مسلمانوں کا بے مثال ڈسپلن
جو کوئی نماز کی ادائیگی کے لیے صف میں کھڑا ہو گیا وہ ہماری عام نظروں میں وی آئی پی بن گیا
ہمارے برادران مقیم پشاور و گرد و نواح نے بڑی مشکل سے رمضان المبارک کو رخصت کیا۔ اس کے اعزاز میں شرعاً ایک نہیں پوری چار عیدیں منا کر اہل اسلام کی پوری تاریخ کو حیران کر دیا کہ رمضان کو اس طرح بھی الوداع کیا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل ہمارے ہاں لاہور میں ہم نے دیکھا کہ افطاری کی دعوت میں روزہ ہمیشہ نئے وقت یعنی دس پندرہ منٹ وقت سے پہلے کھول لیا گیا۔ یہ افطاریاں سیاسی تھیں اور ان کے میزبان اور مہمان جیالے متوالے یا اسی نسل کے دوسرے لوگ تھے۔
جب افطاری کا سامان میزوں پر سجایا گیا تو احترام افطاری میں دن بھر روزے سے تنگ لوگ ان میزوں پر والہانہ ٹوٹ پڑے اور اس ذہین اور عمل پسند میراثی کی یاد تازہ ہوئی جب اس نے صبر لبریز ہونے پر عصر کے بعد پوچھا کہ اب افطاری میں کتنا وقت باقی رہ گیا ہے تو وقت بتایا گیا جس سے وہ پریشان ہو کر بولا کہ اﷲ کے کاموں کا کیا پتہ آج نہ جانے کس وقت سورج غروب کرے یا نہ کرے اس لیے میں تو روزہ ختم کر رہا ہوں، روزے کی نیت بھی کچی پکی کی تھی۔ بہرحال میں اس وقت مسلمانوں کو ایک ایسی بات یاد دلانا چاہتا ہوں جو انھیں خوب معلوم ہے لیکن یہ ہر وقت کا اتنا معمول بن چکا ہے کہ ہوا کی طرح محسوس نہیں ہوتا۔
پوری دنیا میں بلکہ پوری دنیا کی تاریخ میں کوئی ادارہ ایسا نہیں جس میں وقت کی پابندی اور وہ بھی دن رات منٹوں سیکنڈوں میں کی جاتی ہو۔ مسلمانوں کے ہاں چودہ سو برس سے اذان اور نماز کے اوقات کی پابندی کی جاتی ہے۔ موسم کوئی سا بھی ہو، آسمان صاف ہو یا بادل ہوں، مسلمان موذن اذان کے وقت میں فرق نہیں آنے دیتا۔ اب تو گھڑیاں ایجاد ہو گئیں اور یہ مسئلہ حل ہو گیا ہے لیکن اس سے پہلے شمسی گھڑیاں ہوتی تھیں یا ساعتیں گنی جاتی تھیں لیکن اﷲ کی طرف بلانے والا موذن وقت میں فرق نہیں آنے دیتا۔ صبح منہ اندھیرے سے لے کر رات گئے تک فجر اور عشاء کی نماز تک پانچوں نمازیں وقت پر ادا ہوتی ہیں۔ اس میں کسی وی آئی پی کے لیے کوئی رعایت نہیں ہے۔ جو کوئی نماز کی ادائیگی کے لیے صف میں کھڑا ہو گیا وہ ہماری عام نظروں میں وی آئی پی بن گیا۔ اس کا فائنل فیصلہ اس خدا کو کرنا ہے جس کے حضور وہ سربسجود ہوا ہے لیکن نماز کے وقت کی پابندی لازم ہے ورنہ نماز نہیں۔
انسانی تاریخ میں ڈسپلن کی اس سے بڑی مثال پیش کرنی ممکن نہیں۔ مسجد کے امام ہوں یا مسجد کے موذن یہ ڈیوٹی ان پر خود بخود عائد ہو جاتی ہے اور اس کی پابندی کے ساتھ ان کی عاقبت کی فلاح بھی اس پر منحصر ہوتی ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کوئی موذن کسی شرعی عذر کے بغیر کبھی اذان نہ دے پایا ہو اور یہ شرعی عذر انسان کی صحت یا کسی بڑی ڈیوٹی میں مصروفیت سے متعلق ہے لیکن جہاد کے میدان میں بھی مسلمانوں نے دوران جنگ کبھی اذان کو موقوف نہیں کیا۔ آپ کبھی غور فرمائیں کہ اذان کی عبارت کس قدر جامع اور اسلام کی مکمل عکاس ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی بڑائی کے اقرار سے لے کر پیغمبر کی رسالت تک سب کچھ اس میں موجود ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اگر غیرمسلموں کو اذان کے معنی سمجھ میں آ جائیں اور وہ اس دعوت اسلامی کو پہچان لیں تو اپنے ہاں اذان پر پابندی لگا دیں۔ اذان دراصل وقت کے سیاسی اور سماجی نظاموں سے بغاوت کا نام اور اعلان ہے۔ آپ کو معلوم ہو گا کہ اسلام کی مخالف حکومتوں میں پہلی پابندی اذان پر لگائی جاتی ہے۔ میں نے روس کی مقبوضہ وسطی ایشیا کی کئی ریاستوں میں مسجدوں کو تو موجود دیکھا مگر غیر آباد۔ میں نے جب پوچھا کہ یہاں نماز ہوتی ہے یا اس کے لیے اذان دی جاتی ہے تو لوگ میرا منہ دیکھنے لگے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔ جب میں نے بتایا کہ اذان کیا ہے اور اس کے جواب میں نماز کیا تو انھوں نے بالکل لاعلمی کا اظہار کیا اور کوئی ایسا نہ مل سکا جسے اذان آتی ہو یا نماز۔
وہاں زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ نومولود بچے کو ماں گود میں اٹھا کر کسی مسجد کے پاس لے جاتی ہے اور اس کے جسم کو مسجد کی دیوار کے ساتھ لگا کر برکت حاصل کرتی ہے۔ اسے مسجد کے بارے میں اس سے زیادہ معلوم نہیں اور کسی کے گھر میں اگر قرآن پاک کا کوئی بوسیدہ ورق پڑا ہے تو وہ کپڑے کے غلافوں میں محفوظ ہے اور کسی کے فوت ہو جانے پر اس کی میت کے ساتھ لگا کر واپس محفوظ کر دیا جاتا ہے۔ ایسے ملکوں میں نماز تو کیا اذان بھی ممکن نہیں اور ہمارے ترقی پسند اور روشن خیال ''رئیس المنافقین جنرل ضیاء'' سے اس لیے ناراض ہیں کہ اس نے وسط ایشیا والے روس کو آگے بڑھ کر پاکستان کو وسط ایشیا کی ریاست نہیں بننے دیا جہاں مسلمان نام کے مسلمان اور اذان اور مسجد تک سے ناواقف ہوں، ترکی میں مصطفٰے کمال نے بھی بالکل یہی کیا۔
بڑی مسجدیں عجائب گھر اور قرآن اور اذان موقوف کر دی گئیں۔ بہرحال عرض یہ کر رہا تھا کہ زندگی کے نظم و ضبط اور ڈسپلن پر جو زور اسلام نے دیا بلکہ اسے دینی فرائض میں شامل کر دیا اس کی مثال کہیں دوسری جگہ تلاش کرنی ممکن نہیں لیکن ہم مسلمانوں کی زندگیوں میں ڈسپلن کتنا ہے اور ہم اپنی عبادات کی طرح اس نظم کی کتنی پابندی کرتے ہیں، یہ شرمناک صورت حال ہے۔ رمضان المبارک اس اسلامی ڈسپلن کی غیر معمولی پابندی کے ساتھ گزر گیا۔ کب روزہ بند ہوتا ہے کب کھلتا ہے یہ سب ہر علاقے کے مقررہ وقت کے ساتھ ہے جس کے بیچ میں نمازوں کا ڈسپلن جاری رہتا ہے مگر صد افسوس ہے کہ ہم اس کی پروا نہیں کرتے نا تو ہمارے علماء ہمیں اس کے بارے میں کافی معلومات دیتے ہیں بلکہ وہ تو ایک عید پر بھی متفق نہیں ہو سکتے۔
اب آپ ہمارے پرانے مہربان خاندان کے نمایندے کا خط ملاحظہ فرمائیں۔ میں یاد فرمائی پر ان کا شکر گزار ہوں۔ یہ جناب ممتاز احمد بھچر ہیں۔ میانوالی کے ایک معروف خاندان کے نمایندے بھچر صاحب لکھتے ہیں کہ
جناب ملک صاحب
السلام علیکم: آپ سے ملاقات کا شرف تو نہیں ہے مگر آپ کے خاندان والوں سے بندیالوں اور بھچروں کا بہت پرانا تعلق ہے۔ آپ کے بھائی میاں سلطان صاحب مرحوم تو ہم دونوں خاندانوں کے بہت قریبی تھے۔ 71,72 میں حج بھی ہم نے اکٹھا کیا۔ روزنامہ ایکسپریس میں آپ کے کالم بڑی دلچسپی سے پڑھتا ہوں۔ ایک دو موضوعات پر آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ پہلی تو یہ کہ پاکستان کے لیے مغربی طرز کی جمہوریت ممکن ہے کیونکہ اس جمہوریت میں بقول علامہ اقبال مرحوم بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا۔ جمہوریت اکثریت کا نام ہے اور اکثریت غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط کر دیتی ہے۔ پیپلز پارٹی کو میں زرداری پارٹی سمجھتا ہوں کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید کے بعد پیپلز پارٹی اصل شکل میں نہ رہی اس حکومت نے ہمیں بھوک، بے روز گاری، بدامنی کا تحفہ دیا۔
بجلی کی عدم دستیابی گیس اور پٹرول کی کمیابی اور دیگر ایسی باتیں بتائی جا سکتی ہیں، عوام کی چیخ و پکار کے باوجود ہمارے حکمران ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ملتان کے عوام نے یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کو کامیاب کر کے میرے اس خیال کو پکا کر دیا، حق تو یہ تھا کہ موصوف کی کارکردگی، لوٹ مار اور نالائقی اور نااہلی کو اگر مدنظر رکھتے تو ایک ووٹ کے بھی حق دار نہیں، بھیڑ چال کے تحت ووٹ ملے۔ دیہات میں اس ملک کی اکثریت رہتی ہے جو تعلیم اور اتنا سیاسی شعور نہیں رکھتی، بھیڑ چال کے تحت ووٹ لے لیے جاتے ہیں، ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس میں صحیح اور اہل آدمی آگے آ سکیں۔
-2 وادی سون ہمارے دونوں اضلاع کا ایک بہت قیمتی خطہ ہے، اس کو ترقی دیکر ایک بہت اچھا ہل اسٹیشن بنایا جا سکتا ہے۔ اس سے ایک تو دوسرے پہاڑی اور ٹھنڈے علاقوں پر بوجھ کم ہو گا اور دوسرا اس علاقے کے لوگوں کی معاشی حالت بھی بہتر ہو گی۔ خاص کر سکیسر کو ایک بہت اچھا ہل اسٹیشن بنایا جا سکتا ہے، اس کی طرف بھی اہل اقتدار کی توجہ مبذول کرائیں۔ اﷲکرے آپ روبصحت رہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ملک اور قوم اور اپنے علاقے کے لیے لکھ سکیں۔ کار لائقہ سے یاد فرمائیں۔
والسلام
ممتاز احمد بھچر