علیم اور ترین کیخلاف اقداماتعمران خان کو کمزور بنانے کی کوشش
عمران خان کی گزشتہ7 سالہ جدوجہد جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے۔
ISLAMABAD:
عمران خان جن دنوں اقتدار کے حصول کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے قوم کے ساتھ بہت بڑے بڑے وعدے اور دعوے کر رہے تھے اس وقت انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد کیسی مجبوریاں اور مصلحتیں راستے کا پتھر بن جاتی ہیں اور حکمران شدید خواہش اور نیک نیتی رکھتے ہوئے بھی بے بس ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی اقتدار کا نشہ سب سے بڑا نشہ ہوتا ہے جس کو ایک مرتبہ اقتدار مل جائے پھر وہ اس اقتدار کو طول دینے یا دوبارہ سے باری لینے کیلئے کئی''یوٹرن'' لینے کو تیار ہوتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو گزشتہ تین یا چار دہائیوں کے دوران جو سیاستدان قومی افق پر ابھرے ان میں سے کسی کو بھی وہ مقبولیت نصیب نہیں ہوئی جو عمران خان کو اقتدار ملنے سے پہلے تک میسر تھی۔ عمران خان کو اقتدار ملے ہوئے 8 ماہ گزر چکے ہیں جبکہ عمران خان کے پہلے 100 دن کو گزرے بھی مزید 100 دن سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ پاکستانی قوم حیران و پشیمان ہے کہ 25 جولائی 2018 سے پہلے والا عمران خان کہاں گم ہو گیا ہے جبکہ تحریک انصاف کے ہزاروں ''رہنما'' اس صدمہ کا شکار ہیں کہ ''الیکٹ ایبلز'' نے کس طرح سے عمران خان اور اس کی حکومت سازی کو ہائی جیک کر کے تحریک انصاف کی سونامی کو پیالی تک محدود کردیا ہے۔
پاکستان کے باخبر سیاسی، عسکری اور بیوروکریسی حلقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ بھارت کے لیئے ''نرم گوشہ'' رکھنے پر نواز شریف اور پاک فوج سے ہمہ وقت الجھنے والے آصف زرداری سے نالاں اسٹیبلشمنٹ نے پانامہ لیکس کو اچھا موقع جانتے ہوئے ایک حکمت عملی کے ذریعے عمران خان کو سپورٹ کیا اور الیکٹ ایبلز کی''کمک'' بھی فراہم کی لیکن ''بادشاہ گروں'' کو بخوبی علم تھا کہ قومی اسمبلی میں عددی اعتبار سے ''خود کفیل'' عمران خان کسی بھی وقت کسی بھی معاملے پر مقتدر حلقوں کے سامنے سٹینڈ لے سکتا ہے لہذا مبینہ طور پر ایک ڈیزائن کے ذریعے عمران خان کو تنہا حکومت سازی کی بجائے مخلوط حکومت کی جانب دھکیلا گیا لیکن اس سے قبل ہی عمران خان کو اس کے قریب ترین ساتھیوں سے محروم کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔
عمران خان کی گزشتہ7 سالہ جدوجہد جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے،ان دونوں رہنماؤں نے اپنے کاروبار، اپنی ذات اور اپنے خاندان کو داؤ پر لگا کر پوری استعداد اور وسائل کے ساتھ اپنے کپتان کے ہمراہ تبدیلی کی جنگ لڑی۔ جس وقت پارٹی فنڈ کا ذکر ہونے پر بڑے بڑے درشنی پہلوان اکھاڑے سے بھاگ جاتے تھے تب یہ دونوں رہنما عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو کر پارٹی کیلئے مالی وسائل فراہم کرتے تھے۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد سیاسی صورتحال کو''بیلنس'' کرنے کیلئے جہانگیر ترین کو''نا اہلی'' کی سولی چڑھا دیا گیا، ملک کے تمام بڑے قانون دان اس بات پر متفق ہیں کہ جہانگیر ترین کے مقدمہ میں جن تکنیکی نکات کو بنیاد بنا کر فیصلہ دیا گیا وہ تاحیات نااہلی جیسی سزا کیلئے نہایت کمزور تھے لیکن چونکہ یہ فیصلہ ''سیاسی توازن'' کی بنیاد پر کیا گیا لہٰذاکیس کا میرٹ نظر انداز ہوا۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس مقدمہ اور بعد ازاں نظر ثانی اپیل کیس میں ریمارکس پر غور کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسا کہ وہ جہانگیر ترین کے ساتھ ''پرسنل'' ہو چکے تھے ورنہ وہ اس بات کو نظر انداز کیوں کرتے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شخص جہانگیر ترین ہی ہے جبکہ ملک بھر کی شوگر ملز میں سے جہانگیر ترین کی شوگر ملز ہی ہیں جو گنے کے کاشتکاروں کو بروقت مکمل ادائیگی کرتی ہیں۔
جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد عبدالعلیم خان نے پارٹی کیلئے پہلے سے بڑھ کر کام کیا، ممکن ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں ان سے چند ایک غلط فیصلے یا سفارشیں ہوئی ہوں لیکن ایک بات طے ہے کہ ان فیصلوں میں بدنیتی شامل نہیں تھی۔ علیم خان نے عمران خان کے حکم پر این اے 122 کا ضمنی الیکشن یوں لڑا کہ یہ الیکشن ہمیشہ کیلئے ملکی تاریخ کا اہم ترین حصہ بن گیا اور اسی الیکشن کی وجہ سے اس وقت کی ن لیگی حکومت نے علیم خان کے خلاف بھرپور طریقہ سے ریاستی ادارے استعمال کئے اور نیب میں درخواستیں داخل کروائیں۔
25 جولائی2018ء کو الیکشن جیتنے کے بعد ہر کوئی جانتا تھا کہ عبدالعلیم خان کو پنجاب جبکہ عاطف خان کو کے پی کے کا وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا لیکن انتہائی کمال مہارت سے عمران خان کو اس طرح سے گھیرا گیا کہ وہ اپنے دونوں پسندیدہ ترین رہنماؤں کو یہ عہدہ نہیں دے سکے۔
علیم خان کے خلاف نیب متحرک ہوئی اور عاطف خان کے خلاف پارٹی کا سرکش گروہ۔ نیب نے علیم خان کو گرفتار تو کر لیا ہے لیکن ابھی تک وہ کوئی ٹھوس شواہد عدالت میں فراہم نہیں کر سکا ہے،احتساب عدالت میں نیب وکلاء وہی دستاویزات جمع کروا رہے ہیں جو خود علیم خان نے انہیں فراہم کی ہیں۔ قوی امکان ہے کہ آئندہ ہفتے علیم خان کو جیل بھیج دیا جائے گا اور اس کے چند ہفتوں بعد وہ ضمانت پر رہا بھی ہو جائیں گے لیکن علیم خان نے گرفتاری کے بعد مستعفی ہونے جیسی مثال قائم کرنے کے بعد اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا وہ ضمانت پر رہائی کے بعد وزارت کا منصب نہیں سنبھالیں گے۔
کہتے ہیں کہ دوست دشمن کی پہچان مشکل میں ہوتی ہے جن رہنماؤں کیلئے علیم خان نے پارٹی میں مخالفت مول لی ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے آج تک علیم خان سے ملاقات نہیں کی ہے لیکن چڑھتے سورج کے پجاری یہ رہنما بھول رہے ہیں کہ رات کے بعد دن بھی آتا ہے اور سب سے اہم یہ کہ عمران خان آج بھی علیم خان پر مکمل بھروسہ کرتے اور اسے اپنا اہم ترین ساتھی مانتے ہیں،اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ گزشتہ دنوں ''ڈی فیکٹو عمران خان'' یعنی جہانگیر ترین نے پنجاب اسمبلی میں علیم خان سے طویل اور اہم ملاقات کی ہے۔
عمران خان جن دنوں اقتدار کے حصول کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے قوم کے ساتھ بہت بڑے بڑے وعدے اور دعوے کر رہے تھے اس وقت انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اقتدار ملنے کے بعد کیسی مجبوریاں اور مصلحتیں راستے کا پتھر بن جاتی ہیں اور حکمران شدید خواہش اور نیک نیتی رکھتے ہوئے بھی بے بس ہو جاتے ہیں۔ ویسے بھی اقتدار کا نشہ سب سے بڑا نشہ ہوتا ہے جس کو ایک مرتبہ اقتدار مل جائے پھر وہ اس اقتدار کو طول دینے یا دوبارہ سے باری لینے کیلئے کئی''یوٹرن'' لینے کو تیار ہوتا ہے۔
پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو گزشتہ تین یا چار دہائیوں کے دوران جو سیاستدان قومی افق پر ابھرے ان میں سے کسی کو بھی وہ مقبولیت نصیب نہیں ہوئی جو عمران خان کو اقتدار ملنے سے پہلے تک میسر تھی۔ عمران خان کو اقتدار ملے ہوئے 8 ماہ گزر چکے ہیں جبکہ عمران خان کے پہلے 100 دن کو گزرے بھی مزید 100 دن سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ پاکستانی قوم حیران و پشیمان ہے کہ 25 جولائی 2018 سے پہلے والا عمران خان کہاں گم ہو گیا ہے جبکہ تحریک انصاف کے ہزاروں ''رہنما'' اس صدمہ کا شکار ہیں کہ ''الیکٹ ایبلز'' نے کس طرح سے عمران خان اور اس کی حکومت سازی کو ہائی جیک کر کے تحریک انصاف کی سونامی کو پیالی تک محدود کردیا ہے۔
پاکستان کے باخبر سیاسی، عسکری اور بیوروکریسی حلقے یہ دعوی کرتے ہیں کہ بھارت کے لیئے ''نرم گوشہ'' رکھنے پر نواز شریف اور پاک فوج سے ہمہ وقت الجھنے والے آصف زرداری سے نالاں اسٹیبلشمنٹ نے پانامہ لیکس کو اچھا موقع جانتے ہوئے ایک حکمت عملی کے ذریعے عمران خان کو سپورٹ کیا اور الیکٹ ایبلز کی''کمک'' بھی فراہم کی لیکن ''بادشاہ گروں'' کو بخوبی علم تھا کہ قومی اسمبلی میں عددی اعتبار سے ''خود کفیل'' عمران خان کسی بھی وقت کسی بھی معاملے پر مقتدر حلقوں کے سامنے سٹینڈ لے سکتا ہے لہذا مبینہ طور پر ایک ڈیزائن کے ذریعے عمران خان کو تنہا حکومت سازی کی بجائے مخلوط حکومت کی جانب دھکیلا گیا لیکن اس سے قبل ہی عمران خان کو اس کے قریب ترین ساتھیوں سے محروم کرنے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔
عمران خان کی گزشتہ7 سالہ جدوجہد جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کے ذکر کے بغیر نامکمل ہے،ان دونوں رہنماؤں نے اپنے کاروبار، اپنی ذات اور اپنے خاندان کو داؤ پر لگا کر پوری استعداد اور وسائل کے ساتھ اپنے کپتان کے ہمراہ تبدیلی کی جنگ لڑی۔ جس وقت پارٹی فنڈ کا ذکر ہونے پر بڑے بڑے درشنی پہلوان اکھاڑے سے بھاگ جاتے تھے تب یہ دونوں رہنما عمران خان کے ساتھ کھڑے ہو کر پارٹی کیلئے مالی وسائل فراہم کرتے تھے۔
نواز شریف کی نااہلی کے بعد سیاسی صورتحال کو''بیلنس'' کرنے کیلئے جہانگیر ترین کو''نا اہلی'' کی سولی چڑھا دیا گیا، ملک کے تمام بڑے قانون دان اس بات پر متفق ہیں کہ جہانگیر ترین کے مقدمہ میں جن تکنیکی نکات کو بنیاد بنا کر فیصلہ دیا گیا وہ تاحیات نااہلی جیسی سزا کیلئے نہایت کمزور تھے لیکن چونکہ یہ فیصلہ ''سیاسی توازن'' کی بنیاد پر کیا گیا لہٰذاکیس کا میرٹ نظر انداز ہوا۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے اس مقدمہ اور بعد ازاں نظر ثانی اپیل کیس میں ریمارکس پر غور کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسا کہ وہ جہانگیر ترین کے ساتھ ''پرسنل'' ہو چکے تھے ورنہ وہ اس بات کو نظر انداز کیوں کرتے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا شخص جہانگیر ترین ہی ہے جبکہ ملک بھر کی شوگر ملز میں سے جہانگیر ترین کی شوگر ملز ہی ہیں جو گنے کے کاشتکاروں کو بروقت مکمل ادائیگی کرتی ہیں۔
جہانگیر ترین کی نااہلی کے بعد عبدالعلیم خان نے پارٹی کیلئے پہلے سے بڑھ کر کام کیا، ممکن ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں ان سے چند ایک غلط فیصلے یا سفارشیں ہوئی ہوں لیکن ایک بات طے ہے کہ ان فیصلوں میں بدنیتی شامل نہیں تھی۔ علیم خان نے عمران خان کے حکم پر این اے 122 کا ضمنی الیکشن یوں لڑا کہ یہ الیکشن ہمیشہ کیلئے ملکی تاریخ کا اہم ترین حصہ بن گیا اور اسی الیکشن کی وجہ سے اس وقت کی ن لیگی حکومت نے علیم خان کے خلاف بھرپور طریقہ سے ریاستی ادارے استعمال کئے اور نیب میں درخواستیں داخل کروائیں۔
25 جولائی2018ء کو الیکشن جیتنے کے بعد ہر کوئی جانتا تھا کہ عبدالعلیم خان کو پنجاب جبکہ عاطف خان کو کے پی کے کا وزیر اعلیٰ بنایا جائے گا لیکن انتہائی کمال مہارت سے عمران خان کو اس طرح سے گھیرا گیا کہ وہ اپنے دونوں پسندیدہ ترین رہنماؤں کو یہ عہدہ نہیں دے سکے۔
علیم خان کے خلاف نیب متحرک ہوئی اور عاطف خان کے خلاف پارٹی کا سرکش گروہ۔ نیب نے علیم خان کو گرفتار تو کر لیا ہے لیکن ابھی تک وہ کوئی ٹھوس شواہد عدالت میں فراہم نہیں کر سکا ہے،احتساب عدالت میں نیب وکلاء وہی دستاویزات جمع کروا رہے ہیں جو خود علیم خان نے انہیں فراہم کی ہیں۔ قوی امکان ہے کہ آئندہ ہفتے علیم خان کو جیل بھیج دیا جائے گا اور اس کے چند ہفتوں بعد وہ ضمانت پر رہا بھی ہو جائیں گے لیکن علیم خان نے گرفتاری کے بعد مستعفی ہونے جیسی مثال قائم کرنے کے بعد اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہو جاتا وہ ضمانت پر رہائی کے بعد وزارت کا منصب نہیں سنبھالیں گے۔
کہتے ہیں کہ دوست دشمن کی پہچان مشکل میں ہوتی ہے جن رہنماؤں کیلئے علیم خان نے پارٹی میں مخالفت مول لی ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے آج تک علیم خان سے ملاقات نہیں کی ہے لیکن چڑھتے سورج کے پجاری یہ رہنما بھول رہے ہیں کہ رات کے بعد دن بھی آتا ہے اور سب سے اہم یہ کہ عمران خان آج بھی علیم خان پر مکمل بھروسہ کرتے اور اسے اپنا اہم ترین ساتھی مانتے ہیں،اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ گزشتہ دنوں ''ڈی فیکٹو عمران خان'' یعنی جہانگیر ترین نے پنجاب اسمبلی میں علیم خان سے طویل اور اہم ملاقات کی ہے۔