’’بے بی ڈیبو‘‘
درحقیقت برطانیہ نے جمہوریت کا درس تو دے دیا یعنی اس جمہوریت کا درس جو اقلیت کی جمہوریت اکثریت پر ہوتی ہے.
انگریزی زبان بھی خوب زبان ہے کوئی ضروری نہیں کہ ہر حرف کی آواز زبان سے ادا کی جائے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ امریکی جس انداز میں لفظ کو ادا کریں اسی آواز میں برطانیہ کے لوگ اس کو ادا کریں یہ ہے معاملہ کلچر کا یعنی آواز کی رفتارکا، بالکل ایسے ہی جیسے لفظ کی ادائیگی کے لیے ایک ہی لفظ کو کئی انداز میں ادا کیاجاتاہے، لکھنو، دلی، بہار، دکن اور پنجاب جس نے اردو زبان کی بہت خدمت کی،عظیم شعراء اور ادبا کی ایک طویل فہرست ہے اسی طرح آج کل مغربی دنیا اور ہمارے ملک کے چینلوں پر گزشتہ ہفتے بہت چرچا رہا وہ لفظ ہے ''بے بی ڈیبو'' مگر جناب شہنشاہ برطانیہ کی اگلی نسل کا بڑا شور دیکھا گیا جب بچے کی رونمائی ہوئی یعنی (DEBUT) آسٹریلیا سے لے کر اور امریکا، امریکا سے جاپان اور پاکستان، بھارت اور دیگر ممالک کے الیکٹرانک میڈیا کا شور ایسا کہ جیسے ان کا کوئی ولی عہد پیدا ہوگیا ہو جب رونمائی ہوئی اور اس کا نام بتایاگیا کہ یہ جارج الگزینڈر لوئی ہے تو پھر برطانیہ میں جشن کا سماں تھا، برطانیہ جو اس وقت بابائے جمہوریت ہے اس کے ملک میں بادشاہت کا اس قدر شور وغوغا کیوں ہے اور اس کے پس پشت کیا عوامل اور اس کے اثرات عوام پر کیا ہوںگے۔ یہ شہنشاہیت کی دھوم کیوں ہے؟ یہ سب بے سبب نہیں۔
درحقیقت برطانیہ نے جمہوریت کا درس تو دے دیا یعنی اس جمہوریت کا درس جو اقلیت کی جمہوریت اکثریت پر ہوتی ہے، گو کہ جمہوریت کو خود اس نے اپنے ملک میں فلاحی انداز میں بدل دیا کہ کہیں وہاں بھی چین کے طرز کا انقلاب برپا نہ ہو اور ایسا کرنے میں وہ 100فیصد کامیاب رہے اور اپنا انداز حکمرانی ایکسپورٹ کرنے میں بھی وہ کامیاب رہے، اس طرز حکمرانی کو انھوںنے بڑی خوبصورتی سے بھارت میں منتقل کردیا، ممبئی جو تجارتی مرکز ہے اور ترقی کی کئی منزلیں طے کررہاہے جہاں شہر میں دو منزلہ سڑکیں تیار کی جانے والی ہیں دنیا کی سب سے بڑی جھونپڑ پٹی ایک بدنما داغ کی شکل میں جمہوریت کی تذلیل کررہی ہے کیونکہ برطانیہ کا عوامی پیکیج وہاں ٹرانسفر نہ ہوسکا اور دنیا کے دانشور اس پر کثرت سے کچھ نہیں لکھ رہے جہاں جمہوریت جھونپڑ پٹی میں بند ننگے پائوں چل رہی ہے۔ البتہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے جاگیرداری کا قلع قمع شروع ہی میں کردیا تھا۔ ورنہ عوام پر دو دھاری تلوار آج تک لٹک رہی ہوتی اور بھارتی عوام کو جو کچھ نصیب ہے وہ بھی نہ ہوتا اور کثیر آبادی والے اس ملک میں امن وامان کی صورت حال اندوہناک ہوتی۔
در اصل جمہوریت اور بادشاہت کا تجزیہ ایک اہم موضوع ہے کم ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت اور خصوصاً جہاں تعلیم کا اوسط کم ہو یا غربت کا اثر زیادہ ہو وہاں جمہوریت افراد کے گرد گھومتی ہے کوئی لیڈر پیدا ہوگیا تو پھر جمہوریت کے علمبردار ان کے بیٹے بیٹیاں، بہو، داماد ہوتے ہیں۔ ان ممالک کی زیادہ تر آبادی ان ہی افراد کے حصار میں ہوتی ہے، بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کی جمہوریتیں اس عمل کی عکاس ہیں، اب تک لیڈری ان کی نسل میں ایسے منتقل ہورہی ہے جیسے یہ سب کچھ اپنی قسمت میں لکھواکے آتے ہیں اور عوام ان کی ایک تھاپ پر ڈانس کرتے ہیں، فکری اور عملی تجزیات نہیں ہوتے اور نئی ابھرتی ہوئی لیڈر شپ بھی زنگ آلود یا گمراہ ہوجاتی ہے۔
ملک کی ترقی کا کوئی شعور نہیں بلکہ لیڈر شپ کے دل سے احساس زیاں جاتارہا اور باہم دست وگریباں ہونے کا تصور ترقی یافتہ ممالک سے جاتارہا۔ یہود ونصاریٰ پروٹسٹنٹ اورکیتھولک اختلافات منظر عام پر نہیں آتے اور اپنے اپنے راستوں پر برق رفتاری سے ترقی کرتے نظر آتے ہیں مگر بھارت بھی سیکولر جمہوریت کو مذہبی انتہا پسندی سے پاک نہ کرسکا، در اصل غربت خود ایک موذی مرض ہے جو تفرقہ پیدا کرنے کا پہلا بیج ہے اب یہ لیڈر شپ کا کمال ہوتاہے کہ وہ کس طرح پست قوموں کو بلند پروازی کی طرف لے جائے ۔ جن ممالک میں صاحبان علم کو عزت ومنزلت حاصل ہے اور ان کو قوم کا حقیقی اثاثہ سمجھا جاتاہے وہاں لیڈر شپ از خود پیدا ہوتی ہے، بقول علامہ اقبالؒ کے نگہہ بلند اور سخن دلنواز قیادت کی روح ہے۔ مگر اس کے لیے بڑی کٹھن راستوں سے نفس کو گزارنا ہوتا ہے، استغنا ہی ملک کو بلند مقام پر لے جاسکتاہے۔ نام ونمود اور زر وجواہر پر مدار کرنا ملک کو بلند مقام تک نہیں لے جاسکتا۔ اسی لیے علم اور عالم کو ہی ہتھیار بنانا ہوگا، علامہ اقبالؒ گو کہ شاعر تھے مگر وہ زندگی کے متعلق گہرا علم رکھتے تھے بقول ان کے زندگی جو ہے،
تو اسے اندیشۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
ہے کبھی جاں اورکبھی تسلیم جاں ہے زندگی
مگر آج کل ملک جس معاشی بحران سے گزررہاہے یہ اندیشہ ہائے روزگار ہیں ، فقیری پر فخر کرنے والے رہنما نہیں رہے، دور بین شاعروں اور ادیبوں کو ملکی فیصلوں میں شامل نہیں کیاجاتا، پارٹی کے وہ رہنما جو با اثر ہونے کے باوجود الیکشن نہیں جیت سکتے، ان کو سینیٹر بنادیا جاتاہے مگر یونیورسٹی کے وہ اساتذہ جو شاعر ، ادیب، فلسفی یا سائنس دان ہیں ان کو حکومت میں شامل نہیں کیاجاتا۔ سال میں ایک منڈی لگتی ہے، ان کو مختلف تمغہ ہائے امارت سے نواز دیا جاتا ہے مگر عنان حکومت میں ان کا کوئی درجہ نہیں ہوتا۔ صاحبان فہم کا حکومت سے دور رہنا ملک کے لیے کوئی خوش آیند عمل نہیں کیونکہ چیزوں کی کئی جہتیں ہوتی ہیں۔ ہر صاحب فکر کو دیدۂ دل وا کرکے دیکھنا ہوتاہے۔ دل بینا بھی کر خدا سے طلب ۔ تب سیاسی پہلو کے دریچے وا ہوتے ہیں،اس کی مثال یہ ہے کہ دور شہنشاہی خصوصاً مغلیہ سلطنت میں شاہجہاں کو محلات، مساجد اور تعمیراتی ہنر
پرکمال حاصل رہا ہے اسی لیے انھوںنے اپنے محبوب ممتاز محل کے لیے ایک تاج تعمیر کیا جو دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے اور آج سیاح اس کے حسن کے دل دادہ ہیں مگر ساحر لدھیانوی نے جب اس کو دیکھا تو برملا ان کے منہ سے یہ شعر نکلا:
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
گویا اچھوتے زاویہ نگاہ اور جدت پسندی سے اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔ مگر آج جو برطانیہ کے ولی عہد کی پیدائش کا یہ شور ہے اس کو دیکھنے اور غور کرنے کا مرحلہ ہے ، وہ بتانا چاہتاہے کہ جمہوریت ٹھیک ہے اور عوام کے لیے ایک انمول تحفہ ہے مگر ہماری روایت، تہذیب اور بلند مدارج میں اشرافیہ کی عظمت کی دلیل بادشاہت ہے، اس کو عوام سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہمارے ملک کا حسین ثقافتی ورثہ ہے،ممکن ہے کہ اس پیغام میں کچھ اور بھی پوشیدہ ہو جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
درحقیقت برطانیہ نے جمہوریت کا درس تو دے دیا یعنی اس جمہوریت کا درس جو اقلیت کی جمہوریت اکثریت پر ہوتی ہے، گو کہ جمہوریت کو خود اس نے اپنے ملک میں فلاحی انداز میں بدل دیا کہ کہیں وہاں بھی چین کے طرز کا انقلاب برپا نہ ہو اور ایسا کرنے میں وہ 100فیصد کامیاب رہے اور اپنا انداز حکمرانی ایکسپورٹ کرنے میں بھی وہ کامیاب رہے، اس طرز حکمرانی کو انھوںنے بڑی خوبصورتی سے بھارت میں منتقل کردیا، ممبئی جو تجارتی مرکز ہے اور ترقی کی کئی منزلیں طے کررہاہے جہاں شہر میں دو منزلہ سڑکیں تیار کی جانے والی ہیں دنیا کی سب سے بڑی جھونپڑ پٹی ایک بدنما داغ کی شکل میں جمہوریت کی تذلیل کررہی ہے کیونکہ برطانیہ کا عوامی پیکیج وہاں ٹرانسفر نہ ہوسکا اور دنیا کے دانشور اس پر کثرت سے کچھ نہیں لکھ رہے جہاں جمہوریت جھونپڑ پٹی میں بند ننگے پائوں چل رہی ہے۔ البتہ پنڈت جواہر لعل نہرو نے جاگیرداری کا قلع قمع شروع ہی میں کردیا تھا۔ ورنہ عوام پر دو دھاری تلوار آج تک لٹک رہی ہوتی اور بھارتی عوام کو جو کچھ نصیب ہے وہ بھی نہ ہوتا اور کثیر آبادی والے اس ملک میں امن وامان کی صورت حال اندوہناک ہوتی۔
در اصل جمہوریت اور بادشاہت کا تجزیہ ایک اہم موضوع ہے کم ترقی یافتہ ممالک میں جمہوریت اور خصوصاً جہاں تعلیم کا اوسط کم ہو یا غربت کا اثر زیادہ ہو وہاں جمہوریت افراد کے گرد گھومتی ہے کوئی لیڈر پیدا ہوگیا تو پھر جمہوریت کے علمبردار ان کے بیٹے بیٹیاں، بہو، داماد ہوتے ہیں۔ ان ممالک کی زیادہ تر آبادی ان ہی افراد کے حصار میں ہوتی ہے، بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کی جمہوریتیں اس عمل کی عکاس ہیں، اب تک لیڈری ان کی نسل میں ایسے منتقل ہورہی ہے جیسے یہ سب کچھ اپنی قسمت میں لکھواکے آتے ہیں اور عوام ان کی ایک تھاپ پر ڈانس کرتے ہیں، فکری اور عملی تجزیات نہیں ہوتے اور نئی ابھرتی ہوئی لیڈر شپ بھی زنگ آلود یا گمراہ ہوجاتی ہے۔
ملک کی ترقی کا کوئی شعور نہیں بلکہ لیڈر شپ کے دل سے احساس زیاں جاتارہا اور باہم دست وگریباں ہونے کا تصور ترقی یافتہ ممالک سے جاتارہا۔ یہود ونصاریٰ پروٹسٹنٹ اورکیتھولک اختلافات منظر عام پر نہیں آتے اور اپنے اپنے راستوں پر برق رفتاری سے ترقی کرتے نظر آتے ہیں مگر بھارت بھی سیکولر جمہوریت کو مذہبی انتہا پسندی سے پاک نہ کرسکا، در اصل غربت خود ایک موذی مرض ہے جو تفرقہ پیدا کرنے کا پہلا بیج ہے اب یہ لیڈر شپ کا کمال ہوتاہے کہ وہ کس طرح پست قوموں کو بلند پروازی کی طرف لے جائے ۔ جن ممالک میں صاحبان علم کو عزت ومنزلت حاصل ہے اور ان کو قوم کا حقیقی اثاثہ سمجھا جاتاہے وہاں لیڈر شپ از خود پیدا ہوتی ہے، بقول علامہ اقبالؒ کے نگہہ بلند اور سخن دلنواز قیادت کی روح ہے۔ مگر اس کے لیے بڑی کٹھن راستوں سے نفس کو گزارنا ہوتا ہے، استغنا ہی ملک کو بلند مقام پر لے جاسکتاہے۔ نام ونمود اور زر وجواہر پر مدار کرنا ملک کو بلند مقام تک نہیں لے جاسکتا۔ اسی لیے علم اور عالم کو ہی ہتھیار بنانا ہوگا، علامہ اقبالؒ گو کہ شاعر تھے مگر وہ زندگی کے متعلق گہرا علم رکھتے تھے بقول ان کے زندگی جو ہے،
تو اسے اندیشۂ امروز و فردا سے نہ ناپ
ہے کبھی جاں اورکبھی تسلیم جاں ہے زندگی
مگر آج کل ملک جس معاشی بحران سے گزررہاہے یہ اندیشہ ہائے روزگار ہیں ، فقیری پر فخر کرنے والے رہنما نہیں رہے، دور بین شاعروں اور ادیبوں کو ملکی فیصلوں میں شامل نہیں کیاجاتا، پارٹی کے وہ رہنما جو با اثر ہونے کے باوجود الیکشن نہیں جیت سکتے، ان کو سینیٹر بنادیا جاتاہے مگر یونیورسٹی کے وہ اساتذہ جو شاعر ، ادیب، فلسفی یا سائنس دان ہیں ان کو حکومت میں شامل نہیں کیاجاتا۔ سال میں ایک منڈی لگتی ہے، ان کو مختلف تمغہ ہائے امارت سے نواز دیا جاتا ہے مگر عنان حکومت میں ان کا کوئی درجہ نہیں ہوتا۔ صاحبان فہم کا حکومت سے دور رہنا ملک کے لیے کوئی خوش آیند عمل نہیں کیونکہ چیزوں کی کئی جہتیں ہوتی ہیں۔ ہر صاحب فکر کو دیدۂ دل وا کرکے دیکھنا ہوتاہے۔ دل بینا بھی کر خدا سے طلب ۔ تب سیاسی پہلو کے دریچے وا ہوتے ہیں،اس کی مثال یہ ہے کہ دور شہنشاہی خصوصاً مغلیہ سلطنت میں شاہجہاں کو محلات، مساجد اور تعمیراتی ہنر
پرکمال حاصل رہا ہے اسی لیے انھوںنے اپنے محبوب ممتاز محل کے لیے ایک تاج تعمیر کیا جو دنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے اور آج سیاح اس کے حسن کے دل دادہ ہیں مگر ساحر لدھیانوی نے جب اس کو دیکھا تو برملا ان کے منہ سے یہ شعر نکلا:
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
گویا اچھوتے زاویہ نگاہ اور جدت پسندی سے اپنی آرا کا اظہار کیا ہے۔ مگر آج جو برطانیہ کے ولی عہد کی پیدائش کا یہ شور ہے اس کو دیکھنے اور غور کرنے کا مرحلہ ہے ، وہ بتانا چاہتاہے کہ جمہوریت ٹھیک ہے اور عوام کے لیے ایک انمول تحفہ ہے مگر ہماری روایت، تہذیب اور بلند مدارج میں اشرافیہ کی عظمت کی دلیل بادشاہت ہے، اس کو عوام سے دور نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ہمارے ملک کا حسین ثقافتی ورثہ ہے،ممکن ہے کہ اس پیغام میں کچھ اور بھی پوشیدہ ہو جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔