خطے کی بدلتی صورتحال
امریکی سامراج اب پہلے کی طرح توانا نہیں رہا، اسے کئی جگہ سے پیچھے ہٹنا پڑا۔
عالمی صورت حال کی روشنی میں ہی خطوں کی صورتحال بدلتی ہے۔ اس لیے کہ دنیا پر عالمی سرمایہ داری اور سامراجی مداخلت اپنا رخ مسلسل بدل رہی ہے ۔ معاشی حالات بد ستور بحران کا شکار ہیں ۔ دنیا کے سب سے بڑے مقروض ممالک امریکا اور چین ہیں ۔ سعودی عربیہ جو پہلے کبھی آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیتا تھا، اب لینے لگا ہے۔ امریکا میں تین کروڑ اور چین میں بیس کروڑ لوگ بیروزگار ہیں۔
سعودی عربیہ میں بھی بارہ فیصد لوگ بیروزگار ہیں۔ سرمایہ دار دنیا میں جرمنی کی معیشت بہترکہلاتی ہے جب کہ یہاں کی معاشی شرح نمو آٹھ فیصد سے گھٹ کر دواعشاریہ پانچ فیصد پر آگئی ہے۔اس وقت دنیا کی کل دولت کے آدھے حصے کے مالک بارہ افراد ہیں جب کہ اسی دنیا میں ہر روز پچھتر ہزار انسان صرف بھوک سے مررہے ہیں۔ ساڑھے سات ارب کی آبادی میں پانچ ارب غربت کا شکار ہیں اور ایک ارب سے زیادہ بیروزگار۔
امریکی سامراج اب پہلے کی طرح توانا نہیں رہا، اسے کئی جگہ سے پیچھے ہٹنا پڑا، یوکرائن میں امریکا کو شکست ہوئی اور کریمیا روس کا حصہ بن گیا ۔ عراق ، شام اور افغانستان میں شکست سے دوچار ہوکر وہاں سے اپنی افواج کو واپس بلانا پڑا، سوشلسٹ کوریا کے صدرکم جونگ سے ٹرمپ کو ملنا پڑا۔ ویت نام میں ملاقات ہورہی ہے۔ مگر اب وہ سعودی عرب کے ذریعے امریکی سعودی اتحاد کے نام سے یمنی عوام پر مسلسل مظالم ڈھائے جا رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ اور افغانستان سے امریکی فوج کو بھاگ کھڑے ہونے کے بعد وینز ویلا کی جانب نظریں گاڑ لی ہیں ۔ اس لیے بھی کہ جدید تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ تیل کا ذخیرہ وینزویلا میں ہے ۔ اس لیے وہ منتخب سوشلسٹ صدر نیکولس مادورو کے خلاف مسلسل سازش کررہا ہے ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکوکی سرحد پر دیوار بنانے کے لیے جس ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے اس کے خلاف امریکا کی سولہ ریاستوں نے ٹرمپ کے خلاف عدالت میں ہرجانے کا دعوی کردیا ہے ۔
ادھر ڈیموکریٹک پارٹی کے سوشلسٹ رہنما برنی سینڈرز نے 2020ء میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدرکے امیدوار بننے کا اعلان کردیا ہے۔ ٹرمپ اور برنی دونوں کوعوام کی 41/41 فیصد کی حمایت حاصل ہے۔ لیبر پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر جیرمی کوربین کے آیندہ انتخابات میں وزیراعظم بننے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ ان حالات کی روشنی میں پاکستان،امریکی اور چینی سامراج کے بیچ سینڈوچ بنا ہوا ہے۔
سارے سامراجی ممالک پاکستان کو قرض،امداد اور سرمایہ کاری کے لیے اربوں ڈالرکے رقوم دے رہے ہیں ، مگر یہ ساری رقوم سود کے عوض اور سامراجی لوٹ کے مفادات کی تکمیل کی خاطر دی جا رہی ہیں۔ چین پانچ فیصد، عرب امارات تین فیصد، سعودی عرب دو فیصد جب کہ آئی ایم ایف ایک عشاریہ پانچ فیصدکی شرح سود پر رقوم فراہم کر رہے ہیں۔ حالیہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان پر الزام ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر جمال خشوگی کا بیہیما نہ قتل نہیں ہوسکتا تھا۔ اقوام متحدہ کی تین رکنی کمیٹی جمال خشوگی کے قتل پر لگے الزام پر محمد بن سلمان کی تفتیش کر رہی ہے۔
پاکستان کی فوج اب بھی سعودی عرب میں موجود ہے۔ یہاں اسلامی اتحاد درحقیقت امریکی سعودی اتحاد بنا ہوا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جتنے بھی تنازعات اور جنگیں ہوئیں سب تیل کے مسئلے پر ۔ نہر سوئزکے مسئلے پر برطانیہ اور فرانس نے مصر پر حملہ کیا۔ ڈاکٹرمصدق نے جب ایران میں تیل کو قومیا لیا تو شاہ ایران کو ایک سازش کے ذریعے از سر نو اقتدار پر امریکا ہی لایا ۔ عراق کے تیل پر قابض ہونے کے لیے مہلک ہتھیارکے بہانے عراق پر حملہ کیا جب کہ مہلک ہتھیارکے جھوٹ کو اوباما نے خود تسلیم کیا۔
عالم عرب میں جہاں جہاں بادشاہتیں ختم ہوئیں وہاں تیل کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا اور یہ کام بعث سوشلسٹ پارٹی نے ہی انجام دیا تھا ۔اب جہاں جہاں بادشاہتیں ہیں، ان سب ملکوں میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں اور بادشاہتوں کو وہ تحفظ اس لیے نہیں دیتا کہ ان سے دوستی ہے بلکہ اس لیے دیتا ہے کہ کوڑیوں کے دام تیل حاصل کرسکے۔
ہر چند کہ ایران اپنی ملائیت کو مشرق وسطیٰ پر مسلط کرنا چاہتا ہے اس لیے وہ حوثی باغیوں، بحرین کے عوام اور شامی حکومت کی مدد کرتا ہے ، چونکہ ان ملکوں میں جہاں جہاں بادشاہتیں ہیں وہاں عوامی بغاوت کی وجہ سے بادشاہتوں کو خطرہ لاحق ہے اس لیے عرب بادشاہتیں اور امریکا ایران کے خلاف ہیں ۔ اسی لیے پاکستان میں آئے ہوئے سعودی وزیرخارجہ نے محمود شاہ قریشی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بر ملا کہا کہ مشرق وسطیٰ میںایران دہشتگردی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ، وہ حوثی باغی اور لبنان کے حزب اللہ کی مددکرتا ہے۔
پاکستان میں سعودی عرب جو اکیس ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کر رہا ہے وہ فورا نہیں بتدریج کر رہا ہے۔ زراعت، توانائی اور دیگر شعبوں میں جس کا سود بھی لے گا اور فوجی تعاون بھی۔ جس کے عوض لاکھوں یمنی بچے موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔ یمن کے عوام کا مسئلہ یمن کے اندرکا ہے ۔ سعودی عرب کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
یمن میں اگر دو تین پارٹیوں یا گرو ہوں میں لڑائی ہورہی ہے تو یہ اقوام متحدہ کو یا پھر مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک بشمول ایران، شام ، سعودی عرب اور عراق وغیرہ بیٹھ کر حل کریں نہ کہ فریق بن کر زور آزمائی اور جنگ کریں ، اگر اسلامی اتحاد واقعی دہشتگردی کے خلاف تشکیل دیا گیا ہے تو پھر اس میں ایران، شام ، لبنان وغیرہ کیوں شا مل نہیں ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ نام نہاد اسلامی اتحاد کی سربراہی سے ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کو واپس بلا لے اور سعودی یمن جنگ سے اپنے آپ کو الگ کرکے غیرجانبدار اور لاتعلقی کا اعلان کرے ۔
پاکستان میں سرمایہ کاری سے عوام کے مسائل حل نہیں ہونگے ۔ جاگیرداری کے خاتمے ، سرمایہ داری کے خاتمے،کارخانوں کا جال بچھانے ، آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک سے چھٹکارا حاصل کرنے، قرضوں، امدادوں اور سود سے نجات حاصل کرنے میں مضمر ہے ۔ جب پا کستان بنا تھا تو ایک روپے کا ایک ڈٖالر تھا اور آج 139 روپے کا ڈالر ہے۔
کیوبا کا ایک پیسو(کرنسی) آج بھی ایک ڈالرکے برابر ہے۔ وہاں سو فیصد خواندگی ہے۔کینسر، ہیپا ٹائیٹس، ایڈز اور دیگر مہلک بیماریوں کا قلع قمع کردیا گیا ہے ،کوئی بے روزگار نہیں ہے ۔ ہرچندکہ ان کے پاس میزائل ہے اور نہ ایٹم بم یا ایف 16۔ کیوبا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کاشتکاری میں دیسی کھاد استعمال ہوتی ہے اور پیسٹی سائیڈ کی بجائے دیسی دوائوںسے کام لیا جاتا ہے۔ انھوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ، سعودی عرب یا چین وغیرہ سے کو ئی قرض نہ امداد لیا ہے۔ اس لیے کہ کیوبا میں جاگیرداری ہے اور نہ سرمایہ داری ۔ تو پھر بم بنانے کی بجائے ہم بھی سرمایہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ کرکے بھوک، افلاس، بیماری اور جہالت کا خاتمہ کرسکتے ہیں ۔ ہمیں بھی کسی کے پاس ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
پاکستان میں 2005ء میں جب زلزلہ آیا تھا تو کیوبا کے بارہ سو ڈاکٹرز نے خدمات انجام دیں۔ کیوبا کے 36000 ڈاکٹرز90 ترقی پذیر ملکوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں پھر بھی وہ مقروض نہیں ہیں ۔ لہٰذا ہم بھی سامراجیوں اور شاہوں سے نجات حاصل کرکے ایک خود مختار،خود انحصار اور پر وقار ملک بن سکتے ہیں ۔اس لیے بھی کہ کیوبا کے پاس وسائل کی بہت کمی ہے۔ گنا ، تمبا کو اورکیلے پر انحصار ہے ، جب کہ ہمارے پاس سونا ، چاندی، قیمتی جواہرات، معد نیات ،کوئلہ ، پھل، مویشی یعنی سب کچھ ہے، ہم کیوبا سے زیادہ ترقی اور خود انحصاریت پیدا کرسکتے ہیں ۔
سعودی عربیہ میں بھی بارہ فیصد لوگ بیروزگار ہیں۔ سرمایہ دار دنیا میں جرمنی کی معیشت بہترکہلاتی ہے جب کہ یہاں کی معاشی شرح نمو آٹھ فیصد سے گھٹ کر دواعشاریہ پانچ فیصد پر آگئی ہے۔اس وقت دنیا کی کل دولت کے آدھے حصے کے مالک بارہ افراد ہیں جب کہ اسی دنیا میں ہر روز پچھتر ہزار انسان صرف بھوک سے مررہے ہیں۔ ساڑھے سات ارب کی آبادی میں پانچ ارب غربت کا شکار ہیں اور ایک ارب سے زیادہ بیروزگار۔
امریکی سامراج اب پہلے کی طرح توانا نہیں رہا، اسے کئی جگہ سے پیچھے ہٹنا پڑا، یوکرائن میں امریکا کو شکست ہوئی اور کریمیا روس کا حصہ بن گیا ۔ عراق ، شام اور افغانستان میں شکست سے دوچار ہوکر وہاں سے اپنی افواج کو واپس بلانا پڑا، سوشلسٹ کوریا کے صدرکم جونگ سے ٹرمپ کو ملنا پڑا۔ ویت نام میں ملاقات ہورہی ہے۔ مگر اب وہ سعودی عرب کے ذریعے امریکی سعودی اتحاد کے نام سے یمنی عوام پر مسلسل مظالم ڈھائے جا رہا ہے۔
مشرق وسطیٰ اور افغانستان سے امریکی فوج کو بھاگ کھڑے ہونے کے بعد وینز ویلا کی جانب نظریں گاڑ لی ہیں ۔ اس لیے بھی کہ جدید تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ تیل کا ذخیرہ وینزویلا میں ہے ۔ اس لیے وہ منتخب سوشلسٹ صدر نیکولس مادورو کے خلاف مسلسل سازش کررہا ہے ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے میکسیکوکی سرحد پر دیوار بنانے کے لیے جس ایمرجنسی کا اعلان کیا ہے اس کے خلاف امریکا کی سولہ ریاستوں نے ٹرمپ کے خلاف عدالت میں ہرجانے کا دعوی کردیا ہے ۔
ادھر ڈیموکریٹک پارٹی کے سوشلسٹ رہنما برنی سینڈرز نے 2020ء میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں صدرکے امیدوار بننے کا اعلان کردیا ہے۔ ٹرمپ اور برنی دونوں کوعوام کی 41/41 فیصد کی حمایت حاصل ہے۔ لیبر پارٹی کے سوشلسٹ لیڈر جیرمی کوربین کے آیندہ انتخابات میں وزیراعظم بننے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ ان حالات کی روشنی میں پاکستان،امریکی اور چینی سامراج کے بیچ سینڈوچ بنا ہوا ہے۔
سارے سامراجی ممالک پاکستان کو قرض،امداد اور سرمایہ کاری کے لیے اربوں ڈالرکے رقوم دے رہے ہیں ، مگر یہ ساری رقوم سود کے عوض اور سامراجی لوٹ کے مفادات کی تکمیل کی خاطر دی جا رہی ہیں۔ چین پانچ فیصد، عرب امارات تین فیصد، سعودی عرب دو فیصد جب کہ آئی ایم ایف ایک عشاریہ پانچ فیصدکی شرح سود پر رقوم فراہم کر رہے ہیں۔ حالیہ سعودی شہزادہ محمد بن سلمان پر الزام ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر جمال خشوگی کا بیہیما نہ قتل نہیں ہوسکتا تھا۔ اقوام متحدہ کی تین رکنی کمیٹی جمال خشوگی کے قتل پر لگے الزام پر محمد بن سلمان کی تفتیش کر رہی ہے۔
پاکستان کی فوج اب بھی سعودی عرب میں موجود ہے۔ یہاں اسلامی اتحاد درحقیقت امریکی سعودی اتحاد بنا ہوا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جتنے بھی تنازعات اور جنگیں ہوئیں سب تیل کے مسئلے پر ۔ نہر سوئزکے مسئلے پر برطانیہ اور فرانس نے مصر پر حملہ کیا۔ ڈاکٹرمصدق نے جب ایران میں تیل کو قومیا لیا تو شاہ ایران کو ایک سازش کے ذریعے از سر نو اقتدار پر امریکا ہی لایا ۔ عراق کے تیل پر قابض ہونے کے لیے مہلک ہتھیارکے بہانے عراق پر حملہ کیا جب کہ مہلک ہتھیارکے جھوٹ کو اوباما نے خود تسلیم کیا۔
عالم عرب میں جہاں جہاں بادشاہتیں ختم ہوئیں وہاں تیل کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا اور یہ کام بعث سوشلسٹ پارٹی نے ہی انجام دیا تھا ۔اب جہاں جہاں بادشاہتیں ہیں، ان سب ملکوں میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں اور بادشاہتوں کو وہ تحفظ اس لیے نہیں دیتا کہ ان سے دوستی ہے بلکہ اس لیے دیتا ہے کہ کوڑیوں کے دام تیل حاصل کرسکے۔
ہر چند کہ ایران اپنی ملائیت کو مشرق وسطیٰ پر مسلط کرنا چاہتا ہے اس لیے وہ حوثی باغیوں، بحرین کے عوام اور شامی حکومت کی مدد کرتا ہے ، چونکہ ان ملکوں میں جہاں جہاں بادشاہتیں ہیں وہاں عوامی بغاوت کی وجہ سے بادشاہتوں کو خطرہ لاحق ہے اس لیے عرب بادشاہتیں اور امریکا ایران کے خلاف ہیں ۔ اسی لیے پاکستان میں آئے ہوئے سعودی وزیرخارجہ نے محمود شاہ قریشی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بر ملا کہا کہ مشرق وسطیٰ میںایران دہشتگردی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ، وہ حوثی باغی اور لبنان کے حزب اللہ کی مددکرتا ہے۔
پاکستان میں سعودی عرب جو اکیس ارب ڈالرکی سرمایہ کاری کر رہا ہے وہ فورا نہیں بتدریج کر رہا ہے۔ زراعت، توانائی اور دیگر شعبوں میں جس کا سود بھی لے گا اور فوجی تعاون بھی۔ جس کے عوض لاکھوں یمنی بچے موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔ یمن کے عوام کا مسئلہ یمن کے اندرکا ہے ۔ سعودی عرب کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
یمن میں اگر دو تین پارٹیوں یا گرو ہوں میں لڑائی ہورہی ہے تو یہ اقوام متحدہ کو یا پھر مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک بشمول ایران، شام ، سعودی عرب اور عراق وغیرہ بیٹھ کر حل کریں نہ کہ فریق بن کر زور آزمائی اور جنگ کریں ، اگر اسلامی اتحاد واقعی دہشتگردی کے خلاف تشکیل دیا گیا ہے تو پھر اس میں ایران، شام ، لبنان وغیرہ کیوں شا مل نہیں ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ نام نہاد اسلامی اتحاد کی سربراہی سے ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف کو واپس بلا لے اور سعودی یمن جنگ سے اپنے آپ کو الگ کرکے غیرجانبدار اور لاتعلقی کا اعلان کرے ۔
پاکستان میں سرمایہ کاری سے عوام کے مسائل حل نہیں ہونگے ۔ جاگیرداری کے خاتمے ، سرمایہ داری کے خاتمے،کارخانوں کا جال بچھانے ، آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک سے چھٹکارا حاصل کرنے، قرضوں، امدادوں اور سود سے نجات حاصل کرنے میں مضمر ہے ۔ جب پا کستان بنا تھا تو ایک روپے کا ایک ڈٖالر تھا اور آج 139 روپے کا ڈالر ہے۔
کیوبا کا ایک پیسو(کرنسی) آج بھی ایک ڈالرکے برابر ہے۔ وہاں سو فیصد خواندگی ہے۔کینسر، ہیپا ٹائیٹس، ایڈز اور دیگر مہلک بیماریوں کا قلع قمع کردیا گیا ہے ،کوئی بے روزگار نہیں ہے ۔ ہرچندکہ ان کے پاس میزائل ہے اور نہ ایٹم بم یا ایف 16۔ کیوبا دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کاشتکاری میں دیسی کھاد استعمال ہوتی ہے اور پیسٹی سائیڈ کی بجائے دیسی دوائوںسے کام لیا جاتا ہے۔ انھوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ، سعودی عرب یا چین وغیرہ سے کو ئی قرض نہ امداد لیا ہے۔ اس لیے کہ کیوبا میں جاگیرداری ہے اور نہ سرمایہ داری ۔ تو پھر بم بنانے کی بجائے ہم بھی سرمایہ داری اور جاگیرداری کا خاتمہ کرکے بھوک، افلاس، بیماری اور جہالت کا خاتمہ کرسکتے ہیں ۔ ہمیں بھی کسی کے پاس ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے ۔
پاکستان میں 2005ء میں جب زلزلہ آیا تھا تو کیوبا کے بارہ سو ڈاکٹرز نے خدمات انجام دیں۔ کیوبا کے 36000 ڈاکٹرز90 ترقی پذیر ملکوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں پھر بھی وہ مقروض نہیں ہیں ۔ لہٰذا ہم بھی سامراجیوں اور شاہوں سے نجات حاصل کرکے ایک خود مختار،خود انحصار اور پر وقار ملک بن سکتے ہیں ۔اس لیے بھی کہ کیوبا کے پاس وسائل کی بہت کمی ہے۔ گنا ، تمبا کو اورکیلے پر انحصار ہے ، جب کہ ہمارے پاس سونا ، چاندی، قیمتی جواہرات، معد نیات ،کوئلہ ، پھل، مویشی یعنی سب کچھ ہے، ہم کیوبا سے زیادہ ترقی اور خود انحصاریت پیدا کرسکتے ہیں ۔