بھارت وسط مدتی انتخاب کرائے

پھر بھی قوم اس حقیقت سے راہ فرار اختیار نہیں کر سکتی کہ اندازاً 65 فیصد بھارتی غریب ہیں

NEW YORK:
قومی ٹیلی ویژن چینلز پر، بالخصوص انگلش چینلز پر غربت کے بارے میں بحثیں دیکھنے سے دل کی بہت ڈھارس بندھتی ہے کیونکہ مراعات یافتہ طبقہ عام آدمی کی محرومیوں کے بارے میں شاذ و نادر ہی سوچتا ہے بعینہ انگریزی پریس غربت کے بارے میں خبریں یا رائٹ اپ شایع کرنے سے ہچکچاتا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ کھاتے پیتے لوگ اپنی ناشتے کی میز پر غربت و ناداری کی کہانیاں نہیں پڑھنا چاہتے۔ ہندی اور دیگر زبانوں کے اخبارات ان سے بھی کہیں زیادہ حساس ہیں۔ انڈیا اور بھارت میں غالباً یہی ایک فرق ہے۔

پھر بھی قوم اس حقیقت سے راہ فرار اختیار نہیں کر سکتی کہ اندازاً 65 فیصد بھارتی غریب ہیں جب کہ 35 فیصد فاقہ زدہ ہیں۔ منصوبہ بندی کمیشن نے غربت کا جو معیار وضع کیا ہے، وہ ہے دیہات میں 24 روپے یومیہ جب کہ شہروں میں 33 روپے یومیہ میں گزر بسر کی کوشش۔ حکومت کو بخوبی احساس ہے کہ جو کم از کم رقم لکھی گئی ہے، اس میں کسی ذی نفس کا گزارہ ممکن ہی نہیں۔ لہٰذا اب فی کس اوسط 50روپے کے لگ بھگ نکالی گئی ہے۔ یہ رقم بھی بے حد کم ہے تاہم بعض سیاستدانوں نے غربت کی حد کو اور نیچے کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہلی میں 5 روپے کا کھانا مل جاتا ہے جب کہ ممبئی میں 12 روپے ادا کر کے کوئی بھی شخص اپنا پیٹ بھر سکتا ہے۔ منصوبہ بندی کمیشن کے مطابق، جس کے تخمینے بمشکل ہی درست ثابت ہوتے ہیں، غربت میں 22 فیصد کے لگ بھگ کمی واقع ہو چکی ہے۔ کمیشن، جوکانگریس حکومت نے ہی قائم کیا تھا، غربت میں کمی کا کریڈٹ وزیر اعظم منموہن سنگھ کی حکومت کو دیتا ہے۔

منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین منتک سنگھ آہلو والیا کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی مخلوط حکومت کے دور اقتدار میں غربت کی کمی کی شرح سالانہ 0.8 تھی جب کہ کانگریس حکومت کے دور میں یہ سالانہ 2.5 کی شرح سے کم ہو رہی ہے۔ فرض کیجیے کہ غربت میں %22 تحفیف درست ہے پھر بھی ہر پانچواں انڈین فاقہ زدہ ہے۔ آزادی کے بعد پچھلے 65 برسوں میں یہ ایک انتہائی مایوس کن صورت حال ہے۔ اگر خور و نوش کے علاوہ دیگر ضروریات زندگی کا بھی جائزہ لیں تو آپ انڈیا کا افریقہ کے پس ماندہ ممالک سے موازنہ کرتے ہوئے محسوس کریں گے۔

کانگریس پچھلے 50 برس سے حکمران جماعت رہی ہے اور ملک کو غربت کے ضمن میں جو مسائل درپیش ہیں، اس کی ذمے داری اسی پر عائد ہوتی ہے۔ غربت اور تعلیم دونوں شعبوں کو برطانیہ نے برصغیر پر اپنی حکومت کے دوران نظر انداز کر رکھا تھا۔ آزادی کے بعد کانگریس کے ایجنڈے پر اولین ترجیح انھی دو معاملات کی ہونا چاہیے تھی۔ سماجی انصاف کا وعدہ بھی کاغذات تک ہی محدود رہا جس کا تحریک آزادی کے دوران با آواز بلند پرچار کیا گیا تھا۔ اسی طرح آئین کی رو سے مساوی حقوق فراہمی کا بھی یہی حال ہے۔ ایک ماہر اقتصادیات ہونے کے ناطے وزیر اعظم من موہن سنگھ سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ان معاملات کو درست خطوط پر استوار کریں گے لیکن وہ ناکام رہے ہیں۔گزشتہ دو سالوں میں ہندو آبادی کی شرح نمو 3.5 سے 4 فی صد رہی جو کہ چین کی5.5 فی صد شرح نمو سے کم ہے۔ چین جس کو اس ضمن میں دنیا کا لیڈر خیال کیا جاتا ہے۔ گویا منموہن سنگھ ماہر اقتصادیات کے بجائے محض ایک سیاستدان ہی ثابت ہوئے ہیں۔ وزارت عظمیٰ کے منصب میں دس سال نکالنا بھی اسی حقیقت کو درست ثابت کرتا ہے۔

انڈیا کی ہر ناقص کارکردگی کے پس پشت گلوبل حقائق نہیں جیسا کہ حکومت کے حامی ماہرین اقتصادیات اشارہ دیتے ہیں بلکہ اس کا سبب ناقص حکمرانی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم اتنا کماتے نہیں جتنا خرچ کر دیتے ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں حکومت نے اپنے اخراجات میں دگنا اضافہ کیا ہے۔ افراط زر قلانچیں بھرتا اوپر کی طرف جا رہا ہے۔کرنسی نوٹوں کا چھاپنا وقتی ریلیف کے طور پر اس مسئلہ کا حل نہیں۔ فنڈز کی قلت کو بغیر کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے الٹے سیدھے ہیر پھیر سے پورا کیا جاتا ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو دی گئی رعایتوں کا جائزہ لیجیے۔ انشورنس' تیل اور گیس کی مد میں 49فی صد تک چھوٹ دے کر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ان اقدامات سے سرمایہ کاری کا سیلاب آ جائے گا۔ آزادی کے بعد خود کفالت کے بجائے بیرونی سرمایہ کاری ہی پر کلی طور پر انحصار کرنا ہی حکومت کا وظیفہ بن چکا ہے۔ مزید برآں بیرونی سرمایہ کاری کی پذیرائی ان ٹیکنیکل شعبوں میں کی گئی ہے جس میں ہمارا اپنا علم نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب وہی شعبہ یا طریق کار ہی بہتر ہے جو بیرونی سرمایہ کاروں کو کھینچ سکے اس کے باوجود وہ مزید رعایتوں کے خواہاں ہیں۔


ان تمام تر خامیوں کے ذمے دار سیاستدانوں سے زیادہ افسر شاہی کے اراکین ہیں۔ یہ بھی چاہتے ہیں کہ وزیراعظم ورلڈ بینک کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے انڈیا کو ایک روائتی سرمایہ دارانہ ریاست میں تبدیل کر دیں۔ امریکا نے اس ضمن میں کسی قسم کی مدد فراہم نہیں کی حالانکہ امریکا کے اعلیٰ مناصب پر فائز لوگ ہر دوسرے دن انڈیا یاترا کے لیے پہنچے ہوتے ہیں۔ پارلیمنٹ اور ریاستی قانون ساز اسمبلیوں کے اراکین اپنی خیالی دنیائوں میں مگن اور خود فریبی میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں کہ خود ان کو خورد و نوش اور کئی ایک دیگر اشیائے ضروریہ رعایتی نرخوں پر دستیاب ہیں۔ پارلیمنٹ کے مرکزی ہال میں ایک کینٹین ہے جہاں یہ اراکین مشہور صحافیوں کے کندھے سے کندھا ملا کر بیٹھے ہوتے ہیں اور خاطر تواضح میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس کینٹین کا انتظام محکمہ ریلوے کی ذمے داری ہے جو مضحکہ خیز حد تک ارزاں نرخوں پر کھانے پینے کی اشیا فراہم کرتا ہے۔

نیک نیتی سے شروع کی جانے والی اسکیمیں ہمیشہ فنڈز کی عدم دستیابی کا شکار رہتی ہیں۔ کانگریسی حکومت کی نظر آیندہ انتخابات پر جمی ہے۔ ایک ایسا کھیل جس کے انجام کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کانگریس نے اپنے پورے اقتصادی نظام کو اس کھیل میں جھونک دیا ہے۔ حزب مخالف کی جماعتیں گو کہ نکتہ چینی میں بڑی کاٹ دار زبان استعمال کرتی ہیں مگر یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ منموہن سنگھ کی حکومت ناگوار حد تک بدانتظامی اور بدعنوانی میں گھری ہوئی ہے۔ سوائے چند ایک اصلاحی اقدامات کے جو خاصی تاخیر سے اٹھائے گئے۔ اقتصادی صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔

بھارت ایک ایسا معاشرہ ہے جس میں ہمدردی مفقود ہے۔ گزرتے برسوں میں اخلاقی اقدار مسخ ہوتی چلی گئی ہیں۔ اب مثالیت پسندی دکھاوے کی بھی نہیں رہی اور نہ ہی خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کو ناداری کے گڑھے سے نکالنے کی کوئی کوشش نظر آتی ہے جب کہ ملک کی آدھی آبادی بھوک و افلاس کا شکار ہے۔ غریبی' بے روز گاری اور خوراک کی قلت یہ سب ایک زوال پذیر معاشرے کی علامات ہیں جن میں کہ آئے دن اضافہ ہو رہا ہے۔ افسر شاہی ایک ایسی اتھارٹی بن کر رہ گئی ہے جس کا کام صرف دستاویزات پر مہر لگانا رہ گیا ہے جیسا کہ یہ سن ستر کے آغاز میں کیا کرتی تھی۔ گاہے بگاہے درگا شکتی نگپال کی طرح کا کوئی جرات مند افسر منظر پر ابھرتا ہے جس سے خوش امیدی کو جلا ملتی ہے۔ یو پی میں ریت کے مافیا پر اس خاتون افسر کا حملہ نہایت قابل تحسین تھا لیکن پھر ریاستی وزیراعلیٰ اکلیش یادیو سیاستدانوں کے دبائو میں آ گئے اور درگا شکتی نگپال کو معطل کر دیا گیا۔ ان سیاستدانوں میں بعض ان ٹرکوں کے مالک ہیں جنھیں اس خاتون افسر نے دریائے جمنا کے کناروں سے غیر قانونی طور پر ریت کھودنے کے الزام میں پکڑا تھا۔ کاش کہ دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں کانگریس اور بی جے پی انتظامیہ میں کرپشن کے خلاف باہمی تعاون کا فیصلہ کر لیں تو صورتحال خاصی بہتر ہو سکتی ہے۔

شاید وسط مدتی پولنگ ملک کو ایک نیا آغاز مہیا کر سکے۔ نئی حکومت کو پالیسیاں بنانے کے لیے پانچ سال کی مدت مل جائے گی اور یہ اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی بحال کر سکے گی جو موجودہ حکومتی پالیسیوں سے ٹوٹ چکا ہے۔ منموہن سنگھ کو اب عوام کے پاس جانا چاہیے۔ ان کی مدت کے باقی دس مہینے وہ ایک لنگڑی بطخ کی طرح ہی گزار سکیں گے۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)
Load Next Story