہیں ۔ اُنہیں ٹرانسپورٹ سمیت صحت وصفائی اور علاج کے مفت سہولتیں فراہم کرتی ہیں، جب کہ ہمارے یہاں عوام کو کیا دیا جاتا ہے ۔کچرا ، گندگی ، بیماریاں اور غیر ممالک سے لیے جانے والے بڑے بڑے قرضے۔گرانی اور مہنگائی اِس کے علاوہ ہے جس کا کوئی حساب نہیں ۔
ہر حکومت اپنے سے پہلے آنے والی حکومت کے بارے میں شکوہ شکایتیں تو بہت کرتی ہے کہ اُس نے عوام پر غیر ملکی قرضوں کے انبار لگا دیے ہیں ، جب کہ خود اُس کا حال بھی اُن سے مختلف نہیں ہوتا ۔ پرانے قرضے اُتارنے کے لیے نئے اور پہلے سے بڑے قرضے ۔ یہی حال ہماری اِس نئی حکومت کا بھی ہے۔ گزشتہ چھ مہینوں سے وہ تمام مسائل اورمشکلات کا سبب صرف اور صرف پچھلی حکومت ہی کو گردانتی رہی ہے اور اِس کے حل کے لیے وہ بے شمار نئے قرضے بھی لے رہی ہے۔
خطرات اور خدشات بتا رہے ہیں کہ جب یہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرکے جائے گی تو نئی آنے والی حکومت بھی شاید اِس کے بارے میں وہی کچھ کہہ رہی ہوگی جویہ آج پچھلی حکومتوں کے بارے میں کہہ رہی ہے۔ حکومت کو اب نئے قرضوں سے اجتناب کرتے ہوئے ترقی وخوشحالی کے دیگر ذرائع تلاش کرنا ہونگے۔ قرضوں سے معیشت کبھی درست نہیں ہوسکتی۔ اِن سے وقتی راحت تو مل سکتی ہے لیکن دائمی خوشحالی ہرگز نہیں ۔