الیکشن کمشنر تقرر حکومت کو ایک اور مشاورتی عمل سے گزرنا ہوگا
چیئرمین نیب تقرر پر مشاورت تاحال نامکمل، بلدیاتی الیکشن نئے یا قائم مقام الیکشن کمشنر کرائینگے؟
چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کے استعفیٰ کے بعد حکومت کو نئے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کیلیے ایک اور مشاورتی عمل جلد شروع کرنا ہوگا جبکہ چیئرمین نیب کی تقرری پر اپوزیشن کیساتھ مشاورتی عمل ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ابھی تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا ہے ۔
صدر کی جا نب سے استعفیٰ منظور ہونے کی صورت میں نئے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر تک چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ کے کسی سینئر جج کو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر مقرر کریں گے ۔ جسٹس (ر) حامد علی مرزا کی مدت ختم ہونے پر آئین میں ترمیم کی روشنی میں نئے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کیلیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مشاورت کا عمل مکمل ہونے تک جسٹس (ر) میاں شاکر اﷲ جان جو سپریم کورٹ کے جج تھے ، نے 4 ماہ تک قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داریاں انجام دی تھیں۔
فخرالدین جی ابراہیم کی جانب سے استعفیٰ ایک ایسے مرحلے میں دیا گیا جب صدارتی انتخابات کے شیڈول میں تبدیلی کے حوالے سے الیکشن کمیشن شدید تنقید کی زد میں ہے ، 11 مئی کے انتخابات کے مرحلے میں بھی صدارتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنیوالی جماعتوں نے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر شدید تنقید کی تھی ۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی سمیت ایم کیو ایم نے باربار الزامات عائد کیے تھے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 3 جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کیلیے پرامن ماحول فراہم کرنے کے انتظامات نہیں کیے جا رہے لیکن اس پر مرحلے پر فخرالدین جی ابراہیم نے ان اعتراضات کو برداشت کیا اور انتخابات کرانے میں کامیاب ہوئے ۔
فخرالدین جی ابراہیم جو اپنی عمر کے اس حصے میں ملک کی تاریخ کے صاف و شفاف انتخابات کرانے کا وعدہ پورا کرنے کا عزم لے کر الیکشن کمیش آئے تھے ، اختیارات کے استعمال پر دباؤ کا شکار ثابت ہوئے ، صاف شفاف انتخابات کرانے کا وعدہ فخرالدین جی ابراہیم اپنے استعفیٰ میں تو پورا کر گئے لیکن اپوزیشن جماعتیں جن میں اب تحریک انصاف بھی شامل ہو چکی ہے، 86سالہ فخرالدین جی ابراہیم کو یہ اعزاز دینے کو تیار نہیں ۔ فخرالدین جی ابراہیم ایک سال اور 8 روز بطور چیف الیکشن کمشنر فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کتنے عرصے میں ہونا ہے کیونکہ بلدیاتی انتخابات اب آئین کے تحت الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں ۔ کیا یہ ذمے داری قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے دور میں پوری کی جائے گی یا نئے چیف الیکشن کمشنر ہی مقرر کیے جائیں گے۔
صدر کی جا نب سے استعفیٰ منظور ہونے کی صورت میں نئے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر تک چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ کے کسی سینئر جج کو قائم مقام چیف الیکشن کمشنر مقرر کریں گے ۔ جسٹس (ر) حامد علی مرزا کی مدت ختم ہونے پر آئین میں ترمیم کی روشنی میں نئے چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کیلیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مشاورت کا عمل مکمل ہونے تک جسٹس (ر) میاں شاکر اﷲ جان جو سپریم کورٹ کے جج تھے ، نے 4 ماہ تک قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی ذمہ داریاں انجام دی تھیں۔
فخرالدین جی ابراہیم کی جانب سے استعفیٰ ایک ایسے مرحلے میں دیا گیا جب صدارتی انتخابات کے شیڈول میں تبدیلی کے حوالے سے الیکشن کمیشن شدید تنقید کی زد میں ہے ، 11 مئی کے انتخابات کے مرحلے میں بھی صدارتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنیوالی جماعتوں نے الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر پر شدید تنقید کی تھی ۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی سمیت ایم کیو ایم نے باربار الزامات عائد کیے تھے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 3 جماعتوں کو انتخابات میں حصہ لینے کیلیے پرامن ماحول فراہم کرنے کے انتظامات نہیں کیے جا رہے لیکن اس پر مرحلے پر فخرالدین جی ابراہیم نے ان اعتراضات کو برداشت کیا اور انتخابات کرانے میں کامیاب ہوئے ۔
فخرالدین جی ابراہیم جو اپنی عمر کے اس حصے میں ملک کی تاریخ کے صاف و شفاف انتخابات کرانے کا وعدہ پورا کرنے کا عزم لے کر الیکشن کمیش آئے تھے ، اختیارات کے استعمال پر دباؤ کا شکار ثابت ہوئے ، صاف شفاف انتخابات کرانے کا وعدہ فخرالدین جی ابراہیم اپنے استعفیٰ میں تو پورا کر گئے لیکن اپوزیشن جماعتیں جن میں اب تحریک انصاف بھی شامل ہو چکی ہے، 86سالہ فخرالدین جی ابراہیم کو یہ اعزاز دینے کو تیار نہیں ۔ فخرالدین جی ابراہیم ایک سال اور 8 روز بطور چیف الیکشن کمشنر فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کتنے عرصے میں ہونا ہے کیونکہ بلدیاتی انتخابات اب آئین کے تحت الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں ۔ کیا یہ ذمے داری قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کے دور میں پوری کی جائے گی یا نئے چیف الیکشن کمشنر ہی مقرر کیے جائیں گے۔