جنگ سے بچا جائے
جنگ کا یہ ماحول ہر صورت ختم ہو وگرنہ اقوام متحدہ کی2019ء کی رپورٹ 2018ء سے بھی بدتر ہو گی۔
KARACHI:
یہ آگ کے کھیل کے سوا کچھ نہیں جو اس خطے، خاص طور پرپڑوسی ملک میں کھیلا جا رہا ہے۔اسے ہیجان ہی ہیجان۔ جنون اور فسطائیت کا نام دینا چاہیے۔ انڈین نیوز چینلز تو ہماری کیبل پر آتے نہیں مگر چند منٹ کے لیے انٹرنیٹ پر بھارتی چینلز دیکھیں، ویب سائٹس پڑھیں تو آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے منہ سے کف اڑاتے،غصہ سے پاگل ہوئے لوگوں کا ایک ہجوم ہے، ہر طرف وہی چھائے ہیں۔اور''بدلہ لو انڈیا''جیسے نعرے لگا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز مظفر آباد سیکٹر میں بھارتی طیارے 3،4 میل تک پاکستانی حدود میں گھس آئے اور پھر پاک فضائیہ کی بروقت تیاری کو دیکھ کر واپس بھاگ گئے۔ بھارتی میڈیا نے شور مچاکر آسمان سر پر اُٹھالیا کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیاہے۔انڈین نیوز چینلز پرانی ویڈیوز چلا کر عوام کا جوش بڑھاتے رہے، جب کہ پاکستان کے سیاسی و عسکری قائدین نے اعلان کیا ہے کہ بھارت کو اس ''کارروائی'' پر کس وقت، کس جگہ اور کس قسم کا جواب دیا جائے، اس کا فیصلہ ہم کریں گے...
یقیناً ایسے ماحول میں غیظ وغضب کی انتہائی لہریں ہر طرف نظر آرہی ہیں۔ آخر نوبت اس انتہا تک کیوں پہنچائی گئی؟ واضح محسوس ہور ہا ہے کہ پلوامہ حملے کو غیر معمولی عجلت سے پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ ایسی عجلت جس سے کسی سازش یا طے شدہ منصوبے کی بو آتی ہے۔اور پھر بھارتی الیکشن بھی سر پر ہیں،یوں لگا جیسے یا تو فالس فلیگ آپریشن کیا گیا یا پھراچانک رونما ہونے والے کسی واقعے کو برق رفتاری سے پاکستان پر منطبق کر کے ملک میں جنگی جنون بھڑکانے اور اس سے الیکشن جیتنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ (انٹیلی جنس اصطلاحات میں فالس فلیگ آپریشن سے مراد ایسا خفیہ آپریشن ہے، جس میں اپنے ہی لوگ کسی مخالف ملک کے جنگجو کا روپ دھار کر انھیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔)
اس صورتحال کو دنیا کی بڑی طاقتیں مانیٹر بھی کر رہی ہیں اور انتباہ بھی کر رہی ہیں کہ اگر اس جنگ نے بھیانک روپ دھار لیا تو پھر واپسی ممکن نہیں ہوگی۔ امریکی ماہرین کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی صورت میں 90فیصد آبادی ختم ہو جائے گی، پاکستان اور بھارت دو پڑوسی ملک اور نیوکلیئر طاقتیں ہیں لیکن دونوں ممالک کے آپس میں تعلقات کشیدہ رہنے کی وجہ سے اکثر ہمں جوہری جنگ کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ دنیا کی دو چھوٹی سی نیوکلیئر طاقتیں جن کے پاس ہیرو شیما پر گرائے گئے بم کے برابر چند سو جوہری ہتھیار ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی صورت میں دوسرے ممالک کو بھی اس کے غیر ارادی نتائج بھگتنا پڑیں گے، جو دنیا کو تباہی کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔
خیر ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ کوئی فلمی جنگ نہیں ہے، جن ملکوں میں آج تک جنگ ہوئیں ہیں اُن سے پوچھا جائے، کہ جنگ کیا ہوتی ہے؟ پاکستان اور انڈیا میں تو آج تک جنگ ہوئی ہی نہیں ! جنگ کے بارے میں پوچھنا ہے تو جرمنی، فرانس، جاپان، برطانیہ، شام، عراق، روس، افغانستان، سربیا، ویت نام، جنوبی کوریا، شمالی کوریا، الجزائر، یمن، نائیجیریا، ایتھوپیا، صومالیہ، کانگو وغیرہ سے پوچھا جائے جن کے لاکھوں لوگ پل بھر میں لقمہ اجل بنتے رہے اور شہر کے شہر تباہ کر دیے جاتے رہے۔ 1971ء کے بعد سے کوئی حقیقی جنگ نہیں لڑی گئی اور کارگل ایک محدود آپریشن تھا جو پہاڑی علاقوں میں ہوا اور خوش قسمتی سے زیادہ شہری متاثر نہیں ہوئے لیکن اگر امرتسر پر بم گرایا گیا یا لاہور پر بمباری کی گئی یا پھربمبئی پر بم حملہ کیا گیا تو کیا ہم اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہیں؟
کیوں کہ آج کل کے ہتھیار تبدیل ہوچکے ہیں، یہ 1971ء والے نہیں ہیں۔قارئین کو یاد ہو گا کہ بھارت نے اس سے پہلے بھی ایک بار 2001ء میں ایٹمی جنگ چھڑنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ وقت وہ تھا جب نائن الیون کے بعد امریکا کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف شروع کی گئی جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن اتحادی تھا۔ اس میں اس وقت کے امریکی صدر بش اور پینٹاگون سب سے زیادہ پریشان تھا۔ امریکا کی جانب سے امن قافلے چل پڑے تھے۔ نائب وزیر خارجہ کریسٹینا روکا نے پہلے بھارت کے دورہ کے بعد واہگہ بارڈر کے ذریعے پاکستان آئیں، اور کچھ نہ ہوا۔یعنی جنگ ٹل گئی۔
بہرکیف ہماری چھوٹی سی غلطیاں خطے کو جنگ کے سپرد کر سکتی ہیں ۔ آج پاکستان 150 اور بھارت کے پاس 140 ایٹم بم ہیں۔انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق، 2018ء میں بھارت نے چار کھرب روپے (58 ارب ڈالرز) عسکری اخراجات مختص کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 2.1 فیصد ہے۔ اس کے فوجیوں کی تعداد 14لاکھ ہے۔دوسری جانب پاکستان نے اسی سال کے دوران 1.26 کھرب روپے (11 ارب ڈالرز) عسکری اخراجات کے لیے مختص کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 3.6 فیصد حصہ ہے۔ پاکستان کے فوجیوں کی تعداد 6لاکھ 53 ہزار 800 ہے۔پاکستان کا میزائل پروگرام چین کی معاونت سے بنایا گیا ہے جس میں موبائل، قلیل اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل شامل ہیں جو بھارت کے کسی بھی حصے تک جا سکتے ہیں۔
اس لیے نریندر مودی کو چاہیے کہ عوام کو جذباتی کرنے جیسے اقدامات سے اجتناب کرے۔ کیوں کہ دنیا جانتی ہے کہ مودی صرف الیکشن لڑنے کے لیے یہ چالیں چل رہا ہے،اسے سمجھنا چاہیے کہ بعض اوقات چھوٹی حرکتوں سے بڑی جنگوں کاآغاز ہو جاتا ہے، اور پھر کچھ نہیں بچتا۔ لہٰذا جنگ اور درجہ حرارت میں اضافے جیسے اقدامات کو روک کر دونوں ممالک اپنے عوام پر توجہ دیں، ان کی صحت، تعلیم اور رہن سہن کے عملی اقدامات پر توجہ دیں۔
کیوں کہ حال ہی میں اقوام متحد ہ نے ایشیا اور پیسیفک ممالک سے متعلق ایک رپورٹ شایع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ممالک جنوری 2018ء تک صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ سے متعلق بہت کم بجٹ مختص کرتے رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ممالک زیادہ تر علاقائی لڑائیوں اور قدرتی آفات کا شکار رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بنیادی ضرورتوں کے مسائل نظر انداز ہو رہے ہیں۔پاکستان، انڈیا اور کمبوڈیا میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد اب بھی پینتالیس فیصد سے کم ہے۔ دنیا میں تعلیم ،صحت اور سماجی تحفظ پر اوسطاً جی ڈی پی کا 11.2 فیصد مختص کیا جاتا ہے جس کے مقابلے میں ایشیا پیسیفک کے ترقی پذیر ممالک اپنے بجٹ کا صرف 3.7 فیصد مختص کرتے ہیں اور اگر کوئی غریب آدمی معذور یا بیروزگار ہو جائے تو ریاست 60فیصد عوام کو کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کرتی۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ یہ ممالک اپنے بجٹ کا دو تہائی حصہ ان مدات میں مختص کریں اور کہا گیا ہے کہ ان ممالک کے 1.2ارب افراد کی روزانہ کی کمائی فی کس صرف 3.2ڈالر سے بھی کم ہے جب کہ چار سو ملین افراد شدید غربت کا شکار ہیں جو روزانہ 1.9ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ ان افراد میں سے دو تہائی افراد بھارت اور پاکستان کے شہری ہیں۔ رپورٹ میں ریاست اور شہریوں کے درمیان اس بنیادی رشتے کے نہ ہونے کی اصل وجہ حکمرانوں کے درمیان سیاسی ہم آہنگی کے فقدان کو قرار دیا گیا ہے۔ یقیناً جمہوریت کوئی ایسا عمل نہیں ہے جس کو سماج سے الگ کرکے دیکھا جا سکے لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک میں سماجی تبدیلی کا سب سے بڑا محرک سیاسی عمل ہی ہوتا ہے بشرطیکہ تمام ادارے آئین اور جمہوری عمل کی پاسداری کریں تاکہ سیاست ارتقا پذیر ہو کر صرف اور صرف سماجی مسائل کا حل تلاش کر سکے۔
پس اس انتشار زدہ سیاسی و معاشی ماحول میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگی ماحول کا پیدا ہو جانا برصغیر کے غریب عوام کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ ان حالات میں یہی بہتر ہو گا کہ جنگ کا یہ ماحول ہر صورت ختم ہو وگرنہ اقوام متحدہ کی2019ء کی رپورٹ 2018ء سے بھی بدتر ہو گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آج کے دانشور، محقق اور ادیب آنیوالی نسلوں کو جنگی جنون کے حصار سے نکالیں اور بقول ساحر لدھیانوی
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر
یہ آگ کے کھیل کے سوا کچھ نہیں جو اس خطے، خاص طور پرپڑوسی ملک میں کھیلا جا رہا ہے۔اسے ہیجان ہی ہیجان۔ جنون اور فسطائیت کا نام دینا چاہیے۔ انڈین نیوز چینلز تو ہماری کیبل پر آتے نہیں مگر چند منٹ کے لیے انٹرنیٹ پر بھارتی چینلز دیکھیں، ویب سائٹس پڑھیں تو آدمی دنگ رہ جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے منہ سے کف اڑاتے،غصہ سے پاگل ہوئے لوگوں کا ایک ہجوم ہے، ہر طرف وہی چھائے ہیں۔اور''بدلہ لو انڈیا''جیسے نعرے لگا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز مظفر آباد سیکٹر میں بھارتی طیارے 3،4 میل تک پاکستانی حدود میں گھس آئے اور پھر پاک فضائیہ کی بروقت تیاری کو دیکھ کر واپس بھاگ گئے۔ بھارتی میڈیا نے شور مچاکر آسمان سر پر اُٹھالیا کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیاہے۔انڈین نیوز چینلز پرانی ویڈیوز چلا کر عوام کا جوش بڑھاتے رہے، جب کہ پاکستان کے سیاسی و عسکری قائدین نے اعلان کیا ہے کہ بھارت کو اس ''کارروائی'' پر کس وقت، کس جگہ اور کس قسم کا جواب دیا جائے، اس کا فیصلہ ہم کریں گے...
یقیناً ایسے ماحول میں غیظ وغضب کی انتہائی لہریں ہر طرف نظر آرہی ہیں۔ آخر نوبت اس انتہا تک کیوں پہنچائی گئی؟ واضح محسوس ہور ہا ہے کہ پلوامہ حملے کو غیر معمولی عجلت سے پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ ایسی عجلت جس سے کسی سازش یا طے شدہ منصوبے کی بو آتی ہے۔اور پھر بھارتی الیکشن بھی سر پر ہیں،یوں لگا جیسے یا تو فالس فلیگ آپریشن کیا گیا یا پھراچانک رونما ہونے والے کسی واقعے کو برق رفتاری سے پاکستان پر منطبق کر کے ملک میں جنگی جنون بھڑکانے اور اس سے الیکشن جیتنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ (انٹیلی جنس اصطلاحات میں فالس فلیگ آپریشن سے مراد ایسا خفیہ آپریشن ہے، جس میں اپنے ہی لوگ کسی مخالف ملک کے جنگجو کا روپ دھار کر انھیں بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔)
اس صورتحال کو دنیا کی بڑی طاقتیں مانیٹر بھی کر رہی ہیں اور انتباہ بھی کر رہی ہیں کہ اگر اس جنگ نے بھیانک روپ دھار لیا تو پھر واپسی ممکن نہیں ہوگی۔ امریکی ماہرین کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی صورت میں 90فیصد آبادی ختم ہو جائے گی، پاکستان اور بھارت دو پڑوسی ملک اور نیوکلیئر طاقتیں ہیں لیکن دونوں ممالک کے آپس میں تعلقات کشیدہ رہنے کی وجہ سے اکثر ہمں جوہری جنگ کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ دنیا کی دو چھوٹی سی نیوکلیئر طاقتیں جن کے پاس ہیرو شیما پر گرائے گئے بم کے برابر چند سو جوہری ہتھیار ہیں لیکن دونوں ممالک کے درمیان جنگ کی صورت میں دوسرے ممالک کو بھی اس کے غیر ارادی نتائج بھگتنا پڑیں گے، جو دنیا کو تباہی کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔
خیر ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ کوئی فلمی جنگ نہیں ہے، جن ملکوں میں آج تک جنگ ہوئیں ہیں اُن سے پوچھا جائے، کہ جنگ کیا ہوتی ہے؟ پاکستان اور انڈیا میں تو آج تک جنگ ہوئی ہی نہیں ! جنگ کے بارے میں پوچھنا ہے تو جرمنی، فرانس، جاپان، برطانیہ، شام، عراق، روس، افغانستان، سربیا، ویت نام، جنوبی کوریا، شمالی کوریا، الجزائر، یمن، نائیجیریا، ایتھوپیا، صومالیہ، کانگو وغیرہ سے پوچھا جائے جن کے لاکھوں لوگ پل بھر میں لقمہ اجل بنتے رہے اور شہر کے شہر تباہ کر دیے جاتے رہے۔ 1971ء کے بعد سے کوئی حقیقی جنگ نہیں لڑی گئی اور کارگل ایک محدود آپریشن تھا جو پہاڑی علاقوں میں ہوا اور خوش قسمتی سے زیادہ شہری متاثر نہیں ہوئے لیکن اگر امرتسر پر بم گرایا گیا یا لاہور پر بمباری کی گئی یا پھربمبئی پر بم حملہ کیا گیا تو کیا ہم اس کے نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہیں؟
کیوں کہ آج کل کے ہتھیار تبدیل ہوچکے ہیں، یہ 1971ء والے نہیں ہیں۔قارئین کو یاد ہو گا کہ بھارت نے اس سے پہلے بھی ایک بار 2001ء میں ایٹمی جنگ چھڑنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ وقت وہ تھا جب نائن الیون کے بعد امریکا کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف شروع کی گئی جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن اتحادی تھا۔ اس میں اس وقت کے امریکی صدر بش اور پینٹاگون سب سے زیادہ پریشان تھا۔ امریکا کی جانب سے امن قافلے چل پڑے تھے۔ نائب وزیر خارجہ کریسٹینا روکا نے پہلے بھارت کے دورہ کے بعد واہگہ بارڈر کے ذریعے پاکستان آئیں، اور کچھ نہ ہوا۔یعنی جنگ ٹل گئی۔
بہرکیف ہماری چھوٹی سی غلطیاں خطے کو جنگ کے سپرد کر سکتی ہیں ۔ آج پاکستان 150 اور بھارت کے پاس 140 ایٹم بم ہیں۔انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز کی رپورٹ کے مطابق، 2018ء میں بھارت نے چار کھرب روپے (58 ارب ڈالرز) عسکری اخراجات مختص کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 2.1 فیصد ہے۔ اس کے فوجیوں کی تعداد 14لاکھ ہے۔دوسری جانب پاکستان نے اسی سال کے دوران 1.26 کھرب روپے (11 ارب ڈالرز) عسکری اخراجات کے لیے مختص کیے جو اس کی جی ڈی پی کا 3.6 فیصد حصہ ہے۔ پاکستان کے فوجیوں کی تعداد 6لاکھ 53 ہزار 800 ہے۔پاکستان کا میزائل پروگرام چین کی معاونت سے بنایا گیا ہے جس میں موبائل، قلیل اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائل شامل ہیں جو بھارت کے کسی بھی حصے تک جا سکتے ہیں۔
اس لیے نریندر مودی کو چاہیے کہ عوام کو جذباتی کرنے جیسے اقدامات سے اجتناب کرے۔ کیوں کہ دنیا جانتی ہے کہ مودی صرف الیکشن لڑنے کے لیے یہ چالیں چل رہا ہے،اسے سمجھنا چاہیے کہ بعض اوقات چھوٹی حرکتوں سے بڑی جنگوں کاآغاز ہو جاتا ہے، اور پھر کچھ نہیں بچتا۔ لہٰذا جنگ اور درجہ حرارت میں اضافے جیسے اقدامات کو روک کر دونوں ممالک اپنے عوام پر توجہ دیں، ان کی صحت، تعلیم اور رہن سہن کے عملی اقدامات پر توجہ دیں۔
کیوں کہ حال ہی میں اقوام متحد ہ نے ایشیا اور پیسیفک ممالک سے متعلق ایک رپورٹ شایع کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہ ممالک جنوری 2018ء تک صحت، تعلیم اور سماجی تحفظ سے متعلق بہت کم بجٹ مختص کرتے رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ممالک زیادہ تر علاقائی لڑائیوں اور قدرتی آفات کا شکار رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بنیادی ضرورتوں کے مسائل نظر انداز ہو رہے ہیں۔پاکستان، انڈیا اور کمبوڈیا میں اسکول جانے والے بچوں کی تعداد اب بھی پینتالیس فیصد سے کم ہے۔ دنیا میں تعلیم ،صحت اور سماجی تحفظ پر اوسطاً جی ڈی پی کا 11.2 فیصد مختص کیا جاتا ہے جس کے مقابلے میں ایشیا پیسیفک کے ترقی پذیر ممالک اپنے بجٹ کا صرف 3.7 فیصد مختص کرتے ہیں اور اگر کوئی غریب آدمی معذور یا بیروزگار ہو جائے تو ریاست 60فیصد عوام کو کسی قسم کا تحفظ فراہم نہیں کرتی۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ یہ ممالک اپنے بجٹ کا دو تہائی حصہ ان مدات میں مختص کریں اور کہا گیا ہے کہ ان ممالک کے 1.2ارب افراد کی روزانہ کی کمائی فی کس صرف 3.2ڈالر سے بھی کم ہے جب کہ چار سو ملین افراد شدید غربت کا شکار ہیں جو روزانہ 1.9ڈالر سے بھی کم کماتے ہیں۔
دکھ کی بات یہ ہے کہ ان افراد میں سے دو تہائی افراد بھارت اور پاکستان کے شہری ہیں۔ رپورٹ میں ریاست اور شہریوں کے درمیان اس بنیادی رشتے کے نہ ہونے کی اصل وجہ حکمرانوں کے درمیان سیاسی ہم آہنگی کے فقدان کو قرار دیا گیا ہے۔ یقیناً جمہوریت کوئی ایسا عمل نہیں ہے جس کو سماج سے الگ کرکے دیکھا جا سکے لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک میں سماجی تبدیلی کا سب سے بڑا محرک سیاسی عمل ہی ہوتا ہے بشرطیکہ تمام ادارے آئین اور جمہوری عمل کی پاسداری کریں تاکہ سیاست ارتقا پذیر ہو کر صرف اور صرف سماجی مسائل کا حل تلاش کر سکے۔
پس اس انتشار زدہ سیاسی و معاشی ماحول میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگی ماحول کا پیدا ہو جانا برصغیر کے غریب عوام کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ ان حالات میں یہی بہتر ہو گا کہ جنگ کا یہ ماحول ہر صورت ختم ہو وگرنہ اقوام متحدہ کی2019ء کی رپورٹ 2018ء سے بھی بدتر ہو گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ آج کے دانشور، محقق اور ادیب آنیوالی نسلوں کو جنگی جنون کے حصار سے نکالیں اور بقول ساحر لدھیانوی
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عالم کا خون ہے آخر