دور مغلیہ سے قبل برصغیر

پندرہویں صدی عیسوی میں مشرق اور مغرب دونوں میں سیاسی انتشار، لا مرکزیت اور عدم استحکام کے رجحانات صاف نظر آتے ہیں۔

مغلیہ دور سے قبل برصغیر کی حالت کا تاریخی ذکر کرنے سے پہلے ذاتی طور پر قوم کو عرض کرنا چاہتا ہوں جیساکہ اپنے تاریخی ادوار کے درخشاں پہلو نونہالان ملک و ملت میں فکر و عمل کی تحریک پیدا کرسکتے ہیں اور اس سے قوم کی تقدیر پلٹ سکتی ہے۔ اس کے برعکس اپنی تاریخ سے غفلت برتنا یا غلط تاریخی واقعات پر مطمئن رہنا قومی شعور کی نشوونما اور خود اعتمادی کے لیے مہلک ثابت ہوسکتا ہے۔

قومی تاریخ کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ یہاں واقعات کا عکس ایمانداری سے دکھایا گیا ہو وہاں ان کے محاسن کی جلوہ گریاں نوجوانان قوم میں احساس پیدا کرکے انھیں اپنے کردار سے تاریخ میں نئے سنہری ابواب کے اضافے کرنے کے قابل بنا دیں۔ قوم جانتی ہے ہماری تاریخ درخشاں روایات اور عظیم الشان کارناموں کا مجموعہ ہے۔ لازم ہے کہ اہل نظر اپنی تاریخ کو فخر و مباہات کا باعث سمجھیں جوکہ آزاد قوم کاسرمایہ افتخار ہوتا ہے۔ ایک معمولی، ادنیٰ قلم کار اور مورخ ہوتے ہوئے اخبار میں جگہ کی کمی کی وجہ سے مختصر پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

پندرہویں صدی عیسوی میں مشرق اور مغرب دونوں میں سیاسی انتشار ، لا مرکزیت اور عدم استحکام کے رجحانات صاف نظر آتے ہیں۔ برصغیر میں سلطنت کی مرکزیت ختم ہوگئی، سارا ملک چھوٹی چھوٹی خودمختار حکومتوں میں منقسم ہوگیا جوکہ صوبائی حکومتیں کہلاتی ہیں۔ جب بابر نے برصغیر پر حملے شروع کیے تو اس وقت یہی طوائف الملوکی جاری تھی۔ سولہویں صدی عیسوی کے دوران ایشیا اور یورپ کے مختلف ممالک میں دوبارہ عظیم مرکزی حکومتیں قائم ہوگئیں۔ بابر کی آمد پر برصغیر کی سیاسی حالت کی جھلک ان بے شمار خود مختار صوبائی حکومتوں کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے۔

''دہلی'' سارے برصغیرکا سیاسی محور رہ چکی تھی، لیکن اس کے سلطان ابراہیم لودھی کی حکومت دہلی، آگرہ، دوآب، بیانہ اور چندیری تک محدود ہوکر رہ گئی تھی۔ ابراہیم لودھی کی بد مزاجی اور شکی طبیعت کی وجہ سے امرا نے بغاوتیں شروع کردیں۔ مشرقی صوبوں میں دریا خان لوپانی اور اس کے لڑکے بہار خان نے علم بغاوت بلند کرکے خود مختاری اختیارکرلی تھی۔ لاہور کے گورنر دولت خان لودھی نے بھی بغاوت کردی اور بابرکو برصغیر پر حملہ کرنے کی دعوت دی کیونکہ سلطان نے اس کے لڑکے دلاور خان سے بدسلوکی کی تھی۔

سندھ میں محمد بن تغلق کے عہد میں ہی سہرا خاندان کے جام خیر الدین نے خودمختاری اختیار کرلی تھی۔ چودہویں صدی کے وسط میں یہاں سمہ خاندان برسر اقتدار آگیا بالآخر 1520ء میں شاہ بیگ ارغون نے ٹھٹھہ پر قبضہ کرکے سندھ میں سمو حکومت کا خاتمہ کردیا۔ اس کے لڑکے شاہ حسین ارغون نے 1521ء میں ملتان کو بھی فتح کیا جس سے ملتان میں لنگاہ خاندان کی حکومت ختم ہوگئی۔ کشمیر میں اسلام چودہویں صدی عیسوی کے آغاز میں آیا، بلھل شاہ اور میر سید علی ہمدانی جیسے بزرگوں کے فیوض و برکات سے اشاعت اسلام میں ترویج و ترقی ہوئی۔

شاہ مرزا نے شمس الدین کا لقب اختیار کرکے ایک آزاد مسلم حکومت کی بنیاد ڈالی۔ اس حکومت کا مشہور ترین بادشاہ زین العابدین 1420ء تا 1470ء تھا۔ جس کا طویل عہد مذہبی رواداری، انتظامی اور سماجی اصلاحات، رعایا کی خوشحالی اور علمی و ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے تاریخ کشمیر کا عہد زریں کہلاتا ہے۔ بابر کے ہم عصر سلطان محمد شاہ 1499ء تا 1526ء کو اس کے وزیر ملک کاجی چک نے معزول کیا مگر وہ خود بھی تادیر برسر اقتدار نہ رہ سکا اور حریف امرا کی سازشوں کا شکار ہوگیا۔


1394ء میں محمود تغلق نے خواجہ جہاں سرور الملک کو ''جونپور'' کا گورنر مقرر کیا اس نے یہاں ایک خودمختار حکومت قائم کی جوکہ مشرقی حکومت کہلائی۔ پندرہویں صدی کے نصف آخر میں جونپور کی مشرقی حکومت اور دہلی کی لودھی حکومت کے درمیان جنگوں کا طویل سلسلہ شروع رہا یہاں تک کہ بہلول لودھی نے 1478ء میں حسین شاہ مشرقی کو شکست دے کر مشرقی حکومت کا خاتمہ کردیا اس طرح جونپور کو دہلی میں شامل کردیا گیا۔

دہلی سے دور واقع ہونے کی وجہ سے بنگال میں ہمیشہ خودمختاری اور علیحدگی کے رجحانات موجود رہے۔ بابر کی آمد پر یہاں حسینی خاندان کی حکومت قائم تھی، اس کا بانی سید علاؤالدین حسین شاہ 1493ء تا 1519ء نہایت قابل حکمران ثابت ہوا۔ اس نے آسام، اڑیسہ اور کوچ بہار تک اپنی سلطنت کی توسیع کی۔ امیر تیمور کے حملے سے برصغیر میں جو سیاسی انتشار پیدا ہوا اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گجرات کے گورنر ظفر خان نے مظفر شاہ 1401ء تا1411ء کے لقب سے ایک آزاد حکومت بنالی۔

اس کے جانشین احمد شاہ 1411ء تا1441ء نے اس حکومت کی حدود کو توسیع دی اور اپنے نام کا مشہور شہر احمد آباد آباد کیا بلکہ اس کو اپنا پایہ تخت بنایا۔ مظفر شاہی خاندان کا سب سے مشہور بادشاہ سلطان محمود بیگرہ 1458ء تا 1511ء تھا اس نے 52 سال کے طویل عہد میں اپنی مہارت سے کامیابی حاصل کی۔ اس کے جانشین مظفر شاہ ثانی 1511ء تا1526ء کے متعلق بابر نے لکھا ہے کہ وہ عالم انسان تھا۔

مظفر شاہ کی وفات پر بہادر شاہ 1526ء تا1537ء برسر اقتدار آیا۔ اس نے مالوہ کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کرلیا۔ 1535 میں محمود خلجی نے غوری حکومت کا خاتمہ کرکے خلجی خاندان کی بنیاد رکھی۔ 1512 میں محمود ثانی تخت نشین ہوا۔ 1519 میں میواڑ کے رانا مالوہ پر حملہ آور ہوا سلطان کو شکست دی۔ 1531 میں بہادر شاہ والی گجرات نے محمود ثانی کو شکست دے کر مالوہ پر قبضہ کیا۔ خاندیش دریائے تاپی کی وادی میں واقع ایک چھوٹی سلطنت تھی جس کی بنیاد فیروز شاہ گورنر ملک راجہ فاروقی نے رکھی۔ اس کا پایہ تخت برہان پور تھا۔

بہمی سلطنت 1347 میں حسن بہمی نے دولت آباد (دیوگری) میں محمد بن تغلق کے خلاف بغاوت کرکے بہمی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ راجپوتانہ 1509 میں رانا سانگا جو میواڑ کا بادشاہ تھا راجپوتانہ پر قابض ہوا۔ راجپوتانہ کی کم و بیش ساری ہندو ریاستیں امبر، گوالیار، اجمیر، سیکری (فتح پور سیکری)، کاپی، بوندی، ابو وغیرہ رانا سانگا کا لوہا مانتی تھیں۔ وجے نگر 1336 میں دو بھائیوں ہری ہر اور لبکا نے قائم کیا۔ گلی کوٹ کی تاریخی اور فیصلہ کن جنگ 1565 کا باعث بنی جس میں وجے نگر کی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔

بابر نے شمال برصغیر میں مغلیہ حکومت کی بنیاد رکھی اس وقت کرشن دیو رائے 1509 تا 1530 وجے نگر کا حکمران تھا۔ سولہویں صدی کے آغاز میں جب دکن کی مسلم حکومت اپنی مرکزیت کھوچکی تھی وجے نگر کی ہندو حکومت اپنے عروج کے نقطہ کمال پر تھی۔ اڑیسہ یہ ایک ہندو ریاست تھی جسے شمال سے بنگال کے مسلم فرمانروا اور جنوب سے وجے نگر کے ہندو راجاؤں کے جارحانہ عزائم کا مقابلہ کرنا پڑا۔ تاہم ان مشکلات کے باوجود اس نے اپنے وجود کو قائم رکھا۔ 1497 میں پرتگیز جہازراں واسکوڈی گاما راس امیہ کا چکر کاٹ کر جنوبی ہند کی بندرگاہ کالی کٹ میں لنکر انداز ہوا ۔
Load Next Story