شیرشاہ طبیب اور ادیب آخری حصہ
شیر شاہ کی کہانیوں میں دل کا درد ہے اور غم کا نمک ہے جو پڑھنے والوں کو مضطرب کر دیتا ہے۔
یہ 1935ء کی بات ہے جب ہندوستان میں سجاد ظہیر، ملک راج آنند اورکئی دوسرے ترقی پسند ادب کی سوغات لائے۔ 1936ء میں ڈاکٹر رشید جہاں اور دوسروں نے مل کر ترقی پسند ادب کی بنیاد رکھی اور اس وقت سے زمانے کے سرد وگرم سے گزرتی ہوئی یہ ادبی تحریک زندہ ہے۔ ڈاکٹر شیر شاہ اُن لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے اس تحریک کی پیروی کی، انسانوں کے زخموں کا علاج کیا ، ان کے دل میں چبھے ہوئے کانٹے نکالے اور انھیں کہانیوں کی صورت کاغذ پر نقش کردیا۔
وہ ایک اچھے ادیب اور بہت اچھے طبیب ہیں۔ انھوں نے سیکڑوں عورتوں کو نئی زندگی دی،کتنے ہی بچے ان کے مہربان ہاتھوں میں جنمے گئے اورکینسر کی ان گنت مریضاؤں کو آخری دنوں میں راحت کی چند گھڑیاں نصیب ہوئیں ۔ ان کے نئے مجموعے ''تو مرا دل بنا دیا '' میں انھوں نے ارد شیرکاؤس جی اور عبدالستار ایدھی کے ساتھ ہی ایک نیم گم نام شخص ایم اے قوی کا قصہ لکھا اور اسے '' تھا جدا سب سے میرے عشق کا انداز سنو '' کا نام دیا۔
ایک ایسا شخص جو پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا تھا اور جس کی ہر سانس اس شعر کی تصویر بن گئی تھی ''آتی جاتی سانس کا عالم نہ پوچھ/جیسے دُہری دھارکا خنجرچلے''۔ ہمارے یہاں بہت سے لوگ عبدالسلام سلامی کو جانتے ہیں لیکن ان کے بھائی ایم اے قوی سے واقف نہیں جن کی تمام زندگی عام انسانوں کے حقوق کے لیے لڑتے گزری ۔ یہ عام انسان پاکستانی ، فلسطینی اور مختلف پسماندہ ملکوں میں رہنے والے تھے۔
پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی آمریت کا ڈنکا بجتا تھا،عین اس زمانے میں قوی صاحب ہر جمعہ کو لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے جنرل مشرف کے خلاف تن تنہا مظاہرہ کرتے۔ان کے ہاتھ میں ایک پوسٹر ہوتا تھا جس پر تحریر تھا ''پاکستان میں آمریت کا خاتمہ کرو اور جمہوریت بحال کرو''۔ قوی صاحب کا یہ مظاہرہ اس روز تک جاری رہا جب تک جنرل مشرف کی ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ نہیں ہوگیا ۔ وہ پسماندگی کو تعلیم سے شکست دینے کے قائل تھے، اسی لیے وہ ہمیں کبھی کنڈیارو اورکبھی کوہی گوٹھ ویمن اسپتال میں مڈ وائفری کی بہترین کتابیں فراہم کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔
قوی صاحب ایسے نادر ونایاب افراد ہمارے یہاں کم کم ہوتے ہیں جو صلے کی تمنا اور ستائش کی پروا کیے بغیر اپنے ضمیر کے مطابق کام کیے جاتے ہیں ۔ شیر شاہ کا کرم ہے کہ انھوں نے ہمیں ایم اے قوی کی ذات سے آشنا کیا ۔ شاید دوچار لوگ ان کے نقشِ قدم پر چلیں اور انسانوں کے دکھوں میں کچھ کمی کا سبب بن سکیں ۔
شیر شاہ کی کہانیوں میں دل کا درد ہے اور غم کا نمک ہے جو پڑھنے والوں کو مضطرب کر دیتا ہے۔ اس ملک کے رہنے والے 85 یا شاید 90 فیصد افراد جن مسائل اور مصائب کے بھنور میں گرفتار ہیں انھیں آسمانی جنت کی نوید سنائی جاتی ہے۔ ان کے کانوں میں طبلِ جنگ کی گونج انھیں حیران و پریشان کردیتی ہے ۔ ایسے میں شیر شاہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ہمارے پاس ایٹم بم تو ہے لیکن تعلیم ، روزگار اور صحت کے لیے وسائل کہاں ہیں ؟
انسان تو انسان ہیں، وہ سائبیریا کے سرد علاقوں سے ہمارے گرم علاقوں میں آنے والے تلوروں کو فیاض شہزادوں کے ہاتھوں شکار ہونے سے نہیں بچاسکتے تو اس کا نوحہ لکھتے ہیں۔ شیر شاہ اور ان جیسے کئی دوسرے تلوروں کا مقدمہ لڑتے ہیں۔ وہ مقدمہ جیت جاتے ہیں لیکن بقول شیر شاہ کالے کوٹوں میں ملبوس خرانٹ وکیلوں اور مضحکہ خیز لباس پہنے ہوئے منصفوں نے جیت جانے والوں کو ایک بار پھر مات دے دی تھی ۔ الغاروں دولت ، انصاف کو کس طرح شکست دیتی ہے، اس کا اندازہ ان کی کہانی 'منصف ہو تو مجرم کو سزا کیوں نہیں دیتے' سے ہوتا ہے ۔ اس کہانی کا ایک کردار تلوروں کے حقِ زندگی کے لیے لڑنے والے سے کیسا کڑوا سوال کرتا ہے ۔
''آپ پرندوں کو بچانے میں کیسے کامیاب ہوتے، آپ کا ملک تو بچوں کو نہیں بچا سکتا ہے۔ان کا اغوا ہوتا ہے ، انھیں بیچا جاتا ہے، انھیں پامال کیا جاتا ہے ، انھیں مار دیا جاتا ہے ، ان کی مائیں ان کا خاندان ان کی یاد میں آنسو بہا بہاکر ایک دن مرجاتے ہیں ، یہ جانے بغیرکہ ان کے بچے کہاں کھوگئے۔''
ہم سب کراچی کی سڑکوں پر وہ سوزوکیاں دیکھتے ہیں جو اسکول کے بچوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس کر زناٹے سے گزر جاتی ہیں لیکن ہم کبھی ان مسائل کے بارے میں غور نہیں کرتے جن سے ان سوزوکیوں میں سفرکرنے والے بچے اور بچیاں گزرتے ہیں۔شیر شاہ نے ان ننھے مسافروں کے بارے میں کیسی دل دوزکہانی ''جھلملاتی آنکھیں '' لکھی ہے اور اس کا ابتدائیہ تو ہم سب کا چشمِ دید ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں روزانہ ہی کراچی میں ان اسکول لانے، لے جانے والوں کی چھوٹی چھوٹی سوزوکیاں دیکھتا ہوں جس میں بچے قیدیوں کی طرح ٹھونس ٹھونس کر بھرے جاتے ہیں۔
خطرناک ڈرائیور انھیں اس ٹریفک کے اژدھام میں نکال کر لے جاتے ہیں جو ٹریفک نہ تو ایمبولینس کو راستہ دیتی ہے اور نہ اسکول کے بچے بچیوں کو پہچانتی ہے۔ یہ ٹریفک تو ان پولیس والوں کو پہچانتی ہے جو وزیر ، مشیر،گورنر، وزیر اعلیٰ ، وزیر اعظم اور صدرصاحب کی گاڑیوں کو نکلنے کے لیے انھیں روکتے ہیں۔ ان ججوں اور اعلیٰ حکام کی گاڑیوں کے آگے پیچھے پولیس کی کاروں کو پہچانتی ہے جو انھیں ٹریفک کی بھیڑ سے نکال کر لے جاتے ہیں، ان عوام سے دور، ان لوگوں سے بچ کر جن کے ووٹوں ، نعروں ، جلسوں ، جلوسوں سے انھیں اقتدار ملتا ہے ۔ جن کے دم پر وہ اقتدارکی کرسی پر بیٹھتے ہیں ، جن پر محصول اور ٹیکس لگا کر ان کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ جن کی ہڈیوں کو چوس کر جسموں کو کچل کر ان کی تجوریوں کو بھرا جاتا ہے ۔
انھیں کراچی کی ہلاکت کا قلق ہے ۔ انھوں نے کس قدر بے رحمی سے کراچی کا سچ لکھا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں میں کراچی میں وہ سب کچھ ہوگیا تھا جو شہروں میں نہیں ہوتا ۔ معصوم لوگ قتل کردیے گئے ، مخالفین کے جسموں کو چاقوؤں سے کاٹا گیا تھا ، دشمنوں کے سر کاٹ کاٹ کر پھینک دیے گئے ، لڑکیوں کو پامال کیا گیا ، گھروں پر قبضہ اور پارکوں پر مسجدیں اور پلازے بنادیے گئے تھے، شہرکی کوئی سڑک سلامت نہیں تھی ۔ بچے اسکولوں سے دُور ہوگئے ، تعلیمی ادارے مذاق بن کر رہ گئے ۔
وہ امیر گھرانوں کے ان نخریلے بیٹوں کے بارے میں لکھتے ہیں جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے لندن اور یورپ جاتے ہیں ، اپنی پلیٹ خود دھوتے ہیں ، اپنے کپڑے خود استری کرتے ہیں لیکن جب پاکستان لوٹ کر جائیں تو ان کی چال ڈھال ، زندگی گزارنے کا طریقہ سب کچھ بدل جاتا ہے ۔ ایسے ہی ایک نوجوان کا وہ نقشہ یوں کھینچتے ہیں ۔
'' وہ لندن کی سڑکوں پر ٹریفک کے قوانین کا پابند تھا مگر لاہور میں نہیں ۔ انگلستان اور یورپ کی بڑی شاہراہوں پر چنگی دیتا تھا مگر پاکستان میں نہیں۔ چنگیاں اور ٹیکس تو چھوٹے لوگ دیتے ہیں ، رعایا کا کام ہے یہ حکمرانوں کے لیے الگ قانون ہے اور رعیت کے لیے الگ ۔''
اس مجموعے کی آخری تین کہانیاں سائنس فکشن کے زمرے میں آتی ہیں۔ ایک میں چاند چوری ہوجاتا ہے، دوسری میں ایک دور دراز سیارے کی نہایت ذہین مخلوق انسانی گوشت کو اپنے لیے من و سلویٰ جانتی ہے اور اسے لے جانے کے لیے ہماری زمین پر آجاتی ہے۔ ہمارے بچوں اور جوانوں کو چشم زدن میں ساتھ لے کر چلی جاتی ہے۔ ان کی آخری کہانی بھی بدبو ختم کرنے والی ایجاد کے بارے میں ہے ۔ اس کہانی کا ایک کردار سوال اٹھاتا ہے ۔
''یار یہ تو بتاؤکہ یہ جو جہالت کی بدبو ہے ، غربت کی بدبو ہے، نا انصافی کا تعلق ہے، جنگوں کی سڑاند ہے ، لڑکیوں کی پامالی کی بدبو ہے ، ظلم وجبرکی بدبو ہے ، بارودکی بدبو ہے ، ننھے ننھے بھیک مانگتے بچوں کی بدبو ہے،اس کا خاتمہ کیسے ہوگا،کب ہوگا، اس بدبوکوکون ختم کرے گا ؟'
یہ ایسے سوال ہیں جن کا جواب ہم کیسے دیں؟ اس کے لیے ارد شیرکاؤس جی، عبدالستار ایدھی، ایم اے قوی اور شیر شاہ ایسے لوگوں کا لشکر جرار درکار ہے، لیکن ہمیں تو چند جری اور جانباز مہیا نہیں۔