صُحبت کا اثر
روزہ خالص اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے
وہ رمضان کی تیاری پورے زورشور سے کرتا۔ اُسے فکر ستائے رہتی کہ رمضان کب آئے گا؟ وہ شعبان کے مہینے ہی سے رمضان کی تیاریوں میں لگ جاتا۔ سارے مہینے کا پروگرام بن جاتا کہ فلاں رمضان کو یہ ڈش پکے گی، پکوڑے، سموسے، دال موٹھ، کڑاہی گوشت، وغیرہ وغیرہ۔ یہ تو یہ بلکہ عید کا خیال بھی رمضان کے روزے میں مسلسل رہتا کہ آٹھ دس سوٹ بنوانے ہیں اور منہگے سے منہگے بنوانے ہیں تاکہ فدا عاصی کسی سے پیچھے نہ رہے۔ جھولے بھی جھولنے ہیں۔ غرض ساری تفریح فدا عاصی نے اپنے لیے مخصوص کر رکھی تھی۔
فدا کا ایک دوست نذیر شاہد تھا۔ بہت نیک، پاک باز، تہجدگزار اور خدا ترس۔ وہ فدا عاصی کے ان خیالات سے پوری طرح متفق نہ تھا اور فدا عاصی کو سمجھاتا کہ روزہ خالص اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے ناکہ اچھے کپڑے بنانے اور نہ ہی پیٹ بھر کر اچھے اچھے کھانے کھانے کے لیے۔ لیکن کیا مجال کہ فدا عاصی پر ذرا بھی اثر ہوتا ہو۔
دونوں دوست روزے رکھ رہے تھے۔ فدا روزہ کھولنے کے بعد ڈٹ کر طرح طرح کی مرغن غذائیں کھاتا، بے تحاشا ٹھنڈے مشروبات اور پانی پیتا پھر لیٹ جاتا۔ جب کہ نذیر شاہد نماز اور تراویح کے لیے چلاجاتا اور جو کچھ وقت ملتا وہ تلاوتِ کلام پاک میں گزار دیتا۔ وہ روزے کے دوران جھوٹ، غیبت اور ہر طرح کی برائیوں سے بچتا۔ شاہد دکان دار تھا اور پورے ناپ تول کا عادی تھا۔ فدا عاصی بھی اسی دکان پر ملازم تھا وہ اس سے ڈنڈی مارنے کا کہتا۔ نذیر شاہد سختی سے منع کردیتا۔
پھر وقت نے پلٹا کھایا۔ فدا عاصی کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہوگیا۔ نذیر شاہد نے اسے تمام برائیوں سے تائب ہونے کو کہا۔
اب پھر رمضان قریب تھا۔ فدا عاصی بدلا بدلا لگ رہا تھا۔ اچھے اچھے کھانوں کی جگہ سادہ غذائیں استعمال کر رہا تھا۔ عید کے لیے بھی سادہ کپڑوں کا آرڈر دیا تھا۔ نذیر شاہد بھی حیران تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟
کل عید ہونی تھی۔ فدا عاصی تہیہ کرچکا تھا کہ یہ عید سادگی سے منانی ہے۔ اپنے محلے اور گائوں کے لوگوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کرنا ہے۔ اس نے اپنے سارے اخراجات جو وہ رمضان میں اپنی ذات پر کرتا تھا، بچا کر چاچا بہادر کے گھر پہنچا دیے۔ چاچا بہادر بھی حیران رہ گیا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟
فدا عاصی نے آگے بڑھ کر چاچا بہادر کو گلے لگایا، عید کی مبارک باد دی۔ اور اپنی ساری شاپنگ جو عید کے لیے کی تھی، چاچا بہادر کی نذر کردی۔ چاچا بہادر کے بچے آج نیا منظر دیکھ رہے تھے جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ فدا عاصی بلک بلک کر رو رہا تھا۔ چاچا بہادر کے بیٹے ابرار کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ آج فدا عاصی کو احساس ہوگیا تھا کہ سب کچھ صرف اپنی پیٹ پوجا کے لیے ہی نہیں کیا جاتا بلکہ دنیا میں بہت سارے لوگ ہماری ہم دردی اور توجہ کے مستحق ہیں۔ اگر ہم اچھا کھانا کھائیں، اچھا پہنیں تو بھی ہمارے دل میں یہ احساس ضرور ہونا چاہیے کہ کہیں میرا کوئی کلمہ گو بھائی بھوکا ننگا تو نہیں؟
آج فدا عاصی کے دل میں یہ احساس پیدا ہوچکا ہے جس میں نذیر شاہد کی یقیناً پوری کاوش شامل ہے۔ آج فدا عاصی بہت خوش ہے۔ اتنا خوش کہ اس کو گئے گزرے سال بالکل فضول لگتے ہیں۔ دوستو! اب وہ سوچتا ہے کہ اصل زندگی یہی ہے۔ سچی خوشیاں اور سچی محبتیں۔ سب فدا عاصی کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتے ہیں۔ آج وہ ایک بہت بڑے جنرل اسٹور کا مالک ہے۔ وہ کہتا ہے، یہ سب مجھے لوگوں کہ دعائوں کی بدولت ملا ہے جو میں نیکی کرکے لیتا ہوں۔
دوستو! ہمیں بھی چاہیے کہ نیکی پھیلائیں۔ اس طرح ہم پر اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی رحمتیں نازل ہوں گی۔ یاد رہے، کسی کو دینے سے ہمارا کچھ کم نہیں ہوتا بکہ اﷲ تعالی ہمارے رزق کو بڑھا دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی خوشیوں میں اڑوس پڑوس اور غریب غربا کو بھی شامل کرلیں، پھر دیکھیں کہ دل کی خوشی، راحت اور چین کیسے ملتا ہے۔ جس طرح ہمارا دل ہے، ایسے ہی کسی غریب کے بچے کا بھی دل ہے۔
ہم کسی غریب کے بچے کو خوش کریں گے تو اس کی دعائیں ہمیں فرش سے عرش تک پہنچا دیںگی۔ نہ صرف اﷲ تعالی کی ذات ہم سے راضی ہوگی بلکہ اس کے رسول ﷺ کی شفاعت بھی ہمارے ساتھ ہوگی اور دنیا وآخرت میں اس کا اتنا اجر ملے گا جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کل فدا عاصی کو کوئی پوچھتا نہ تھا، آج سارا زمانہ اُس پر فدا ہے۔ بھلا کیوں۔۔۔۔؟ اُس کی نیکی اور بھلائی کی وجہ سے۔
فدا کا ایک دوست نذیر شاہد تھا۔ بہت نیک، پاک باز، تہجدگزار اور خدا ترس۔ وہ فدا عاصی کے ان خیالات سے پوری طرح متفق نہ تھا اور فدا عاصی کو سمجھاتا کہ روزہ خالص اﷲ تعالیٰ کے لیے ہے ناکہ اچھے کپڑے بنانے اور نہ ہی پیٹ بھر کر اچھے اچھے کھانے کھانے کے لیے۔ لیکن کیا مجال کہ فدا عاصی پر ذرا بھی اثر ہوتا ہو۔
دونوں دوست روزے رکھ رہے تھے۔ فدا روزہ کھولنے کے بعد ڈٹ کر طرح طرح کی مرغن غذائیں کھاتا، بے تحاشا ٹھنڈے مشروبات اور پانی پیتا پھر لیٹ جاتا۔ جب کہ نذیر شاہد نماز اور تراویح کے لیے چلاجاتا اور جو کچھ وقت ملتا وہ تلاوتِ کلام پاک میں گزار دیتا۔ وہ روزے کے دوران جھوٹ، غیبت اور ہر طرح کی برائیوں سے بچتا۔ شاہد دکان دار تھا اور پورے ناپ تول کا عادی تھا۔ فدا عاصی بھی اسی دکان پر ملازم تھا وہ اس سے ڈنڈی مارنے کا کہتا۔ نذیر شاہد سختی سے منع کردیتا۔
پھر وقت نے پلٹا کھایا۔ فدا عاصی کسی بڑی مصیبت میں گرفتار ہوگیا۔ نذیر شاہد نے اسے تمام برائیوں سے تائب ہونے کو کہا۔
اب پھر رمضان قریب تھا۔ فدا عاصی بدلا بدلا لگ رہا تھا۔ اچھے اچھے کھانوں کی جگہ سادہ غذائیں استعمال کر رہا تھا۔ عید کے لیے بھی سادہ کپڑوں کا آرڈر دیا تھا۔ نذیر شاہد بھی حیران تھا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟
کل عید ہونی تھی۔ فدا عاصی تہیہ کرچکا تھا کہ یہ عید سادگی سے منانی ہے۔ اپنے محلے اور گائوں کے لوگوں کو بھی اپنی خوشیوں میں شریک کرنا ہے۔ اس نے اپنے سارے اخراجات جو وہ رمضان میں اپنی ذات پر کرتا تھا، بچا کر چاچا بہادر کے گھر پہنچا دیے۔ چاچا بہادر بھی حیران رہ گیا کہ یہ کیا ماجرا ہے؟
فدا عاصی نے آگے بڑھ کر چاچا بہادر کو گلے لگایا، عید کی مبارک باد دی۔ اور اپنی ساری شاپنگ جو عید کے لیے کی تھی، چاچا بہادر کی نذر کردی۔ چاچا بہادر کے بچے آج نیا منظر دیکھ رہے تھے جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ فدا عاصی بلک بلک کر رو رہا تھا۔ چاچا بہادر کے بیٹے ابرار کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے۔ آج فدا عاصی کو احساس ہوگیا تھا کہ سب کچھ صرف اپنی پیٹ پوجا کے لیے ہی نہیں کیا جاتا بلکہ دنیا میں بہت سارے لوگ ہماری ہم دردی اور توجہ کے مستحق ہیں۔ اگر ہم اچھا کھانا کھائیں، اچھا پہنیں تو بھی ہمارے دل میں یہ احساس ضرور ہونا چاہیے کہ کہیں میرا کوئی کلمہ گو بھائی بھوکا ننگا تو نہیں؟
آج فدا عاصی کے دل میں یہ احساس پیدا ہوچکا ہے جس میں نذیر شاہد کی یقیناً پوری کاوش شامل ہے۔ آج فدا عاصی بہت خوش ہے۔ اتنا خوش کہ اس کو گئے گزرے سال بالکل فضول لگتے ہیں۔ دوستو! اب وہ سوچتا ہے کہ اصل زندگی یہی ہے۔ سچی خوشیاں اور سچی محبتیں۔ سب فدا عاصی کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتے ہیں۔ آج وہ ایک بہت بڑے جنرل اسٹور کا مالک ہے۔ وہ کہتا ہے، یہ سب مجھے لوگوں کہ دعائوں کی بدولت ملا ہے جو میں نیکی کرکے لیتا ہوں۔
دوستو! ہمیں بھی چاہیے کہ نیکی پھیلائیں۔ اس طرح ہم پر اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی رحمتیں نازل ہوں گی۔ یاد رہے، کسی کو دینے سے ہمارا کچھ کم نہیں ہوتا بکہ اﷲ تعالی ہمارے رزق کو بڑھا دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی خوشیوں میں اڑوس پڑوس اور غریب غربا کو بھی شامل کرلیں، پھر دیکھیں کہ دل کی خوشی، راحت اور چین کیسے ملتا ہے۔ جس طرح ہمارا دل ہے، ایسے ہی کسی غریب کے بچے کا بھی دل ہے۔
ہم کسی غریب کے بچے کو خوش کریں گے تو اس کی دعائیں ہمیں فرش سے عرش تک پہنچا دیںگی۔ نہ صرف اﷲ تعالی کی ذات ہم سے راضی ہوگی بلکہ اس کے رسول ﷺ کی شفاعت بھی ہمارے ساتھ ہوگی اور دنیا وآخرت میں اس کا اتنا اجر ملے گا جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ کل فدا عاصی کو کوئی پوچھتا نہ تھا، آج سارا زمانہ اُس پر فدا ہے۔ بھلا کیوں۔۔۔۔؟ اُس کی نیکی اور بھلائی کی وجہ سے۔