اسپیکر قومی اسمبلی سے مکالمہ
اسد قیصر اس وقت پاکستان میں جمہوریت کو سنگین چیلنجز دیکھتے ہیں۔
RAWALPINDI:
اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اس وقت پاکستان میں سیاسی مفاہمت کی سوچ کے علمبردار ہیں۔ وہ تحریک انصاف میں سیاسی مفاہمت کی آواز بلند کر رہے ہیں۔وہ سیاسی محاذ آرائی اور درجہ حرات کم کرنے کے خواہاں لگ رہے ہیں۔ ان سے گزشتہ دنوں ایک طویل نشست ہوئی جس میں موجودہ سیاسی صورتحال اور پاکستان کی سیاست کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ اسد قیصر اس وقت پاکستان میں جمہوریت کو سنگین چیلنجز دیکھتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انھیں جمہوریت محفوظ اور بہترین حالت میں نظرآرہی ہو۔ان کے خیال میں جمہوریت کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔
میں نے ان سے کہا کہ تحریک انصاف کے کچھ حلقے ان پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان کی جانب سے شہباز شریف کو پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بنانے اور شہباز شریف خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ ایوان میں مفاہمانہ رویہ پر تنقید کی جا رہی ہے۔ کہیں نہ کہیں یہ کہا جا رہا ہے کہ بطور اسپیکر آپ تحریک انصاف کی سیاسی لائن کی پیروی نہیں کر رہے ہیں۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ کیا آپ حکومت کے بجائے اپوزیشن کے اسپیکر بن گئے ہیں۔ اپوزیشن رہنمائوں سے چھپ چھپ کر خفیہ ملاقاتیں کرتے ہیں۔ وہ مسکرائے اور انھوں نے کہا کہ یہ سب ایک پروپیگنڈہ تھا۔ ان کے اور عمران خان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔میں نے کہا کہ کیا وہ سب کامیاب ہو گئے۔ انھوں نے کہا ہر گز نہیں۔میں تحریک انصاف میں تھا، تحریک انصاف میں ہوں اور تحریک انصاف میں ہی رہوں گا۔
میں نے سیاست تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے بائیس سال پہلے شروع کی تھی۔ بائیس سال تحریک انصاف میں ہی رہاہوں۔ میں نے کبھی سیاسی جماعت تبدیل نہیں کی ہے۔ میرا اوڑھنا بچھونا تحریک انصاف ہے۔ میں نے کوئی بھی فیصلہ قیادت کی مرضی کی بغیر نہیں کیا ہے۔ اس ضمن میں سارا پراپیگنڈا تھا۔ میں نے کہا اپنے ہی گرا رہے ہیں نشیمن پر بجلیاں۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے کوئی اور بات کریں۔
میں نے کہا ایک طرف آپ کی جماعت اپوزیشن کے رہنمائوں کو چور اور ڈاکو کہتی ہے،آپ کی جماعت کا بیانیہ ہے کہ یہ چور اور لٹیرے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ دوسری طرف آپ قومی اسمبلی میں انھیں رعایت دیتے ہیں۔ ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرتے ہیں۔ ان کو بولنے کا موقع دیتے ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین بناتے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔
انھوں نے کہا بطور اسپیکر میرا کام ہے کہ تمام فیصلے آئین و قانون کے مطابق کروں۔ اس میں میری ذات، میری سوچ اور پارٹی پالیسی کا عمل دخل نہیں۔ میں نے کہا کہ آپ قومی اسمبلی قواعد کے تحت چلائیں گے یا پارٹی لیڈر کی مرضی کے تحت۔ انھوں نے کہا میں اپنے پارٹی لیڈر کی ہدایت پر قومی اسمبلی آئین قانون قواعد اور انصاف کے مطابق چلا رہا ہوں۔ یہی پارٹی پالیسی بھی ہے۔
میں نے کہا نہیں لوگ جاننا چاہتے ہیں تو انھوں نے کہا کیا لوگ مجھے جانتے نہیں ہیں۔ ایک طرف میرے ہاتھ پر دنیا کی ساری دولت رکھ دی جائے اور دوسری طرف عمران خان، پھر انتخاب کا کہا جائے تو میں عمران خان لوں گا۔ میرا عمران خان سے تعلق کسی مفاد یا عہدے کی وجہ سے نہیں ہے۔ میں گورنمنٹ اسکول میں ٹاٹ پر پڑھنے والا ایک غریب گھر کا بچہ ہوں۔ ایک استاد رہا ہوں۔ یہ تحریک انصاف ہی ہے جس نے مجھے اسپیکر قومی اسمبلی بنا دیا۔ اسپیکر کے پی اسمبلی بنا دیا۔ورنہ کسی اور جماعت میں مجھ جیسے غریب آدمی کو ٹکٹ مل سکتا ہے؟
کوئی ہم جیسے غریب آدمی کو آگے آنے دے؟اول تو بڑے بڑے ناموں کی موجودگی میں ٹکٹ ملنا ہی ناممکن ہے۔ یہ تحریک انصاف ہی ہے جہاں حسب نسب کے بجائے قابلیت اور سیاسی کام دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے وہاں مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے مجھ جیسے لوگ آگے آسکتے ہیں۔
میں نے کہا لیکن تحریک انصاف نے بھی گزشتہ انتخاب سے پہلے بڑے بڑے نام شامل کیے۔ جیتنے والوں گھوڑوں کو ٹکٹ دیے۔ لوٹے لیے۔ انھوں نے کہا اس کا فائدہ نہیں نقصان ہوا ہے۔ آپ دیکھیں ہم پنجاب میں کے پی کی طرح نہیں جیت سکے ہیں۔ اگر پنجاب میں بھی تحریک انصاف کے پی کی طرح اپنے کارکنوں اور لوگوں کو ٹکت دیتی تو نتائج زیادہ بہتر ہو سکتے تھے۔
اسد قیصر کا موقف ہے کہ جب تک پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت نہیں آئے گی پاکستان کی سیاست ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے کہا میری مثال سب کے سامنے ہے، میں نے تحریک انصاف کے پی کی صدارت کا پارٹی الیکشن لڑا۔ میں پارٹی کے عام کارکنوں کے ووٹ سے تحریک انصاف کے پی کا صدر منتخب ہوا۔ مجھے کسی نے نامزد نہیں کیا تھا۔
میں نے کوئی شارٹ کٹ نہیں مارا۔ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں جمہوریت مضبوط اور محفوظ ہوجائے توہمیں سیاسی جماعتوں میں جمہوریت لانی ہوگی۔ ایسے کیسے جمہوریت محفوظ اور مضبوط ہو سکتی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اندر تو جمہوریت لانے کے لیے تیار نہ ہوں لیکن ملک کے اندر جمہوریت مانگیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم عام سیاسی کارکن کو اس کا سیاسی حق دینے کے لیے تیار نہ ہوں لیکن اپنے لیے سیاسی حق مانگتے رہیں۔ اس کو فیصلوں میں شریک ہی نہ کریں۔
میں نے کہااس کا راستہ کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت تو اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ سیاسی کارکن کو طاقت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا صرف تحریک انصاف یہ کام کر سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف ہی وہ واحد جماعت ہے جو یہ کام کر سکتی ہے۔ ہمیں ایسی قانون سازی کرنی چاہیے جو الیکشن کمیشن کو مضبوط بھی کرے اور پابند بھی کرے کہ وہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کو نافذ کرے۔ سیاسی جماعتوں میں سے خاندانی آمریت کو ختم کرنا ہوگا۔ سیاسی خاندانوں کی طاقت کو ختم کر کے عام کارکن کو اس کا حصہ دینا ہوگا۔ میں نے کہا ابھی تو ایسا لگ رہا ہے کہ انٹر ا پارٹی انتخابات کی داعی تحریک انصاف بھی انٹرا پارٹی انتخابات سے بھاگ گئی ہے۔
انھوں نے کہا نہیں ایسا نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف کی بقاء اسی میں ہے کہ ہم دوبارہ تحریک انصاف میں پارٹی انتخابات کرائیں۔ مجھے امید ہے کہ تحریک انصاف جلد دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کرائے گی۔ میں نے کہا کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پہلے انٹرا پارٹی انتخابات سے بھی پارٹی کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا تھا۔ انھوں نے کہا اس کی ٹائمنگ غلط تھی۔ ایک طرف ملک میں عام انتخابات ہو رہے تھے اور دوسری طرف ہم نے پارٹی میں انتخابات کرانے شروع کر دیے۔ اگر وہی انٹر ا پارٹی انتخابات عام انتخاب سے ایک سال قبل کرائے جاتے تو پارٹی کو بہت فائدہ ہو تا۔
میں نے کہا بطور اسپیکر قومی اسمبلی کیا آپ قومی اسمبلی کی اب تک کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔نہ کوئی قانون سازی۔ نہ کوئی کام۔ بس پروڈکشن آرڈر اور احتجاج کی سیاست۔ انھوں نے کہا یہ درست ہے کہ پہلے چھ ماہ میں ابھی تک کوئی قانون سازی نہیں ہوئی ہے۔ لیکن جب میں کے پی اسمبلی کا اسپیکر تھا تو وہاں ریکارڈ قانون سازی ہوئی تھی۔ اب بھی مجھے وزارت قانون نے بتایا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں اہم قوانین لے کر آرہے ہیں۔ جن میں سول مقدمات کا دو سال کے اندر فیصلہ کرنے اور دیگر قوانین شامل ہیں۔ اس لیے آپ لوگ بے فکر رہیں یہ اسمبلی اپنے سارے کام کرے گی۔ شروع میں مشکلات آئی ہیں۔ لیکن ہم نے ان تمام مشکلات پر قابو پا لیا ہے۔
اسد قیصر کے خیال میں بھارت سے کشیدگی کے بعد ملک میں سیاسی اتفاق رائے پیدا کرنے اور سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ملک میں سیاسی اتفاق رائے کی راہ ہموار کی جا سکے۔